مقاومتی بلاک

ویکی شیعہ سے
(مقاومتی محور سے رجوع مکرر)

مقاومتی بلاک یا مزاحمتی بلاک (Axis of Resistance) یا Resistance Front ایک ایسا عنوان ہے جو علاقائی ایک اتحاد کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس میں سرکاری اور غیر سرکاری طاقتیں ہیں، خاص طور پر شیعہ، جو ایران، شام، عراق، لبنان، یمن اور فلسطین کے ممالک میں کام کرتی ہیں۔ مزاحمت اور مقاومت کے بنیادی مقاصد میں اسرائلی قبضے کے خلاف لڑنا اور فلسطین کی آزادی کا دفاع، مغربی ایشیائی خطے میں مغرب بالخصوص امریکہ کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا، استبدادی حکومتوں کے خلاف لڑنا اور داعش جیسے تکفیری گروہوں کی کارروائیوں کو روکنا ہے۔ مزاحمتی بلاک کی تشکیل کو ایران کے اسلامی انقلاب سے پیدا ہونے والی اقدار کی نشوونما اور آمریت اور استعمار مخالف تحریکوں کی اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی حمایت کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔

مشترکہ سماجی، مذہبی اور ثقافتی اقدار اور اصولوں کے گرد مشترکہ علاقائی شناخت نیز سیاسی اسلام سے متاثر ہونے کو مقاومتی بلاک کی اہم خصوصیات کے طور پر جانا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے ارکان کے باہمی اتحاد میں اضافہ ہوا ہے۔ مقاومتی بلاک کی اہم حکمت عملیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے وجود کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے فوجی طاقت میں اضافہ کیا جائے۔ شیعوں کی پوزیشن کو مضبوط کرنا، صہیونی حکومت کی توسیع پسندی کو محدود کرنا اور مغربی ایشیائی خطے میں ایک نئے نظام کی تشکیل اس بلاک کے ارکان کی کامیابیوں میں شامل ہیں، جن میں ایران کی قدس فورس، حماس اور فلسطین میں تحریک جہاد اسلامی فلسطین، حشد الشعبی عراق، حزب اللہ لبنان اور انصار اللہ یمن شامل ہیں۔

اپنی سرگرمیوں اور اہداف کا احاطہ کرنے کے لیے مزاحمتی قوتوں نے المنار نیٹ ورک، المیادین نیٹ ورک، المسیرہ نیٹ ورک اور الفرات نیٹ ورک جیسے نیٹ ورکس اور نیوز ایجنسیاں قائم کی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی اس محور کے کاموں کی خبریں بنانے اور اسے احاطہ کرنے والے متعدد پروگرام تیار کرتا اور نشر کرتا ہے۔

اہمیت

مقاومتی بلاک (Axis of resistance) مزاحمت کا ایک علاقائی اتحاد ہے، جو اسلامی دنیا میں انقلاب اسلامی ایران کے مکالمے کی ترقی کا نتیجہ ہے، جس نے سیاسی محققین کے مطابق، مغربی ایشیائی خطے پر حاکم سیاسی امور کو تبدیل کر کے[1] اس خطے میں ایک نئے نظام کی تشکیل کا باعث بنا ہے۔[2] اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی طرف سے استعمار اور استبداد مخالف تحریکوں کی حمایت نیز اسلامی بیداری کی حمایت کو مزاحمت کے محور کی ترقی، شیعوں کی مضبوطی اور ایران اور خطے کی سلامتی کی بہتری کا باعث قرار دیا ہے۔[3]

سیاسی محققین مزاحمتی بلاک کو بیرونی دنیا میں ایران کے اسلامی انقلاب سے الہام یافتہ سمجھتے ہیں جو بین الاقوامی سیاست میں بڑی طاقتوں کے تسلط پر تنقید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔[4] ان کے نزدیک انقلاب کی نشانیاں، مزاحمت اور شناخت کی علامتیں ایران کے خلاف عراق کی جنگ کے دوران بنی تھیں اور جنگ کے بعد انقلاب کو صادر کرنے کے عمل میں اسلامی بیداری کی تحریکوں میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اس کی جھلک نظر آئی۔[5]

مغربی ایشیا کے علاقے میں شیعوں کا قدرتمند ہونا[6]، فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے پر زور دینا، بعض علاقائی طاقتوں کی بالادستی کا مقابلہ کرنا، اسلامی جمہوریہ ایران کے وقار کو محفوظ بنانا،[7] خطے میں بعض آمرانہ حکومتوں کا سقوط،[8] مشرق وسطی میں امریکہ کی ھیژمونی کا زوال، اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کو مورد سوال ٹھہرانا، جنوبی لبنان سے اسرائیل کا انخلاء، 33 روزہ اور 22 روزہ جنگ میں اسرائیل کی شکست، اور داعش جیسے تکفیری گروہوں کا مقابلہ مزاحمتی بلاک کا مغربی ایشیاء میں مضبوط ہونے کے آثار اور نتائج میں شمار کیا جاتا ہے۔[9]

تشکیل اور نام

مزاحمتی بلاک یا مزاحمتی محاذ کا محور ایک علاقائی جغرافیائی اتحاد (فوجی اور سیاسی اتحاد) سمجھا جاتا ہے جو کئی ریاستی اداکاروں (ایران اور شام) اور متعدد غیر ریاستی اداکاروں (لبنان کی حزب اللہ، حماس اور فلسطین کی تحریک جہاد اسلامی) پر مشتمل ہوتا ہے۔[10] جس کی قیادت یقیناً اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ہے۔[11] یہ اتحاد 20ویں صدی کے اواخر اور 21ویں صدی کے اوائل میں فلسطین اور لبنان میں صہیونی حکومت کے اقدامات، شام اور عراق میں داعش کے اثر و رسوخ میں توسیع اور مشرق وسطی کے علاقے پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کا تسلط کے نتیجے میں رونما ہونے والے تاریخی واقعات کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔[12]

سیاسی محققین کے مطابق مزاحمتی محور کے ارکان، مشترکہ قومی اور نظریاتی مفادات رکھتے ہیں اور اپنی آزادانہ اور مزاحمت پر مبنی پالیسیوں کے ساتھ مغربی ایشیائی خطے میں امریکی تسلط کے نظام کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں[13] اور اسی طرح صہیونی حکومت کا مقابلہ اور فلسطین کا دفاع کرتے ہیں۔[14] مزاحمتی بلاک مغربی ایشیائی خطے میں کچھ نئی تبدیلیوں کے ساتھ پھیل گیا، جس میں داعش کی تشکیل اور 21ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یمن پر بعض عرب ممالک کے حملے شامل ہیں نیز عراق میں شیعہ ملیشیا اور یمن میں انصار اللہ بھی مزاحمت کے محور میں شامل ہو گئے ہیں۔[15]

مقاومتی بلاک کی سیاسی اصطلاح "Axis of Resistance" پہلی بار لیبی کے اخبار الزحف الاخضر نے شرارتی بلاک "Axis of Evil" کی اصطلاح کے مقابلے میں استعمال کی تھی جسے اس وقت کے امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش اور جان بولٹن نے امریکہ کی سیاست سے غیر موافق ممالک کے لئے استعمال کیا تھا۔ ان ممالک میں ایران، شام، عراق، لیبیا، کیوبا اور شمالی کوریا کے ممالک کو برائی کا محور کہا گیا۔[16]

اس نام سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے پہلی بار جولائی 1993 عیسوی میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے ساتھ ملاقات میں اسلامی مزاحمتی محاذ کی اصطلاح کے بارے میں بات کی اور اس کی تشکیل کو اسرائیل کی جارحیت کا نتیجہ قرار دیا۔[17]

ذیلی اعضاء

مزاحمتی بلاک کو تشکیل دینے والی قوتیں اور تنظیمیں مختلف ممالک میں کام کرتی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

سانچہ:محور مقاومت

حکمت عملی اور خصوصیات

مزاحمتی بلاک کے ارکان کا کئی حکمت عملیوں اور خصوصیات پر اتفاق ہے جس پر سب متحد ہوئے ہیں۔ مشترکہ علاقائی شناخت نیز سیاسی اسلام سے متاثر ہونے کو مقاومتی بلاک کی اہم خصوصیات کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس محور کے ارکان اپنی فوجی طاقت کو مضبوط بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

علاقائی شناخت

مشترکہ سماجی، مذہبی اور ثقافتی اقدار اور اصول ان عوامل میں سے ہیں جو سیاسی محققین کے مطابق مزاحمتی محور کے ارکان کے درمیان مشترکہ شناخت کی تشکیل کا سبب بنے ہیں اور جغرافیائی فاصلے اور مشترکہ سرحد کی کمی کے باوجود انہیں ایک علاقائی شناخت کے گرد مربوط کر دیا ہے۔[19] علاقائیت کو ایک قسم کی نئی شناخت کے طور پر سمجھا جاتا ہے جو قوم پرستی اور عالمگیریت کے بیچ میں ابھری ہے اور علاقائی اداکاروں کی مشترکہ سماجی اور ثقافتی اقدار اور اصولوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔[20]

نظریہ علاقائیت کے مطابق مزاحمتی محور کے ارکان مذہبی تعلیمات میں سے قاعدہ نفی سبیل، ظلم کے خلاف مقابلہ اور عالم اسلام کے اتحاد اور استکبار کی مخالفت جیسے نعروں پر انحصار کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔[21] یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس علاقائی شناخت کی تشکیل شہادت طلبی کی ثقافت[22]، مظلوموں کی حمایت، انصاف کی تلاش، آزادی کی تلاش، آزادی کی تحریکوں کی حمایت، مہدویت، انتظار فرج اور مذہبی جمہوریت جیسے عوامل سے متاثر ہوئی ہے ایران کے اسلامی انقلاب کے عمل میں تشکیل پایا ہے۔[23]

کچھ محققین اس علاقائی شناخت کی تشکیل کو مغربی ایشیائی خطے میں موجود ایک اور شناخت اور اتحاد کی مخالفت میں سمجھتے ہیں، جسے بعض عرب ممالک نے تشکیل دیا ہے اور وہ اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے اور ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔[24]

سیاسی اسلام کی گفتگو کا اثر

سیاسی اسلام کی گفتگو[یادداشت 1] مغربی ایشیائی خطے میں پچھلی چند دہائیوں میں ہونے والی پیش رفت پر سب سے زیادہ اثر انگیز گفتگو سمجھی جاتی ہے، جس کے سلفی اور تکفیری تحریکوں کی شکل میں فرقہ وارانہ استعمال نے اس خطے میں مذہبی اختلافات کا پرآشوب اور شدت پسند ایک دور ایجادکیا ہے۔[25] ان کے مقابلے میں سلفی تحریکوں نے ایک نئی گفتگو، شیعہ مقاومت کے نام سے چھیڑی ہے جو ایران میں اسلامی انقلاب اور شیعہ حکومت کے قیام سے شروع ہوئی، اور اس میں حزب اللہ، عراق میں شیعہ گروہ، یمن میں انصار اللہ جیسی تنظیموں کی شمولیت، نیز اہل سنت مذہبی گروہوں میں حماس اور جہاد اسلامی فلسطین کی اس نظرئے کی ہمراہی سے خطے کی تبدیلیوں نے ایک نئی شکل اختیار کی۔[26]

طاقت کا توازن پیدا کرنے کے لیے فوجی طاقت میں اضافہ

مزاحمتی محور کے رکن ممالک کی عسکری طاقت میں اضافہ اور اس سے وابستہ گروپوں کو نظامی چیزوں سے لیس کرنا، محور کے لیے درپیش خطرات کی موجودگی اور خطے میں دشمن طاقتوں کے مقابلے میں خطرے کو کم کرنا، اس محور کی اہم حکمت عملیوں میں شمار ہوتا ہے۔[27] بین الاقوامی سلامتی کے محققین کے مطابق مزاحمتی محور کے ارکان کی فوجی طاقت میں اضافہ اور بعض طاقتور ممالک کے ساتھ ان کے اتحاد کی وجہ سے دشمن طاقتوں کے لئے مزاحمتی محور کے ارکان کے خلاف فوجی کارروائی کی لاگت بڑھ گئی ہے اور یہ کام انہیں نظامی کاروائی سے روکتا ہے اور اگر وہ اقدام کرتے بھی ہیں تو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔[28]

اقدامات اور کامیابیاں

اپنے قیام کے آغاز سے ہی، مزاحمتی محور نے ایسے اقدامات اور کامیابیاں حاصل کی ہیں جنہوں نے اسے خطے میں اور کسی حد تک بین الاقوامی سطح پر کردار ادا کرنے والا ایک اہم بلاک بنا دیا ہے۔[29] اس محور کے ان اقدامات میں اسرائیل کے غاصبانہ اقدامات کے خلاف فلسطینی گروہوں اور لبنان کی حزب اللہ کی جدوجہد، ایران، عراق اور شام کے ممالک کی جدوجہد اور عراق اور شام میں داعش کے اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کے خلاف مزاحمتی گروہوں کی جدوجہد اور آخر کار یمن پر عرب ممالک کے حملے کا یمن کی انصار اللہ کے مقابلے کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

مغربی ایشیا کے خطے میں شیعوں کی پوزیشن کو مضبوط کرنا

مزاحمتی محور کا شیعہ عقائد سے زیادہ اثر لینے کو مغربی ایشیائی خطے میں شیعوں کی پوزیشن مضبوط کرنے کے عوامل میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔[30] محققین کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی نرم طاقت عراق،[31] یمن[32] اور لبنان کے بعض حصوں میں[33] شیعوں کی طاقت کو مضبوط کرنے اور ان پر اثر انداز ہونے میں موثر رہی ہے۔[34] نیز بعض سیاسی محققین کے مطابق شیعوں کی سماجی و سیاسی پوزیشن میں اضافے نے بھی مزاحمت کے محور کو تقویت بخشی ہے۔[35]

اسرائیلی قبضے کی مخالفت

سیاسی محققین کے مطابق، اسرائیل کی غاصبانہ شناخت اور 1948 میں قائم کی گئی سرحدوں کی عدم پابندی نے فلسطینیوں کو اسرائیل کے خلاف لڑنے کی طرف مائل کر دیا، اور تحریک جہاد اسلامی فلسطین اور حماس جیسی تنظیمیں تشکیل دی گئیں۔[36] یہ دونوں تحریکیں فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے تشکیل دی گئی،[37] اور صہیونی حکومت کے ساتھ متعدد تنازعات ہوئے،[38] جن میں سب سے اہم پہلی اور دوسری فلسطینی انتفاضہ،[39] غزہ کی 22 روزہ جنگ[40] اور الاقصیٰ طوفان آپریشن قابل ذکر ہیں۔[41]

صہیونی حکومت کے اقدامات کا مقابلہ صرف فلسطینی گروہوں تک ہی محدود نہیں تھا، اور حزب اللہ لبنان بھی سنہ 2000ء میں جنوبی لبنان کے بعض علاقوں پر اسرائیل کے 18 سالہ فوجی تسلط کو ختم کرنے میں کامیاب رہی تھی۔[42] لبنانی حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان محاذ آرائی 33 روزہ جنگ میں بھی جاری رہی اور جولائی 2006 کے آخر سے اسی سال اگست کے آخر تک جاری رہی۔[43] الاقصیٰ طوفان آپریشن کے بعد بھی حزب اللہ غزہ کے لوگوں کی حمایت کے لیے اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​میں نکلی اور دونوں فریقوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔[44] ان جھڑپوں میں حزب اللہ کے تیسرے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ اور اس کے بعض کمانڈر شہید ہو گئے۔[45]

1346ھ (5 جون سنہ 1967ء) میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان چھ روزہ جنگ کے دوران صہیونی حکومت کی طرف سے شام کے گولان کی پہاڑیوں جیسے کچھ حصوں پر قبضہ، شام اور اسرائیل کے درمیان معاندانہ تعلقات کا باعث بنا ہے۔[46] کہا گیا ہے کہ شام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات ایرانی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اور خاص طور پر شام میں حافظ الاسد اور ان کے بیٹے بشار کی صدارت کے آغاز کے بعد مزید دشمنی اختیار کر گئے اور ایران و شام کے درمیان قریبی اتحاد قائم ہوا۔[47] محققین کے مطابق، ایران اور شام کے درمیان اتحاد کو مضبوط کرنے کا ایک اہم ترین عنصر اسرائیل مخالفت میں دونوں ممالک کے مشترک نظریات اور لبنان کی حزب اللہ کی حمایت ہے۔[48]

عراق اور شام میں تکفیری گروہوں سے نبرد آزمائی

سلفی گروہ داعش اور دیگر تکفیری گروہوں کے ہاتھوں شام اور عراق کے ممالک کے اہم حصوں پر قبضے کی وجہ ئے ایک بار پھر مقاومتی محور نے ان ممالک کو درپیش فوجی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اتحاد میں بدل دیا۔[49] اسی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے عراق اور شام میں فوجی اور مشاورتی موجودگی کے ساتھ داعش کی پیش قدمی کو روکنے کی کوششیں شروع کر دی۔[50] حضرت زینبؑ کے روضہ مبارک سمیت شام اور عراق کے مقدس مقامات کی حفاظت ایران کی موجودگی کے دیگر مقاصد میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔[51]

یمن پر عرب ممالک کے حملے کے خلاف انصار اللہ یمن کا دفاع

تحریک انصار اللہ (قیام سنہ 1990ء[52]) یمن کی سیاسی اور اعتقادی تحریکوں میں سے ایک ہے[53] جو امام خمینی اور ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر ہے۔[54] انصار اللہ نے سنہ 2011ء میں بیداری اسلامی کے دوران یمن کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور یمن کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ کارروائی یمن کے اس وقت کے صدر منصور ہادی کے استعفیٰ اور ان کی عدن روانگی اور عبوری حکومت کی تشکیل کا سبب بنی۔[55] منصور ہادی کے اس اقدام کے بعد بعض عرب ممالک نے انصار اللہ کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی حملہ کیا تاکہ انصار اللہ سے اقتدار واپس لے سکیں؛[56] لیکن آخر کار انصار اللہ کی کئی سالوں کی مزاحمت سے یہ حملہ ناکام ہو گیا۔[57]

مغربی ایشیائی خطے میں امریکہ مخالف جذبے کو تقویت دینا

امریکہ مخالف جذبے کو اجاگر کرنا اور امریکی اثر و رسوخ میں کمی کو مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمتی محاذ کی کامیابیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔[58] محققین کے مطابق سنہ 1991ء میں سوویت یونین کے سقوط کے بعد، امریکہ اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مغربی ایشیائی خطے میں ایک اعلیٰ طاقت کے طور پر اپنی موجودگی کی تلاش میں تھا۔[59] اسی وجہ سے اس نے ایسے اقدامات کیے جن کے نتیجے میں تکفیری گروہوں کی تشکیل ہوئی اور مذہبی اختلافات کو ہوا دی اور بالآخر خطے کے ممالک کے عدم استحکام کا باعث بنا۔[60] ان اقدامات کے مقابلے میں مزاحمتی محاذ نے استکبار مخالف پالیسی کو مضبوط بنا کر تکفیری گروہوں اور اسرائیل کے خلاف جنگ اور امریکہ پر اقتصادی اخراجات عائد کرنے جیسے اقدامات کر کے خطے میں امریکہ مخالف جذبات کو تقویت بخشی ہے جبکہ امریکی منصوبوں کو بے اثر کردیا۔[61]

میڈیا سرگرمیاں

نیروہای محور مقاومت اقدام بہ تأسیس شبکہ ہا و خبرگزاری ہایی برای پوشش رسانہ ای فعالیت ہای خود کردہ اند. از جملۂ این شبکہ ہا می توان بہ شبکہ المنار (وابستہ بہ حزب اللہ لبنان)،[62] شبکہ المیادین (شبکہ خبری مستقر در بیروت[63] شبکہ المسیرة (متعلق بہ انصاراللہ یمن)، شبکہ الفرات (شبکہ مجلس اعلای اسلامی عراق)،[64] شبکہ الغدیر (رسانہ تلویزیونی و ماہوارہ ای سازمان بدر عراق)،[65] شبکہ الاتجاہ (مرکز رسانہ ای کتائب حزب اللہ عراق) و شبکہ العہد (مرکز رسانہ ای گروہ عصائب اہل الحق عراق)[66] اشارہ کرد. مزاحمتی قوتوں نے اپنی سرگرمیوں کی میڈیا کوریج کے لیے نیٹ ورک اور نیوز ایجنسیاں قائم کر رکھی ہیں۔ ان نیٹ ورکس میں المنار نیٹ ورک (لبنان میں حزب اللہ سے وابستہ)،[67] المیادین نیٹ ورک (بیروت میں مقیم نیوز نیٹ ورک)،[68] المسیرہ نیٹ ورک (یمن میں انصار اللہ سے وابستہ)،[69] الفرات نیٹ ورک (مجلس اعلائے اسلامی عراق کا نیٹ ورک)،[70] الغدیر نیٹ ورک (عراق کی بدر تنظیم کا ٹیلی ویژن اور سیٹلائٹ میڈیا)،[71] الاتجاہ نیٹ ورک (کتائب حزب اللہ عراق کا میڈیا سینٹر)[72] اور العہد نیٹ ورک (عراق کے عصائب اہل الحق گروپ کا میڈیا سینٹر)[73] قابل ذکر ہیں۔

دیگر مزاحمتی ذرائع ابلاغ کے علاوہ، اسلامی جمہوریہ ایران کی سرکاری میڈیا (صدا و سیمای جمہوری اسلامی ایران) خبروں، ٹاک شوز اور دیگر پروگرام کے ذریعے محورِ مقاومت کی وسیع کوریج کی ہے، خاص طور پر طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد۔[74]العالم نیٹ ورک، پریس ٹی وی اور خبر نیٹ ورک، اسلامی جمہوریہ ایران کے وہ چینلز ہیں جنہوں نے محورِ مقاومت کی فعالیتوں کی کوریچ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔[75]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. خواجہ سروی و سوری، «جمہوری اسلامی ایران، محور مقاومت و شکل دہی بہ نظم منطقہ ای غرب آسیا»، ص41؛ قاسمی، «ژئوپلیتیک محور مقاومت و امنیت ملی جمہوری اسلامی ایران بر اساس گفتمان انقلاب اسلامی»، ص 28، شیرودی و ہمکاران، «گفتمان مقاومت و تأثیر آن بر نظم امنیتی غرب آسیا...»، ص226-227.
  2. ساداتی نژاد، «بازتاب ہای حضور جبہہ مقاومت در منطقہ غرب آسیا»، ص94.
  3. قاسمی، ژئوپلیتیک محور مقاومت و امنیت ملی جمہوری اسلامی ایران بر اساس گفتمان انقلاب اسلامی»، ص 29.
  4. ساداتی نژاد، «بازتاب ہای حضور جبہہ مقاومت در منطقہ غرب آسیا»، ص94؛ پوستین چی و متقی، «زبان سیاسی مقاومت اسلامی در سیاست بین الملل»، ص124-125.
  5. پوستین چی و متقی، «زبان سیاسی مقاومت اسلامی درسیاست بین الملل»، ص124-125.
  6. عباسی و محمودزادہ، «تحلیلی بر حمایت ایدئولوژیک ایران از محور مقاومت در غرب آسیا»، ص117.
  7. عرب عامری و امامی، «عزت طلبی بہ مثابہ سیاست خارجی چارچوبی برای تحلیل سیاست خارجی ایران و محور مقاومت»، ص104-105؛ باقری و ہمکاران، «تبیین منافع ایدئولوژیک جمہوری اسلامی ایران در اتحاد موسوم بہ محور مقاومت»، ص11-17.
  8. قاسمی، ژئوپلیتیک محور مقاومت و امنیت ملی جمہوری اسلامی ایران بر اساس گفتمان انقلاب اسلامی»، ص 29.
  9. محمودی رجا و ہمکاران، «بررسی محور مقاومت و آیندہ نظام سلطہ با استفادہ از نظریہ نظام جہانی»، ص7-8 و 23-25.
  10. رضاخواہ، «بیداری اسلامی و آیندہ محور مقاومت»، ص32.
  11. جعفری فر و احرامی، «تأثیرات منطقہ ای دخالت حزب اللہ و اسرائیل در بحران سوریہ»، ص78.
  12. خامنہ ای، «بیانات در مراسم دانش آموختگی دانشجویان دانشگاہ علوم انتظامی»، مندرج در سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ خامنہ ای؛ بصیری، «واکاوی تہدیدات امنیتی داعش بر محور مقاومت و تأثیر آن بر امنیت ملی جمہوری اسلامی ایران»، ص7 و 11 و 13-14 و 20؛ کریمی، «نقش ج.ا.ایران در ہویت بخشی بہ مجموعہ امنیتی محور مقاومت»، ص12-13.
  13. رضاخواہ، «بیداری اسلامی و آیندہ محور مقاومت»، ص32؛ ہاشم پور و ہمکاران، «ہویت بخشی انقلاب اسلامی ایران بہ محور مقاومت اسلامی»، ص33؛ سلیمی و شریعتی، «منافع ملی جمہوری اسلامی ایران، تداوم یا انقطاع حمایت از نظام کنونی سوریہ»، ص 77.
  14. کریمی، «نقش ج.ا.ایران در ہویت بخشی بہ مجموعہ امنیتی محور مقاومت»، ص3 و 5.
  15. باقری، «تبین منافع ایدئولوژیک جمہوری اسلامی ایران در اتحاد موسوم بہ محور مقاومت» ص8؛ مرادی و شہرام نیا، «بحران سوریہ و امنیت منطقہ ای جمہوری اسلامی ایران»، ص129-130.
  16. کریمی، «نقش ج.ا.ایران در ہویت بخشی بہ مجموعہ امنیتی محور مقاومت»، ص2.
  17. خامنہ ای، «دیدار دبیرکل جنبش حزب اللہ لبنان با رہبر انقلاب»، مندرج در سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ خامنہ ای.
  18. عیوضی و نوازنی، «محور مقاومت بہ مثابہ ہویت منطقہ ای»، ص13.
  19. عیوضی و نوازنی، «محور مقاومت بہ مثابہ ہویت منطقہ ای»، ص6-7.
  20. عیوضی و نوازنی، «محور مقاومت بہ مثابہ ہویت منطقہ ای»، ص8-9.
  21. کریمی، «نقش ج.ا.ایران در ہویت بخشی بہ مجموعہ امنیتی محور مقاومت»، ص7.
  22. قاسمی، «ارزیابی فرہنگ شہادت طلبی انقلاب اسلامی ایران در جہان اسلام و عرصہ بین الملل»، ص106.
  23. ہاشم پور و حقیقی، «رابطہ انقلاب اسلامی ایران و محور مقاومت در ہویت بخشی بہ حوثی ہای یمن»، ص221؛ کریمی، «نقش ج.ا.ا در ہویت بخشی بہ مجموعہ امنیت محور مقاومت»، ص7-9.
  24. ساداتی نژاد، «بازتاب ہای حضور جبہہ مقاومت در منطقہ غرب آسیا»، ص96-97.
  25. شیرودی و ہمکاران، «گفتمان مقاومت (شیعی) و تأثیر آن بر نظم امنیتی ہژمونیک غرب آسیا در مواجہہ با گفتمان ہای سلفی و اخوانی»، ص236-237.
  26. شیرودی و ہمکاران، «گفتمان مقاومت (شیعی) و تأثیر آن بر نظم امنیتی ہژمونیک غرب آسیا در مواجہہ با گفتمان ہای سلفی و اخوانی»، ص236-237.
  27. باقری و ہمکاران، «تأثیر محور مقاومت بر عمق استراتژیک جمہوری اسلامی ایران»، ص76-84.
  28. باقری و ہمکاران، «تأثیر محور مقاومت بر عمق استراتژیک جمہوری اسلامی ایران»، ص86-87.
  29. ساداتی نژاد، «بازتاب ہای حضور جبہہ مقاومت در منطقہ غرب آسیا»، ص89.
  30. شیرودی و ہمکاران، «گفتمان مقاومت (شیعی) و تأثیر آن بر نظم امنیتی ہژمونیک غرب آسیا در مواجہہ با گفتمان ہای سلفی و اخوانی»، ص219.
  31. درج و ہدایتی، «تأثیر قدرت نرم جمہوری اسلامی ایران در تقویت قدرت شیعیان در ساختار سیاسی عراق (2003-2020)، ص82.
  32. ہاشم پور و حقیقی، «رابطہ انقلاب اسلامی ایران و محور مقاومت در ہویت بخشی بہ حوثی ہای یمن»، ص230-238.
  33. شیرودی و ہمکاران، «گفتمان مقاومت (شیعی) و تأثیر آن بر نظم امنیتی ہژمونیک غرب آسیا در مواجہہ با گفتمان ہای سلفی و اخوانی»، ص229-231.
  34. شیرودی و ہمکاران، «گفتمان مقاومت (شیعی) و تأثیر آن بر نظم امنیتی ہژمونیک غرب آسیا در مواجہہ با گفتمان ہای سلفی و اخوانی»، ص229-231.
  35. قاسمی، ظرفیت سنجی شیعیان عراق و تأثیر آن بر محور مقاومت»، ص185-187.
  36. کریمی، «نقش ج.ا.ایران در ہویت بخشی بہ مجموعہ امنیتی محور مقاومت»، ص12.
  37. «نبذة عن حرکة الجہاد الإسلامی فی فلسطین»، وبگاہ شبکہ خبری الجزیرہ؛ مالکی، «حماس، جنبش»، ص79.
  38. «حدث الساعة.. معلومات تہمک معرفتہا عن الجہاد الإسلامی التی أنجبت أسری عملیة جلبوع»، وبگاہ شبکہ خبری الجزیرہ؛ فایضی، «مقایسہ دو میثاق نامہ حماس»، اندیشکدہ راہبردی تبیین.
  39. الشریف، «حرکة الجہاد الإسلامی فی فلسطین»، وبگاہ مرکز مطالعات فلسطین؛ «نشأت بمصر، ولعبت دوراً کبیراً بالانتفاضة.. قصة حرکة الجہاد وسر استہداف إسرائیل لہا بحربہا الأخیرة»، وبگاہ عربی پست.
  40. کریمی، «نقش ج.ا.ایران در ہویت بخشی بہ مجموعہ امنیتی محور مقاومت»، ص12.
  41. «دہمین روز از عملیات طوفان الاقصیٰ»، شبکہ العالم؛ «ما ہی حرکة "الجہاد الإسلامی" التی تتہمہا إسرائیل بقصف المستشفی المعمدانی فی غزة؟»، وبگاہ فرانس24.
  42. مبینی و قاسمی، «دستاوردہای مقاومت اسلامی لبنان در منظومہ فکری سید حسن نصراللہ و تأثیر آن بر امنیت محور مقاومت»، ص28.
  43. کریمی، «نقش ج.ا.ایران در ہویت بخشی بہ مجموعہ امنیتی محور مقاومت»، ص12.
  44. «لحظہ بہ لحظہ با دومین روز از عملیات طوفان الاقصیٰ»، شبکہ العالم؛ «1038 عملیات حزب اللہ علیہ صہیونیست ہا طی 133 روز جنگ»، شبکہ العالم.
  45. «شہادة الأمين العام لحزب اللہ سماحة السيد حسن نصراللہ»، سایت المنار.
  46. کریمی، «نقش ج.ا.ایران در ہویت بخشی بہ مجموعہ امنیتی محور مقاومت»، ص12.
  47. کریمی، «نقش ج.ا.ایران در ہویت بخشی بہ مجموعہ امنیتی محور مقاومت»، ص12.
  48. روستایی، «تحلیلی بر حمایت ایران از محور مقاومت در بحران سوریہ با تأکید بر رویکرد آرمان گرایی و واقع گرایی»، ص79.
  49. بصیری، «واکاوی تہدیدات امنیتی داعش بر محور مقاومت و تأثیر آن بر امنیت ملی جمہوری اسلامی ایران»، ص21-22.
  50. بصیری، «واکاوی تہدیدات امنیتی داعش بر محور مقاومت و تأثیر آن بر امنیت ملی جمہوری اسلامی ایران»، ص21-22.
  51. بصیری، «واکاوی تہدیدات امنیتی داعش بر محور مقاومت و تأثیر آن بر امنیت ملی جمہوری اسلامی ایران»، ص21-22.
  52. «محمد یحیی عزان، «تنظیم شباب المؤمن بالیمن»، مندرج در سایت شبکہ خبری الجزیرہ.
  53. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسة فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص19.
  54. «دوافع مساندة ایران للحوثیین فی الیمن»، وبگاہ المنتدی العربی لتحلیل السیاسات الایرانیہ.
  55. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسة فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص27؛ محمد، «الظاہرة الحوثیہ و التحول الفکری من الزیدیہ الی التشیع»، ص75.
  56. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسہ فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص31.
  57. «حقائق لا تعرفہا عن عبدالملک الحوثی»، مندرج در سایت مجلہ واسع صدرک؛ ساداتی نژاد، «بازتاب ہای حضور جبہہ مقاومت در منطقہ غرب آسیا»، ص104-105.
  58. ساداتی نژاد، «بازتاب ہای حضور جبہہ مقاومت در منطقہ غرب آسیا»، ص97-99.
  59. پارسای و مطہرنیا، «اثرگذاری محور ایران، سوریہ و حزب اللہ بر منافع آمریکا در خاورمیانہ»، ص115-119.
  60. ساداتی نژاد، «بازتاب ہای حضور جبہہ مقاومت در منطقہ غرب آسیا»، ص97-99.
  61. پارسای و مطہرنیا، «اثرگذاری محور ایران، سوریہ و حزب اللہ بر منافع آمریکا در خاورمیانہ»، ص123-131؛ ساداتی نژاد، «بازتاب ہای حضور جبہہ مقاومت در منطقہ غرب آسیا»، ص97-99.
  62. «قناة المنار»، سایت الجزیرہ؛ عمر الفاروق، الدعاية الشيعية، 2017م، ص70-71.
  63. حکیم و محمدپور، «بررسی مقایسہ ای پوشش خبری بحران سوریہ در سایت ہای شبکہ خبری الجزیرہ و المیادین»، ص57؛ «جایگاہ شبکہ المیادین و نگاہ بازیگران عربی بہ آن»، خبرگزاری ایرنا.
  64. «معرفی برخی از شبکہ ہای ماہوارہ ای شیعہ»، خبرگزاری ایکنا.
  65. محمد ابراہیم، «محدث تردد قناة الغدير الفضائية الجديد 2024 نايل سات»، سایت مقالاتک.
  66. حمدی مالک، «لمحة عامة عن قناة العہد الفضائية»، سایت انستیتو واشنگتن.
  67. «قناة المنار»، سایت الجزیرہ؛ عمر الفاروق، الدعاية الشيعية، 2017م، ص70-71.
  68. حکیم و محمدپور، «بررسی مقایسہ ای پوشش خبری بحران سوریہ در سایت ہای شبکہ خبری الجزیرہ و المیادین»، ص57؛ «جایگاہ شبکہ المیادین و نگاہ بازیگران عربی بہ آن»، خبرگزاری ایرنا.
  69. مصادر النہار العربی: الانباء عن اغلاق مکاتب القناتین الحوثیین فی لبنان غیر صحیحہ»، وبگاہ روزنامہ النہار العربی؛ رزق، «قناة المسیرہ: سبع سنوات من العطاء و المواجہة المستمرہ»، وبگاہ یمنی پرس.
  70. «معرفی برخی از شبکہ ہای ماہوارہ ای شیعہ»، خبرگزاری ایکنا.
  71. محمد ابراہیم، «محدث تردد قناة الغدير الفضائية الجديد 2024 نايل سات»، سایت مقالاتک.
  72. حمدی ملک؛ کریسپین اسمیت، لمحة عامة عن "قناة الإتجاہ الفضائية، سایت انستیتو واشنگتن.
  73. حمدی مالک، «لمحة عامة عن قناة العہد الفضائية»، سایت انستیتو واشنگتن.
  74. «اتحاد جبہہ رسانہ ای مقاومت»، مندرج در روزنامہ جام جم.
  75. «اتحاد جبہہ رسانہ ای مقاومت»، مندرج در روزنامہ جام جم.

نوٹ

  1. اسلامی دنیا میں وہ فکری تحریکیں اور تنظیمیں جن کا تعلق اسلامی حکومت کے قیام سے ہے اور اسلامی شریعت کے دائرہ کار میں اپنے بنیادی اصول وضع کرتے ہیں۔ (حسینی زادہ، اسلام سیاسی در ایران، 1386ش، ص17)

مآخذ