حدیث اعتلا

ویکی شیعہ سے
حدیث اعتلا
حدیث اعتلا
حدیث کے کوائف
موضوعمسلمانوں کی کفار پر برتری
صادر ازحضرت محمدؐ
اصلی راویشیخ صدوق
شیعہ مآخذمن‌ لا یحضرہ الفقیہ
قرآنی تائیداتآیت نفی سبیل
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


حدیث اعتلا رسول خداؐ سے منقول ایک حدیث ہے جس میں دین اسلام کی تمام ادیان پر برتری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں پر کفار کے تسلط کی نفی کی گئی ہے۔ بعض علما جیسے سید حسن موسوی بجنوردی (متوفیٰ: 1395ھ) وغیرہ نے اس حدیث کی شہرت عملی اور صدور کے اطمینان بخش پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے سندی لحاظ سے موجود ضعف کو جبران پذیر اور مورد استناد قرار دیا ہے۔

علم حدیث کے بعض محققین کے مطابق حدیث اعتلا کا نفی تسلط کفار بر مسلمین سے کوئی تعلق نہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مضمون یہ ہے کہ دین اسلام کو دوسرے ادیان و مذاہب پر برتری اور سربلندی حاصل ہے؛ تاہم اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ دین اسلام چند شرعی اصول و ضوابط کا مجموعہ ہے، جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام برتر ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان قوانین و ضوابط کو اس طرح وضع کیا ہے کہ ان سب میں مسلمانوں پر کافروں کو کوئی تسلط حاصل نہیں۔ اس حدیث کے مضمون کی تائید کے لیے نفی سبیل کی آیت سے استناد کیا گیا ہے۔

مختصر تعارف اور اہمیت

حدیث اعتلا حدیث نبوی ہے جس کو شیعوں کی کتب اربعہ میں سے کتاب من‌ لایحضرہ‌ الفقیہ[1] میں جبکہ کتب اہل سنت میں سے کتاب سنن الدارقطنی[2] میں نقل کیا گیا ہے۔ اسی طرح بہت سے علما جیسے شیخ مفید اور سید‌ مرتضی نے اس پر خاص توجہ دی ہے۔[3] شہید مطہری (متوفیٰ: 1980ء) کے مطابق یہ حدیث رسول اکرمؐ کے متشابہ احادیث میں سے شمار ہوتی ہے جس سے مختلف علما نے ایک خاص نقطہ نظر سے مختلف انداز میں استنباط کیا ہے۔[4]

شیخ صدوق کے نقل کے مطابق حدیث اعتلا کے الفاظ یہ ہیں: «اَلأِسلامُ يَعْلُو وَ لا يُعلي عَليْہِ وَ الْكُفّارُ بِمَنْزِلَۃِ الْمَوْتي لا يَحْجُبونَ وَ لا يَرِثُونَ؛ دین اسلام دیگر تمام ادیان پر برتری رکھتا ہے اور کوئی دین اسلام پر برتری نہیں رکھتا اور کفار مردوں کے مانند ہیں جو نہ میراث میں مانع بن سکتے ہیں اور نہ ہی میراث لے سکتے ہیں۔»[5]

فقہاء اس حدیث کو قاعدہ نفی سبیل کے اثبات کی راہ میں ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔[6] موسوی بجنوردی کے مطابق اس حدیث سے کفار کا مسلمانوں پر غلبہ اور تسلط کی نفی کے ساتھ ساتھ دیگر ادیان پر دین اسلام کی برتری بھی ثابت ہوتی ہے۔ [7]

حدیث اعتلا میں کچھ ایسے احکام و قوانین مضمر ہیں[8] جن کے ذریعے تمام معاملات مثلاً عقود، ایقاعات، سرپرستی، معاہدات اور شادی بیاہ وغیرہ میں مسلمان پر کافر کے تسلط کی نفی کی جاتی ہے۔[9] اس روایت میں ایک اثباتی اور ایک سلبی جملہ ہے اور دونوں کا مجموعی مفہوم یہ ہے کہ کفار کو مسلمانوں پر کوئی تسلط حاصل نہیں:[10]

  1. اثباتی جملے یعنی (یعلو و لا یعلی علیہ) کا تعلق اسلام میں وضع کردہ ان قوانین و ضوابط سے ہے جن میں تمام معاملات میں مسلمانوں کی برتری کو مدنظر رکھا گیا ہے۔[11]
  2. سلبی جملے (لا يَحْجُبونَ وَ لا يَرِثُونَ) سے مراد اسلام میں وضع کردہ قوانین و ضوابط میں مسلمانوں پر کفار کے غلبہ کی نفی گئی ہے۔[12]

دلالت اور سندی اعتبار

کہتے ہیں کہ حدیث اعتلا کے سلسلہ راویوں میں کچھ ابہام پائے جانے کی وجہ سے بعض نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔[13] البتہ اس کے سندی ضعف کے جبران کے لیے اس حدیث کی عملی شہرت اور اس کے صدور کے اطمینان بخش ہونے سے تمسک کیا گیا ہے۔[14]سید عبد الاعلی سبزواری (متوفی: 1372ہجری شمسی) نے اپنی کتاب تفسیر مواہب الرحمٰن فی تفسیر القرآن میں شیخ صدوق کی طرف سے کتاب "من لایحضرہ الفقیہ" میں نقل کرنے پر اطمینان اور آیہ نفی سبیل سے استناد کرتے ہوئے حدیث اعتلا کو بھی معتبر جانا ہے۔[15]

بعض علما کا کہنا ہے کہ حدیث اعتلا سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام ایک برترین دین توحیدی ہے لہذا مسلمانوں پر کفار کی نفی تسلط سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔[16] اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ دین اسلام شرعی قواعد و ضوابط کا ایک مجموعہ ہے اور جب کہا جاتا ہے کہ اسلام سارے ادیان و مذاہب پر برتری رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان احکام کو اس طرح سے وضع کیا گیا ہے کہ ان میں کفار کو مسلمانوں پر کسی قسم کا کوئی غلبہ اور بالادستی نہیں ہوگی۔[17]

حدیث سے استفادہ کرنے کے موارد

مرتضی مطہری کے مطابق فقہ، کلام اور سماجی معاملات میں حدیث اعتلا سے استفادہ کیا جاتا ہے:

  • فقہی نتیجہ: اسلام میں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا گیا ہے جس کے نتیجے میں غیر مسلموں کو مسلمانوں پر بالادستی حاصل ہو۔
  • کلامی نتیجہ: استدلال کے موقعوں پر اسلام کی منطق دیگر ہر منطق پر برتری رکھتی ہے۔
  • سماجی و اجتماعی نتیجہ: قانون اسلام تمام بشری ضرورتوں کے عین مطابق ہے۔[18]

آیت نفی سبیل سے رابطہ

آیت نفی سبیل اور حدیث اعتلا دونوں کا مفہوم یہ ہے کہ کافر کو کسی صورت مسلمان پر بالادستی حاصل نہیں؛[19]اس وضاحت کے ساتھ کہ ان دونوں احادیث کے درمیان ایک منطقی رابطہ اس طرح موجود ہے[20]کہ روایت کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان پر کافر کو بالادستی حاصل نہیں اور آیت نفی سبیل کا مفہوم یہ ہے کہ کافر کو مومن پر بالادستی حاصل نہیں؛ اور قرآنی بیان کے مطابق مومن مسلمان سے اخص ہے،[21] اور دوسری طرف معنی و مفہوم کے لحاظ سے آیہ نفی سبیل حدیث اعتلا سے اخص ہے۔[22]

حوالہ جات

  1. شیخ صدوھ، من‌ لا‌یحضرہ‌ الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص334.
  2. دارقطنی، سنن الدارقطنی، 1424ھ، ج4، ص370.
  3. موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379ہجری شمسی، ج1، ص352ـ353.
  4. مطہری، حماسہ حسینی، 1379ہجری شمسی، ج1، ص326.
  5. شیخ صدوھ، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص334.
  6. موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379ہجری شمسی، ج1، ص349ـ 358.
  7. موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379ہجری شمسی، ج1، ص349ـ358.
  8. فاضل لنکرانی، القواعد الفقہيۃ، 1383ہجری شمسی، ج1، ص238.
  9. فاضل لنکرانی، القواعد الفقہيۃ، 1383ہجری شمسی، ج1، ص238.
  10. موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، 1377ہجری شمسی، ج1، ص190.
  11. موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، 1377ہجری شمسی، ج1، ص190.
  12. موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، 1377ہجری شمسی، ج1، ص190.
  13. موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379ہجری شمسی، ج1، ص352ـ353.
  14. موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379ہجری شمسی، ج1،ص352ـ353.
  15. موسوی سبزواری، مواہب الرحمان، 1409ھ، ج‏10، ص43.
  16. موسوی بجنوردی، قواعد‌ فقہیہ، 1383ہجری شمسی، ج1، ص355.
  17. موسوی بجنوردی، قواعد‌ فقہیہ، 1383ہجری شمسی، ج1، ص355.
  18. مطہری، حماسہ حسینی، 1379ہجری شمسی، ج1، ص326.
  19. حاجی علی، «تأملی بر آیہ نفی سبیل با تأکید بر مفہوم واژہ سبیل»، ص151.
  20. حاجی علی، «تأملی بر آیہ نفی سبیل با تأکید بر مفہوم واژہ سبیل»، ص151.
  21. سورہ حجرات، آیہ 14.
  22. حاجی علی، «تأملی بر آیہ نفی سبیل با تأکید بر مفہوم واژہ سبیل»، ص151.

مآخذ

  • حاجی علی، فریبا، «تأملی بر آیہ نفی سبیل با تأکید بر مفہوم واژہ سبیل»، مندرج در نشریہ تحقیقات علوم قرآن و حدیث، شمارہ2، 1386ہجری شمسی۔
  • دارقطنی، علی بن عمر، سنن الدارقطنی، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1424ھ۔
  • سبزواری، عبدالاعلی، مواہب الرحمان في تفسير القرآن، بیروت، موسسہ اہل بيت(ع)، 1409ھ۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، من لا يحضرہ الفقيہ‌، قم، انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم‌، 1413ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1390ق.
  • فاضل لنکرانی، محمدجواد، القواعدالفقہیہ، قم، مرکز فقہی أئمہ أطہار علیہم‌السلام، 1383ہجری شمسی۔
  • مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، 1382ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، حماسہ حسینی، تہران، صدرا، 1379ہجری شمسی۔
  • موسوی بجنوردى، حسن، القواعد الفقہيۃ، قم، نشر الہادی، 1377ہجری شمسی۔
  • موسوی بجنوردى، محمد، قواعد فقہيہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1379ہجری شمسی۔