عتبات عالیہ
عتبات عالیہ سے مراد عراق کے شہر نجف، کربلا، کاظمین، اور سامرا میں موجود آئمہ طاہرین کے مزارات ہیں۔ یہ مقامات اہل تشیع کے زیارتی مقامات میں سے ہیں اسی لئے وہ ان مقامات کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہر سال دنیا کے مختلف شہروں سے لاکھوں شیعہ ان مقامات کی زیارت کیلئے آتے ہیں۔ بعض اوقات ان مقامات کو "عتبات مقدسہ" بھی کہا جاتا ہے۔
عتبات
عتبات، عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی بارگاہ اور ضریح کے ہیں۔ شیعہ اصطلاح میں عتبات عالیات سے مراد عراق کے شہر نجف، کربلا، کاظمین، اور سامرا میں موجود آئمہ طاہرین کے مزارات ہیں۔ انہی مقامات کی وجہ سے شیعوں کے نزدیک ان شہروں کو بھی ایک خاص تقدس حاصل ہے اسی لئے بعض اوقات انہیں عتبات مقدسہ بھی کہا جاتا ہے۔[1]
نجف
بغداد کے جنوب میں 160 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر نجف [2] عراق کے صوبہ نجف کا دارالحکومت ہے جو عراق میں شیعوں کا علمی اور سیاسی مرکز مانا جاتا ہے۔ امیرالمؤمنین امام علی (ع) کا روضہ مبارک بھی اسی شہر میں موجود ہے جس کی وجہ سے شیعوں کے یہاں یہ شہر خاص تقدس اور احترام کا حامل ہے۔[3] نجف کا حوزہ علمیہ نیز اہل تشیع کے اہم ترین علمی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔[4] شہر کوفہ جس میں متعدد شیعہ زیارتگاہیں موجود ہیں، نجف سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور تقریبا نجف سے منسلک ہوچکا ہے۔[5]
کربلا
کربلا وہ سرزمین ہے جہاں واقعۂ عاشورا رونما ہوا ہے اور شہدائے کربلا سب اسی شہر میں مدفون ہیں۔ کربلا میں واقع اہم ترین مشاہد مشرفہ اور قبور مقدسہ کچھ یوں ہیں:
- حرم حضرت امام حسین علیہ السلام، جو حائر حسینی کے نام سے مشہور ہے؛[6]
- حرم حضرت عباس علیہ السلام،[7]
- مرقد حضرت علی اکبر علیہ السلام جو قبر حضرت امام حسین علیہ السلام کے بقعہ شریفہ میں قبر کی پائنتی کی جانب واقع ہے۔[8]
کاظمین
شہر کاظمین دجلہ کے کنارے بغداد کے آمنے سامنے واقع ہے۔ اس شہر میں شیعوں کے دو امام؛ امام موسی کاظم علیہ السلام (ساتویں امام) اور محمد تقی الجواد علیہ السلام (نویں امام) مدفون ہیں اسی مناسبت سے اس شہر کا نام کاظمین رکھا گیا ہے۔[9]
سامرا
شہر سامرا بغداد کے شمال میں دجلہ کے مشرقی کنارے پر واقع ہے اور عراق میں نجف اشرف، کربلائے معلی اور کاظمین کے بعد شیعیان آل رسول(ص) کا چوتھا زیارتی شہر ہے۔ یہ شہر تکریت اور بغداد کے درمیان واقع ہے اور اس میں دو ائمہ معصومین علیہما السلام کی زیارتگاہیں ہیں:
اسی طرح اس شہر میں امام مہدی(عج) کا مقام ولادت اور جائے غیبت بھی ہے۔[11]
حوالہ جات
- ↑ عربخانی، عتبات عالیات در روابط ایران و عثمانی قرن نوزدہم، ص ۲۳
- ↑ عربخانی، عتبات عالیات در روابط ایران و عثمانی قرن نوزدہم، ص ۲۳
- ↑ عَتَبۂ علویۂ مقدسہ
- ↑ عربخانی، عتبات عالیات در روابط ایران و عثمانی قرن نوزدہم، ص ۲۴
- ↑ مسجد کوفہ
- ↑ عتبۂ حسینیۂ مقدسہ
- ↑ عتبۂ مقدسۂ عباسیہ
- ↑ عربخانی، عتبات عالیات در روابط ایران و عثمانی قرن نوزدہم، ص ۲۸
- ↑ عتبۂ کاظمیۂ مقدسہ و عربخانی، عتبات عالیات در روابط ایران و عثمانی قرن نوزدہم، ص ۳۲
- ↑ عتبۂ عسکریۂ مقدسہ۔
- ↑ عربخانی، عتبات عالیات در روابط ایران و عثمانی قرن نوزدہم، ص ۳۴-۳۶
مآخذ
- ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر، ۱۳۸۵ق.
- ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت، دار المعرفة، بیتا.
- آلطعمه، سلمان هادی، الانتفاضه الشعبانیه فی کربلاء، قم، کتابخانه تخصصی تاریخ اسلام و ایران، ۱۴۳۳ق.
- آلطعمه، سلمان هادی، تاریخ مرقد الحسین و العباس، بیروت، مؤسسة الاعلمی، ۱۴۱۶ق.
- خامهیار، احمد، تخریب زیارتگاههای اسلامی در کشورهای عربی، قم، دارالإعلام لمدرسة اهلالبیت(ع)، ۱۳۹۳ش.
- دادفر، سجاد، تأملی بر نقش زائران ایرانی در رونق اقتصادی عتبات، فصل نامه تاریخ روابط خارجی، ش۴۲، بهار ۱۳۸۹ش.
- درباره ستاد بازسازی عتبات عالیات، سایت ستاد بازسازی عتبات عالیات، تاریخ بازدید: ۱ خرداد ۱۴۰۰ش.
- عملیات بازسازی گنبد حرم امامین عسکریین پایان یافت، خبرگزاری ایلنا، تاریخ انتشار: ۱۳۹۴/۰۶/۰۷.
- قائدان، علیاصغر، عتبات عالیات عراق، تهران، مشعر، ۱۳۸۷ش.
- کاظمیدلیگانی، مریم، اقدامات عمرانی شاهان صفوی در عتبات عالیات، تاریخ اسلام، ش۲۹، سال هشتم، ۱۳۸۶ش.
- مصاحب، غلامحسین، دائره المعارف فارسی، تهران، امیرکبیر، ۱۳۶۳ش.
- وهابیان و حمله به کربلای معلی، پایگاه اطلاعرسانی حوزه، مجله فرهنگ زیارت، فروردین ماه سال ۱۳۹۰ش، شماره ۹.