اثبات الوصیہ للامام علی بن ابی طالب(مسعودی)

ویکی شیعہ سے
اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب
مشخصات
مصنفعلی بن حسین مسعودی
موضوعائمہ معصومینؑ کے سوانح حیات اور جانشینی کا اثبات
زبانعربی
تعداد جلد1
طباعت اور اشاعت
مقام اشاعتقم
سنہ اشاعت1404ھ


اِثباتُ الوَصیةِ للإمام علی بن ابی‌طالب علی بن حسین مسعودی (280-345 یا 346ھ) کی عربی زبان میں لکھی گئی تاریخی کتاب ہے۔ یہ کتاب ائمہ معصومینؑ کی جانشینی کو ثابت کرنے کے مقصد سے لکھی گئی ہے۔ مولف نے آغاز کتاب میں امامت کی ضرورت کے اثبات میں منقولہ بعض روایات بیان کرنے کے بعد ان انبیاء کے مختصر سوانح حیات قلمبند کیے ہیں جو یکے بعد دیگرے آئے۔ اس کے بعد پیغمبر اسلامؐ نیز آپؐ کے برحق جانشینوں کی حیات طیبہ کے بارے میں لکھا ہے۔ امامت سے متعلق نصوص اور ائمہؑ کے فضائل و مناقب پر مشتمل روایات کو بھی بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں انبیاء، ائمہؑ اور ان کے ہم عصر بادشاہوں اور خلفاء کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے۔

اثبات الوصیہ کو دیگر شیعہ حدیثی کتب کے انداز میں لکھا گیا ہے اور کتاب کے مندرجات مولف کی شیعیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ شیعہ رجالی اور تراجم نگاری(سوانح عمری) منابع میں اثبات الوصیۃ کے مولف وہی مسعودی ہے جو مروج الذہب کے مولف ہے۔ تاہم اس کتاب کے مورخ مسعودی کی طرف منسوب کیے جانے پر معاصر محققین نے مسعودی کے اسلوب اور ان کی دیگر تصانیف میں طریقہ کار سے اختلاف کی وجہ سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

مقام و مرتبہ

کتاب اثبات الوصیۃ میں تخلیق حضرت آدمؑ کا ماجرا اور ان کے بعد کے انبیاءؑ، پیغمبر خاتمؐ تک کی سیرت اور معجزات اور ان کے معاصر بادشاہوں کی تاریخ بیان کی ہے۔ پھر سیرت و معجزات پیغمبر اسلامؐ اور بارہ اماموںؑ کے معجزات اور ان کے معاصر خلفاء کی تاریخ بیان ہے۔[1]

اثبات الوصیہ میں مندرج مطالب شیعہ دیگرمنابع جیسے کافی، بصائر الدرجات یا ائمہؑ کی تاریخ سے متعلق کتب میں موجود ہیں۔ ان کے بعد آنے مولقفین نے بھی انہی سے نقل کیا ہے۔ یہ کتاب صاحب "الخرائج و الجرائح" اور فضائل و مناقب لکھنے والے مولفین کے پاس رائج تھی، محمد باقر مجلسی نے بھی اپنی کتاب بحارالانوار ارو محمد حسین کاشف الغطاء نے "اصل الشیعة و اصولها (کتاب)" میں اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔[2]

کتبی نے اپنی کتاب "فوات الوفیات" میں عین اسی اثبات الوصیۃ کا ذکر کیا ہے اور شاید کتاب "تعیین خلیفۃ الماضی"(جسے ابن حجر نے اپنی کتاب لسان المیزان میں مسعودی کی تالیف قرار دی ہے) سے مراد یہی اثبات الوصیۃ کی کتاب ہو۔[3]

مسعودی کی طرف کتاب کی نسبت

سوانح عمری سے متعلق شیعہ منابع میں علی بن حسین مسعودی کو کتاب اثبات الوصیۃ کا مولف جانا گیا ہے۔ احمد بن علی نجاشی نے اپنی کتاب رجال نجاشی میں[4] اور ان کے بعد بہت سے رجالی کتب کے شیعہ مولفین اس کتاب کو مسعودی کی طرف نسبت دی ہے۔[5] لیکن جدید محققین مسعودی کی دیگر کتب اور اس کے مابین طرز تحریر کے اختلاف کو مد نظررکھتے ہوئے اسے مسعودی کی طرف منسوب کرنے کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔[6]

موضوع اور اہداف

اثبات الوصیہ عنوان کی کتاب کا موضوع امیر المومنین حضرت علیؑ کی جانشینی کا اثبات ہے؛ لیکن مناسبت کو مد نظر رکھتے باقی آدھی کتاب میں دیگر ائمہؑ سے متعلق مطالب بیان کیے گیے ہیں۔ تالیف کتاب کا اصلی مقصد یہ بات ثابت کرنا ہے کہ جانشینی کا سلسلہ گذشتہ انبیاء میں بھی رہا ہے اور خاتم النبیین حضرت محمدؑ کے بعد یہ سلسلہ حضرت علیؑ تک پہنچا اور اس کے بعد باقی ائمہؑ رسول خدا کے جانشین بنے ہیں۔ اس لیے حضرت آدمؑ سے خاتمؑ تک کے متعدد پیغمبران اور ان کے جانشینین کے سوانح حیات کو یہاں بیان کیا ہے۔[7]

طرز تالیف

اثبات الوصیہ کو دیگر شیعہ حدیثی کتب کی مانند تحرہر کیا گیا ہے۔ لیکن مولف نے مطالب کے منابع کو ذکر نہیں کیا ہے اور عموما سلسلہ سند کو ذکر نہیں کیا ہے۔ البتہ کتاب کے دوسرے حصے بعض راویوں کی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن یہاں بھی مکمل سلسلہ سند بیان نہیں کیا گیا ہے، سلسلہ سند کے صرف درمیانی راویوں کو ذکر کیا ہے۔ مولف نے اپنی اس کتاب میں انبیاء اور ائمہؑ کے معجزات و کرامات کو مسلسل بیان کیا ہے اور صورف بعض موارد میں لفظ «رُوِیَ» کے ذریعے مطالب کو ایک دوسرے سے الگ کیا ہے۔

مندرجات

کتاب اثبات الوصیۃ دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلے حصے میں حضرت آدمؑ سے لے کر ختام النبیین حضرت محمد ؐ کو حجج الہی کے عنوان سے بیان کیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں رسول خداؐ کے بعد سے لے کر قیامت تک کے حجج الہی کو حضرت علیؑ سے لیکر حضرت مہدی(عج) تک بیان کیا ہے۔ کتاب کے مقدمے میں تخلیق اور امام جعفر صادقؑ سے منقول حدیث، حدیث جنود و عقل کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے۔ مولف نے خلقت عقل سے متعلق روایت بیان کی ہے اور اس بات کی تاکید کی ہے کہ عقل اول ایک روحانی موجود ہے اور مخلوق خدا ہے۔[8] اس کے بعد جن و انس کی تخلیق سے متعلق مطالب بیان ہوئے ہیں اس میں فرشتوں کا حضرت آدمؑ کی پیدائش سے متعلق اعتراض اور جن و انس کو زمین پر خون بہانے والے اور فساد سے پھیلانے دو موجود کے طور پر تعارف کرایا گیا ہے۔[9] بعد میں ہبوط حضرت آدم، ہابیل و قابیل کا واقعہ،[10] حضرت شیث کی وصایت اور دیگر پیغمبران کے اوصیاء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔[11]

کتاب کے دوسرے حصے میں حضرت محمد ؐ کی ولادت سے لے کر امام مہدی(عج) کی ولادت تک ک تذکرہ ہے۔ رسول خداؐ کی ولادت کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ کے آباء و اجداد کا ذکر کی اگیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ابرہہ کے لشکر کے حملے اور ان کے ساتھ عبد المطلب کی گفتگو کو مفصلا بیان کیا ہے۔[12] اسی حصے میں عبد الله بن عبد المطلب کے اوصاف بھی بیان کیے گئے ہیں۔ [13] مولف نے رسول خداؐ کے روز میلاد کو پیر کی صبح(ایک روایت کے مطابق جمعہ) 12 ربیع الاول بیان کیاہے۔[14]

حدیث دار، شعب ابی طالب میں رسول خدا کا محاصرہ اور قریش کا معاہدہ، معراج، ہجرت، لیلۃ المبیت اور حجۃ الوداع اور دیگر واقعات ایسے مطالب ہیں جن میں سے ہر ایک حضرت علیؑ کی جانشینی پر تاکید کرتا ہے۔[15] رسول خداؐ کی وفات سے پہلے جانشینی علیؑ کی وصیت اور حضرتت علیؑ سے اس کا معاہدہ وغیرہ بھی اسی حصے میں آیا ہے۔[16] کتاب کے آخری حصے میں رسول خداؐ کی وفات، حضرت علیؑ کے ہاتھوں سے آپؐ کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔[17]

حضرت علیؑ سے متعلق بیان کیے گئے مطالب میں آپؑ کے ایمان، ابوطالب کی رسول خداؐ کی حمایت، ولادت امیر المومنینؑ،[18] رسول خداؐ کے پاس آپؑ کی تربیت،[19] وفات رسول خداؐ کے بعد پیش آنے والے واقعات،[20] حضرت علیؑ کے معجزات و کرامات[21] اور آپؑ کی شہادت کا تذکرہ آیا ہے۔ امام حسن عسکریؑ تک تمام ائمہؑ کی ولادت اور وصایت سے متعلق تفصیل سے بیان ہوا ہے۔[22] کتاب کے آخری حصے میں امام مہدی(عج) کی ولادت، آپؑ کی امامت اور غیبت کے بارے میں تفصیل سے مطالب بیان ہوئے ہیں۔[23]

ترجمه و چاپ

اثبات الوصیۃ پہلی بار علی نقی بن حبیب اللہ جیلانی نے سید مرتضیٰ کے دارالطبع سے سنہ 1320ھ کو محمد قمی کے خط سے لکھے ہوئے نسخے کو مرزا محمد رضا مستوفی کے حکم سے شائع کیا۔ مکتب حیدریہ نجف، منشورات رضی قم اور مکتبہ مرتضویہ نجف دیگر ناشرین میں سے ہیں جنہوں نے اس کتاب کو شائع کیا ہے۔ سنہ1384ہجری شمسی میں انصاریان پبلیکیشنز نے اسے شائع کیا، جس کا متن مرکز تحقیقات کامپیوٹری علوم اسلامی کے "جامع الاحادیث" سافٹ ویئر میں دستیاب ہے۔

محمد جواد نجفی نے اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے اور انتشارات اسلامی نے اسے سنہ1343ہجری شمسی میں شائع کیا۔

حوالہ جات

  1. مسعودی، اثبات الوصیه، مقدمه، ص6.
  2. مسعودی، اثبات الوصیه، مقدمه، ص6.
  3. مسعودی، اثبات الوصیه، مقدمه، ص6.
  4. نجاشی، رجال، ص254.
  5. ابن‌داوود، رجال ابن داوود، ص241؛ علامه حلی، خلاصة الاقوال، ص100؛ نوری، مستدرک الوسائل، ص115؛ مسعودی، اثبات الوصیه، مقدمه ص5-6.
  6. جعفریان، منابع تاریخ اسلام؛ شبیری زنجانی، اثبات الوصیه و مسعودی صاحب مروج الذهب، ص217-219؛ حمود، کتابشناسی مسعودی، ص92.
  7. معسودی، اثبات الوصیه، شناسنامه کتاب.
  8. مسعودی، اثبات الوصیه، ص6-8.
  9. مسعودی، اثبات الوصیه، ص9-11.
  10. مسعودی، اثبات الوصیه، ص11-13.
  11. مسعودی، اثبات الوصیه، ص15-76.
  12. مسعودی، اثبات الوصیه، ص87-89.
  13. مسعودی، اثبات الوصیه، ص90-92.
  14. مسعودی، اثبات الوصیه، ص97.
  15. مسعودی، اثبات الوصیه، ص98-103.
  16. مسعودی، اثبات الوصیه، صص104-106.
  17. مسعودی، اثبات الوصیه، ص106-111.
  18. مسعودی، اثبات الوصیه، ص117-120.
  19. مسعودی، اثبات الوصیه، ص122.
  20. مسعودی، اثبات الوصیه، ص123-128.
  21. مسعودی، اثبات الوصیه، ص129-130.
  22. مسعودی، اثبات الوصیه، ص131-207.
  23. مسعودی، اثبات الوصیه، ص207-232.

مآخذ

  • آقا بزرگ تهرانی، الذریعة إلی تصانیف الشیعة، اسماعیلیان، قم و کتابخانه اسلامیه، تهران، 1408ھ.
  • حمود، هادی حسین،کتابشناسی مسعودی، ترجمه علی نقیان، کتاب ماه تاریخ و جغرافیا، شماره 133، خرداد 1388ہجری شمسی.
  • حلی، حسن بن علی بن داود، الرجال(لابن داود)، دانشگاه تهران، تهران
  • حلی، حسن بن یوسف بن مطهر، خلاصة الاقوال، مصحح: بحرالعلوم، محمدصادق،‌دار الذخائر، نجف، 1411ھ.
  • شبیری زنجانی، سید محمد جواد،اثبات الوصیه و مسعودی صاحب مروج الذهب، مجله انتظار موعود، شماره 4، تابستان1381ہجری شمسی.
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیة للامام علی بن ابی‌طالب علیه‌السلام، منشورات الرضی، قم.1404ھ.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال، مؤسسة النشر الاسلامی التابعه لجامعة المدرسین، قم، 1365ہجری شمسی.
  • نوری، حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، مؤسسة آل البیت علیهم السلام، قم، 1408ھ.