ابن سکیت

ویکی شیعہ سے
ابن سکیت
کوائف
نام:ابو یوسف یعقوب بن اسحاق دورقی اہوازی
لقب:ابن سکیّت
پیدائش186 ھ.ق
اصحابامام جوادؑ اور امام ہادیؑ
سماجی خدماتماہر ادیب و لغت شناس


یَعْقوب بن اِسْحاق دورَقی اَہوازی (186۔244 ھ)، اِبْن سِکّیت کے نام سے معروف، اپنے زمانے کے شیعہ ماہر ادیب، لغت شناس اور امام محمد تقی اور امام علی نقیؑ کے اصحاب میں سے تھے۔

آپ کو ابن سکیت کہنے کی وجہ آپ کے والد کی طولانی خاموشی اور سکوت بتایا جاتا ہے۔ علم نحو اور عربی ادبیات میں آپ کو شہرت حاصل تھی اور آپ کی مشہور تصنیف اصلاح المنطق ہے۔

جب متوکل عباسی نے اپنے بیٹوں (المعتز باللہ اور المؤید باللہ) کو حضرت علیؑ کے صاحبزادوں (حسنین) سے موازنہ کرتے ہوئے ان سے سوال کیا تو آپ نے کہا: حضرت علیؑ کا غلام قنبر تم اور تمہارے بیٹوں سے افضل ہے۔ اسی بات پر متوکل نے انہیں قتل کرنے کا حکم صادر کیا۔

ولادت اور کنیت

کہا گیا ہے کہ آپ سن 186 ھ[1] کو خوزستان کے شہر دورق میں پیدا ہوئے اور وہاں سے اپنے خاندان کے ساتھ بغداد چلے گئے تھے۔[2]

آپ کی کنیت ابن سکیت اور ابو یوسف ہے۔[3] سکیت آپ کے والد اسحاق کا لقب تھا جو انہیں طولانی سکوت اور خاموشی کی وجہ سے دیا گیا تھا۔[4]

شخصیت اور علمی مقام

شیعہ علماء انہیں امام جوادؑ اور امام ہادیؑ کے ان اصحاب میں سے قرار دیتے ہیں جنہیں ائمہ کے نزدیک ایک خاص احترام حاصل تھا۔[5] شیعہ علمائے رجال انہیں ثقہ، ماہر ادیب اور لغت شناس قرار دیتے ہیں۔[6] افندی اصفہانی ثعلب سے نقل کرتے ہیں کہ علم لغت میں ابن اعرابی کے بعد ابن سکیت سے بڑھ کر کوئی ماہر ادیب نہیں تھا۔[7]

مدرس تبریزی بھی انہیں شعر و ادب، علم نحو اور دیگر علوم عربیہ میں ماہر اور علم رجال میں ثقہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ شعر اور قرآنی علوم پر مکمل تسلط رکھتے تھے۔[8]

علمی آثار

ابن سکیت بہت ساری تصانیف کے مالک تھے اور ان کے علمی آثار کو علم لغت اور علم نحو کے منابع میں سے قرار دیا جاتا ہے۔

مطبوعہ آثار

  1. اصلاح المنطق؛ ان کی سب سے معروف تالیف
  2. الاضداد
  3. الالفاظ
  4. القلب و الابدال
  5. شرح دیوان الحُطَیئۃ
  6. شرح دیوان الخنساء
  7. دیوان طرفۃ بن عبد
  8. شرح دیوان عروۃ بن ورد
  9. شرح دیوان قیس بن خطیم
  10. شرح دیوان نابغہ ذبیانی
  11. شرح دیوان مزرّد

خطی آثار

  1. البحث
  2. المقصور و الممدود
  3. منطق الطیر و منطق الریاحین

منسوب آثار

  1. الابل
  2. الاجناس الکبیر
  3. الارضین و الجبال و الاودیۃ
  4. الاصوات
  5. الامثال
  6. ساب
  7. الانواع
  8. الایام و اللیالی
  9. البیان
  10. التصغیر
  11. التوسعہ فی کلام العرب
  12. خلق الانسان
  13. الدعاء
  14. الزبرج
  15. السرج و اللجام
  16. سرقات الشعراء و ما تواردوا علیہ
  17. الطرق
  18. الطیر
  19. فَعَل و اَفْعَل
  20. المثنی و المبنی و المکنی
  21. المذکر و المؤنث
  22. معانی الابیات
  23. معانی الشعر الکبیر
  24. معانی الشعر الصغیر
  25. النبات و الشجر
  26. النوادر
  27. الوحوش
  28. الحشرات
  29. ماجاء فی الشعر و ما حُرّف عن جہتہ

کیفیت شہادت

تاریخی مصادر کے مطابق آپ 5 رجب سنہ 244 ھ کو 58 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔[9] آپ کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں احادیث مختلف ہیں: بعض کہتے ہیں کہ آپ کو شیعہ ہونے کے جرم میں مارا گیا،[10] اس ضمن میں ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے آپ اور متوکل عباسی کے درمیان ہونے والی ایک گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ابن سکیت متوکل عباسی کے بیٹوں کے استاد تھے، ایک دن متوکل نے ان سے کہا: آیا تمہارے پاس میرے دو بیٹے "معتز باللہ" اور "مؤید بالله" زیادہ محبوب ہیں یا علی ابن ابی طالبؑ کے بیٹے حسنین؟ ابن سکیت نے عباسی خلیفہ کے جواب میں کہا: خدا کی قسم حضرت علیؑ کا غلام قنبر بھی تم اور تمہارے بیٹوں سے افضل ہیں۔ اس موقع پر متوکل سخت ناراض ہو گیا اور اس نے اپنے کارندوں کو ابن سکیت کی زبان کاٹنے کا حکم دیا۔[11] اس پر متوکل کے غلام نے انہیں پاؤں تلے روند ڈالا اسی حالت میں انہیں ان کے گھر لے جایا گیا جہاں پر آپ کی موت واقع ہوئی۔[12]

حوالہ جات

  1. دائرۃ المعارف تشیع، ج ۱، ص ۳۲۶.
  2. صدر، تأسیس الشیعہ، ۱۳۷۵ش، ص ۱۵۵.
  3. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۶ق، ص ۴۴۹.
  4. صدر، تأسیس الشیعہ، ۱۳۷۵ش، ص۱۵۵.
  5. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۶ق، ص ۴۴۹. تفرشی، نقد الرجال، ۱۴۱۸ق، ج ۵، ص ۹۴.
  6. حلی، خلاصۃ الاقوال، ۱۴۱۷ق، ص ۲۹۹.
  7. افندی، ریاض العلماء، ج۵، ص ۳۸۵.
  8. مدرس، ریحانۃ الادب، ۱۳۶۹ش، ج ۷، ص ۵۶ و ۵۷.
  9. دانش نامہ ایران و اسلام، ج ۲، ص ۶۳۱.
  10. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۶ق، ص ۴۴۹.
  11. خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ق، ج ۲۱، ص ۱۳۹.
  12. امین، اعیان الشیعہ، ج ۱۰، ص ۳۰۶.

مآخذ

  • نجاشی، احمد بن علی، رجال نجاشی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۶ق.
  • افندی، عبداللہ، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، قم، مطبعہ الخیام، بی‌ تا.
  • حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، نشر الفقاہۃ، ۱۴۱۷ق.
  • خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، بی‌ جا، بی‌ نا، ۱۴۱۳ق.
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف، بی‌ تا.
  • تفرشی، مصطفی بن حسین، نقد الرجال، قم، آل البیت، ۱۴۱۸ق.
  • مدرس تبریزی، محمد علی، ریحانہ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، تہران، خیام، ۱۳۶۹ش.
  • صدر، حسن، تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام، تہران، اعلمی، ۱۳۷۵ش.