صحیفہ سجادیہ کی بارہویں دعا

ویکی شیعہ سے
صحیفہ سجادیہ کی بارہویں دعا
کوائف
دیگر اسامی:اعتراف گناہ اور استغفار
موضوع:اعتراف گناہ اور طلب مغفرت، موانع دعا، خاصان خدا کی خصوصیات
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام سجاد علیہ السلام
راوی:متوکل بن ہارون
شیعہ منابع:صحیفۂ سجادیہ
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


صحیفۂ سجادیہ کی بارہویں دعا امام سجادؑ کی مأثور دعاؤں میں سے ایک ہے جس میں امام نے نافرمانی کا اعتراف اور پروردگار عالم سے طلب مغفرت کی ہے۔ امام نے اس دعا میں، دعا کی توفیقات کا سلب ہونا، محبوب بندوں کی خصوصیات، باب توبہ کا کھُلا رہنا اور توبہ کرنے والے بندوں کے حالات کو بیان کیا ہے۔

یہ بارہویں دعا جس کی متعدد شرحیں، مختلف زبانوں میں لکھی گئیں ہیں جیسے دیار عاشقان جو حسین انصاریان کی شرح فارسی زبان میں ہے اور اسی طرح ریاض السالکین جو سید علی خان مدنی کی عربی زبان میں شرح موجود ہے۔

دعا و مناجات

تعلیمات

صحیفۂ سجادیہ کی بارہویں دعا کا بنیادی موضوع گناہوں کا اقرار، توبہ کی درخواست، توفیق دعا کے سلب ہونے کے عوامل، توبہ کرنے والوں کی خصوصیات اور بہترین بندگان خدا کی توصیف بیان کرنا ہے[1]۔ اس دعا کی تعلیمات جو 16 فراز[2] میں امام سجادؑ سے صادر ہوئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  • توفیق دعا کے سلب ہونے کے عوامل: خدائی احکامات کو انجام دینے میں کوتاہی اور واجبات کو نظر انداز کرنا، جس کام سے خدا نے روکا ہو اسے انجام دینے میں جلدی اور شکر نعمت میں کوتاہی یعنی(کفران نعمت
  • خداوند متعال کے لئے نیک نیتی اور اس سے طلب کرنا یہ سب فضل الہی ہے۔
  • بندوں کا محتاج پروردگار ہونا۔
  • گناہوں سے نجات کے لئے طلب توفیق۔
  • گناہ اور سرکشی کے نتائج سے خوفزدہ ہونا۔
  • گناہگاروں کے لئے توبہ کے راستے کا بند ہونا۔
  • فرصت توبہ کو غنیمت سمجھنا۔
  • توبہ کرنے والے کی حالت: تواضع اور عاجزی میں جھک جانا، پیروں میں لرزہ اور آنکھوں میں آنسو آ جانا ۔۔۔
  • بخشش الہی کا امیدوار ہونا (بندوں کی توبہ پر رحمتِ الہی، غضب الہی پر سبقت رکھتی ہے)۔
  • رحمت و مغفرت الہی کی تلاش کرنا۔
  • بارگاہ خداوندی میں اپنی عاجزی کا اعتراف۔
  • پروردگار کے محبوب بندوں کی خصوصیات: تکبر نہ کرنا، گناہوں سے پرہیز اور اپنے اوپر استغفار کو واجب سمجھنا۔
  • خدا پر بھروسہ، تکبر سے دوری اور گناہ پر اصرار نہ کرنا۔
  • گناہوں کے برے اثرات سے خدا کی پناہ مانگنا اور اسی سے امید رکھنا۔
  • خدا پر بھروسہ اور حق کے سامنے عاجزی کا مظاہرہ۔
  • پروردگار کی پناہ میں ہی کامیابی کا راستہ ہے۔
  • گناہگار بندوں کے ذریعہ بھی خدائی نعمتوں سے استفادہ۔
  • گناہوں کو انجام دینا یعنی اپنے نفس پر ظلم۔
  • خداوند متعال کا بندوں کے قلیل اعمال پر راضی ہونا اور اجر عظیم دینا۔[3]۔

شرحیں

صحیفۂ سجادیہ کی بارہویں دعا کی بھی شرح کی گئی ہے۔ یہ دعا حسین انصاریان [4] نے اپنی کتاب دیار عاشقان میں بطور تفصیل فارسی زبان میں شرح کی ہے۔ اسی طرح سے یہ دعا محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی کی کتاب شہود و شناخت [5] میں اور سید احمد فہری کی کتاب شرح و ترجمۂ صحیفہ سجادیہ[6] میں فارسی زبان میں شرح کی گئی ہے۔

اسی طرح یہ بارہویں دعا بعض دوسری کتابوں میں جیسے، سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین [7]، جواد مغنیہ کی فی ظلال الصحیفہ السجادیہ [8]، محمد بن محمد دارابی [9] کی ریاض العارفین اور سید محمد حسین فضل اللہ [10] کی کتاب آفاق الروح میں عربی زبان میں شرح لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس دعا کے الفاظ کی توضیح، فیض کاشانی کی کتاب تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ میں بھی دی گئی ہے[11]۔

متن اور ترجمہ

متن ترجمہ: (مفتی جعفر حسین)
وَ کانَ مِنْ دُعَائِهِ علیه ‌السلام فِی الِاعْتِرَافِ وَ طَلَبِ التَّوْبَةِ إِلَی اللَّهِ تَعَالَی

(۱) اللَّهُمَّ إِنَّهُ یحْجُبُنِی عَنْ مَسْأَلَتِک خِلَالٌ ثَلَاثٌ، وَ تَحْدُونِی عَلَیهَا خَلَّةٌ وَاحِدَةٌ

(۲) یحْجُبُنِی أَمْرٌ أَمَرْتَ بِهِ فَأَبْطَأْتُ عَنْهُ، وَ نَهْی نَهَیتَنِی عَنْهُ فَأَسْرَعْتُ إِلَیهِ، وَ نِعْمَةٌ أَنْعَمْتَ بِهَا عَلَی فَقَصَّرْتُ فِی شُکرِهَا.

(۳) وَ یحْدُونِی عَلَی مَسْأَلَتِک تَفَضُّلُک عَلَی مَنْ أَقْبَلَ بِوَجْهِهِ إِلَیک، وَ وَفَدَ بِحُسْنِ ظَنِّهِ إِلَیک، إِذْ جَمِیعُ إِحْسَانِک تَفَضُّلٌ، وَ إِذْ کلُّ نِعَمِک ابْتِدَاءٌ

(۴) فَهَا أَنَا ذَا، یا إِلَهِی، وَاقِفٌ بِبَابِ عِزِّک وُقُوفَ الْمُسْتَسْلِمِ الذَّلِیلِ، وَ سَائِلُک عَلَی الْحَیاءِ مِنِّی سُؤَالَ الْبَائِسِ الْمُعِیلِ

(۵) مُقِرٌّ لَک بِأَنِّی لَمْ أَسْتَسْلِمْ وَقْتَ إِحْسَانِک إِلَّا بِالْإِقْلَاعِ عَنْ عِصْیانِک، وَ لَمْ أَخْلُ فِی الْحَالاتِ کلِّهَا مِنِ امْتِنَانِک.

(۶) فَهَلْ ینْفَعُنِی، یا إِلَهِی، إِقْرَارِی عِنْدَک بِسُوءِ مَا اکتَسَبْتُ وَ هَلْ ینْجِینِی مِنْک اعْتِرَافِی لَک بِقَبِیحِ مَا ارْتَکبْتُ أَمْ أَوْجَبْتَ لِی فِی مَقَامِی هَذَا سُخْطَک أَمْ لَزِمَنِی فِی وَقْتِ دُعَای مَقْتُک.

(۷) سُبْحَانَک، لَا أَیأَسُ مِنْک وَ قَدْ فَتحْتَ لِی بَابَ التَّوْبَةِ إِلَیک، بَلْ أَقُولُ مَقَالَ الْعَبْدِ الذَّلِیلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِهِ الْمُسْتَخِفِّ بِحُرْمَةِ رَبِّهِ.

(۸) الَّذِی عَظُمَتْ ذُنُوبُهُ فَجَلَّتْ، وَ أَدْبَرَتْ أَیامُهُ فَوَلَّتْ حَتَّی إِذَا رَأَی مُدَّةَ الْعَمَلِ قَدِ انْقَضَتْ وَ غَایةَ الْعُمُرِ قَدِ انْتَهَتْ، وَ أَیقَنَ أَنَّهُ لَا مَحِیصَ لَهُ مِنْک، وَ لَا مَهْرَبَ لَهُ عَنْک، تَلَقَّاک بِالْإِنَابَةِ، وَ أَخْلَصَ لَک التَّوْبَةَ، فَقَامَ إِلَیک بِقَلْبٍ طَاهِرٍ نَقِی، ثُمَّ دَعَاک بِصَوْتٍ حَائِلٍ خَفِی.

(۹) قَدْ تَطَأْطَأَ لَک فَانْحَنَی، وَ نَکسَ رَأْسَهُ فَانْثَنَی، قَدْ أَرْعَشَتْ خَشْیتُهُ رِجْلَیهِ، وَ غَرَّقَتْ دُمُوعُهُ خَدَّیهِ، یدْعُوک: بِیا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ، وَ یا أَرْحَمَ مَنِ انْتَابَهُ الْمُسْتَرْحِمُونَ، وَ یا أَعْطَفَ مَنْ أَطَافَ بِهِ الْمُسْتَغْفِرُونَ، وَ یا مَنْ عَفْوُهُ أَکثرُ مِنْ نَقِمَتِهِ، وَ یا مَنْ رِضَاهُ أَوْفَرُ مِنْ سَخَطِهِ.

(۱۰) وَ یا مَنْ تَحَمَّدَ إِلَی خَلْقِهِ بِحُسْنِ التَّجَاوُزِ، وَ یا مَنْ عَوَّدَ عِبَادَهُ قَبُولَ الْإِنَابَةِ، وَ یا مَنِ اسْتَصْلَحَ فَاسِدَهُمْ بِالتَّوْبَةِ وَ یا مَنْ رَضِی مِنْ فِعْلِهِمْ بِالْیسِیرِ، وَ مَنْ کافَی قَلِیلَهُمْ بِالْکثِیرِ، وَ یا مَنْ ضَمِنَ لَهُمْ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ، وَ یا مَنْ وَعَدَهُمْ عَلَی نَفْسِهِ بِتَفَضُّلِهِ حُسْنَ الْجَزَاءِ.

(۱۱) مَا أَنَا بِأَعْصَی مَنْ عَصَاک فَغَفَرْتَ لَهُ، وَ مَا أَنَا بِأَلْوَمِ مَنِ اعْتَذَرَ إِلَیک فَقَبِلْتَ مِنْهُ، وَ مَا أَنَا بِأَظْلَمِ مَنْ تَابَ إِلَیک فَعُدْتَ عَلَیهِ.

(۱۲) أَتُوبُ إِلَیک فِی مَقَامِی هَذَا تَوْبَةَ نَادِمٍ عَلَی مَا فَرَطَ مِنْهُ، مُشْفِقٍ مِمَّا اجْتَمَعَ عَلَیهِ، خَالِصِ الْحَیاءِ مِمَّا وَقَعَ فِیهِ.

(۱۳) عَالِمٍ بِأَنَّ الْعَفْوَ عَنِ الذَّنْبِ الْعَظِیمِ لَا یتَعَاظَمُک، وَ أَنَّ التَّجَاوُزَ عَنِ الْإِثْمِ الْجَلِیلِ لَا یسْتَصْعِبُک، وَ أَنَّ احْتِمَالَ الْجِنَایاتِ الْفَاحِشَةِ لَا یتَکأَّدُک، وَ أَنَّ أَحَبَّ عِبَادِک إِلَیک مَنْ تَرَک الِاسْتِکبَارَ عَلَیک، وَ جَانَبَ الْإِصْرَارَ، وَ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ.

(۱۴) وَ أَنَا أَبْرَأُ إِلَیک مِنْ أَنْ أَسْتَکبِرَ، وَ أَعُوذُ بِک مِنْ أَنْ أُصِرَّ، وَ أَسْتَغْفِرُک لِمَا قَصَّرْتُ فِیهِ، وَ أَسْتَعِینُ بِک عَلَی مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.

(۱۵) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ هَبْ لِی مَا یجِبُ عَلَی لَک، وَ عَافِنِی مِمَّا أَسْتَوْجِبُهُ مِنْک، وَ أَجِرْنِی مِمَّا یخَافُهُ أَهْلُ الْإِسَاءَةِ، فَإِنَّک مَلِیءٌ بِالْعَفْوِ، مَرْجُوٌّ لِلْمَغْفِرَةِ، مَعْرُوفٌ بِالتَّجَاوُزِ، لَیسَ لِحَاجَتِی مَطْلَبٌ سِوَاک، وَ لَا لِذَنْبِی غَافِرٌ غَیرُک، حَاشَاک

(۱۶) وَ لَا أَخَافُ عَلَی نَفْسِی إِلَّا إِیاک، إِنَّک «أَهْلُ التَّقْوی وَ أَهْلُ الْمَغْفِرَةِ»، صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ اقْضِ حَاجَتِی، وَ أَنْجِحْ طَلِبَتِی، وَ اغْفِرْ ذَنْبِی، وَ آمِنْ خَوْفَ نَفْسِی، «إِنَّک عَلی کلِّ شَیءٍ قَدِیرٌ»، وَ ذَلِک عَلَیک یسِیرٌ، آمِینَ رَبَّ الْعَالَمِینَ.

اعتراف گناہ اور طلب توبہ کے سلسلے میں حضرت کی دعا

(1) اے اللہ ! مجھے تین باتیں تیری بارگاہ میں سوال کرنے سے روکتی ہیں اور ایک بات اس پر آمادہ کرتی ہے۔ جو باتیں روکتی ہیں

(2) ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس امر کا تو نے حکم دیا میں نے اس کی تعمیل میں سستی کی۔ دوسرے یہ کہ جس چیز سے تو نے منع کیا اس کی طرف تیزی سے بڑھا۔ تیسرے جو نعمتیں تو نے مجھے عطا کیں ان کا شکریہ ادا کرنے میں کوتاہی کی؛

(3) اور جو بات مجھے سوال کرنے کی جرات دلاتی ہے وہ تیرا تفضل و احسان ہے جو تیری طرف رجوع ہونے والوں اور حسن ظن کے ساتھ آنے والوں کے ہمیشہ شریک حال رہا ہے کیونکہ تیرے تمام احسانات صرف تیرے تفضل کی بنا پر ہیں اور تیری ہر نعمت بغیر کسی سابقہ استحقاق کے ہے۔

(4) اچھا پھر اے میرے معبود! میں تیرے دروازہ عز و جلال پر ایک عبد مطیع و ذلیل کی طرح کھڑا ہوں اور شرمندگی کے ساتھ ایک فقیر و محتاج کی حیثیت سے سوال کرتا ہوں

(5) اس امر کا اقرار کرتے ہوئے کہ تیرے احسانات کے وقت ترک معصیت کے علاوہ اور کوئی اطاعت (از قبیل حمد و شکر) نہ کر سکا۔ اور میں کسی حالت میں تیرے انعام و احسان سے خالی نہیں رہا۔

(6) تو کیا اے میرے معبود! یہ بد اعمالیوں کا اقرار تیری بارگاہ میں میرے لۓ سود مند ہو سکتا ہے اور وہ برائیاں جو مجھ سے سرزد ہوئی ہیں ان کا اعتراف تیرے عذاب سے نجات کا باعث قرار قرار پا سکتا ہے۔ یا یہ کہ تو نے اس مقام پر مجھ پر غضب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اوردعا کے وقت اپنی ناراضگی کو میرے لیے برقرار رکھا ہے؟!

(7) تو پاک و منزہ ہے۔ میں تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوں، اس لیے کہ تو نے اپنی بارگاہ کی طرف میرے لیے توبہ کا دروازہ کھول دیا ہے۔ بلکہ میں اس بندہ ذلیل کی سی بات کہہ رہا ہوں جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اپنے پرودگار کی حرمت کا لحاظ نہ رکھا؛

(8) جس کے گناہ عظیم روز افزوں ہیں جس کی زندگی کے دن گزر گئے اورگزرے جا رہے ہیں یہاں تک کہ جب اس نے دیکھا کہ مدت عمل تمام ہو گئی اور عمر اپنی آخری حد کو پہنچ گئی اور یہ یقین ہو گیا کہ اب تیرے ہاں حاضر ہوئے بغیر کوئی چارہ اور تجھ سے نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو وہ ہمہ تن تیری طرف رجوع ہوا اور صدق بیت سے تیری بارگاہ میں توبہ کی۔ اب وہ بالکل پاک و صاف دل کے ساتھ تیرے حضور کھڑا ہوا۔ پھر کپکپاتی آواز سے اوردبے لہجے میں تجھے پکارا!

(9) اس حالت میں کہ خشوع و تذلل کے ساتھ تیرے سامنے جھک گیا اور سر کو نیوڑھا کر تیرے آگے خمیدہ ہوگیا۔ خوف سے اس کے دونوں پاؤں تھرا رہے ہیں اور سیل اشک اس کے رخساروں پر رواں ہے۔ اور تجھے اس طرح پکار رہا ہے۔ اے سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے! اے ان سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے جن سے طلبگاران رحم و کرم بار بار رحم کی التجائیں کرتے ہیں۔ اے ان سب سے زیادہ مہربانی کرنے والے جن کے گرد معافی چاہنے والے گھیرا ڈالے رہتے ہیں۔ اے وہ جس کا عفو و درگذر اس کے انتقام سے فزوں تر ہے۔

(10) اے وہ جس کی خوشنودی اس کی ناراضگی سے زیادہ ہے۔ اے وہ جو بہترین عفو و درگزر کے باعث مخلوقات کے نزدیک حمد و ستائش کا مستحق ہے۔ اے وہ جس نے اپنے بندوں کو قبول توبہ کا خوگر کیا ہے۔ اور توبہ کے ذریعہ ان کے بگڑے ہوئے کاموں کی درستی چاہی ہے۔ اے وہ جو ان کے ذرا سے عمل پر خوش ہو جاتا ہے اور تھوڑے سے کام کا بدلہ زیادہ دیتا ہے۔ اے وہ جس نے ان کی دعاؤں کو قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے۔ اے وہ جس نے از روئے تفضل و احسان بہترین جزا کا وعدہ کیا ہے۔

(11) جن لوگوں نے تیری معصیت کی اور تو نے انہیں بخش دیا میں ان سے زیادہ گنہگار نہیں ہوں اور جنہوں نے تجھ سے معذرت کی اور تو نے ان کی معذرت کو قبول کر لیا ان سے زیادہ قابل سر زنش نہیں ہوں اور جنہوں نے تیری بارگاہ میں توبہ کی اور تو نے (توبہ کو قبول فرما کر) ان پر احسان کیا ان سے زیادہ ظالم نہیں ہوں۔

(12) لہذا میں اپنے اس موقف کو دیکھتے ہوئے تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ اس شخص کی سی توبہ جو اپنے پچھلے گناہوں پر نادم اور خطاؤں کے ہجوم سے خوف زدہ اور جن برائیوں کا مرتکب ہوتا رہا ہے ان پر واقعی شرمسار ہو۔

(13) اور جانتا ہو کہ بڑے سے بڑے گناہ کو معاف کر دینا تیرے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے اور بڑی سے بڑی خطا سے درگزر کرنا تیرے لیے کوئی مشکل نہیں ہے اور سخت سے سخت جرم سے چشم پوشی کرنا تجھے ذرا گراں نہیں ہے یقینا تمام بندوں میں سے وہ بندہ تجھے زیادہ محبوب ہے جو تیرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرے۔ گناہوں پر مصر نہ ہو اور توبہ و استغفارکی پابندی کرے۔

(14) اور میں تیرے حضور غرور و سرکشی سے دست بردار ہوتا ہوں اور گناہوں پر اصرار سے تیرے دامن میں پناہ مانگتا ہوں اور جہاں جہاں کوتاہی کی ہے اس کے لیے عفو و بخشش کا طلب گار ہوں اور جن کاموں کے انجام دینے سے عاجز ہوں ان میں تجھ سے مدد کا خواستگار ہوں۔

(15) اے اللہ تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور تیرے جو جو حقوق میرے ذمہ عائد ہوتے ہیں انہیں بخش دے اور جس پاداش کا میں سزاوار ہوں اس سے معافی دے اور مجھے اس عذاب سے پناہ دے جس سے گنہگار ہراساں ہیں اس لیے کہ تو معاف کر دینے پر قادر ہے اور تجھ ہی سے مغفرت کی امید کی جا سکتی ہے اور تو اس صفت عفو و درگزر میں معروف ہے اور تیرے سوا حاجت کے پیش کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ تیرے علاوہ کوئی میرے گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ حاشا و کلا کوئی اور بخشنے والا نہیں ہے

(16) اور مجھے اپنے بارے میں ڈر ہے تو بس تیرا۔ اس لیے کہ تو ہی اس کا سزاوار ہے کہ تجھ سے ڈرا جائے اور تو ہی اس کا اہل ہے کہ بخشش و آمرزش سے کام لے۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور میری حاجت بر لا اور میری مراد پوری کر۔ میرے گناہ بخش دے اور میرے دل کو خوف سے مطمئن کر دے۔ اس لیے کہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور یہ کام تیرے لۓ سہل و آسان ہے۔ میری دعا قبول فرما اے تمام جہان کے پروردگار!


حوالہ جات

  1. ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۵۰۵۔
  2. ترجمہ و شرح دعای دوازدہم صحیفہ سجادیہ، سایت عرفان۔
  3. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۱۲۹-۱۵۷؛ ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۵۰۵-۵۵۷۔
  4. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۱۲۵-۱۵۷۔
  5. ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۵۰۵-۵۵۷۔
  6. فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۱۵-۶۲۔
  7. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ھ، ج۲، ص۴۶۵-۵۲۳۔
  8. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ھ، ص۱۷۱-۱۸۱۔
  9. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ش، ص۱۳۷-۱۴۰۔
  10. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ش، ص۱۴۵-۱۵۸۔
  11. فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ھ، ص۳۵-۳۸۔

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ ہجری شمسی۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ ہجری شمسی۔
  • فضل ‌اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ۔
  • فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مدنی شیرازی، سید علی‌ خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سیدالساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔

بیرونی روابط