سلطان المدارس

ویکی شیعہ سے
(سلطان المدارس بھارت سے رجوع مکرر)

سُلطانُ المَدارس یا جامعہ سلطانیہ لکھنؤ کے پرانے اور قدیمی مدرسوں میں سے ایک ہے۔[1] اور ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی دور کا پہلا شیعہ مذہبی اور سرکاری مدرسہ ہے۔[2] اس مدرسے کو سید دلدار علی نقوی کے بیٹے سید حسین نقوی (متوفی1273ھ) المعروف سیدُ العُلَماء نے 1259ھ میں بنایا۔[3]

سلطان المدارس کو بنانے کے محرکات اور طریقہ کار کے بارے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ 19ویں صدی کے اوائل میں لکھنؤ شہر میں کوئی حوزہ علمیہ (دینی مدرسہ) نہیں تھا اور دینی علوم کے طلباء، علماء کرام کے گھروں اور امام بارگاہوں میں دینی تعلیم حاصل کرتے تھے، سید حسین نقوی نے شیعہ سلطنت اودہ[یادداشت 1] کے حاکم امجد علی کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کو ایک علمی اور ثقافتی مرکز کے قیام کے لئے استفادہ کرتے ہوئے سادات علی خان کے مقبرے میں ایک مدرسہ قائم کیا، جو کہ "مدرسہ سلطانیہ" کے نام سے مشہور ہوا۔[4]

جامعہ سلطانیہ کی تأسیس میں والا جاہ کے بیٹے آغا ابو صاحب (متوفی 1336ھ) کا نام بھی ذکر ہوتا ہے جس نے اس کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، یہاں تک کہ انہیں اس مدرسے کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ وہ انگریزوں کے درمیان ایک طاقتور اور بااثر شخص سمجھا جاتا تھا اور اس نے اپنی ذاتی لائبریری کو مدرسے کے اختیار میں دے دیا۔[5] آج کل مدرسہ سلطانیہ کی لائبریری ابو صاحب لائبریری کے نام سے جانی جاتی ہے اور اس میں بہت سے خطی نسخے بھی ہیں۔[6]

آیت اللہ صافی گلپایگانی کا سلطان المدارس کی لائبریری کا دورہ

سید حسین نقوی نے مدرسے کی تعمیر کے بعد اس کی سرپرستی اپنے ذمے لی اور طلباء اور اساتذہ کی ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔[7]سلطان المدارس کی مالی حالت دیگر مدرسوں کے مقابلے میں اچھی تھی اور مدرسے کے مالی اخراجات حسین آباد مبارک کے اوقاف سے پورے ہوتے تھے، جو کہ ہندوستان کا سب سے بڑا شیعہ اوقاف اور برطانوی حکومت کی نگرانی میں ہوتا تھا۔[8]

اس مدرسے کی اعلیٰ ترین ڈگری "صَدرُ الاَفاضِل" ہے اور یہ ان لوگوں کو تفویض کی جاتی ہے جو ادب، فقہ، اصول اور فلسفہ میں اعلیٰ مدارج طے کرتے ہیں۔[9] اس مدرسے میں بہت سے دینی علما نے تعلیم حاصل کی ہے۔[10]

لکھنؤ کے جامعہ سلطانیہ میں ہندوستان کے مختلف شہروں، کشمیر اور افریقی ممالک میں سینیگال اور زنجبار وغیرہ کے بہت سے طلباء پڑھتے تھے جہاں ریاض المسائل اور شیخ مرتضی انصاری کی رسائل و مکاسب وغیرہ پڑھائی جاتی تھی۔[11]

تصویر روی جلد کتاب کتاب کا سرورق "سلطان المدارس کی لائبریری کے مخطوطات کی فہرست"

"فہرست نسخہ ہای خطی کتابخانہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ (مرحوم جناب نواب آغا ابوصاحب)(سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ کے کتب خانہ کے خطی نسخوں کی فہرست)" کے نام سے ایک کتاب سید محمد جعفر بن محمد حسین رضوی نے تحریر کی ہے جس کی سید محمد جواد حسینی اشکوری نے تصحیح کی اور سنہ 1394 شمسی کو مجمع ذخائر اسلامی کی طرف سے طبع ہوئی۔[12]

آیت اللہ صافی گلپایگانی (متوفی: 2022ء) نے ہندوستان کے دورے کے دوران جامعہ سلطانیہ لائبریری کا دورہ کیا تھا۔[13]

حوالہ جات

  1. «سلطان المدارس»، سایت علمای ہند۔
  2. جعفر علی، «مراکز علمی آموزشی شیعیان در اودہ؛ از اقتدار یافتن انگلیس تا استقلال ہند»، ص222۔
  3. ابوالحسنی (منذر)، «موقوفہ اود: ریشہ و روند تاریخی»، ص28۔
  4. رضایی، حضور علمی شیعیان در جہان، 1397شمسی، ص131؛ جعفری محمدی، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، 1397شمسی، ص416و417۔
  5. صدر الافاضل، مطلع الانوار، 1374شمسی، ص39و40۔
  6. «انتشار فہرست نسخہ ہای خطی كتابخانہ جامعہ سلطانيہ لكھنؤ»، سایت مؤسسہ پژوہشی میراث مکتوب۔
  7. ابوالحسنی (منذر)، «موقوفہ اود: ریشہ و روند تاریخی»، ص28۔
  8. فیضان، «مراکز علمی آموزشی شیعیان در اودہ؛ از اقتدار یافتن انگلیس تا استقلال ہند»، ص221و222۔
  9. رضایی، حضور علمی شیعیان در جہان، 1397شمسی، ص131۔
  10. ابوالحسنی (منذر)، «موقوفہ اود: ریشہ و روند تاریخی»، ص28۔
  11. سید کباری، حوزہ ہای علمیہ شیعہ در گسترہ جہان، 1378شمسی، ص695۔
  12. فہرست نسخ خطی کتابخانہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ، مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی۔
  13. «آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی در کتابخانہ سلطان المدارس ہندوستان»، سایت خبرگزاری رسمی حوزہ۔

نوٹ

  1. اَوَد یا اَوَدْہ شمالی ہندوستان کے شیعہ آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے، جس پر 12ویں اور 13ویں صدی ہجری میں ایرانی نژاد سادات اور شیعہ خاندان کی حکومت تھی۔

مآخذ

  • آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی در کتابخانہ سلطان المدارس ہندوستان، سایت خبرگزاری رسمی حوزہ، تاریخ درج مطلب: 12 آذر 1396شمسی، تاریخ مشاہدہ: 6 دی 1402ہجری شمسی۔
  • ابوالحسنی (منذر)، علی، «موقوفہ اَوَد: ریشہ و روند تاریخی»، نشریہ زمانہ، شمارہ 20، سال سوم، اردیبہشت 1383ہجری شمسی۔
  • «انتشار فہرست نسخہ ہای خطی كتابخانہ جامعہ سلطانيہ لكھنؤ»، سایت مؤسسہ پژوہشی میراث مکتوب، تاریخ اشاعت: 17 خرداد 1394شمسی، تاریخ مشاہدہ: 6 دی 1402ہجری شمسی۔
  • جعفر علی، فیضان، «مراکز علمی ـ آموزشی شیعیان در اودہ؛ از اقتدار یافتن انگلیس تا استقلال ہند (1857ء تا 1947ء)»، فصلنامہ تاریخ اسلام، شمارہ 81، بہار 1399ہجری شمسی۔
  • جعفری محمدی، غلام جابر، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، قم، امام علی بن ابی طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
  • رضایی، حسن، حضور علمی شیعیان در جہان، قم، امام علی بن ابی طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
  • «سلطان المدارس»، سایت علمای ہند، تاریخ مشاہدہ: 21 آذر 1402ہجری شمسی۔
  • سید کباری، علیرضا، حوزہ ہای علمیہ شیعہ در گسترہ جہان، تہران، امیرکبیر، 1378ہجری شمسی۔
  • صدرالافاضل، مرتضی حسین، مطلع الانوار، ترجمۂ محمد ہاشم، مشہد، آستان قدس رضوی. بنياد پژوہش ہای اسلامى، 1374ہجری شمسی۔
  • «فہرست نسخ خطی کتابخانہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ»، مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، تاریخ اشاعت: 1 اردیبہشت 1395شمسی، تاریخ مشاہدہ: 6 دی 1402ہجری شمسی۔