سخاوت

ویکی شیعہ سے
(عطا کرنا سے رجوع مکرر)

سَخاوَت، جود و کَرَم کنجوسی اور بخل کے مقابلے میں بخشش کرنے اور عطا کرنے کے معنی میں ہے۔ سخاوت کو انبیاءؑ کی مشہور ترین خوبیوں میں شمار کیا گیا ہے جو ہر انسان کے لیے قابل قدر ہے۔ حدیثی مصادر میں سخاوت کو ایمان کا ستون، ذہانت، زیرکی اور قناعت کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے اور لوگوں میں سب سے زیادہ سخی انسان کو سب سے زیادہ بہادر اور شجاع سمجھا گیا ہے۔ سخاوت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک واجب ہے، جیسا کہ خاندان کے اخراجات کو پورا کرنا، اور دوسری مستحب ہے، جو انسان اپنے مالی واجب حقوق کو ادا کرنے کے بعد کسی کو بخشتا ہے۔

اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

سخاوت کے اثرات میں محبت، عزت و حیثیت کی حفاظت، حکمت و ایمان میں اضافہ، گناہوں کی بخشش اور سماجی تعلقات کو بڑھانا شمار کیا گیا ہے۔ سخاوت ایک ایسی نیکی ہے جس میں تفریط یا کوتاہی کرے تو بخل، اور زیاتی یا افراط کرے تو اسراف کا باعث بنتی ہے۔ بعض نے سخاوت کی حدیں معین کرنے کے لئے قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’خرچ کرنے میں بخل نہ کرو اور دوسری طرف اتنا سخی نہ بنو کہ زندگی کے امور میں بے بس ہو جاؤ۔ بعض علماء نے سخاوت کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے تعلیم، عمل، تربیت اور سخاوت کے اثرات کے بارے میں غور و فکر کو ذکر کیا ہے۔

سخاوت کا مقام اوراس کی اہمیت

سخاوت کو انبیاءؑ کی سب سے مشہور خوبیوں اور اولیاء اللہ کے مشہور ترین اخلاق میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔[1] یہ نیکی صرف ایک اسلامی قدر نہیں بلکہ انسانی اقدار میں سے ہے اور عقلی اعتبار سے اس کی اچھائی اور خوبصورتی واضح ہے۔[2] بعض محققین کے مطابق سخاوت کا لفظ قرآن میں نہیں آیا ہے، لیکن کنجوسی کو چھوڑنے اور انفاق و خیرات کی تعریف و تمجید کے ذریعے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[3]

حدیث کی کتابوں میں سخاوت کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں چودہ معصومینؑ سے بہت سی روایتیں نقل ہوئی ہیں۔[4] رسول اللہؐ کی ایک حدیث میں سخاوت کو جنت کے درختوں میں سے ایک درخت قرار دیا گیا ہے جس کی شاخیں دنیا میں لٹکتی رہتی ہیں اور سخی انسان ان شاخوں سے چمٹ کر بہشت پہنچ جاتا ہے۔[5] اسی طرح روایات میں لوگوں میں سب سے زیادہ سخی انسان کو سب سے بہادر اور شجاع انسان[6] اور سخاوت کو ایمان کا ستون،[7] نیز انسان کی ذہانت، ہوشیاری اور قناعت کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔[8]

کتاب کافی ایک میں روایت نقل ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ پر وحی کی کہ سامری (بنی اسرائیل کے فسادیوں میں سے ایک) کو قتل نہ کریں؛ کیونکہ وہ ایک سخی آدمی تھا۔[9] شیخ مفید نے کتاب اختصاص میں ذکر کیا ہے کہ: اللہ کے رسولؑ نے حاتم طائی (جو جاہلیت کے دور میں سخاوت میں مشہور تھے) کے بیٹے سے فرمایا: تمہارے والد کی سخاوت کی وجہ سے ان سے سخت عذاب ہٹا دیا گیا۔[10]

سخاوت کے معنی اور اقسام

سخاوت، جود اور کرم کا مطلب بخشش اور دینا ہے۔[11] بعض لوگ جود کو سخاوت کا ایک اعلی درجہ سمجھتے ہیں جو طلب اور درخواست کے بغیر عطا کرنے کے معنی میں ہے۔[12] جبکہ کریم اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنی ضرورت ہونے کے باوجود اپنی وسعت کے مطابق دے دیتا ہے۔[13] شیعہ عالم دین ملا احمد نراقی (وفات: 1245ھ) اس طرز عمل کو سخاوت کا سب سے اعلی درجہ قرار دیتے ہوئے اسے ایثار قرار دیا ہے۔[14]

آیت اللہ مشکینی (وفات: 1386ش)، سخاوت نَفْسِ اَمَّارہ پر مسلط ہونے کا ایک وظیفہ ہے کہ انسان جس کی وجہ سے جہاں چاہے مال خرچ کرسکتا ہے یہاں تک کہ اپنی جان بھی دے سکتا ہے۔[15] ان کا کہنا ہے کہ یہ صفت، الٰہی صفات میں سے ایک ہے اس کے برعکس بخل اور کنجوسی اخلاقی برائیوں اور حیوانی خصلتوں میں سے ایک ہے۔[16]

سخاوت کو واجب اور مستحب دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔[17] واجب سخاوت، اسلام میں واجب سخاوت اسلام میں مالی وجبات ادا کرنے کو کہا جاتا ہے جیسے خمس، زکات، کفارہ، اہل خانہ کے اخراجات اور حج۔[18] سخاوت واجب کے علاوہ ہر بخشش اور اللہ کے راہ میں مال خرچ کرنا مستحب سخاوت شمار ہوتی ہے۔[19]

آثار سخاوت

سخاوت کے بہت سے اثرات اور نتائج بیان کیے گئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • محبت پیدا کرنا؛ اسلامی روایات[20] اور تجربے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سخاوت دوست اور دشمن کی محبت اپنی طرف جلب کرتی ہے۔[21]
  • آبرو اور ساکھ کی حفاظت؛ سخاوت انسان کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتی ہے اور اس طرح یہ انسانی وقار کو محفوظ رکھتی ہے۔[22]
  • حکمت میں اضافہ؛ سخاوت مفکروں کو انسان کے گرد جمع کر سکتی ہے اور وہ اس کی سوچ، عقل اور علم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔[23]
  • سماجی تعلقات میں اضافہ؛ سخاوت رکھنے سے طبقاتی اختلاف کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے ضابطگیوں میں کمی آتی ہے اور محروموں میں انتقام کا جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے۔[24]
  • ایمان میں اضافہ؛ روایات میں سخاوت کو ایمان کا ستون اور یقین کی روشنی کی کرن کہا گیا ہے اور ہر مومن کو ایسی فضیلت کا حامل سمجھا گیا ہے۔[25]
  • گناہوں کی معافی؛ امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ سخاوت گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔[26]

سخاوت کی حد

لوگوں کی چار قسمیں ہیں: سخیّ، کریم، بخیل و لئیم؛ سخی وہ شخص ہے جو خود کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی دیتا ہے، کریم اور فیاض وہ شخص ہے جو خود نہیں کھاتا ہے لیکن دوسروں کو دیتا ہے، بخیل کنجوس وہ شخص ہے جو خود کھاتا ہے لیکن دوسروں کو نہیں دیتا ہے اور لَئِیم وہ شخص ہے جو نہ خود کھاتا ہے اور نہ ہی کسی کو بخشتا ہے۔

}} تمام خوبیوں اور اعمال کی طرح سخاوت کی بھی ایک مقدار اور حد ہے کہ اگر اس مقدار سے زیادہ ہو تو اس کا منفی نتیجہ نکلے گا؛[27] اس لیے سخاوت کو ایک ایسی خوبی سمجھا گیا ہے کہ اس میں کمی اور تفریط بُخل اور کنجوسی کا باعث بنتی ہے اور اس میں زیادتی اِفراط اور اسراف کا باعث بنتی ہے۔[28] شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ بیت المال، کرپشن، ظلم اور حرام طریقے سے کمائے ہوئے مال میں سخاوت نہیں ہوسکتی ہے، جس طرح سے بہت سارے حکمران اور سلاطین کرتے ہیں۔ اور سخاوت اس طرح سے بھی نہ ہو کہ انسان کی ساکھ اور حیثیت کو نقصان پہنچے۔[29]

ایک حدیث میں امام صادقؑ سے سخاوت کی حد کے بارے میں پوچھا گیا؟ امام نے اس کی حد کو مالی واجبات اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے طور پر متعارف کیا،[30] جسے مراد وہی واجب سخاوت سمجھا جاتا ہے۔[31] بعض نے سخاوت کی حد بیان کرنے کے لئے قرآن مجید کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے: [انفاق میں] نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ لو اور نہ ہی اسے بالکل کھول دو کہ (ایسا کرنے سے) ملامت زدہ (اور) تہی دست ہو کر بیٹھ جاؤگے۔[32] ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ رسول اللہ نے اپنا سب کچھ راہ خدا میں خرچ کیا یہاں تک کہ قمیص بھی اتار کر دے دیا اور پھر کپڑوں کے بغیر گھر میں چٹائی پر بیٹھ گئے بلال حبشی آپ کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اللہ! نماز کے لیے تشریف لائیں، تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہؐ کے لئے بہشت سے خلعت لایا گیا۔[33]

سخاوت کے حصول کا طریقہ

خوش اخلاق سخی انسان اللہ کی امان میں رہتا ہے۔ بہشت میں جانے تک اللہ اس کا خیال رکھتا ہے۔ اللہ تعالی نے کسی پیغمبر کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ وہ سخی تھا۔ میرے والد مجھے ہمیشہ سخاوت اور اچھے کردار کی نصحیت کرتے تھے یہاں تک کہ وہ وفات پاگئے۔

کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص39

}} سخاوت ایک ایسی خوبی ہے جو تعلیم، تربیت، مشق اور غور و فکر کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔[34] آیت اللہ مکارم سخاوت کے حصول کے کچھ طریقے بتاتے ہیں:

  • تفکر؛ اس بات پر توجہ دینا کہ انسان کا مال اس کے ہاتھ میں ایک الٰہی امانت ہے اور اس نے ہمیشہ نہیں رہنا ہے، نیز سخاوت کے اثرات، برکتوں اور نتائج پر توجہ دینا، سخاوت کے لیے ایک موثر ترغیب ہو سکتی ہے۔
  • تربیت؛ اس میں والدین اور اساتذہ کا کردار بہت موثر ہے۔ اگر وہ بچے کو شروع سے ہی سخاوت کی عادت ڈالیں تو یہ ملَکہ (عادت) ان میں آسانی سے جڑ پکڑ لے گی۔
  • سخی اور کنجوس لوگوں کی زندگی کی تاریخ کا مطالعہ کرنا اور ان کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا بھی سخاوت پیدا کرنے میں بہت موثر ہے۔
  • مشق اور پریکٹس؛ عملی نقطہ نظر سے، ایک شخص جتنا زیادہ دینے کی مشق کرتا ہے، اس اخلاقی خوبی کو حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ کیونکہ فیاضانہ اعمال کی تکرار آہستہ آہستہ عادت اور اخلاقی ملَکہ میں بدل جاتی ہیں۔[35]

حوالہ جات

  1. نراقی، معراج السعادہ، 1378ھ، ص407۔
  2. مشکینی، «اخلاق در اسلام: سخاوت»، ص11۔
  3. عبدوس، بیست و پنج اصل از اصول اخلاقی امامان(ع)، 1377شمسی، ص55۔
  4. ورام، مجموعۃ ورام، 1410ھ، ج1، ص170۔
  5. شیخ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص475۔
  6. تمیمی آمدی، غرر الحکم، 1410ھ، ص188۔
  7. منسوب بہ امام صادق(ع)، مصباح الشریعہ، 1400ھ، ص82۔
  8. تمیمی آمدی، غرر الحکم، 1410ھ، ص124۔
  9. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص41۔
  10. شیخ مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص253۔
  11. بستانی، فرہنگ ابجدی، 1375شمسی، ذیل واژہ جود۔
  12. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ج2، ص397۔
  13. «فرق بخشش کریمانہ با بخشش سخاوتمندانہ»، وبگاہ مشرق۔
  14. نراقی، معراج السعادہ، 1378ھ، ص409۔
  15. مشکینی، «اخلاق در اسلام: سخاوت»، ص10۔
  16. مشکینی، «اخلاق در اسلام: سخاوت»، ص10۔
  17. مشکینی، «اخلاق در اسلام: سخاوت»، ص12۔
  18. مشکینی، «اخلاق در اسلام: سخاوت»، ص12۔
  19. مشکینی، «اخلاق در اسلام: سخاوت»، ص12۔
  20. تمیمی آمدی، غرر الحکم، 1410ھ، ص28 و 42۔
  21. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ج2، ص407۔
  22. سید رضی، نہج البلاغۃ، ص506۔
  23. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ج2، ص407۔
  24. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ج2، ص407۔
  25. منسوب بہ امام صادق(ع)، مصباح الشریعہ، 1400ھ، ص82۔
  26. تمیمی آمدی، غرر الحکم، 1410ھ، ص92۔
  27. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ج2، ص409۔
  28. مشکینی، «اخلاق در اسلام: سخاوت 2»، ص13۔
  29. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ج2، ص409۔
  30. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص39۔
  31. مجلسی، روضۃ المتقین، 1406ھ، ج13، ص216۔
  32. سورۂ اسراء، آیہ 29؛ محمدی ری شہری، حکم النبی الأعظم(ص)، 1429ھ، ج4، ص440۔
  33. بحرانی، البرہان، 1416ھ، ج3، ص526۔
  34. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ج2، ص409۔
  35. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ج2، ص409-410۔

مآخذ

  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، بنیاد بعثت، تہران، چاپ اول، 1416ھ۔
  • بستانی، فواد افرام، فرہنگ ابجدی، ترجمہ: رضا مہیار، تہران، نشر اسلامی، چاپ دوم، 1375ہجری شمسی۔
  • تمیمی آمدی، عبد الواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، محقق و مصحح: رجائی، سید مہدی، قم، دار الکتاب الإسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، محقق: صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ھ۔
  • شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، نجف، مطبعۃ حیدریہ، چاپ اول، بی تا.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • شیخ مفید، الاختصاص، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، محرمی زرندی، محمود، المؤتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، قم، چاپ اول، 1413ھ۔
  • عبدوس، محمدتقی، بیست و پنج اصل از اصول اخلاقی امامان(ع)، قم، دفتر تبلیغات اسلامی چاپ ہشتم، سال 1377ہجری شمسی۔
  • «فرق بخشش کریمانہ با بخشش سخاوتمندانہ»، وبگاہ مشرق، تاریخ انتشار: 18 آذر 1394شمسی، تاریخ مشاہدہ: 9 اسفند 1402ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مجلسی اول، محمد تقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح: موسوی کرمانی، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانپور، چاپ دوم، 1406ھ۔
  • محمدی ری شہری، محمد، حکم النبی الأعظم(ص)، قم، موسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث، چاپ اول، 1429ھ۔
  • مشکینی، علی اکبر، «اخلاق در اسلام: سخاوت 2» در نشریہ پاسدار اسلام، شمارۂ 7، تیر 1361ہجری شمسی۔
  • مشکینی، علی اکبر، «اخلاق در اسلام: سخاوت» در نشریہ پاسدار اسلام، شمارۂ 6، خرداد 1361ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق در قرآن، قم، مدرسۃ الإمام علی بن أبی طالب(ع)، چاپ چہارم، 1385ہجری شمسی۔
  • منسوب بہ امام صادق(ع)، مصباح الشریعہ، اعلمی، بیروت، چاپ اول، 1400ھ۔
  • نراقی، احمد، معراج السعادہ، قم، نشر ہجرت، چاپ ششم، 1378ھ۔
  • ورام بن أبی فراس، مسعود بن عیسی، تنبیہ الخواطر و نزہۃ النواظر المعروف بمجموعۃ ورام، قم، مکتبۃ الفقیہ، چاپ اول، 1410ھ۔