اخلاق ناصری (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | خواجہ نصیر الدین طوسی |
موضوع | اخلاق |
زبان | فارسی |
اَخلاقِ ناصِری، فارسی زبان میں انسان کے فردی، سماجی اور خاندانی اخلاق کے موضوع پر لکھی گئی خواجہ نصیر الدین طوسی (597-672 ھ) کی کتاب ہے۔ اس کتاب کے بعض حصے ابو علی مسکویہ کی کتاب تہذیب الاخلاق کا ترجمہ ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کا علاج، سعادت کے مراتب، اموال و اولاد کی تدبیر، محبت و صداقت کی فضیلت، حکمرانی کے آداب اور لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت اس کتاب کے اہم مضامین میں سے ہیں۔
اس کتاب کو خواجہ نصیر الدین طوسی کا قدیمی ترین قلمی اثر سمجھا جاتا ہے جسے انہوں نے سنہ 633 ھ کو ناصر الدین محتشم (نزاریوں کے اسماعیلی حاکم) کی درخواست پر تحریر کیا۔ کتاب کے مقدمے میں اسماعیلیہ مکتب فکر کی مدح و ستائش بیان کی گئی تھی جسے بعد میں اسماعیلی حکومت سے رہائی ملنے کے بعد یہ کہہ کر حذف کر دیا گیا کہ یہ چیز مجبوری کی بنا پر لکھی گئی تھی۔
فارسی زبان میں فلسفی اور علمی اصطلاحات سے آشنا لوگوں کیلئے یہ کتاب سلیس سمجھی جاتی ہے۔ خواجہ نصیر الدین طوسی نے خود کتاب اخلاق ناصری کا خلاصہ اوصاف الاشراف کے نام سے تالیف کیا ہے۔ اسی طرح مفتاح الاخلاق اور توضیح الاخلاق اس کی شروحات میں سے ہیں۔ اخلاق ناصری سنہ 1229 ھ کے بعد متعدد مرتبہ ایران اور ہندوستان میں شایع ہو چکی ہے۔ مجتبی مینوی اور علی رضا حیدری نے اس کتاب کا تحقیق شدہ نسخہ سنہ 1356 شمسی میں شایع کیا۔
مترجم
محمد بن محمد بن حسن طوسی، مشہور بنام خواجہ نصیر الدین طوسی سنہ 597 ہجری میں پیدا ہوئے۔[1] 36 سال کی عمر میں یہ کتاب لکھی۔[2] خواجہ نصیر طوسی، وہ ہلاکو خان مغل کی حکومت میں وزیر تھا، وزیر بود و جلوگیری از نابودی کتابہا در جریان فتح بغداد کے موقع پر کتابخانوں کو نابود ہونے سے بچانا نیز ایران کے شہر مراغہ میں رصد خانے اور کتابخانے کا قیام اس کے کارناموں میں سے ہیں۔[3] علم کلام میں کتاب تجرید الاعتقاد، علم ہیئت میں تذکرہ نصیریہ علم منطق میں اساس الاقتباس اور منطق و حکمت میں شرح اشارات اس کے اہم ترین آثار ہیں۔[4]
مضامین کتاب
کتاب اخلاق ناصری فارسی زبان[5] میں ذاتی، معاشرتی اور گھریلو زندگی میں اخلاقی خصوصیات جیسے موضاعات پر لکھی گئی کتاب ہے اس میں بندگی کے بارے میں کم گفتگو ہوئی ہے۔[6] خواجہ نصیر الدین طوسی نے اس کتاب کا اکثر اور عمدہ حصہ ابو علی مسکویہ کی تہذیب الاخلاق سے لیا ہے۔[7] اسی وجہ سے اس کتاب کو تہذیب الاخلاق کا ترجمہ سمجھا جاتا ہے جس میں کچھ اضافات کئے گئے ہیں۔[8]
اخلاق ناصری میں ایک مختصر مقدمے کے بعد حکمت اور حکمت عملی کی تعریف تین مقالوں کی صورت میں بیان ہوئی ہے:
- مقالۂ اول: کتاب تہذیب الاخلاق (مسکویہ) کا ترجمہ اور خلاصہ ہے جس میں نفس اور نفسانی قوتوں کی تعریف کا ذکر موجود ہے۔ قوائے نفس کے فضائل و رذائل نیز مراتب سعادت، سلامت نفس کی محافظت اور نفسانی امراض کا علاج اور دیگر مطالب اس مقالے کا حصہ ہیں۔[9] خواجہ نصیر طوسی نے اس حصے میں صرف ترجمے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مختلف مقامات پر توضیح، حکایتیں اور متن کے شواہد ذکر کئے ہیں۔[10]
- مقالۂ دوم: گھر کی ضرورت،اس کے ارکان، تدبیر اموال، اولاد اور خدام کی تدبیر اس میں شامل ہے۔[11] مقالے میں تدبیر اولاد کا حصہ تہذیب الاخلاق کے متعلقہ حصے کا آزاد ترجمہ ہے۔[12]
- مقالۂ سوم: ملک و شہر کی سیاست کے متعلق لکھا گیا کہ جو آٹھ فصلوں پر مشتمل ہے؛ ان میں سے تمدن کی ضرورت، محبت کی فضیلت، معاشروں کی اقسام اجتماعات (مدینہ فاضلہ، غیر فاضلہ، جاہلہ و ...)، بادشاہوں کے آداب، صداقت کی فضیلت، لوگوں کے ساتھ کے ساتھ کیسی معاشرت ہو اور افلاطون کی نصیحتیں شامل ہیں۔[13] مقالے کے اس حصے میں فضیلت محبت و فضیلت صداقت دو حصے مسکویہ کی تہذیب الاخلاق کے پانچویں مقالے کا ترجمہ ہے۔[14]
سبب تالیف
خواجہ نصیر طوسی (متوفا 672 ھ) نے اس کتاب کو 633 ھ،[15] کے آس پاس قہستان میں نزاری اسماعیلی حکمران ناصر الدین عبد الرحیم بن ابی منصور محتشم حاکم کی درخواست پر تالیف کیا،اسی وجہ سے یہ اس کا نام کتاب اخلاق ناصری رکھا۔[16] خواجہ نصیر طوسی نے مقدمہ کتاب میں علاء الدین محمد اور ناصر الدین محتشم کی تعریف کی اور ناصر الدین کو عجم و عرب کا بادشاہ کہا ہے۔[17]
اسماعیلیوں کی حکومت سے چھٹکارا پانے کے بعد خواجہ نے مقدمہ کتاب سے اسماعیلی بادشاہوں کی تعریف و تمجید کے حصے کو حذف کر دیا اور اسے اضطراری حالت میں سے شمار کیا۔[18] اس نے عبد العزیز نیشابوری کے توصیہ پر 663 ھ میں کتاب میں حقوق والدین کا اضافہ کیا۔[19]
اخلاق ناصری خواجہ نصیر الدین طوسی کے ان قدیمی ترین آثار میں سے ہے جو اس وقت ہماری دسترس میں موجود ہے۔[20]
خصوصیات
اخلاق ناصری کے متن کو علمی و فلسفی اصطلاحات سے آشنا قدیم فارسی زبان جاننے والوں کیلئے علمی، متقن اور روان کتاب سمجھا جاتا ہے نیز اس میں غرین الفاظ بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔[21] یہ کتاب فلسفی روش پر لکھی گئی ہے اسی وجہ سے اس میں آیات اور روایات سے بہت کم استناد ہوا ہے۔[22] اس کے باوجود خواجہ نصیر الدین طوسی نے ہہت کم مقامات پر آیت یا روایت کا اصلی متن پر اضافہ کیا ہے جو ابو علی مسکویہ سے متعلق تھی۔ [23]
اخلاق ناصری کی روش تالیف کو مکمل طور پر مسکویہ کی تہذیب الاخلاق کی مانند قرار دیا گیا ہے[24] کہ اس بنا پر اخلاق ناصری ایک عقلی اور تحلیلی اثر ہے جس میں مؤلف اخلاقی مفاہیم کی وضاحت کے در پے پے۔[25] اخلاق ناصری اخلاقی آثار کا ایک تکملہ ہے جو اخلاق کو حکیمانہ نگاہ سے دیکھتا ہے اور جس میں روحانی بیماریوں کے خاتمے اور جان کی سلامتی میں طبیب کے مقام و منزلت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔[26]
اخلاق ناصری میں موجود مضامین میں سے عمدہ ترین تنقید کا نشانہ بننے والے مطالب جیسے شراب خوری کے آداب ہیں۔ ایسے مضامین کے ذکر کو خواجہ نصیر الدین طوسی کی علمی اور دینی شخصیت کے ساتھ ساتھ سازگار نہیں سمجھا گیا۔[27]
قلمی نسخے اور طباعت کتاب
اخلاق ناصری کے متعدد قلمی نسخے ایران کے کتب خانوں اور دیگر ممالک میں موجود ہیں؛[28] اس کا 676 ھ کا قدیمی ترین نسخہ ہے جو عراق کے شہر نجف میں محمد علی خوانساری کے ذاتی کتب خانے میں موجود ہے۔[29] اس کے علاوہ کتب خانہ عمومی آیت اللہ مرعشی نجفی اور کتب خانہ ملی جمہوری اسلامی ایران میں بھی موجود ہیں۔[30]
اخلاق ناصری کئی مرتبہ ایران، پاکستان اور ہندوستان میں طبع ہوئی۔[31] ان میں سے 1269 ھ میں چند مرتبہ لکھنو، بمبئی اور لاہور کی طباعت شامل ہے۔[32] اس کے علاوہ 1320 شمسی کو جلال ہمائی کی تصحیح اور تبریز سے کتاب اوصاف الاشراف کے ضمیمے کے ساتھ طبع ہوئی۔[33] مجتبی مینوی اور علی رضا حیدری کا تحقیقی نسخہ 1356 شمسی کو تہران سے چاپ ہوا جس کا مقدمہ بزرگ علوی، نے تحریر کیا۔[34]
شروحات اور تلخیص
اخلاق ناصری کی مختلف شرحیں اور خلاصے لکھے گئے۔ ان میں سے اوصاف الاشراف[35] ہے جو خود خواجہ نے لکھا۔[36] اس کے علاوہ اخلاق ناصری کی شروحات اور تلخیصیں درج ذیل ہیں:
- مفتاح الاخلاق: کتاب اخلاق ناصری کی شرح ہے جو امیر علاء الدین حسین آملی کی تالیف ہے۔[37]
- توضیح الاخلاق: ایک اور شرح ہے جو امیر علاء الدین حسین آملی نے شاہ صفی کے دستور پر 1051 ھ میں لکھی اور مفتاح الاخلاق کی نسبت زیادہ روش اور واضح تالیف ہوئی ہے۔[38]
کتاب اخلاق ناصری جرج مایکل ویکنز کے توسط سے ترجمہ ہوئی اور 1964ء میں لندن سے چھپی۔[39]
حوالہ جات
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳-۱۴۴.
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذريعۃ، ۱۳۵۵ق، ج۱، ص۳۸۰؛ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۴.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۶.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۷-۱۴۸.
- ↑ مرعشی، کتاب شناسی دست نوشتہہای آثار علامہ خواجہ نصیر الدین محمد طوسی، ص۴۳؛ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۹.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۷.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۷.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۷.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۸.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۸.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۸.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۴.
- ↑ مرعشی، کتاب شناسی دست نوشتہہای آثار علامہ خواجہ نصیر الدین محمد طوسی، ص۴۳؛ خواجہ نصیر الدین طوسی، اخلاق ناصری، ۱۴۱۳ق، ص۴.
- ↑ مرعشی، کتاب شناسی دست نوشتہہای آثار علامہ خواجہ نصیر الدین محمد طوسی، ص۴۴.
- ↑ خواجہ نصیر الدین طوسی، اخلاق ناصری، ۱۴۱۳ق، ص۳؛ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۴؛ مرعشی، کتاب شناسی دست نوشتہہای آثار علامہ خواجہ نصیر الدین محمد طوسی، ص۴۴.
- ↑ مرعشی، کتاب شناسی دست نوشتہہای آثار علامہ خواجہ نصیر الدین محمد طوسی، ص۴۴.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۸.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۸.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۸.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۸.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۸.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۳۲.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۳۲.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۹.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۴.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۴.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۴.
- ↑ مرعشی، کتاب شناسی دست نوشتہہای آثار علامہ خواجہ نصیر الدین محمد طوسی، ص۴۵.
- ↑ مرعشی، کتاب شناسی دست نوشتہہای آثار علامہ خواجہ نصیر الدین محمد طوسی، ص۴۵.
- ↑ مرعشی، کتاب شناسی دست نوشتہہای آثار علامہ خواجہ نصیر الدین محمد طوسی، ص۴۵؛ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۴.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۴.
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذريعۃ، ۱۳۵۶ق، ج۲، ص۴۷۷؛ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.
مآخذ
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذريعۃ الی تصانيف الشيعۃ، ج۱، بیروت، دار الأضواء، ۱۳۵۵ق.
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذريعۃ الی تصانيف الشيعۃ، ج۲، بیروت، دار الأضواء، ۱۳۵۶ق.
- احمد پور، مہدی و محمد تقی اسلامی و محمد عالم زادہ نوری و مہدی علی زادہ، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، ۱۳۸۵ش.
- خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد بن حسن، اخلاق ناصری، تہران، انتشارات علمیہ اسلامیہ، ۱۴۱۳ق.
- مرعشی، محمود، کتاب شناسی دست نوشتہہای آثار علامہ خواجہ نصیر الدین محمد طوسی، قم، کتاب خانہ بزرگ حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۳۸۷ش/۱۴۳۰ق/۲۰۰۹م.