بیت النور (قم)
ابتدائی معلومات | |
---|---|
استعمال | زیارت گاہ |
محل وقوع | قم |
دیگر اسامی | مدرسہ ستیہ |
مشخصات | |
موجودہ حالت | فعال |
معماری |
بَیْتُ النّور، شہر قم میں حضرت معصومہؑ کے محل اقامت اور عبادت گاہ کو کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ در اصل موسی بن خزرج کا مکان تھی جو حضرت معصومہؑ کی وفات کے بعد محراب یا معبد فاطمہؑ کے نام سے وقف ہوئی جسے بعد میں بیت النور یا بقعہ ستیہ کا نام دیا گیا۔ کئی سالوں بعد اس کے اطراف میں مسجد اور مدرسہ بنایا گیا ؛ مدرسے کا نام مدرسہ ستیہ رکھا گیا۔ اس مکان کی نگرانی سادات میرہای کے ذمے ہے۔ ہر سال حضرت معصومہ کی ولادت، وفات اور قم میں آپ کی آمد کی تاریخوں میں اس مقام پر مختلف پروگرامز منعقد ہوتے ہیں۔
محل وقوع
بیت النور، قم حضرت معصومہؑ کا محل اقامت ہے جہاں آپ(س) قم میں داخل ہونے کے بعد 17 دن قیام پذیر رہیں۔ اسی بنا پر یہ جگہ لوگوں کی توجہ کا مرکز قرار پائی۔ بیت النور "میدان میر" نامی محلہ (آذر اور چہارمردان کے درمیان) محلے میں واقع ہے جو قم کے قدیمی محلوں میں سے ہے۔ پرانے زمانے میں یہ محلہ قم کے جنوب مغرب میں واقع تھا لیکن شہر قم کی تعمیر و توسیع کے بعد اس وقت یہ محلہ شہر کے مرکزی محلوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔[1]
تاریخچہ
بیت النور ان قدمگاہوں[یادداشت 1] میں سے ہے جس کا تذکرہ تاریخی منابع؛ من جملہ کتاب تاریخ قم میں آیا ہے۔ ان تاریخی اسناد کے مطابق اس مقام کی تاریخ 201ھ کو حضرت معصومہؑ کے قم آنے کے واقعے سے جا ملتی ہے۔[4]
بیت النور اصل میں موسی بن خزرج کا گھر تھا جو اس وقت قم کے بزرگان میں سے تھے، جب ان کو بتایا گیا کہ حضرت معصومہؑ ساوہ سے قم کی طرف آرہی ہیں، تو انہوں نے قم کے دیگر بزرگوں کے ساتھ ایک قافلے کی شکل میں حضرت معصومہؑ کے استقبال کے لئے نکلے اور آپ کو اسی مذکورہ مقام پر لے آئے۔ حضرت معصومہؑ اس مقام پر عبادت کیا کرتی تھیں اور بیماری کی وجہ سے مختصر مدت کے بعد اسی مقام پر وفات پاگئیں اور بابلان نامی باغ میں دفن ہوئیں۔ حضرت معصومہ کی وفات کے بعد موسی بن خزرج نے آپ کے محل عبادت اور اس کے اطراف کو آپ کے نام وقف کیا۔ تاریخی منابع میں اس جگہے کا نام محراب یا معبد فاطمہؑ، بیت النور اور بقعہ ستیہ ذکر ہوا ہے جو اس وقت ایک چھوٹا کمرہ تھا جسے آینہ کاری کے ذریعے تزیین کی گئی تھی۔[5] اس محراب کی طرز تعمیر اور معماری میں ایسی نشانات استعمال کی گئی ہیں جو زائرین کو اس مقام کے تقدس کی طرف لے جاتی ہیں۔ گنبدی طرز کی چھت جو اسلامی معماری میں آسمان کی علامت سمجھی جاتی ہے، پتھر، آینہ، کاشی، کمروں کے اندر نور کا انتظام، تزیینی نقوش وغیرہ اس عمارت کی خصوصیات میں شمار کیا جاتا تھا۔[6]
بعد میں محرابِ حضرت معصومہؑ کی اطراف میں مسجد اور دینی مدرسہ بنایا گیا جسے مدرسہ ستیہ[یادداشت 2] کا نام دیا گیا ہے جو اس وقت قم کے مشہور مدارس میں سے ایک تھا۔[7]
نگرانی اور استعمال
بیت النور کے انتظامی امور سادات میرہای کے ذمے ہے اور یہ ذمہ داری نسل در نسل انہی خاندان میں منتقل ہوتی رہی ہے۔ مختلف اموال اس مقدس مقام کے نام پر وقف کیے گئے ہیں جو اس کی تعمیر و توسیع میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔[8]
بیت النور موجودہ دور میں قم کی زیارت گاہوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے[9] جس میں اہل بیتؑ کی محافل و مجالس اور خاص کر حضرت معصومہؑ کی ولادت، وفات اور قم میں آپ کی آمد کی تاریخ کی مناسبت سے مختلف پروگرامز منعقد ہوتے ہیں۔[10]
متعلقہ مضامین
نوٹ
- ↑ محل قیام یا نقش پا؛ اس جگہے کو کہا جاتا ہے جہاں کسی نبی، امام یا الیاء الہی نے قدم مبارک رکھا ہو؛ عموما ان مقامات پر کسی پتھر یا اس کے مشابہ کسی چیز پر پاؤں کے نشانات پائے جاتے ہیں جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ یہ کسی نبی، امام یا مقدس شخصیت کے ہیں؛[2] محل قیام؛ محل سکونت، آستانہ اور بارگاہ[3]
- ↑ اس مدرسے کی شہرت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صفویہ دور حکمومت کے مصنفین حضرت فاطمہ معصومہ کو "سِتّی فاطمہ" کہا کرتے تھے جو وقت گذرنے کے ساتھ ستیہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ ر۔ک بہ: فقیہی، تاریخ مذہبی قم، 1378ہجری شمسی، ص94و95۔
حوالہ جات
- ↑ فقیہی، تاریخ مذہبی قم، 1378ہجری شمسی، ص94۔
- ↑ دہخدا، لغت نامہ، ذیل واژہ قدمگاہ۔
- ↑ انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ذیل واژہ قدمگاہ۔
- ↑ حسن بن محمد، تاریخ قم، 1361ہجری شمسی، ص213-214؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج48، ص290۔
- ↑ فیض، گنجینہ آثار قم، 1349ہجری شمسی، ص699۔
- ↑ خان محمدی، موذن، «انسانشناسی قدمگاہ (مطالعہ موردی بیت النور)»۔
- ↑ عقیقی بخشایشی، مدارس حوزہ علمیہ قم، 1360ہجری شمسی۔
- ↑ خانمحمدی، موذن، «انسانشناسی قدمگاہ (مطالعہ موردی بیت النور)»۔
- ↑ زہرہ کاشانی، تاریخ 1200سالہ حوزہ علمیہ قم، 1394ہجری شمسی، ص157۔
- ↑ خانمحمدی، موذن، «انسانشناسی قدمگاہ (مطالعہ موردی بیت النور)»۔
مآخذ
- انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، نشر سخن، 1382ہجری شمسی۔
- خانمحمدی، کریم و موذن، معصومہ، «انشانشناسی قدمگاہ (مطالعہ موردی بیت النور)»، فرہنگ رضوی، شمارہ 11، 1394ہجری شمسی۔
- دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1377ہجری شمسی۔
- زہرہ کاشانی، علیاکبر، تاریخ 1200سالہ حوزہ علمیہ قم، قم، پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ، 1394ہجری شمسی۔
- عقیقی بخشایشی، عبدالرحیم، مدارس حوزہ علمیہ قم یا مہد پرورش شخصیتہای بزرگ، مکتب اسلام، تیر 1360، سال 21 - شمارہ 4۔
- فقیہی، علیاصغر، تاریخ مذہبی قم، قم، زائر، 1378ہجری شمسی۔
- فیض، عباس، گنجینہ آثار قم، قم، مہراستوار، 1349ہجری شمسی۔
- قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، مترجم حسن بن علی قمی، مصحح جلالالدین تہرانی، تہران، توس، 1361ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیا التراث العربی، 1403ھ۔