مندرجات کا رخ کریں

"تفویض" کے نسخوں کے درمیان فرق

184 بائٹ کا ازالہ ،  16 دسمبر 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:


==تفویض، اسلامی علوم میں بکثرت استعمال ہونے والی اصطلاح ==
==تفویض، اسلامی علوم میں بکثرت استعمال ہونے والی اصطلاح ==
تفویض کی اصطلاح اسلامی علوم کے مختلف شعبوں میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے، جن میں حدیث، علم کلام، اخلاق اور اسلامی عرفان شامل ہیں اور ان میں سے ہر ایک شعبہ میں اس کے مختلف معنی ہیں۔<ref>ری‌شهری و دیگران، حکمت‌نامه پیامبر اعظم،، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۱۹۴.</ref> خصوصا کلامی اسلامی میں تفویض پر بہت زیادہ بحث ہوتی ہے<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، جبر و اختیار، ۱۳۸۱ش/۱۴۲۳ق، ص۳۵۹-۳۶۰؛ مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۴۸-۵۲. </ref> اور معتزلہ نامی ایک کلامی فرقہ کے پیروکاروں کو جبر و اختیار کے کے مسئلے میں مُفَوّضہ (اہل تفویض) کہا جاتا ہے۔<ref>بحرانی، المعجم الاصولی، ۱۴۲۸ق، ص۳۴۳-۳۴۴.</ref> لغت میں تفویض کے معنی ہیں سپرد کرنا۔<ref>قرشی بنایی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۲۱۲، ذیل «فوض».</ref>
تفویض کی اصطلاح اسلامی علوم کے مختلف شعبوں میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے، جن میں حدیث، علم کلام، اخلاق اور اسلامی عرفان شامل ہیں اور ان میں سے ہر ایک شعبہ میں اس کے مختلف معنی ہیں۔<ref>ری‌شهری و دیگران، حکمت‌نامه پیامبر اعظم،، 13۸۷ہجری شمسی، ج3، ص1۹4.</ref> خصوصا کلامی اسلامی میں تفویض پر بہت زیادہ بحث ہوتی ہے<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، جبر و اختیار، 13۸1ش/1423ھ، ص35۹-3۶0؛ مطهری، مجموعه آثار، 13۸4ہجری شمسی، ج1، ص4۸-52. </ref> اور معتزلہ نامی ایک کلامی فرقہ کے پیروکاروں کو جبر و اختیار کے کے مسئلے میں مُفَوّضہ (اہل تفویض) کہا جاتا ہے۔<ref>بحرانی، المعجم الاصولی، 142۸ھ، ص343-344.</ref> لغت میں تفویض کے معنی ہیں سپرد کرنا۔<ref>قرشی بنایی، قاموس قرآن، 1412ھ، ج5، ص212، ذیل «فوض».</ref>


== اسلامی علوم میں تفویض کے مختلف معانی کا استعمال==
== اسلامی علوم میں تفویض کے مختلف معانی کا استعمال==
[[شیعہ]] احادیث میں علمائے شیعہ کے مطابق تفویض کے کم از کم چار مختلف معانی زیر استعمال ہیں؛ جن میں سے بعض مثبت اور بعض منفی معنی میں شمار ہوتے ہیں: انسان کا اپنے افعال میں مکمل اختیار رکھنا(مکمل جبر کے بر خلاف معنی)،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۶۰؛ شیخ صدوق، توحید، ص۳۶۲.</ref> اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کرنا،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۳؛ طبرسی، مشکاةالانوار، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م، ص۱۶.</ref> [[چودہ معصومین|محمد و آل محمدؐ]] کی [[ولایت تشریعی]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۶۸؛ صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، ۱۳۹۱ش، ج۱، ص۹۷.</ref> اور ان کی [[ولایت تکوینی]] آنان.<ref>ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۹۷.</ref> اخلاق اور عرفان اسلامی میں تفویض کے معنی ہیں اپنے امور کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا جو کہ [[توکل]] سے ملتے جلتے معنی ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: کاشانی، شرح منازل السائرین، ۱۴۲۷ق، ص۳۲۹.</ref> علم کلام میں تفویض کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے افعال میں مکمل اختیار رکھتا ہے<ref>مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۴ش، ج۶، ص۶۲۸.</ref> لیکن شیعہ کلامی کتب میں اس مطلب کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ احادیث میں لفظ تفویض ولایت تشریعی اور ولایت تکوینی میں استعمال ہوا ہے؛ لہذا اس کے دیگر معانی بھی کلام میں استعمال کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۴ش، ج۳، ص۲۸۵-۲۸۶؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، ۱۳۹۳ش، ص۹۸-۱۰۰؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، ۱۳۸۵ش، ص۵۱.</ref>   
[[شیعہ]] احادیث میں علمائے شیعہ کے مطابق تفویض کے کم از کم چار مختلف معانی زیر استعمال ہیں؛ جن میں سے بعض مثبت اور بعض منفی معنی میں شمار ہوتے ہیں: انسان کا اپنے افعال میں مکمل اختیار رکھنا(مکمل جبر کے بر خلاف معنی)،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 140۷ھ، ج1، ص1۶0؛ شیخ صدوھ، توحید، ص3۶2.</ref> اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کرنا،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 140۷ھ، ج2، ص۶3؛ طبرسی، مشکاةالانوار، 13۸5ق/1۹۶5م، ص1۶.</ref> [[چودہ معصومین|محمد و آل محمدؐ]] کی [[ولایت تشریعی]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 140۷ھ، ج1، ص2۶۸؛ صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، 13۹1ہجری شمسی، ج1، ص۹۷.</ref> اور ان کی [[ولایت تکوینی]] آنان.<ref>ملاحظہ کریں: شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص۹۷.</ref> اخلاق اور عرفان اسلامی میں تفویض کے معنی ہیں اپنے امور کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا جو کہ [[توکل]] سے ملتے جلتے معنی ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: کاشانی، شرح منازل السائرین، 142۷ھ، ص32۹.</ref> علم کلام میں تفویض کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے افعال میں مکمل اختیار رکھتا ہے<ref>مطهری، مجموعه آثار، 13۸4ہجری شمسی، ج۶، ص۶2۸.</ref> لیکن شیعہ کلامی کتب میں اس مطلب کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ احادیث میں لفظ تفویض ولایت تشریعی اور ولایت تکوینی میں استعمال ہوا ہے؛ لہذا اس کے دیگر معانی بھی کلام میں استعمال کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مطهری، مجموعه آثار، 13۸4ہجری شمسی، ج3، ص2۸5-2۸۶؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 13۹3ہجری شمسی، ص۹۸-100؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، 13۸5ہجری شمسی، ص51.</ref>   


== اختیار ==
== اختیار ==
[[علم کلام|کلام اسلامی]] میں تفویض جبر و اختیار کے مسئلے میں زیر بحث آتی ہے۔<ref>مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۴ش، ج۲۳، ص۳۰۷.</ref> [[معتزلہ]] کا عقیدہ ہے کہ [[اللہ تعالیٰ]] انسان کے افعال و اعمال میں کوئی دخالت نہیں کرتا؛ یعنی اللہ نے انسان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے لہذا وہ اپنے اعمال میں مکمل اختیار رکھتا ہے۔<ref>مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۴ش، ج۶، ص۶۲۸.</ref> اس کے مقابلے میں تفویض کے دوسرے معنی جبر مطلق کے ہیں جس کا [[اشاعرہ]] دفاع کرتے ہیں۔<ref>مطهری، مجموعه آثار،۱۳۸۴ش، ج۲۳، ج۳۰۷.</ref>
[[علم کلام|کلام اسلامی]] میں تفویض جبر و اختیار کے مسئلے میں زیر بحث آتی ہے۔<ref>مطهری، مجموعه آثار، 13۸4ہجری شمسی، ج23، ص30۷.</ref> [[معتزلہ]] کا عقیدہ ہے کہ [[اللہ تعالیٰ]] انسان کے افعال و اعمال میں کوئی دخالت نہیں کرتا؛ یعنی اللہ نے انسان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے لہذا وہ اپنے اعمال میں مکمل اختیار رکھتا ہے۔<ref>مطهری، مجموعه آثار، 13۸4ہجری شمسی، ج۶، ص۶2۸.</ref> اس کے مقابلے میں تفویض کے دوسرے معنی جبر مطلق کے ہیں جس کا [[اشاعرہ]] دفاع کرتے ہیں۔<ref>مطهری، مجموعه آثار،13۸4ہجری شمسی، ج23، ج30۷.</ref>


شیعه حضرات [[ائمہ معصومینؑ]] کی احادیث کی روشنی میں نہ مکمل طور پر جبر کا عقیدہ رکھتے ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر اختیار کا؛ بلکہ ان میں سے ایک درمیانی راہ اپناتے ہیں<ref>سبحانی، جبر و اختیار، ۱۳۸۱ش/۱۴۲۳ق، ص۴۱۱.</ref> جسے "امرٌ بَینَ الْاَمرَین" سے تعبیر کرتے ہیں؛<ref>سبحانی، جبر و اختیار، ۱۳۸۱ش/۱۴۲۳ق، ص۴۱۱.</ref> یعنی انسان ایک مختار موجود ہے؛ لیکن اس کے افعال کو اللہ کی طرف بھی نسبت دی جاتی ہے؛ کیونکہ جہاں انسان کا وجود اللہ سے ہے وہاں اس سے صادر ہونے والے افعال بھی اسی سے وابستہ ہیں۔<ref>سبحانی، جبر و اختیار، ۱۳۸۱ش/۱۴۲۳ق، ص۴۳۱-۴۳۲.</ref>
شیعه حضرات [[ائمہ معصومینؑ]] کی احادیث کی روشنی میں نہ مکمل طور پر جبر کا عقیدہ رکھتے ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر اختیار کا؛ بلکہ ان میں سے ایک درمیانی راہ اپناتے ہیں<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 13۸1ش/1423ھ، ص411.</ref> جسے "امرٌ بَینَ الْاَمرَین" سے تعبیر کرتے ہیں؛<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 13۸1ش/1423ھ، ص411.</ref> یعنی انسان ایک مختار موجود ہے؛ لیکن اس کے افعال کو اللہ کی طرف بھی نسبت دی جاتی ہے؛ کیونکہ جہاں انسان کا وجود اللہ سے ہے وہاں اس سے صادر ہونے والے افعال بھی اسی سے وابستہ ہیں۔<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 13۸1ش/1423ھ، ص431-432.</ref>


شیعہ منابع حدیثی، جیسے [[الکافی (کتاب)|الکافی]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۵۵.</ref> [[التوحید (کتاب)|توحید]]،<ref>شیخ صدوق، توحید، ص۳۵۹.</ref> [[الاعتقادات (کتاب)|الاعتقادات]]<ref>شیخ صدوق، اعتقادات الامامیه، ۱۴۱۴ق، ص۲۹.</ref> اور [[بحار الانوار (کتاب)|بحارالانوار]] وغیرہ<ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵، ص۲.</ref> میں کچھ ابواب جبر و اختیار مطلق کے رد اور "اَمرٌ بَینَ الْاَمرَین" کی تائید کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ [[شیخ کلینی]] کی کتاب الکافی اور [[شیخ صدوق]] کی کتاب التوحید میں [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام جعفرصادقؑ]] سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے: "لَا جَبْرَ وَ لَا تَفْوِيضَ وَ لَكِنْ أَمْرٌ بَيْنَ أَمْرَيْن؛ نہ جبر نہ تفویض؛ بلکہ ان دونوں میں سے صرف درمیانی راہ صحیح اور درست ہے۔"<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۶۰؛ شیخ صدوق، توحید، ص۳۶۲.</ref>
شیعہ منابع حدیثی، جیسے [[الکافی (کتاب)|الکافی]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 140۷ھ، ج1، ص155.</ref> [[التوحید (کتاب)|توحید]]،<ref>شیخ صدوھ، توحید، ص35۹.</ref> [[الاعتقادات (کتاب)|الاعتقادات]]<ref>شیخ صدوھ، اعتقادات الامامیه، 1414ھ، ص2۹.</ref> اور [[بحار الانوار (کتاب)|بحارالانوار]] وغیرہ<ref> مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج5، ص2.</ref> میں کچھ ابواب جبر و اختیار مطلق کے رد اور "اَمرٌ بَینَ الْاَمرَین" کی تائید کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ [[شیخ کلینی]] کی کتاب الکافی اور [[شیخ صدوق]] کی کتاب التوحید میں [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام جعفرصادقؑ]] سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے: "لَا جَبْرَ وَ لَا تَفْوِيضَ وَ لَكِنْ أَمْرٌ بَيْنَ أَمْرَيْن؛ نہ جبر نہ تفویض؛ بلکہ ان دونوں میں سے صرف درمیانی راہ صحیح اور درست ہے۔"<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 140۷ھ، ج1، ص1۶0؛ شیخ صدوھ، توحید، ص3۶2.</ref>


== امور کو اللہ کے سپرد کرنا ==
== امور کو اللہ کے سپرد کرنا ==
{{نقل قول | عنوان = پیغمبر خداؐ| نقل‌ قول = {{حدیث|انسان کا اللہ پر ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک اس میں پانچ خصوصیات نہ ہوں: اللہ پر توکل، تمام امور اسی کے سپرد کرنا، اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، قضائے الہی پر راضی ہونا اور امتحان الہی میں صبر و تحمل۔}}
{{نقل قول | عنوان = پیغمبر خداؐ| نقل‌ قول = {{حدیث|انسان کا اللہ پر ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک اس میں پانچ خصوصیات نہ ہوں: اللہ پر توکل، تمام امور اسی کے سپرد کرنا، اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، قضائے الہی پر راضی ہونا اور امتحان الہی میں صبر و تحمل۔}}


|تاریخ بایگانی | مآخذ = <small>حسن بن محمد دیلمی، [[اعلام الدین فی صفات المؤمنین (کتاب)|اَعلام‌الدین]]، ۱۴۰۸ھ، ص۳۳۴. </small>| تراز = چپ| چوڑائی= 230px | اندازہ خط = 15px|بیگ کراونڈ کلر=#ecfcf4| گیومہ نقل‌ قول = | سمت مآخذ = بائیں}}
|تاریخ بایگانی | مآخذ = <small>حسن بن محمد دیلمی، [[اعلام الدین فی صفات المؤمنین (کتاب)|اَعلام‌الدین]]، 140۸ھ، ص334. </small>| تراز = چپ| چوڑائی= 230px | اندازہ خط = 15px|بیگ کراونڈ کلر=#ecfcf4| گیومہ نقل‌ قول = | سمت مآخذ = بائیں}}
[[ملف:آیه افوض امری الی الله.jpg|تصغیر|350px|[[سوره غافر]] آیت 44"اُفَوِّضُ اَمْری اِلَى الله"؛ میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں"، کی عثمانی اور صفویہ دور میں خط نستعلیق میں خطاطی کی ایک تصویر]]
[[ملف:آیه افوض امری الی الله.jpg|تصغیر|350px|[[سوره غافر]] آیت 44"اُفَوِّضُ اَمْری اِلَى الله"؛ میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں"، کی عثمانی اور صفویہ دور میں خط نستعلیق میں خطاطی کی ایک تصویر]]


[[محدثین]] کے عقیدے کے مطابق بعض [[احادیث]] میں تفویض "امور کو اللہ کے سپرد کرنے" کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ بعض منابع حدیثی میں کچھ ابواب "اللہ پر تفویض اور اس پر توکل" کے عنوان سے بیان ہوئے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۶۳؛ طبرسی، مشکاةالانوار، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م، ص۱۶.</ref> ان احادیث میں سے ایک حدیث میں [[امام موسی کاظمؑ]] سے ایک روایت نقل کی گئی ہے: "توکل کے کئی درجے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے تمام امور میں اللہ پر تکیہ کرو، ہر حالت میں اسی پر راضی رہو، اس بات پر یقین رکھو کہ وہ تجھے اپنے خیر و فضل کے عطا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اور خود ہی اس کے بارے میں بہتر جانتا ہے۔ پس اپنے امور کو اسی پر تفویض کرو اور اسی پر توکل کر اور اپنے اور دوسروں کے امور کے سلسلے میں صرف اسی پر بھروسہ رکھو۔"<ref>کلینی، کافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۶۵.</ref>
[[محدثین]] کے عقیدے کے مطابق بعض [[احادیث]] میں تفویض "امور کو اللہ کے سپرد کرنے" کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ بعض منابع حدیثی میں کچھ ابواب "اللہ پر تفویض اور اس پر توکل" کے عنوان سے بیان ہوئے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 140۷ھ، ج2، ص۶3؛ طبرسی، مشکاةالانوار، 13۸5ق/1۹۶5م، ص1۶.</ref> ان احادیث میں سے ایک حدیث میں [[امام موسی کاظمؑ]] سے ایک روایت نقل کی گئی ہے: "توکل کے کئی درجے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے تمام امور میں اللہ پر تکیہ کرو، ہر حالت میں اسی پر راضی رہو، اس بات پر یقین رکھو کہ وہ تجھے اپنے خیر و فضل کے عطا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اور خود ہی اس کے بارے میں بہتر جانتا ہے۔ پس اپنے امور کو اسی پر تفویض کرو اور اسی پر توکل کر اور اپنے اور دوسروں کے امور کے سلسلے میں صرف اسی پر بھروسہ رکھو۔"<ref>کلینی، کافی، 140۷ھ، ج2، ص۶5.</ref>


[[حضرت علیؑ]] کی ایک حدیث میں آیا ہے: "[[ایمان]] کے چار ارکان ہیں: اللہ پر [[توکل]]، تمام امور کو اسی کے سپرد کرنا، قضائے الہی پر راضی ہونا اور امر خدا کے سامنے تسلیم ہونا۔"<ref>کلینی، کافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۴۷؛ طبرسی، مشکاةالانوار، ۱۳۸۵ھ/۱۹۶۵ء، ص۱۸.</ref>
[[حضرت علیؑ]] کی ایک حدیث میں آیا ہے: "[[ایمان]] کے چار ارکان ہیں: اللہ پر [[توکل]]، تمام امور کو اسی کے سپرد کرنا، قضائے الہی پر راضی ہونا اور امر خدا کے سامنے تسلیم ہونا۔"<ref>کلینی، کافی، 140۷ھ، ج2، ص4۷؛ طبرسی، مشکاةالانوار، 13۸5ھ/1۹۶5ء، ص1۸.</ref>


بعض اخلاقی اور عرفانی کتب میں بھی تفویض کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کاشانی، شرح منازل السائرین، ۱۴۲۷ھ، ص۳۲۹؛ زین‌الدین رازی، حدائق‌الحقائق، ۱۴۲۲، ص۱۱۵. ژنده‌پیل، کنوزالحکمه، ۱۳۸۷ش، ص۵۳؛ فیض کاشانی، الشافی، ۱۴۲۵ھ، ج۱، ص۴۹۶.</ref> پانچویں صدی ہجری کے عارف باللہ خواجه عبد الله انصاری نے اپنی کتاب "منازل‌ السّائرین میں تفویض کو سیر و سلوک کا ایک مرحلہ قرار دیا ہے، جس میں انسان مکمل طور پر اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے۔ خواجہ کے مطابق توکل تفویض کی ایک شاخ ہے۔<ref>کاشانی، شرح منازل السائرین، ۱۴۲۷ھ، ص۳۲۹.</ref>
بعض اخلاقی اور عرفانی کتب میں بھی تفویض کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کاشانی، شرح منازل السائرین، 142۷ھ، ص32۹؛ زین‌الدین رازی، حدائق‌الحقائھ، 1422، ص115. ژنده‌پیل، کنوزالحکمه، 13۸۷ہجری شمسی، ص53؛ فیض کاشانی، الشافی، 1425ھ، ج1، ص4۹۶.</ref> پانچویں صدی ہجری کے عارف باللہ خواجه عبد الله انصاری نے اپنی کتاب "منازل‌ السّائرین میں تفویض کو سیر و سلوک کا ایک مرحلہ قرار دیا ہے، جس میں انسان مکمل طور پر اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے۔ خواجہ کے مطابق توکل تفویض کی ایک شاخ ہے۔<ref>کاشانی، شرح منازل السائرین، 142۷ھ، ص32۹.</ref>


ان کے مطابق تفویض کے تین درجے ہیں:
ان کے مطابق تفویض کے تین درجے ہیں:
سطر 33: سطر 33:
# اس بات کو جانو کہ بندہ اپنے عمل کی انجام دہی میں کوئی طاقت نہیں رکھتا۔ پس اللہ کی تدبیر سے اپنے آپ کو محفوظ مت سمجھو، اس کی مدد سے ناامید مت ہوجاؤ اور صرف اپنے ارادے پر بھروسہ نہ کرو۔
# اس بات کو جانو کہ بندہ اپنے عمل کی انجام دہی میں کوئی طاقت نہیں رکھتا۔ پس اللہ کی تدبیر سے اپنے آپ کو محفوظ مت سمجھو، اس کی مدد سے ناامید مت ہوجاؤ اور صرف اپنے ارادے پر بھروسہ نہ کرو۔
# اپنی ناداری اور مجبوری کو مد نظر رکھ کر اللہ پر یقین رکھو۔ کسی عمل کو اپنی نجات کا باعث اور کسی گناہ کو ہلاکت کا موجب تصور نہ کرو اور اللہ کے سوا کسی چیز کو موثر مت جانو۔
# اپنی ناداری اور مجبوری کو مد نظر رکھ کر اللہ پر یقین رکھو۔ کسی عمل کو اپنی نجات کا باعث اور کسی گناہ کو ہلاکت کا موجب تصور نہ کرو اور اللہ کے سوا کسی چیز کو موثر مت جانو۔
# یقین کرو کہ حرکت و سکون اور تمام امور کا اختیار صر ف اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے۔ جان لو کہ وہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے۔<ref>کاشانی، شرح منازل السائرین، ۱۴۲۷ھ، ص۳۳۱-۳۳۲.</ref>
# یقین کرو کہ حرکت و سکون اور تمام امور کا اختیار صر ف اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے۔ جان لو کہ وہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے۔<ref>کاشانی، شرح منازل السائرین، 142۷ھ، ص331-332.</ref>


== ولایت تشریعی ==
== ولایت تشریعی ==
{{اصلی|ولایت تشریعی}}
{{اصلی|ولایت تشریعی}}
ائمہؑ سے منقول بعض احادیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے دینی امور کو پیغمبر خداؐ اور اماموں پر "تفویض" کیا ہے۔<ref>کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۶۸.</ref> بعض شیعہ منابع حدیثی میں "تفویض امر دین به پیغمبر و امام" کے عنوان سے باقاعدہ الگ باب کا عنوان ملتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۶۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷، ص۱.</ref> علمائے شیعه نے اسے "ولایت تشریعی" کے ضمن میں بحث کی ہے۔ یہاں ولایت تشریعی سےمراد دین میں قانون گزاری کا حق ہے؛ یعنی تشریع احکام عبادی، اقتصادی، سیاسی، حقوقی وغیرہ۔<ref>صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، ۱۳۹۱ش، ج۱، ص۹۷.</ref>
ائمہؑ سے منقول بعض احادیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے دینی امور کو پیغمبر خداؐ اور اماموں پر "تفویض" کیا ہے۔<ref>کلینی، کافی، 140۷ھ، ج1، ص2۶۸.</ref> بعض شیعہ منابع حدیثی میں "تفویض امر دین به پیغمبر و امام" کے عنوان سے باقاعدہ الگ باب کا عنوان ملتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 140۷ھ، ج1، ص2۶5؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج۷، ص1.</ref> علمائے شیعه نے اسے "ولایت تشریعی" کے ضمن میں بحث کی ہے۔ یہاں ولایت تشریعی سےمراد دین میں قانون گزاری کا حق ہے؛ یعنی تشریع احکام عبادی، اقتصادی، سیاسی، حقوقی وغیرہ۔<ref>صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، 13۹1ہجری شمسی، ج1، ص۹۷.</ref>


ولایت تشریعی کے سلسلے میں علما کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے: بعض کا کہنا ہے کہ اسلام میں کسی کو اللہ نے قانون گزار کا حق نہیں دیا ہے؛ یہ صرف اسی کا حق ہے لہا اللہ نے بطور مطلق یہ معاملہ کسی کو تفویض نہیں کیا ہے۔<ref name=":0">سبحانی، مفاهیم‌القرآن، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۶۱۰؛ صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، ۱۳۹۱ش، ج۱، ص۹۹، ۱۰۱.</ref> بعض علما کہتے ہیں کہ بعض احادیث کے مطابق چند مقامات پر اللہ نے پیغمبرؐ کو تشریع کا حق دیا ہے لہذا پیغمبرخداؐ کی ولایت تشریعی کو قبول کرتے ہیں۔<ref name=":1">سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، ۱۳۸۵ش، ص۲۰-۲۱؛ صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، ۱۳۹۱ش، ج۱، ص۱۰۱-۱۰۲.</ref> ان دو گروہوں کے مقابلے میں بعض علما کا کہنا ہے کہ اللہ نے دین کے تمام امور میں پیغمبر خداؐ اور ائمہؑ کو ولایت تشریعی عنایت کی ہے۔<ref name=":2">غروی اصفهانی، حاشیة کتاب المکاسب، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۳۷۹؛ عاملی، الولایةُ التکوینیه و التشریعیه، ۱۴۲۸ق، ص۶۰-۶۳؛ حسینی تهرانی، امام‌شناسی، ج۵، ۱۴۱۸ق، ص۱۱۴، ۱۷۹.</ref>
ولایت تشریعی کے سلسلے میں علما کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے: بعض کا کہنا ہے کہ اسلام میں کسی کو اللہ نے قانون گزار کا حق نہیں دیا ہے؛ یہ صرف اسی کا حق ہے لہا اللہ نے بطور مطلق یہ معاملہ کسی کو تفویض نہیں کیا ہے۔<ref name=":0">سبحانی، مفاهیم‌القرآن، 1421ھ، ج1، ص۶10؛ صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، 13۹1ہجری شمسی، ج1، ص۹۹، 101.</ref> بعض علما کہتے ہیں کہ بعض احادیث کے مطابق چند مقامات پر اللہ نے پیغمبرؐ کو تشریع کا حق دیا ہے لہذا پیغمبرخداؐ کی ولایت تشریعی کو قبول کرتے ہیں۔<ref name=":1">سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، 13۸5ہجری شمسی، ص20-21؛ صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، 13۹1ہجری شمسی، ج1، ص101-102.</ref> ان دو گروہوں کے مقابلے میں بعض علما کا کہنا ہے کہ اللہ نے دین کے تمام امور میں پیغمبر خداؐ اور ائمہؑ کو ولایت تشریعی عنایت کی ہے۔<ref name=":2">غروی اصفهانی، حاشیة کتاب المکاسب، 142۷ھ، ج2، ص3۷۹؛ عاملی، الولایةُ التکوینیه و التشریعیه، 142۸ھ، ص۶0-۶3؛ حسینی تهرانی، امام‌شناسی، ج5، 141۸ھ، ص114، 1۷۹.</ref>


== ولایت تکوینی ==
== ولایت تکوینی ==
{{اصلی|ولایت تکوینی}}
{{اصلی|ولایت تکوینی}}
ائمہؑ کی بعض احادیث میں آیا ہے کہ اللہ نے کائنات کی چند چیزوں مثلا تخلیق، روزی دینا، زندہ کرنا اور موت دینا وغیرہ کا اختیار پیغمبر خداؐ اور امام علیؑ کو تفویض نہیں کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۹۷.</ref> اس کے مقابلے میں بعض علما کہتے ہیں کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرخداؐ اور ائمہ معصومینؑ اس کائنات پر نازل ہونے والے فیض الہی کے واسطے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، علی، «نقش فاعلی امام در نظام آفرینش»، ص۲۰-۲۵.</ref> علمائے شیعہ اس مسئلے کو "ولایت تکوینی" کا نام دیتے ہیں اور اس سلسلے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں:
ائمہؑ کی بعض احادیث میں آیا ہے کہ اللہ نے کائنات کی چند چیزوں مثلا تخلیھ، روزی دینا، زندہ کرنا اور موت دینا وغیرہ کا اختیار پیغمبر خداؐ اور امام علیؑ کو تفویض نہیں کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص۹۷.</ref> اس کے مقابلے میں بعض علما کہتے ہیں کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرخداؐ اور ائمہ معصومینؑ اس کائنات پر نازل ہونے والے فیض الہی کے واسطے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، علی، «نقش فاعلی امام در نظام آفرینش»، ص20-25.</ref> علمائے شیعہ اس مسئلے کو "ولایت تکوینی" کا نام دیتے ہیں اور اس سلسلے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں:


بعض علما کا کہنا ہے کہ رسول خداؐ اور ائمہؑ کو سوائے چند موارد کے تمام امور میں ولایت تکوینی حاصل نہیں ہے۔ [[مرتضی مطہری]]، [[لطف‌ اللہ صافی گلپایگانی|صافی گلپایگانی]] اور [[جعفر سبحانی]] اس نظریے کے قائل ہیں۔ <ref>مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۸۴ش، ج۳، ص۲۸۵-۲۸۶؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، ۱۳۹۳ش، ص۹۸-۱۰۰؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، ۱۳۸۵ش، ص۵۱.</ref> [[شیخ صدوق]] اور [[شیخ مفید]] نے مخلوقات کے امور کو پیغمبرخداؐ اور ائمہؑ پر تفویض کیے جانے کو رد کرتے ہیں اور اسے غالیوں کا نظریہ قرار دیتے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۹۷، ۱۰۰؛ شیخ مفید، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، ۱۴۱۴ق، ج۵، ص۱۳۴.</ref> اس کے مقابلے میں بعض دیگر علما جیسے [[محمد حسین غروی اصفہانی]] اور [[سید محمد حسین حسینی طہرانی|سید محمدحسین حسینی تہرانی]] کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر خداؐ اور ائمہ معصومینؑ کو کائنات کے تمام امور میں ولایت تکوینی حاصل ہے اور عالم ہستی میں فیض الہی کے واسطے ہیں۔<ref>غروی اصفهانی، حاشیة کتاب المکاسب، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۳۷۹؛ حسینی تهرانی، امام‌شناسی، ج۵، ۱۴۱۸ق، ص۱۱۴.</ref>
بعض علما کا کہنا ہے کہ رسول خداؐ اور ائمہؑ کو سوائے چند موارد کے تمام امور میں ولایت تکوینی حاصل نہیں ہے۔ [[مرتضی مطہری]]، [[لطف‌ اللہ صافی گلپایگانی|صافی گلپایگانی]] اور [[جعفر سبحانی]] اس نظریے کے قائل ہیں۔ <ref>مطهری، مجموعه آثار، 13۸4ہجری شمسی، ج3، ص2۸5-2۸۶؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 13۹3ہجری شمسی، ص۹۸-100؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، 13۸5ہجری شمسی، ص51.</ref> [[شیخ صدوق]] اور [[شیخ مفید]] نے مخلوقات کے امور کو پیغمبرخداؐ اور ائمہؑ پر تفویض کیے جانے کو رد کرتے ہیں اور اسے غالیوں کا نظریہ قرار دیتے ہیں۔<ref>شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص۹۷، 100؛ شیخ مفید، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، 1414ھ، ج5، ص134.</ref> اس کے مقابلے میں بعض دیگر علما جیسے [[محمد حسین غروی اصفہانی]] اور [[سید محمد حسین حسینی طہرانی|سید محمدحسین حسینی تہرانی]] کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر خداؐ اور ائمہ معصومینؑ کو کائنات کے تمام امور میں ولایت تکوینی حاصل ہے اور عالم ہستی میں فیض الہی کے واسطے ہیں۔<ref>غروی اصفهانی، حاشیة کتاب المکاسب، 142۷ھ، ج2، ص3۷۹؛ حسینی تهرانی، امام‌شناسی، ج5، 141۸ھ، ص114.</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 52: سطر 52:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* بحرانی، محمد صنقور علی، المعجم الاصولی، قم، منشورات الطیار، چاپ دوم، ۱۴۲۸ھ۔
* بحرانی، محمد صنقور علی، المعجم الاصولی، قم، منشورات الطیار، چاپ دوم، 142۸ھ۔
* حسینی تهرانی، سیدمحمدحسین، امام‌شناسی، مشهد، انتشارات علامه طباطبایی، ۱۴۱۸ھ۔
* حسینی تهرانی، سیدمحمدحسین، امام‌شناسی، مشهد، انتشارات علامه طباطبایی، 141۸ھ۔
* دیلمی، حسن بن محمد، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، تحقیق و تصحیح مؤسسه آل‌البیت، قم، مؤسسه آل‌البیت، چاپ اول، ۱۴۰۸ھ۔
* دیلمی، حسن بن محمد، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، تحقیق و تصحیح مؤسسه آل‌البیت، قم، مؤسسه آل‌البیت، چاپ اول، 140۸ھ۔
* ربانی گلپایگانی، علی، «نقش فاعلی امام در نظام آفرینش»، در انتظار موعود شماره ۲۹، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
* ربانی گلپایگانی، علی، «نقش فاعلی امام در نظام آفرینش»، در انتظار موعود شماره 2۹، 13۸۸ہجری شمسی۔
* ری‌شهری، محمد و دیگران، حکمت‌نامه پیامبر اعظم، قم، مؤسسه علمی فرهنگی دارالحدیث، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
* ری‌شهری، محمد و دیگران، حکمت‌نامه پیامبر اعظم، قم، مؤسسه علمی فرهنگی دارالحدیث، 13۸۷ہجری شمسی۔
* زین‌الدین رازی، محمد بن ابوبکر، حدائق‌الحقائق، تحقیق سعید عبدالفتاح، قاهره، مکتبة الثقافه الدینیه، چاپ اول، ۱۴۲۲ھ۔
* زین‌الدین رازی، محمد بن ابوبکر، حدائق‌الحقائھ، تحقیق سعید عبدالفتاح، قاهره، مکتبة الثقافه الدینیه، چاپ اول، 1422ھ۔
* ژنده‌پیل، احد بن ابوالحسن، کنوزالحکمه، تصحیح و تعلیق حسن نصیری جامی، تهران، پژوهشگاه علوم انسانی و مطالعات فرهنگی، چاپ اول، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
* ژنده‌پیل، احد بن ابوالحسن، کنوزالحکمه، تصحیح و تعلیق حسن نصیری جامی، تهران، پژوهشگاه علوم انسانی و مطالعات فرهنگی، چاپ اول، 13۸۷ہجری شمسی۔
* سبحانی، جعفر، جبر و اختیار، تنظیم علی ربانی گلپایگانی، قم، مؤسسه امام صادق، ۱۳۸۱ش/۱۴۲۳ھ۔
* سبحانی، جعفر، جبر و اختیار، تنظیم علی ربانی گلپایگانی، قم، مؤسسه امام صادھ، 13۸1ش/1423ھ۔
* سبحانی، جعفر، مفاهیم‌القرآن، به‌قلم جعفر الهادی، قم، مؤسسه امام صادق، ۱۴۲۱ھ۔
* سبحانی، جعفر، مفاهیم‌القرآن، به‌قلم جعفر الهادی، قم، مؤسسه امام صادھ، 1421ھ۔
* سبحانی، جعفر، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، قم، مؤسسه امام صادق، ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
* سبحانی، جعفر، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، قم، مؤسسه امام صادھ، 13۸5ہجری شمسی۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، اعتقادات‌الامامیه، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ھ۔
* شیخ صدوھ، محمد بن علی، اعتقادات‌الامامیه، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، تحقیق و تصحیح هاشم حسینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ اول، ۱۳۹۸ھ۔
* شیخ صدوھ، محمد بن علی، التوحید، تحقیق و تصحیح هاشم حسینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ اول، 13۹۸ھ۔
* شیخ مفید، محمد بن محمد، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، بیروت، دارالمفید، ۱۴۱۴ھ۔
* شیخ مفید، محمد بن محمد، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
* صافی گلپایگانی، لطف‌الله، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی، ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
* صافی گلپایگانی، لطف‌الله، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی، 13۹1ہجری شمسی۔
* صافی گلپایگانی، لطف‌الله، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی، ۱۳۹۳ہجری شمسی۔
* صافی گلپایگانی، لطف‌الله، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی، 13۹3ہجری شمسی۔
* طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الانوار فی غرر الاخبار، نجف، المکتبة الحیدریه، چاپ دوم، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵ء۔
* طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الانوار فی غرر الاخبار، نجف، المکتبة الحیدریه، چاپ دوم، 13۸5ق/1۹۶5ء۔
* عاملی، سیدجعفر مرتضی، الولایة التکوینیة و التشریعیة، مرکز الاسلامی للدراسات، چاپ دوم، ۱۴۲۸ھ۔
* عاملی، سیدجعفر مرتضی، الولایة التکوینیة و التشریعیة، مرکز الاسلامی للدراسات، چاپ دوم، 142۸ھ۔
* غروی اصفهانی، محمدحسین، حاشیةالمکاسب، قم، ذوی‌القربیٰ، ۱۴۲۷ھ۔
* غروی اصفهانی، محمدحسین، حاشیةالمکاسب، قم، ذوی‌القربیٰ، 142۷ھ۔
* فیض کاشانی، محمد بن شاه‌مرتضی، الشافی فی العقاید و الاخلاق و الاحکام، تحقیق مهدی انصاری قمی، تهران، لوح محفوظ، چاپ اول، ۱۴۲۵ھ۔
* فیض کاشانی، محمد بن شاه‌مرتضی، الشافی فی العقاید و الاخلاق و الاحکام، تحقیق مهدی انصاری قمی، تهران، لوح محفوظ، چاپ اول، 1425ھ۔
* قرشی بنایی، علی‌اکبر، قاموس قرآن، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ ششم، ۱۴۱۲ھ۔
* قرشی بنایی، علی‌اکبر، قاموس قرآن، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ ششم، 1412ھ۔
* کاشانی، عبدالرزاق، شرح منازل السائرین، تصحیح محسن بیدارفر، قم، بیدار، چاپ سوم، ۱۴۲۷ھ۔
* کاشانی، عبدالرزاھ، شرح منازل السائرین، تصحیح محسن بیدارفر، قم، بیدار، چاپ سوم، 142۷ھ۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دار الکتب الاسلامیة، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ھ۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دار الکتب الاسلامیة، چاپ چهارم، 140۷ھ۔
* مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطهار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
* مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطهار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
* مطهری، مرتضی، مجموعه آثار استاد شهید مطهری، تهران، صدرا، ۱۳۸۴ہجری شمسی۔
* مطهری، مرتضی، مجموعه آثار استاد شهید مطهری، تهران، صدرا، 13۸4ہجری شمسی۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
{{معتزلہ}}
{{معتزلہ}}
confirmed، movedable
5,154

ترامیم