سید محمد حسن حسینی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | سید محمد حسن حسینی |
لقب/کنیت | میرازی بزرگ • میرازی مجدد |
نسب | سادات |
تاریخ ولادت | سنہ 1814ء |
آبائی شہر | شیراز |
رہائش | اصفہان، نجف |
تاریخ وفات | 1894ء |
مدفن | حرم امام علیؑ |
نامور اقرباء | سید رضی شیرازی |
علمی معلومات | |
مادر علمی | ایران و عراق |
اساتذہ | شیخ انصاری • محمدحسن نجفی |
شاگرد | شیخ فضلالله نوری • عبدالکریم حائری یزدی • میرزا محمد تقی شیرازی • آخوند خراسانی |
اجازہ اجتہاد از | سید حسن بیدآبادی |
تالیفات | نجاة العباد پر حاشیہ • اللمعۃ الدمشقیۃ پر حاشیہ • کتاب الطهارہ |
خدمات | |
سیاسی | فتوای تحریم تنباکو |
سماجی | تأسیس حوزه علمیہ سامرا |
سید محمدحسن حسینی (متوفی:1230ھ) المعروف میرزائے شیرازی، میرزائے بزرگ اور میرزائے مجدِّد، چودہویں صدی ہجری کے شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں جنہوں نے ایران میں ناصر الدین قاجار کی بادشاہت کے دوران برطانوی سرمایہ داروں کے خلاف تنباکو کے استعمال کی حرمت کا فتوا جاری کیا تھا۔
شیخ مرتضی انصاری کی وفات کے بعد سنہ 1864ء میں میرزائے شیرازی مرجعیت کے عہدے پر فائز ہوئے اور 30 سال تک واحد شیعہ مرجع تقلید کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آپ شیخ انصاری کےخاص شاگرد تھے۔ حوزہ علمیہ قم کے بانی شیخ عبدالکریم حائری، آخوند خراسانی، شیخ فضل الله نوری، میرزای نائینی اور محمدتقی شیرازی المعروف میرزائے دوم آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔
میرزائے شیرازی نے فقہ اور اصول میں مختلف رسالے اور کتابیں تالیف کیں اور شیخ انصاری کی فقہی اور اصولی کتابوں بالاخص ان کے مقلدین کے لیے ان کی تعلیقات پر حاشیہ لکھا۔ آپ کے دروس فقہ و اصول اور جمع کردہ فتاوا تدوین اور شائع ہوچکے ہیں۔
میرزائے شیرازی حوزہ علمیہ سامراء اور مکتب سامراء کے بانی کے طور پہچانے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے شیعہ اور سنی مذاہب کے مابین اتحاد و وحدت پیدا کرنے کی غرض سے سامراء کی جانب ہجرت کی اور یہاں سکونت اختیار کی۔ مدارس علمیہ، امام بارگاہیں، پل، بازار اور حمام خانوں کی تعمیر آپ کی عام المنفعت فلاحی خدمات میں شمار ہوتی ہے۔
آپ نے 82 سال کی عمر میں سامراء میں وفات پائی اور نجف اشرف میں روضہ امام علیؑ مدفون ہوئے.
آپ کے بارے میں عربی اور فارسی زبان میں قلمی آثار پائے جاتے ہیں۔ منجملہ آقا بزرگ تہرانی کی کتاب "ہدیة الرازی الی الامام المجدد الشیرازی" اور محمد علی اردوبادی کی کتاب "ہدیة الرازی الی الامام المجدد الشیرازی" میں آپ کی سوانح عمری اور آپ کے شاگردوں کے بارے میں مطالب بیان ہوئے ہیں۔
زندگی نامہ
سید محمد حسن حسینی، 15جمادی الاول سنہ 1230ھ مطابق 25 اپریل سنہ 1815ء کو شیراز میں پیدا ہوئے۔[1] آپ کے والد میرزا محمود اپنے زمانے کے عالم دین تھے.[2] میرزا محمد حسن بچپنے میں ہی باپ کے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے اور اپنے ماموں میرزا حسین موسوی المعروف مجد الاشراف کے زیر سایہ تربیت پائی۔[3]
میرزای شیرازی نے اصفہان میں سکونت کے دوران 17 سے 20 سال کے درمیان اپنے چچا کی بیٹی سے شادی کی جس کے نتیجے میں آپ کے ہاں ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہوا جس کا نام علی تھا۔ سنہ 1303ھ میں آپ کی شریک حیات وفات پاگئی تو آپ نے دوسری شادی کی جس کے نتیجے میں ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہوا جس کا نام محمد رکھا گیا۔[4] آپ سنہ 1287ھ میں حج کرنے کے قصد سے مکہ گئے۔ شریفِ مکہ آپ کے استقبال کے لیے آئے اور اپنے گھر لے گئے۔ اس سفر کے دوران میرزا حسن نے مستقل طور پر مدینہ میں رہنے کا ارادہ کیا اور جب یہ ممکن نہ ہوسکا تو اس نے مشہد میں قیام پذیر ہونے کا فیصلہ کیا لیکن آخر کار آپ سامراء گئے اور اپنی زندگی کے آخری دن تک وہیں مقیم رہے۔[5]
میرزای بزرگ نے 24شعبان سنہ 1312ھ مطابق 20 فروری سنہ 1895ء کو 82 سال کی عمر میں سامراء میں وفات پائی اور آپ کو حرم امام علی ؑ کے صحن کے ایک حجرے میں دفن کیا گیا۔[6] بعض لوگوں نے آپ کی موت کی وجہ تپ دق[7](برونکائٹس) بتائی ہے جبکہ بعض دیگر لوگوں نے آپ کی موت کو برطانوی حکومت کے کارندوں کے ہاتھوں سے زہر دیے جانے کا احتمال پیش کیا ہے۔[8]
تعلیمی زندگی
میرزا حسن نے چار سال کی عمر میں مکتب سکول جانا شروع کیا اور ناظرہ قرآن اور ادبیات فارسی کی رائج کتابوں کو دو سال میں ختم کیا، چھے سال کی عمر میں عربی ادبیات پڑھنا شروع کیا اور آٹھ سال کی عمر میں مقدماتی علوم مکمل کیے۔[9] اس کے بعد میرزا ابراہیم شیرازی نے آپ کو آیات و روایات اور وعظ و خطابت سکھائی۔[10] میرزا محمد حسن نے 8 سال کی عمر میں اپنے استاد کے حکم پر مسجد وکیل شیراز میں نماز ظہرین کے بعد منبر پر جاکر اخلاقی کتاب "ابواب الجنان" کے کچھ حصوں کو زبانی سنا دیا۔[11] اس کے بعد آپ نے فقه اور اصول کا درس شروع کیا اور 12 سال کی عمر میں شیخ محمد تقی شیرازی کے درس میں شرکت کرنا شروع کیا۔ اس زمانے شیخ محمد تقی شیراز میں شرح لمعہ کے بہت بڑے مدرس مانے جاتے تھے۔ آپ 18 سال کی عمر میں اپنے استاد کے مشورے پر مزید علوم کے حصول کے لیے اصفہان چلے گئے۔[12] میرزا محمد حسن اصفہان کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے اپنے والد کی جگہ دیوان لکھنے میں مصروف ہوئے[13] اور 15 سال کی عمر میں حوزہ علمیہ شیراز میں شرح لمعہ کی تدریس شروع کی.[14]
اصفہان میں تحصیل علم
میرزای شیرازی، 17 صفر المظفر سنہ 1248ھ میں اصفہان گئے[15] اور اصفہان کے مدرسہ صدر میں داخلہ لیا۔[16] اس مدت میں آپ محمد تقی اصفہانی کے خصوصی درس میں شرکت کرتے تھے۔اپنے استاد محمد تقی اصفہانی کی وفات کے بعد سنہ 1248ھ کے آخری عشرے میں سید حسن بید آبادی المعروف میر سید حسن مدرس کی شاگردی اختیار کی اور 20 سال کی عمر میں پہنچنے سے پہلے ہی اپنے استاد سے اجازہ اجتہاد حاصل کیا[17] یہاں آپ نے 10 سال قیام کیا، اس دوران بید آبادی کے دروس میں شرکت کرنے کے علاوہ محمد ابراہیم کلباسی کے دروس میں شرکت کرتے تھے۔[18]
عراق میں تحصیل علم
جب میرزا حسن کی عمر 29 سال کی تو آپ سنہ 1259ھ میں عراق گئے یہاں آپ نے اس وقت کے جید علما جیسے محمد حسن نجفی (صاحب جواہر)، حسن کاشف الغطا (فرزند جعفر کاشف الغطاء)[19] اور شیخ انصاری سے کسب فیض کیا۔[20]
آپ شیخ انصاری کے خاص شاگرد شمار ہوتے تھے۔[21] شیخ انصاری نے اپنی اصول کی کتاب فرائد الاصول کی تصحیح کا کام آپ کے ذمے لگایا۔[22] شیخ انصاری کا یہ جملہ مشہور تھا کہ میں صرف تین لوگوں کی خاطر درس دیتا ہوں: محمد حسن شیرازی، میرزا حبیبالله رشتی اور حسن نجمآبادی.[23] آپ اپنے استاد شیخ انصاری کے درس میں نہایت کم بولتے تھے اور جب کوئی سوال کرتے تو نہایت ہی آرام اور نیچی آواز میں بات کرتے یہاں تک کہ شیخ انصاری آپ کی بات کو سننے کےلیے آپ کے نزدیک ہوتے اور دوسرے شاگردوں کو سکوت کرنے کا حکم کرتے تھے۔[24]
مرجعیت
بسم الله الرحمن الرحیم۔آج سے تنباکو کا کسی بھی طرح کا استعمال امام زمانہ کے خلاف جنگ تصور کیا جائے گا۔
اصفہانی کربلایی، تاریخ دخانیه، ۱۳۷۷شمسی، ص۱۱۸
سنہ 1281ھ میں شیخ انصاری کی وفات کے بعد میرزای شیرازی مرجعیت پر فائز ہوگئے۔ آقا بزرگ تہرانی کے مطابق شیخ انصاری کی وفات کے بعد مرجعیت کے سلسلے میں آپ کے برجستہ تمام شاگردوں نے میرزا شیرازی کو اس منصب کے لیے مناسب قرار دیا اور بالاتفاق آپ مرجع قرار پائے۔ صرف آذربائجان کے علما نے شیخ انصاری کے ایک اور شاگرد سید حسین کوہ کمرہ ای کو اپنے علاقے کا مرجع انتخاب کیا لیکن سنہ1299ھ میں سید حسین کوہ کمرہ ای کی وفات کے بعد میرزای شیرازی شیعوں کے واحد مرجع تقلید قرار پائے۔[25]
فقہاء اور علمائے علم اصول نے میرزای شیرازی کے علمے مرتبے کو شیخ انصاری کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور بعض نے تو آپ کو شیخ انصاری سے بھی برتر و اعلی علمی مرتبے کا حامل قرار دیا ہے۔[26]
حوزه علمیہ سامرا کی تاسیس
سنہ 1291ھ میں میرزای شیرازی اور آپ کے شاگردوں کے سامراء میں قیام کے دوران یہاں حوزہ علمیہ اور مکتب سامراء کی بنیاد پڑگئی۔[27] یہاں مدرسہ علمیہ میں 20 سال اپنی علمی سرگرمیاں عروج پر تھیں لیکن سنہ 1312ھ میں میرزای شیرازی کی وفات اور دیگر علما کی کربلا و نجف کی جناب ہجرت کے بعد اس کی تعلیمی رونقیں ماند پڑ گئیں. سید حسن صدر، سید محسن امین، سید عبدالحسین شرفالدین، محمدجواد بلاغی، شیخ محسن شراره، آقا بزرگ تہرانی، علامه امینی اور محمدرضا مظفر حوزہ علمیہ سامراء کے بزرگ علماء تھے.[28] میرزای شیرازی اور آپ کے شاگردوں کے طرز تدریس اور فقہ و اصول کا نگارشی انداز مکتب سامراء کے طرز کے ہیں.[29] سید رضی شیرازی کی تحلیل کے مطابق میرزای شیرازی کے سامراء میں قیام کا اصلی مقصد شیعہ اور سنی کے مابین تقریب مذاہب پر عمل پیرا ہونا تھا۔[30] یہی وجہ ہے کہ تفرقہ بازی کی ممانعت اور اہل سنت کے ساتھ رواداری کا سلوک روا رکھنا مکتب سامرا کی اہم خصوصیات میں شامل ہے۔[31]
تحریم تنباکو
میرزای شیرازی کی مرجعیت کے دوران رونما ہونے والا ایک اہم واقعہ آپ کی طرف سے تنباکو کے استعمال پر حرمت کا فتوای تھا. (Tobacco Regie) معاہدے کے تحت ایران کے چار شہروں سے تنباکو کے منافع کو ایک برطانوی کمپنی کو دیے جانے کے خلاف عوام نے میرزای شیرازی کے چار شاگردوں کی قیادت میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ شیخ فضل اللہ نوری نے تہران میں، محمد تقی آقا نجفی اصفہانی نے اصفہان میں، سید علی اکبر فال اسیری نے شیراز میں جبکہ تبریز شہر میں جواد محمد تبریزی نے عوامی احتجاجات کی قیادت کی۔[32] غیر ملکی کمپنی کی جانب سے ایران میں تنباکو کی اجارہ داری پر میرزای شیرازی کے تاریخی فیصلے نے عوام کو اس مرحلے پر لایا کہ ناصر الدین شاہ قاجار تنباکو کا معاہدہ منسوخ کرنے پر مجبور ہوگئے.[33]
شاگرد
میرزای شیرازی کے حلقہ درس سے فیضیاب ہونے والے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔ آقا بزرگ تہرانی نے کتاب "ہدیة الرازی الی الامام المجدد الشیرازی" میں آپ کے تقریبا 500 شاگردوں کے نام ثبت کیے ہیں۔[34] بعض شاگردوں کے نام یہ ہیں:
- میرزا محمدتقی شیرازی، المعروف میرزای شیرازی دوم یا میرزای کوچک خان
- سید محمد فشارکی
- عبدالکریم حائری یزدی، حوزہ علمیہ قم کے بانی
- میرزا حسین نائینی[35]
- شیخ فضلالله نوری
- سید عبدالحسین لاری
- میرزا حسن علی تہرانی [36]
- محمدهادی تهرانی
- سید ابو القاسم دہکردی
- عباس علی کیوان قزوینی
- مہدی خالصی [37]
- محمد باقر قائنی بیرجندی[38]
- سید محمد حسینی لواسانی تہرانی
- حبیب خراسانی
- محمد باقر بہاری ہمدانی
- محمد کاظم خراسانی، مؤلف کفایۃ الاصول
- سید محمدکاظم یزدی[39]
- میرزا محمد ارباب قمی[40]
- میرزا حسین نوری[41]
- سید اسماعیل صدر[42]
سیاسی اور سماجی خدمات
میرزای شیرازی نے حرمت تنباکو کا فتوا جاری کرنے کے علاوہ سیاسی اور سماجی خدمات بھی انجام دی ہیں:
- افغانستان میں ہزارہ شیعہ قوم کے قتل عام کو رکوانے کے سلسلے میں سنہ 1309ھ میں عبد الرحمن(حکومت: 1880-1901ء) کے ذریعے برطانوی ملکہ کو ٹیلیگرام بھیجا۔[43]
- پہلے مرحلے میں سامراء میں مدرسہ علمیہ کو مضبوط کیا، اس کے بعد یہاں کے سنی نشین علاقوں میں شیعہ اور سنی کے مابین اسلامی اتحاد کو مضبوط کیا، اہل سنت طلباء اور علماء کے لیے پنشن کا انتظام اور ان کی مالی معاونت کی اور شیعہ و سنی کے مابین اختلاف پیدا کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کی[44]
- استکباری طاقتوں کے چنگال میں زندگی بسر کرنے والے حساس ممالک جیسے ہندوستان، کشمیر، افغانستان، قفقاز اور عراق میں مبلغین بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔[45]
- سامراء میں دو مدارس علمیہ کی بنیاد ڈالی۔[46]
- دجلہ کے ساحلوں کو آپس میں ملانے کے لیے پل تعمیر کروائی۔[47]
- بعض مقامات پر بازار بنالیے۔[48]
- زائرین اور مسافرین کے لیے کاروانسرائے بنوائے۔
- امام بارگاہوں کی تعمیر کروائی۔
- مردانہ اور زنانہ حمام خانے بنائے۔[49]
تألیفات
میرزای شیرازی کی فقہ اور اصول کے عناوین پر کئی تالیفات ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب "طبقات اعلام الشیعہ" میں آپ کی تالیفات یوں بیان کی ہیں:
- اصولی بحث "اجتماع امر و نہی" کے بارے میں ایک رسالہ
- فقہ کی ایک کتاب جس میں کتاب مکاسب کی ابتدا سے بحث معاملات کے آخر تک مطالب بیان کیے ہیں
- رضاع کے موضوع پر ایک رسالہ
- کتاب "النخبۃ" پر لکھا گیا حاشیہ
- صاحب جواہر کی کتاب "نجاۃ العباد" پر لکھا گیا حاشیہ
- شیخ انصاری کے درس خارج کی تقریرات
- شیخ انصاری کی اپنے مقلدین کے لیے لکھی گئی تمام تعلیقات پر لکھا گیا حاشیہ [50]
کتاب الصلاة، وحید بہبہانی کی کتاب "معاملات" پر لکھا گیا تعلیقہ، تعلیقه بر کتاب شرح لمعہ پر لکھا گیا تعلیقہ اور فرائد الاصول پر لکھے گئے حاشیے آپ کی تالیفات میں شامل ہیں۔[51]
آپ کے دروس فقہ اور اصول کی مختلف تقریرات بھی موجود ہیں۔ ناصر الدین انصاری نے آپ کے دروس فقہ و اصول کی تقریرات لکھنے والے 20 شاگردوں کے نام اپنی کتاب میں درج کیے ہیں منجملہ سید ابراہیم دامغانی خراسانی(متوفی:1291ھ) اور میرزا ابراہیم محلاتی شیرازی (متوفی: 1336ھ) آپ کی تقریرات لکھنے والے شاگردوں میں شامل ہیں۔[52] آپ کے بعض فتاوا اور نظریات چند دیگر کتب کے حاشیہ جات کی شکل میں یا مستقل طور پر کتابوں کی صورت میں منتشر ہوئے ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:
- منہج النجاة؛ یہ کتاب آپ کے فتاوا پر مشتمل رسالہ عملیہ ہے جسے شیخ علی نجفی اصفہانی نے سنہ1304ھ میں تالیف کی ہے۔ اس کتاب میں سوال و جواب کی صورت میں مطالب فارسی زبان میں بیان ہوئے ہیں، یہ فتاوا آپ کے خط سے ہی لکھے گئے ہیں یا ان کے آخر میں آپ کے دستخط ثبت کیے گئے ہیں۔[53]
- مجمع المسائل: اس کتاب کو آپ کے حکم پر سید اسد اللہ قزوینی نے تحریر کی ہے۔ اسی کتاب میں آپ کی جانب سے کتاب سرور العباد، نجاۃ العباد، صراط النجاۃ، طریق النجاۃ، سوالات و جوابات اور النخبۃ پر لکھے گئے حاشیے بھی موجود ہیں۔[54]
- سوال و جواب پر مشتمل رسالہ: اس رسالے میں شیخ فضل اللہ نوری کے 236 سوالات اور آپ کے جوابات شامل ہیں۔ یہ کتاب سنہ1305ھ میں تہران میں چھپ چکی ہے۔[55]
- مجمع المسائل: یہ کتاب میرزای شیرازی کے فتاوا پر مشتمل ہے۔ اس میں فقہ کے تمام ابواب کے بارے میں فتوا بیان ہوا ہے اور فارسی میں لکھی گئی ہے۔ اسے محمد حسن بن محمدابراہیم جزی اصفہانی نے سنہ 1310ھ میں تحریر کی ہے۔ آخوند خراسانی، سید محمد کاظم یزدی اور سید اسماعیل صدر نے اس پر حاشیے تحریر کیے ہیں۔[56]
مونوگراف
میرزای شیرازی کے بارے میں لکھے گئے قلمی آثار درج ذیل ہیں:
- "ہدیة الرازی الی الامام المجدد الشیرازی"، یہ کتاب میرزای شیرازی اور آپ کے شاگردوں کے زندگی نامہ پر مشتمل ہے جسے آقا بزرگ تہرانی نے تحریر کی ہے۔[57] ناصر الدین انصاری کےمطابق یہ کتاب میرزای شیرازی کے بارے میں لکھی گئی کاملترین کتاب ہے۔[58] اس کتاب کا فارسی ترجمہ سنہ 1983ء میں محمد دزفولی کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
- حیاة الامام المجدد الشیرازی، یہ کتاب محمد علی اردوبادی (متوفی: 1380ھ) کی تحریر ہے جس میں میرزای شیرازی، آپ کے بعض شاگردوں اور ہم عصر علما کے بارے میں تفصیلات لکھی ہیں۔[59]
- کتاب «سبائک التبر فیما قیل فی الامام الشیرازی من الشعر»، یہ بھی میرزای شیرازی کے بارے میں لکھی تحریر ہے جسے محمد علی اردوبادی نے تحریر کی ہے۔اس کتاب میں مصنف نے میرزای شیرازی، آپ کے ہم عصر شاعروں، ان کے اشعار اور آپ کے نمایاں شاگردوں سے متعلق مطالب تحریر کیے ہیں۔ یہ کتاب 600 صفحات پر مشتمل ہے۔[60] آقا بزرگ تہرانی کے مطابق یہ کتاب، کتاب "حیاة الامام المجدد شیرازی" کی دوسری جلد ہے.[61]
- میرازی شیرازی احیاگر قدرت فتوا، اس کتاب کو سید محمود مدنی نے تالیف کی ہے اور سنہ 1992ء میں قم سے شائع ہوئی ہے.[62]
حوالہ جات
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۴۰.
- ↑ مدنی بجستانی، «میرزای شیرازی»، ص۳۸۵.
- ↑ مطلبی، «نجوم امت: حضرت آیتاللہ العظمی حاج میرزا سید محمدحسن شیرازی»، ص۶۶.
- ↑ مدنی، میرزای شیرازی: احیاگر قدرت فتوا، ۱۳۷۱شمسی، ص۳۸.
- ↑ آقا بزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعة، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۹.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۴۰.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۴۴۰.
- ↑ رجوع کیجیے: مدنی بجستانی، «میرزای شیرازی»، ص۳۹۲.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۷.
- ↑ مدنی، میرزای شیرازی: احیاگر قدرت فتوا، ۱۳۷۱شمسی، ص۲۷.
- ↑ مدنی، میرزای شیرازی: احیاگر قدرت فتوا، ۱۳۷۱شمسی، ص۲۸.
- ↑ مطلبی، «نجوم امت: حضرت آیتالله العظمی حاج میرزا سید محمدحسن شیرازی»، ص۶۷.
- ↑ مدنی، میرزای شیرازی: احیاگر قدرت فتوا، ۱۳۷۱شمسی، ص۳۰ و ۳۱.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۷.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۷.
- ↑ مطلبی، «نجوم امت: حضرت آیتالله العظمی حاج میرزا سید محمدحسن شیرازی»، ص۶۷.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۷.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۷.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۸.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۸.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۴۳۸.
- ↑ مدنی بجستانی، «میرزای شیرازی»، ص۳۸۷.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۸.
- ↑ مطلبی، «نجوم امت: حضرت آیتالله العظمی حاج میرزا سید محمدحسن شیرازی»، ص۷۰.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۸.
- ↑ شبیری زنجانی، جرعهای از دریا، ۱۳۸۹شمسی، ج۱، ص۱۱۱.
- ↑ دارابی،«حوزه علمیہ تقریبگرای سامرا و نقش میرزای شیرازی»، ص۴۱.
- ↑ مشاہدہ کیجیے: صحتی سردرودی، گزیده سیمای سامرا سینای سه موسی، ۱۳۸۸شمسی، ص۱۴۸ـ۱۴۴.
- ↑ حسینی، «نگاہی به مدرسہ قو نجف»، ص۴۲.
- ↑ دارابی، «حوزه علمیہ تقریبگرای سامرا و نقش میرزای شیرازی»، ص۴۱.
- ↑ دارابی، «حوزه علمیہ تقریبگرای سامرا و نقش میرزای شیرازی»، ص۴۲.
- ↑ اصفہانی کربلایی، تاریخ دخانیہ، ۱۳۷۷شمسی، ص۱۰۴-۱۰۸.
- ↑ بامداد، شرح حال رجال ایران، ۱۳۸۴شمسی، ج۱، ص۳۳۸؛ اصفہانی کربلایی، تاریخ دخانیہ، ۱۳۷۷شمسی، ص۱۷۲-۱۷۳.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۷، فوٹ نوٹ۱.
- ↑ مدنی، میرزای شیرازی: احیاگر قدرت فتوا، ۱۳۷۱شمسی، ص۷۹.
- ↑ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج ۴، ص ۳۷۹.
- ↑ حرزالدین، ج۳، ص۱۴۷؛ موسوی اصفهانی، ج۲، ص۱۲۳ـ۱۲۴؛ کفائی، ص۱۳۹
- ↑ رحمانستایش، مقالہ معرفی کتاب «الفوائد الرجالیہ».
- ↑ مدنی بجستانی، «میرزای شیرازی»، ص۳۸۷.
- ↑ ارباب قمی، اربعین حسینیہ، ۱۳۷۹شمسی، ص۹.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۶، ص۱۴۴.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۳، ص۴۰۴.
- ↑ مدنی بجستانی، «میرزای شیرازی»، ص۳۸۸.
- ↑ مؤسسہ فرہنگی ہنری قدر ولایت، در مشروطہ چہ گذشت؟، ۱۳۸۹شمسی، ص۶۳۸؛ مدنی بجستانی، «میرزای شیرازی»، ص۳۸۹.
- ↑ مدنی بجستانی، «میرزای شیرازی»، ص۳۸۹.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعة، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۴۴۰.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعة، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۴۰.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعة، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۴۰.
- ↑ وردی، لمحات اجتماعية من تاريخ العراق الحديث، ج۳، ص۹۰.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۴۱.
- ↑ انصاری، «آثار و تألیفات میرزای شیرازی»، ص۳۸۶.
- ↑ انصاری، «آثار و تألیفات میرزای شیرازی»، ص۳۸۶-۳۹۱.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعه، ۱۴۰۳ھ، ج۲۳، ص۱۹۹.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعة، ۱۴۰۳ھ، ج۲۰، ص۴۳.
- ↑ انصاری، «آثار و تألیفات میرزای شیرازی»، ص۳۹۱-۳۹۴.
- ↑ انصاری، «آثار و تألیفات میرزای شیرازی»، ص۳۹۱-۳۹۴.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعه، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۳۷، فوٹ نوٹ۱.
- ↑ انصاری، «آثار و تألیفات میرزای شیرازی»، ص۳۸۵.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعة، ۱۴۰۳ھ، ج۷، ص۱۱۶.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعة، ۱۴۰۳ھ، ج۱۰، ص۱۲۴-۱۲۵.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعة، ۱۴۰۳ھ، ج۱۰، ص۱۲۴-۱۲۵.
- ↑ «میرزای شیرازی احیاگر قدرت فتوا»، بنیاد محقق طباطبایی.
مآخذ
- آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، گردآورنده احمد بن محمد حسینی، بیروت، دارالاضواء، ۱۴۰۳ھ.
- آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعه و نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، تحقیق عبدالعزیز طباطبایی و محمد طباطبایی، مشهد، دارالمرتضی للنشر، الطبعة الثانیة، ۱۴۰۴ھ.
- ارباب، محمد، اربعین حسینیه، انتشارات اسوه، ۱۳۷۹شمسی.
- اصفهانی کربلایی، حسن، تاریخ دخانیه: یا تاریخ وقایع تحریم تنباکو، به کوشش رسول جعفریان، قم، دفتر نشر الهادی، ۱۳۷۷شمسی.
- امین، سید محسن، اعیان الشیعة، تحقیق حسن امین، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۰۳ھ.
- انصاری، ناصرالدین، «آثار و تألیفات میرزای شیرازی»، حوزه، دوره نهم شماره ۵۰و۵۱، خرداد، تیر و مرداد ۱۳۷۱شمسی.
- حسینی، سید علی، «نگاهی تطبیقی به مدرسه قم و نجف»، رهنامه پژوهش، شماره ۷، بهار ۱۳۹۰شمسی.
- دارابی، بهنام، حوزه علمیه تقریبگرای سامرا و نقش میرزای شیرازی، مطالعات تقریبی مذاهب اسلامی، شماره ۳۱، بهار ۱۳۹۲شمسی.
- شبیری زنجانی، سید موسی، جرعهای از دریا، قم: مؤسسه کتابشناسی شیعه، ۱۳۸۹شمسی.
- صحتی سردرودی، محمد، گزیده سیمای سامرا سینای سه موسی، تهران، مشعر، ۱۳۸۸ش.
- مؤسسه فرهنگی هنری قدر ولایت، در مشروطه چه گذشت؟، تهران، قدر ولایت، ۱۳۸۹شمسی.
- مدنی بجستانی، سید محمود، «میرزای شیرازی: احیاگر قدرت فتوا»، در گلشن ابرار(ج۱)، تهیه و تدوین جمعی از پژوهشگران حوزه علمیه قم، زیرنظر پژوهشکده باقرالعلوم وابسته به سازمان تبلیغات اسلامی، قم، نشر معروف، ۱۳۸۵شمسی.
- مدنی، سید محمود، میرزای شیرازی؛ احیاگر قدرت فتوا، قم، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ اول، زمستان ۱۳۷۱شمسی.
- مطلبی، سید ابوالحسن، «نجوم امت: حضرت آیتالله العظمی حاج میرزا سید محمدحسن شیرازی»، در مجله نور علم: نشریه جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، بهمن ۱۳۷۰-اردیبهشت ۱۳۷۱شمسی، ش۴۳-۴۴.