مندرجات کا رخ کریں

حرم اہل بیت

ویکی شیعہ سے

حرمِ اہل بیت، ایران کے شہر قم کی صفت اور القاب میں سے ایک ہے جس کا ذکر امام جعفر صادقؑ کی احادیث میں ملتا ہے۔ ان روایات میں امام صادقؑ نے حضرت معصومہ(س) کی ولادت سے پہلے یہ خبر دی تھی کہ آپؑ کی اولاد میں سے ایک خاتون اس شہر میں دفن ہوں گی جن کی شفاعت سے آپ کے شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔ بعض اہلِ تحقیق کے نزدیک حضرت معصومہؑ کا قم میں تشریف لانا ہی قم کو شہرِ اہل بیتؑ کا لقب ملنے کا سبب بنا۔

قم کو عُشّ آلِ محمدؐ (اہل بیتؑ کا آشیانہ) اور فاطمیوں کا ماویٰ و پناہ گاہ جیسے القاب کے ساتھ بھی یاد کیا گیا ہے۔

حدیثی سند

مختلف منابع میں شہر قم کو اہلِ بیتؑ کا حرم کہا گیا ہے۔[1] علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں حسن بن محمد قمی کی کتاب تاریخ قم سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق امام صادقؑ نے حضرت معصومہؑ کی ولادت سے پہلے ہی خبر دی تھی کہ ان کی اولاد میں فاطمہ نامی ایک خاتون، قم میں دفن ہوں گی اور جو بھی ان کی زیارت کرے گا، اس پر جنت واجب ہوگی:

«خدا کا ایک حرم ہے جو مکہ ہے، رسول خداؐ کا ایک حرم ہے جو مدینہ ہے، امیرالمؤمنینؑ کا ایک حرم ہے جو کوفہ ہے، اور ہمارا حرم قم ہوگا۔»[2]

ایک اور حدیث میں امام صادقؑ سے مروی ہے:

«قم میرا اور میری اولاد کا حرم ہے۔ یہ شہر چھوٹا کوفہ ہے جس میں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھلے گا۔ میری اولاد میں سے ایک خاتون جس کا نام فاطمہ ہوگا وہاں دفن ہونگی اور میرے تمام شیعہ ان کی شفاعت کے ذریعے جنت میں داخل ہوں گے۔»[3]

روایات میں قم کے لیے عُشّ آلِ محمدؐ [4] اور فاطمیوں کا ماویٰ و پناہ گاہ [5] جیسے عناوین بھی استعمال ہوئے ہیں۔

حضرت معصومہؑ کا کردار

حوزہ علمیہ قم کے استاد احمد عابدی کے مطابق حضرت معصومہؑ کا قم میں آنا ہی اس شہر کو شہرِ اہل بیتؑ کا لقب ملنے کا سبب بنا، کیونکہ آپ(س) ہی کی وجہ سے قم میں اہلِ بیتؑ کی ثقافت کو رواج ملا۔[6] بعض محققین کے نزدیک قم کا حرم ہونا صرف حضرت معصومہؑ کے مرقد تک محدود نہیں بلکہ پورے شہر کو شامل ہے۔ [حوالہ درکار]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: مجلسی، ملاذ الأخیار، 1406ھ، ج13، ص550؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج91، ص370؛ مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، 1368ش، ج3، ص168۔
  2. مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج99، ص267۔
  3. شوشتری، مجالس المومنین، 1393ش، ج1، ص238؛ ناصر الشریعہ، تاریخ قم، 1383ش، ص106؛ شیروانی، بستان السیاحۃ، بی‌تا، ص443۔
  4. مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج57، ص214۔
  5. بحرانی اصفہانی، عوالم العلوم، 1413ھ، ج21، ص342-343۔
  6. «قم چہ زمانی حرم اہل‌بیت لقب گرفت؟»، مشرق نیوز.

مآخذ

  • بحرانی اصفہانی، عبداللہ بن نوراللہ، عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآیات و الأخبار و الأقوال، تحقیق محمدباقر موحد ابطحی اصفہانی، قم، مؤسسۃ الإمام المہدی(عج)، 1413ھ۔
  • شوشتری، قاضی‌نوراللہ، مجالس المؤمنین، تصحیح ابراہیم عرب‌پور و دیگران، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، 1393ہجری شمسی۔
  • شیروانی، زین‌العابدین بن اسکندر، بستان السیاحۃ، تہران، سنایی، بی‌تا۔
  • «قم» چہ زمانی حرم اہل‌بیت لقب گرفت؟، مشرق نیوز، تاریخ انتشار: 1396/10/08، تاریخ اخذ: 1398/09/05.
  • قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، تہران، توس، 1361ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، ملاذ الأخیار فی فہم تہذیب الأخبار، تحقیق مہدی رجائی، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1406ھ۔
  • مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
  • ناصر الشریعہ، محمدحسین، تاریخ قم، تحقیق علی دوانی، تہران، رہنمون، 1383ہجری شمسی۔