عبد اللہ بن زبیر

ویکی شیعہ سے
عبد اللہ بن زبیر
کوائف
مکمل نامعبد اللہ بن زبیر بن عوام
کنیتابوبکر ، ابو خُبَیب
محل زندگیمکہ، مدینہ
اقاربزبیر بن عوام، اسماء بنت ابو بکر
وفات17 جمادی الاولی سنہ 73 ہجری
مدفنجحون (مکہ)
دینی معلومات
وجہ شہرتصحابی (صغیر)
دیگر فعالیتیںکعبہ کی تعمیر نو


عَبْدُاللّہ بْن زُبَیْر بن عَوام (1۔73 ھ) ابن زبیر کے نام سے مشہور، زبیر بن عوام کا بیٹا تھا۔ معاویہ کے مرنے کے بعد خلافت کا دعویدار تھا۔ لہذا اس نے آل زبیر کی حکومت کی بنیاد مکہ میں رکھی۔ پیامبر (ص) کی زندگی میں سن کم ہونے کی وجہ سے اسے صحابہ صغار میں سے قرار دیتے ہیں۔ وہ مہاجرین کا پہلا مولود ہے جو مدینہ میں پیدا ہوا۔ یزید بن معاویہ کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے اسے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ اس کے مکہ میں پناہ لینے کی وجہ سے یزید نے یہاں لشکر کشی کی۔ ابن زبیر نے سنہ 64 ہجری میں اپنے آپ کو خلیفہ اعلان کیا۔ بہت سے شامیوں، حجازیوں اور مکہ و مدینہ کے لوگوں نے اسکی بیعت کی۔ کعبہ کی ایک تعمیر نو کی اس کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔ ابن زبیر جنگ جمل کے فتنے کا ایک بنیادی عنصر تھا۔ اس نے امام علی سے جنگ کی اور شکست کے بعد امام علی نے اس کی معافی کو قبول کیا۔ 72 سال کی عمر گزار کر مکہ حجاج بن یوسف ثقفی کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔

تعارف

عبدالله بن زبیر بن عوّام بن خُوَیلد قبیلہ بنی‌ اسد کی ایک شاخ سے ہے۔ ابوبکر اور ابو خُبَیب اسکی کنیت ہے۔ باپ کا نام زبیر بن عوام تھا جو رسول اللہ کا ایک مشہور صحابی اور پیامبر کا چچا زاد تھا۔ ابن زبیر کی ماں کا نام اسماء بنت ابو بکر تھا۔

پیدائش

تاریخی روایات میں اس کی پیدائش میں کچھ اختلاف ذکر ہوا ہے۔[1] مشہور قول کی بنا پر وہ مکہ کے مہاجرین میں سے پہلا مدینہ میں پیدا ہونے والا مولود ہے اور ہجرت کے پہلے سال شوال میں پیدا ہوا۔[2]اسکی ولادت کی خبر مسلمانوں نے اظہار خوشی کیا کیونکہ یہودیوں نے ادعا کیا تھا کہ وہ سحر کے ذریعے مسلمانوں کے ہاں پیدائش کا سلسلہ روک دیں گے اور مسلمانوں کی نسل ختم کر دیں گے۔ کہتے ہیں رسول اللہ نے بھی اظہار خوشی کیا اور اسے پہلی خوراک کھجور دی نیز اس کا نام عبدالله رکھا اور ابوبکر نے اسکے کان میں اذان کہی۔[3]

شیعہ اور اہل سنت روایات کے مطابق زبیر کی شادی اسماء کے ساتھ متعہ کے ذریعے انجام پائی تھی۔[4] پس عبدالله بن زبیر اس کے ذریعے پہلی اولاد تھی۔[5]

ابن زبیر نے سات یا آٹھ سال کی عمر میں دوسرے مسلمان بچوں کے ہمراہ رسول اللہ کی بیعت کی۔ اس بنا پر اسے صحابہ صِغار سے شمار کرتے ہیں۔[6]

رحلت پیغمبر(ص) کے بعد

ابن زبیر رسول کی حیات طیبہ میں کمسن تھا لہذا اس بنا پر سیاسی اور معاشرتی حوالے سے اسکے متلعق کوئی معلومات نہیں ہے۔ صرف کہا گیا ہے کہ اس نے خلافت ابوبکر میں رومیوں کے خلاف جنگ یرموک (سال۱۵ ھ/۶۳۶ ء) کے معرکے میں اپنے باپ کے ساتھ شریک ہوا لیکن کمسنی کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔[7] آہستہ آہستہ عبدالله بن زبیر کا نام عثمان کی خلافت میں لیا جانے لگا اور اسکا نام مختلف جہتوں سے مذکور ہے۔ طبری(م. ۳۱۰ق.) کے مطابق ایران کے شمالی مناطق جو ابھی (خراسان قدیم) ہے، میں ۲۹-۳۰ق. میں سعید بن العاص کے ساتھ تھا۔[8] عثمان کے دور خلافت میں قرآنی نسخوں کی جمع آوری کے ماجرے میں قرآن کے کاتبوں میں سے تھا۔[9] وہ ۲۷ یا ۲۸ق. میں عبدالله بن سعد بن ابی‌سَرْح کی سربرابراہی میں اندلس کے حملے میں شریک تھا ۔خود اس سے نقل کرتے ہیں کہ دشمن کے سپہ سالار کا قتل مسلمانوں کی کامیابی کا باعث بنا۔[10]ابن زبیر نے اپنے باپ اور اپنی خالہ عائشہ کے بر عکس عثمان کے گھر پر لوگوں کے حملے کے ماجرے میں عثمان کی مدد کی اور اس سے دفاع کرتا رہا۔[11] مخالفین کا سامنا کرتے ہوئے اس نے عثمان کی نمائندگی کی اور اسکے گھر کے محاصرے کے دوران نماز جماعت کی امامت کے فرائض انجام دئے نیز اس ماجرے میں زخمی بھی ہوا۔[12]

امام علی(ع) کی خلافت

ابن زبیر نے خلافت علی کے دوران انکی مخالفت کا راستہ اختیار کیا۔ اس زمانے کے اہم ترین اقدام حضرت علی کی مخالفت، جنگ جمل میں شرکت اور امام علی کے خلاف شورشوں کے حالات مہیا کرنا تھے۔ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں اسے تقریبا تیس (30) زخم لگے۔[13] اپنے باپ کو حضرت علی کے خلاف ابھارنے میں اس کا کردار ادا کیا، اسطرح سے کہ امام علی سے روایت میں ابن زبیر کی اہل بیت سے جدائی کا سبب مذکور ہے۔[14] جنگ سے پہلے اسے خبر ملی کہ اسکا باپ زبیر اپنے کئے پر پشیمان ہے اور جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتا ہے لہذا وہ چاہتا ہے کہ میدان جنگ میں نہ جائے لیکن زبیر اس میں کامیاب نہ ہوا۔[15] حضرت عائشہاور ابن زبیر کے درمیان انس و محبت کا رابطہ تھا۔[16]، حضرت عائشہ نے موت کے وقت اسے اپنا وصی بنایا[17] اور بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے جنگ جمل میں عائشہ اس کے تحت تاثیر تھی۔[18]

جنگ جمل کے موقع پر ابن زبیر کی سرکردگی میں پیادہ لشکر نے بصرے کے عثمان بن حُنَیف کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کی مخالفت کی اور ۴۰ مسلمان محافظوں کو قتل کیا اور بیت المال لوٹا جبکہ اس معاہدے کی رو سے یہ طے پایا تھا کہ امام علی کے آنے تک فریقین جنگ نہیں کریں گے۔[19]

قیام اور خلافت

معاویہ کے مرنے کے بعد عبدالله بن زبیر نے یزید کی بیعت نہیں کی اور امویوں کے خلاف قیام کے راستے کو اپنایا۔ تاریخی منابع میں اس قیام کے متعلق مختلف نظریے بیان ہوئے ہیں؛ ان میں سے ایک خلافت کا حصول تھا۔ بعض روایات کے مطابق ابن زبیر امام حسین (ع) کے وجود کو اپنی آرزو کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتا تھا کیونکہ جب تک امام حسین (ع) جیسی شخصیت حجاز میں موجود ہوگی لوگ اسکی رہبری قبول نہیں کریں گے، جب اسے امام حسین کے کوفہ جانے کے ارادے کا پتہ چلا تو وہ انہیں کوفہ جانے کی ترغیب دیتا رہا۔[20] ابن‌ زبیر پیامبر (ص) اور ان کی دو زوجات خدیجہ اور حضرت عائشہ سے نزدیکی رشتہ رکھتا تھا۔ اسکا باپ صحابہ کی نسبت رسول خدا سے زیادہ نزدیک تھا اور اسے اپنے باپ کے چھ رکنی شوریٰ میں ایک ممبر ہونے کی خصوصیت بھی حاصل تھی۔[21] مزید یہ کہ وہ مدعی تھا کہ عثمان نے اسے خلافت دینے کا عہد کیا تھا۔ ان تمام عوامل کے پیش نظر وہ اپنے آپ کو بنی امیہ کی نسبت خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتا تھا۔

معاویہ امام علی کی شہادت کے بعد ابن زبیر کو دھمکانے اور لالچ کے ذریعے اپنی بیعت [22] اور قسطنتنیہ پر حملے میں اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہا [23] لیکن ساتھ ہی اپنے مرنے کے بعد اپنے جانشین یزید کی بیعت نہ کرنے پر اسے تہدید بھی کی۔[24] معاویہ کی وفات کے بعد اسکی نصیحت کے مطابق یزید نے ابن زبیر سے بیعت کے حصول کیلئے دباؤ ڈالا اور اسے جان سے مار دینے کی دھمکی لہذا ابن زبیر نے اس خوف سے مکہ میں خانۂ خدا میں پناہ لی۔[25] وہ اپنے آپ کو عائذ البیت (خانۂ خدا میں پناہ لینے والا) لے لقب سے یاد کرتا۔[26] گویا ایک روایت کی طرف اشارہ ہے کہ جسکی بنا پر ایک شخص ستمکاروں کے ستم کی وجہ سے کعبہ کو پناہ قرار دے گا اور ستمکار نابود ہو جائیں گے۔[27]

ابن زبیر نے شروع میں ظاہر کیا کہ وہ یزید کی بیعت کرے گا اور کچھ مدت اسی طرح گزر گئی۔ مکہ میں واقعہ کربلا پہنچنے کے بعد ایک نہایت جوشیلا خطبہ دیا، گریہ کیا اور کنایتی انداز میں خلافت کیلئے یزید کے غیر موزوں اور نالائق کہا۔[28] بالآخر یزید نے اسے انی بیعت کرنے کا حکم دیا اور چاندی سے بنی ہوئی زنجیریں اس کے لیے بھیجیں اور چاہا کہ وہ بیعت کے ذریعے اسکی فرمانبرداری کا اظہار کرے اور اسکے پاس آئے لیکن ابن زبیر نے قبول نہیں کیا۔ [29]

مدینے اور مکے کے حاکم عمرو بن سعید نے یزید کے فرمان پر ایک مختصر فوجی دستہ بیعت لینے کیلئے ابن زبیر کی طرف روانہ کیا لیکن انہوں نے ابن زبیر کی سپاہ سے شکست کھائی۔[30] اس دستے کا سربراہ ابن زبیر کا سوتیلا بھائی تھا [31] وہ اس جنگ میں اسیر ہو کر زندان میں قتل ہوا۔[32] اس وقت عملی طور پر مکہ ابن زبیر کے ہاتھ میں تھا [33]۔ مدینہ بھی واقعۂ کربلا اور یزید کی نالائقی کی بنا پر ابن زبیر کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا۔ مدینے کے جوان حاکم عثمان بن محمد بن ابی ­سفیان نے حج کے بعد مدینے کے نمایا شخصیات کا ایک وفد شام روانہ کیا کہ شاید انعام و اکرام یزید کے ذریعے ان کی دلجوئی شاید حالات مدینہ پر سکون ہو جائیں اور مدینے کی بے چینی کا خاتمہ ہو۔[34] لیکن اسکی وجہ سے یزید کی خلافت کیلئے نالائقی اور عیان ہو گئی۔ اس وفد کے سامنے یزید کی غیر اسلامی رفتار نے اس وفد کو مزید ناراض اور ناراحت کیا۔ اس وفد نے مدینہ واپسی پر اسکی خلافت کی نسبت ناشائستگی کو کھل کر لوگوں کے سامنے بیان کیا اور اسے برا بھلا کہا۔ اسکے جواب میں یزید نے ایک بہت سخت لہجے میں مدینہ کے لوگوں کو خط لکھا۔[35]

ابن زبیر نے اپنے خطبے میں یزید کو آڑے ہاتھوں لیا اور مسلمانوں کو یزید کے خلاف اس بات پر ابھارا کہ وہ اسے خلافت سے برطرف کر دیں۔[36] پھر مدینے کو لوگوں کو خط لکھا اور انہیں اپنے مسلمانوں کے خلیفے کے عنوان سے بیعت کی دعوت دی۔ لوگوں نے عبدالله بن مُطیع عَدوی کے ہاتھ ہر ابن زبیر کیلئے بیعت کی۔[37] اس بیعت کے نتیجے میں مدینے کو لوگوں نے حاکم مدینہ عثمان بن محمد اور بنی امیہ کے ایک گروہ کو مدینے سے باہر نکال دیا۔[38]

اس کے جواب میں ابن زبیر اور اسکے ہواخواہوں کی سرکوبی کیلئے یزید نے حجاز پر لشکر کشی کی اور ابن زبیر کو ڈرایا دھمکایا۔ [39] یزید کے لشکر نے پہلے مدینے کا محاصرہ کیا اور مدینے کے لوگوں سے یزید کی پیروی کا مطالبہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ ابن زبیر کی شورش کچلنے کیلئے اسکا ساتھ دیں۔ لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔[40] بالآخر 28 ذی‌ الحجہ 63 ھ میں سپاہ مدینہ اور سپاہ شام آمنے سامنے صف آرا ہوگئے۔[41]

ابن زبیر اور محاصرۂ مکہ

مدینے کی سپاہ فوج شام کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی اور یزید کے فرمان پر لشکر کیلئے مدینے کے لوگوں کے جان و مال کو مباح قرار دیا۔[42] اس کے نتیجے میں لشکر نے صحابہ اور لوگوں کا قتل عام کیا اور خواتین کی ناموسوں کا پائمال کیا۔ یہ واقعہ تاریخ میں فاجعہ حَرّه کے نام سے رقم ہوا۔ سپاہ شام اس کے بعد ابن زبیر کی سرکوبی کیلئے مکہ روانہ ہوا۔[43]

ابن زبیر اور اسکے ہواداران 13 صفر سال 64 ھ سے لے کر 40 دن تک محاصرے میں رہے اور یہ محاصرہ یزید کی موت کے بعد 13 ربیع الاول 64 ھ تک سپاہ شام تک رہا۔[44]

ابن‌ زبیر مسجد الحرام میں مستقر ہوا شامیوں نے پہاڑوں اور مسجد الحرام سے بلند مقامات پر منجنیق نصب کیں[45] اور انہوں نے پتھر اور آگ برسانی شروع کی جس کے نتیجے میں زبیر اور اسکے افراد کو آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ منجینقوں کے پتھر کعبہ کو بھی لگے، رکن یمانی اور حجر الاسود کے درمیان پردوں اور کعبہ پر موجود لکڑی کے جالی دار چوکھٹے کو آگ لگ گئ۔[46]یعقوبی(م 292 ھ) نے ذکر کیا ہے کہ ابن زبیر نے آگ کو خاموش نہیں کیا تا کہ مکہ کے لوگوں کو لشکر شام کے خلاف مزید مصمم کرے۔[47] مختلف گروہ اور دستے ابن زبیر کے ہمراہ مسجدالحرام سے دفاع کی خاطر لڑتے رہے ان میں ۲۰۰ حبشیوں کا وہ گروہ بھی شامل ہے جسے حبشہ کے بادشاہ نے کعبہ کے دفاع کیلئے بھیجا تھا۔[48] سپاه شام ابن زبیر اور مکہ کے لوگوں کو شکست دینے میں ناکام رہے اور جب یزید مر گیا تو چالیس دن کے بعد اسکی موت کی خبر انہیں ملی تو انہوں نے اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا اور شام واپس ہو گئے۔

خلافت

تاریخی مآخذ میں ابن زبیر کی لوگوں کو دعوت یعت کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔بعض نے نہم رجب سال ۶۴ق. ذکر کی ہے [49]بعض اس واقعہ کو یزید کی موت کے تین ماہ بعد کہتے ہیں ۔[50] کہتے ہیں کہ یزید بن معاویہ کی موت کے بعد شام کے اطراف میں ابن زبیر کے اہم طرفدار پیدا ہو گئے اور اسی وجہ سے یزید کی موت کے بعد اسکے لشکر کے سپہ سالار نے شام کی طرف جانے سے پہلے ابن زبیر سے درخواست کی کہ جو کچھ اس سے واقعہ حره جیسا ہوا اس سے چشم پوشی کرے اور اسکے ساتھ خلافت شام کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے آئے لیکن ابن زبیر نے چند وجوہات کی بنا پر اس تجویز کو قبول نہیں کیا ۔ [51][52]

جلد ہی دمشق، کوفہ، بصره، یمن اور خراسان کے مختلف علاقوں سمیت ممالک اسلامی کے اکثر لوگوں نے ابن زبیر کے نمائندوں کے ہاتھ پر اسکی بیعت کر لی۔ [53] ابن زبیر نے بنی امیہ سے وابستہ لوگوں سے سخت برتاؤ کیا اور انہیں مکہ سے باہر نکال دیا[54] نیز ان واقعات میں حرم کی حدود کے اندر عتبہ بن ابی‌ سفیان کے مولا سمیت پچاس افراد کا قتل بھی شامل ہے [55] جس کی وجہ سے اسے عبدالله بن عمر اور عبدالله بن عباس کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ [56]

ابن زبیر کی خلافت کے دوران بنی ہاشم کے ساتھ اسکا رابطہ اچھا نہیں ہوا ۔ ابن زبیر کی طرف سے بیعت کی درخواست پر محمد بن حنفیہ نے مثبت جواب نہیں دیا اور اپنی بیعت کو تمام مسلمانوں کے اتفاق نظر کے ساتھ مشروط کیا کہ جس کا واقع ہونا ممکن نہ تھا۔[57]ابن زبیر نے اپنے خطبے میں امام علی(ع) کی توہین کی اور اس کے جواب میں محمد بن حنفیہ نے خطبہ دیا اور لوگوں اور قریش کے بزرگوں کو ردعمل ظاہر کرنے طرف دعوت دی ۔ [58]ابن زبیر کی محمد بن حنفیہ سے بیعت کا مطالبہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ یہ ماجرا جاری رہا ۔ کوفے میں اس کے گورنر عبدالله بن مطیع کے اخراج اور قیام مختار کے بعد ایک مرتبہ پھر اس نے محمد بن حنفیہ پر بیعت کیلئے دباؤ ڈالا، اس مرتبہ اس نے محمد بن حنفیہ اور اسکے ساتھیوں کو حجره زمزم میں زندانی کیا اور کہا : اس نے خدا سے عہد کیا ہے کہ اگر انہوں نے اسکی بیعت نہ کی تو وہ انہیں اسی مقام پر جلا دے گا یا قتل کر ڈالے گا۔ [59] کہتے ہیں  : محمد بن حنفیہ نے خط کے ذریعے کوفہ میں مختار سے مدد کی درخواست کی [60] اس کے جواب میں مختار نے ایک دستہ اس کی مدد کیلئے مکہ روانہ کیا اس دوران محمد کے قید خانے کے اطراف میں آگ لگانے کیلئے ایندھن اکٹھا کیا ہوا تھا۔ [61] کوفے سے 150 افراد کے آنے والا گروہ حرمت مسجد کی خاطر تلواروں کی بجائے ڈنڈے لے کر یا لثارات الحسین کے شعار کے ساتھ مسجدالحرام میں وارد ہوا اور اس نے زندانیوں کو آزاد کر دیا ۔ مختار نے مزید افراد مسجد الحرام بھیجے ابن زبیر کے افراد اور وہ صف آرا ہوئے ۔[62]تین دن کے بعد کوفہ سے مدد آئی اور محمد بن حنفیہ اور اسکے ساتھی مسجد سے باہر آئے اور اس نے قتل مختار (۶۷ق.)[63] تک شعب علی میں اقامت اختیار کیے رکھی ۔[64] اسکے بعد ابن زبیر اور محمد بن حنفیہ کے درمیان مسلسل حالات کشیدہ رہے ۔ [65]

ابن زبیر کا ابن عباس کے ساتھ بھی اہانت آمیز رویہ رہا کبھی وہ منبر اس کی توہین کرتا [66] ابن عباس نے اسکی کسی وقت بھی بیعت نہیں کی کیونکہ وہ اسے خلافت کا اہل نہیں سمجھتا تھا [67] اور وہ معتقد تھا کہ ابن زبیر حرمت حرم الہی کی پامالی کا اصل سبب ہے ۔[68] ابن عباس کی علمی و دینی حیثیت نے ابن زبیر کو نقصان پہنچایا ۔[69] مزید یہ کہ ابن عباس جنگ جمل میں حضرت علی کے ہمراہی میں جہاد کر چکا تھا ۔ابن عباس کے بعض فقہی نظریات بھی ابن زبیر کیلئے خوش آئند نہیں تھے مثلا ان میں سے ابن عباس کا جواز متعہ کا فتوا بھی تھا جو انکے درمیان شدید اختلافی تھا ۔ ابن عباس نے یہانتک تصریح کی تھی کہ ابن زبیر خود عقد متعہ کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا اور ابن زبیر کی والدہ نے نیز اس موضوع کی تائید کی ۔ [70] ابن عباس اور ابن عباس کا باہمی مخاصمانہ رویہ باعث بنا کہ اس نے ابن عباس کو مکہ سے باہر نکال دیا؛ لیکن دونوں کے درمیان سرد جنگ جاری رہی اس دوران ابن عباس طائف میں اور ابن زبیر مکہ میں سکونت پذیر تھے۔ [71]

دوسرا محاصرہ

ابن‌ زبیر نے قدرت حاصل کرنے کے بعد بنی امیہ کے ضعیف اور بیمار مروان بن حَکم اور اسکے بیٹے کو مدینے سے باہر نکال دیا ۔یہ بات شام میں بنی امیہ کے درمیان مروان کے رقیب بننے کا باعث بنی ۔ [72] مروان نے مَرْج راهِط کی ذی‌ الحجہ سال ۶۴ق.[73] میں ہونے والی نبرد میں ابن زبیر کے ساتھیوں پر کامیابی حاصل کی اور ضحاک بن قیس کو قتل کر دیا [74] نیز اس نے مختصر مدت میں ابن زبیر کی قدرت کا شام میں خاتمہ کر دیا۔ اسی طرح مصر سال ۶۵ق. ابن زبیر کے ہاتھوں سے نکل کر مروان کے ہاتھوں آ گیا ۔ [75]

سال ۶۵ق. میں شام میں عبدالملک بن مروان کے قدرت حاصل کرنے کے بعد ابن زبیر نے حج کے دنوں میں اسکے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا اور حاجیوں سے اپنے لئے بیعت کی کوششیں شروع کیں اور عرفہ کے روز منا میں خطبہ دیتے ہوئے عبدالملک کے جد حکم بن عاص پر رسول اللہ کی لعنت کا تذکرہ کیا اور شامی حاجیوں کو اپنی طرف دعوت دی [76] اس کے بالمقابل عبدالملک شامیوں کو حج کرنے سے منع کیا اور اس نے اپنے درباری عالم زُہری کے فتوے کے ذریعے لوگوں کو بیت‌ المقدس میں حج اور صخرۂ مسجدالاقصی کے طواف کے پر ابھارا ۔ شامی حج کے ایام میں اس صخره کا طواف کرتے اور عرفہ کے روز اعمال حج اور عید قربان وہی انجام دیتے ۔[77]

بنی امیہ کے داخلی اختلافات ،رومیوں کی دھمکیوں اور خوارج نے مروانیوں کو ابن زبیر کے خلاف سنجیدگی اور یکسوئی سے اقدام کرنے سے روکے رکھا [78] یہانتک کہ سال ۷۲ق. عبدالملک نے مصعب بن زبیر کے قتل ، تصرف عراق اور شکست کے بعد حجاج بن یوسف ثقفی کو ابن زبیر کی سرکوبی کیلئے حجاز بھیجا۔[79] ذی القعده سال ۷۲ق. میں ابن زبیر کی فوجی ناتوانی سے آگاہی اور ۵۰۰۰ اشخاص کی مدد پہنچنے کے بعد حجاج مدینہ میں داخل ہوا اور ابن زبیر کے مقرر کردہ حاکم کو باہر نکالنے [80] کے بعد مکہ کی جانب راہی ہوا اور ابن زبیر کو مسجد الحرام میں محبوس کیا ۔ یہ محاصرہ ذی‌ الحجہ سال ۷۲ق. سے شروع ہو کر چھ مہینے اور ۱۷ روز ابن‌ زبیر کے قتل کے ساتھ منگل کے دن ۱۷ جمادی الاولی سال ۷۳ق. کو ختم ہوا ۔ بعض نے اس محاصرے کی مدت آٹھ مہینے اور ۱۷ دن لکھی ہے ۔[81] تاریخی روایات کے مطابق عبدالملک نے شروع میں حجاج کو مکہ میں فوجی حملوں سے ڈرایا اور اس سے درخواست کی کہ ابن زبیر کو اقتصادی پابندیوں کے ذریعے تسلیم کرے ۔[82]

سال ۷۲ق. کے ایام حج کے دنوں میں ابن‌ زبیر مسجدالحرام کے اندر محاصرے میں تھا لہذا وہ وقوف عرفات اور رمی جمرات سے رہ گیا اور اس نے حج نہیں کیا۔[83] ابن‌ عمر یا جابر بن عبدالله انصاری اور ابوسعید خُدری جیسے اصحاب کی درخواست پر حجاج بن یوسف نے منا سے حاجیوں کی واپسی تک حملے سے ہاتھ روکے رکھا ۔حاجیوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے شہروں کو لوٹ جائیں تا کہ جنگ کو جاری رکھا جا سکے ۔ [84] اس نے اپنے آپ کو امیرالحاج کہا لوگوں کے ساتھ حج ادا کیا اور فوجی لباس کے ساتھ عرفات میں حاضر ہوا. [85]، اگرچہ ابن زبیر کے حائل ہونے کی وجہ سے اس نے طواف کعبہ اور صفا و مروہ کے درمیان سعی ادا نہیں کی تھی ۔ [86]

حجاج زبیریوں تک کھانے پینے کے سامان پہنچنے سے مانع ہوا وہ صرف آب زمزم تک رسائی رکھتے تھے ۔[87] اس نے منجنیقوں کے ساتھ انہیں بری طرح نقصان پہنچایا اس دوران کعبہ کو بھی پتھر لگے ۔ [88] منجنیق کی سنگ باری نے چاہ زمزم کی چار دیواری کو گرا دیا اور کعبہ کے اطراف کو ویران کر دیا ۔ [89]نیز حجرالاسود اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ۔ [90] پھر اس نے دستور دیا مسجد کو آتشین اسلحہ سے ہدف قرار دیں ۔اس کی وجہ سے کعبہ کے پردوں کو آگ لگ گئی ۔ کعبہ کو مزید نقصان سے بچانے کی خاطر ابن زبیر نے کچھ افراد مسجد سے باہر بھیجے ۔ [91] اس نے حجرالاسود کو دوبارہ نقصان بچانے کی خاطر وہاں محافظین مقرر کئے ۔ [92]

عبدالله بن زبیر کے اطرافی اور اسکے خاندان کے لوگ نیز اسکے بھائی عروه نے اسے امام حسن کی پیروی میں عبدالملک سے صلح کی طرف دعوت دی لیکن اس نے اس تجویز کے جواب میں سخت ردعمل ظاہر کیا اور عروہ کی اس شان و شوکت اور حیثیت کے باوجود اسے سخت تنبیہ کی ۔ [93] دوسری طرف حجاج کی طرف سے عام معافی کے اعلان [94] کے باعث ابن زبیر کے مددگار یہانتک کہ اس کے بیٹے : خبیب اور حمزه بھی اپنی جان کی حفاظت کی خاطر تسلیم ہو گئے ۔ [95]

قتل ابن زبیر

ابن زبیر نے جب یہ بھانپ لیا کہ شامیوں کے مقابلے کی تاب نہیں لا سکتا تو آخری روز اپنی والدہ اسماء سے اپنے قیام کے متعلق گفتگو کی اور کہا کہ اس نے خدا کیلئے قیام کیا اور اپنے دامن کو ہر قسم کی خیانت ،عمدی گناہ سے پاک دنیا طلبی سے پاک سمجھتا ہے نیز تصریح کرتے ہوئے کہا کہ وہ ظلم اور اپنی عمال کے جنایتوں پر راضی نہیں تھا ۔[96] اپنی ماں کی سفارش پر خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tagکعبہ کا سہارا لیتے ہوئے جنگ کی اور بنیسکون اور بنی مراد جوانوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ [97] اس جنگ میں ابن زبیر کے ساتھ ۲۴۰ افراد قتل ہوئے اور ان میں سے بعض کا خون کعبہ میں جاری ہوا ۔ [98] اس کے سر کو عبدالله بن مطیع اور عبدالله بن صفوان کے ساتھ مدینہ لے گئے ۔[99]اور اسے وہاں لٹکا دیا [100] پھر انکے سروں کو عبدالملک کیلئے بھیج دیا ۔سروں کو لے جانے والوں کو ۵۰۰ دینار انعام میں دئے گئے ۔[101] دیگر روایتیں ابن زبیر کے قتل کو حجون قریب سمجھتی ہیں ۔ [102] کچھ روایات کی بنا پر عبدالملک نے خراسان میں ابن زبیر کے عامل عبدالله بن خازم ان سروں کو بھیجا اور ان کے سر وہیں دفن کر دئے گئے ۔ [103]

حجاج نے ابن زبیر کے جسد کو ایک سال لٹکائے رکھا۔ [104] آخرکار اسکی ماں کی خواہش پر اسکا جسد اسکے حوالے کر دیا اور اسما نے اسکے جسد کو قبرستان حجون مکہ میں دفن کر دیا ۔ [105] ایک روایت کے مطابق مصعب بن عبدالله نے اسکا جسد مدینہ منتقل کیا اور اسکی دادی صفیہ کے گھر میں دفن کیا کہ جو بعد میں مسجد نبی کے ساتھ ملحق ہوا ۔[106]

فضیلت و مذمت

تاریخی روایات عبدالله بن زبیر کے بارے میں متفاوت ہیں ۔اسکے ہواداران سے منقول روایات میں مبالغہ آرائی کی حد تک اسکی تمجید بیان ہوئی ہے لیکن بعض روایات اسکی مذمت کی بیان گر ہیں ۔

فضیلت‌

اہل سنت مآخذ میں ابن زبیر کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے جن میں حیران کن عبادتیں اسکی طرف منسوب ہیں ۔بعض تاریخ اسلام کے محققین [107] ان روایات کی تحلیل میں ان روایات کی صحت میں تردید رکھتے ہیں مثلا اسکا سجدہ اس قدر طولانی ہوتا کہ پرندے اس کی پشت پر بیٹھ جاتے تھے۔[108]؛ جب کعبہ میں سیلاب آیا تو اس نے تیراکی کرتے ہوئے اس کا طواف کیا [109]؛ اس نے سات یا پندرہ دن تک مسلسل افطار کے بغیر روزہ رکھتا تھا۔ [110] ؛ وہ لوگوں کے درمیان اس قدر لمبا رکوع کرتا کہ کہ بقرہ ،آلعمران نساء و مائدہ جیسی طولانی سورتیں ختم ہو جاتیں لیکن وہ سر رکوع سے نہ اٹھاتا۔ [111]؛ اپنے غلاموں سے ۱۰۰ زبانوں میں گفتگو کرتا۔[112]؛ بچپنے میں سب سے پہلا کلمہ اس کی زبان سے شمشیر جاری ہوا جس کی وہ تکرار کرتا رہا [113]؛ اس نے بچپن میں رسول اللہ کی حجامت کا خون پیا۔[114]؛ حالت طواف میں جن عورتوں کو دیکھا اور انہیں فرار پر مجبور کیا؛[115] مرد جنوں سے گفتگو کی اور ان سے خوفزدہ نہیں ہوا۔[116]؛ حجاز اور خلافت کے حصول کیلئے حجرالاسود کے کنارے دعا کی اور وہ مستجاب ہوئی۔ [117][118]

مذمت

ان روایات کے مقابلے میں مآخذ میں دیگر روایات اہل سنت موجود ہیں جن میں اسے اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا گیا۔ رسول کے حجامت کا خون پینے کے بعد فرمایا: ویل للناس منک وویل لک من الناس [119] احمد بن حنبل نیز درج ذیل روایت کو عبدالله بن زبیر پر تطبیق دیتا ہے: جب عثمان محاصرے میں تھے، عبد الله بن زبیر نے اسے کہا: میرے پاس چند تیز گھڑ سوار ہیں میں نے انہیں تمہارے لئے تیار کیا ہے، تم نہیں چاہتے کہ مکہ چلے جاؤ اور جو تم سے قریب ہونا چاہتے ہیں وہ تمہارے قریب آ جائیں؟ عثمان نے جواب دیا: نہیں۔ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ مکہ میں ایک گوسفند الحاد کرے گا اسکا نام عبد الله ہے اور اس لوگوں پر آنے والا آدھا عذاب اس پر ہے [120] نیر ابن عساکر کی سلمان فارسی کی روایت کے مطابق آئیندہ آل زبیر کے ہاتھوں کعبہ کو آگ لگے گی۔ [121]

حضرت علی(ع) نے جنگ جمل میں زبیر سے خطاب کرتے ہوئے اہل بیت سے زبیر کا سبب اسکے بیٹے عبد اللہ بن زبیر کو کہا [122] اور امام حسن(ع) نے اسے احمق کہا ہے۔ [123]

نیز اسکے بعض اعمال شدید تنقید کا باعث بنے ان میں سے: بنی ہاشم کو بیعت سے انکار پر جلانے کی دھمکی دینا اسکی توجیہ میں اسکے بھائی عروه بن زبیر نے کہا: اس یہ اس لئے کہا تاکہ لوگوں میں تفرقہ ایجاد نہ ہو اور باہم اختلاف نہ کریں نیز بنی ہاشم اسکی اطاعت میں داخل ہو جائیں جیسا کہ عمر بن خطاب نے ابوبکر کی بیعت لینے کیلئے بنی ہاشم کے ساتھ کیا تھا۔[124]

ابن زبیر اہل بیت(ع) کی نسبت دیرینہ کینہ رکھتا تھا [125] حضرت علی کے حق میں اسکے ناسزا کلمات منابع میں نقل ہوئے ہیں ۔[126] کہتے ہیں کہ اس نے چالیس ہفتوں تک نماز جمعہ کے خطبوں میں آل محمد پر درود بھیجنے سے اجتناب کیا کہ کہیں بنی ہاشم اس پر فخر نہ کریں۔ [127] یہ باتیں اس حد تک اس بات کا موجب بنیں کہ بعض اہل سنت علما اسکے ایک راوی ہونے میں تردید کا شکار ہیں۔ [128] اور شیعہ حضرات بھی اسے اچھے کلمات سے یاد نہیں کرتے ہیں۔[129]

کعبہ کی دوبارہ تعمیر

تاریخی روایات کے مطابق کعبہ کو چند مرتبہ از سر نو تعمیر کیا گیا۔ ان میں سے ایک تعمیر کی نسبت ابن زبیر کی طرف دی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ لشکر یزید کی منجنیقوں کی سنگ باری، تیر اندازی اور آگ برسانے کی وجہ سے کعبہ کو آگ لگ گئی اور اسے نقصان پہنچا۔ لہذا ابن زبیر نے کعبہ ویران کیا اور اسے نئے سرے سے تعمیر کیا۔[130] اسی طرح اس نے اپنے دور حکومت میں مسجد الحرام کے اطراف میں موجود گھروں کو خرید کر مسجد سے ملحق کیا۔[131][132]

حوالہ جات

  1. نک: الاستیعاب،ج۳،ص:۹۰۵.
  2. الطبقات، خامسہ۲، ص۳۱-۳۲؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۷؛ الاصابہ، ج۴، ص۸۰؛ تاریخ الطبری/ترجمہ،ج۳،ص:۹۲۴؛ دائرة المعارف اسلام، ج۱، ص۵۴، ذیل مدخل “ʿAbd Allāh b. al-Zubayr”
  3. الطبقات، خامسہ۲، ص۳۱-۳۲؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۷؛ الاصابہ، ج۴، ص۸۰.
  4. طحاوی، شرح معانی الاثار، ج۳، ص۲۴؛ عسکری،ازدواج موقت در اسلام، ۵۲ ۵۰
  5. العقد الفرید، ج۴، ص۱۴
  6. الاصابہ، ج۴، ص۸۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۰؛ سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۳۶۴.
  7. نک: تاریخ طبری، ج۳، ص۵۷۱؛ الاصابہ، ج۳، ص۳۳۴.
  8. تاریخ الطبری،ج۴،ص:۲۷۰؛ اسی طرح نک: دائرةالمعارف اسلام، ج۱، ص۵۵، ذیل مدخل “ʿAbd Allāh b. al-Zubayr”
  9. انساب الاشراف، ج۱۰، ص۱۷۶؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۳۲۸؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۵.
  10. فتوح البلدان، ص۲۲۴؛ المنتظم، ج۴، ص۳۴۴.
  11. تاریخ خلیفہ، ص۱۰۲؛ البدایہ و النہایہ، ج۷، ص۱۸۱.
  12. الطبقات، ج۲، ص۳۶؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۵۶۴.
  13. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۲۶۵.
  14. الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۲۸؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۱۳۹.
  15. الفتوح، ج۲، ص۴۷۰؛ مروج الذہب، ج۲، ص۳۶۳.
  16. در این باره نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019)
  17. نک: فتح الباری، ج۴، ص۴۷۶.
  18. نک: الاستیعاب، ج۳، ص۹۱۰؛ تاریخ الاسلام، ج۴، ص۲۴۶.
  19. فتوح البلدان، ص۳۶۵؛ الاستیعاب، ج۱، ص۳۶۸.
  20. فرزندان آل ابی طالب/ترجمہ،ج۱،ص:۱۶۴.
  21. درباره شورا نک: تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶۰؛ الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۴۲.
  22. البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۶۰.
  23. تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۶؛ تاریخ ابن خلدون، ج۳، ص۱۲.
  24. نساب الاشراف، ج۵، ص۱۴۵؛ الاخبار الطوال، ص۲۲۶.
  25. انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۴؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۳۳۹.
  26. المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.
  27. المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.
  28. انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹؛ المنتظم، ج۵، ص۳۴۷.
  29. انساب الاشراف، ج۵، ص۳۲۷-۳۲۸؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۴۷۵.
  30. الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۰.
  31. نک: الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۱۹۸.
  32. انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۱.
  33. حوالے کی ضرورت ہے۔
  34. مسکویہ، ج۲، ص۸۵.
  35. تجارب الأمم، ایضا، ج ۲، ص۸۵ و تاریخ الطبری، ج ۵، ص۴۸۰.
  36. انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹، ۳۷۲؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۸.
  37. انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۷.
  38. مروج الذہب، ج۳، ص۶۹.
  39. انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۰؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۳-۱۴.
  40. البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۶۲؛ تاریخ ابن خلدون، ج۲، ص۳۵۳.
  41. المنتظم، ج۶، ص۱۶.
  42. تاریخ الاسلام، ج۵، ص۲۵.
  43. الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۲۳۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۲۰.
  44. انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹؛ تاریخ دمشق، ج۱۴، ص۳۸۷.
  45. اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۲۰۳؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹.
  46. اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۱۹۸، ص۲۰۳؛ اخبار الکرام، ص۱۳۳.
  47. تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۲.
  48. انساب الاشراف، ج۵، ص۳۶۲، ۳۷۲.
  49. تاریخ خلیفہ، ص۱۶۰.
  50. عبدالله بن زبیر، ص۱۱۹.
  51. انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۴، ۳۷۲.
  52. تفصیل کیلئے دیکھیں : نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftn127)
  53. انساب الاشراف، ج۵، ص۳۷۳-۳۷۴؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۵.
  54. لفتوح، ج۵، ص۱۵۶.
  55. الفتوح، ج۵، ص۱۵۶.
  56. اخبار مکہ، فاکهی، ج۳، ص۳۶۴؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۵.
  57. انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۲؛ الفتوح، ج۶، ص۲۴۸.
  58. تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۲؛ مروج الذہب، ج۳، ص۸۰؛ شرح نہج البلاغہ، ج۴، ص۶۲.
  59. انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۲-۴۷۳؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶.
  60. تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۱؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶؛ تجارب الامم، ج۲، ص۱۸۸.
  61. انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۵؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶.
  62. انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۶-۴۷۷؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۷.
  63. البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۸۷.
  64. انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۱۰۷.
  65. تفصیل مطلب نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftnref195)
  66. انساب الاشراف، ج۴، ص۵۵؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۱۱۰.
  67. اخبار الدولة العباسیه، ص۹۲.
  68. اریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۰؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۹.
  69. تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۴۷.
  70. اخبار مکہ، فاکہی، ج۳، ص۲۰؛ انساب الاشراف، ج۴، ص۵۵-۵۶؛ الفتوح، ج۶، ص۳۲۶.
  71. نک: انساب الاشراف، ج۳، ص۴۸۲؛ مروج الذہب، ج۳، ص۸۰.
  72. الطبقات، ج۵، ص۳۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۴۱.
  73. انساب الاشراف، ج۶، ص۲۷۳؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۳۸.
  74. تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۲؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۵۳۷.
  75. الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۲۲؛ مروج الذہب، ج۳، ص۸۸.
  76. اخبار مکہ، فاکہی، ج۱، ص۳۵۶؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۸۰.
  77. تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۸۰؛ حیاة الحیوان، ج۲، ص۵۸.
  78. الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۳۷؛ دولت امویان، ص۱۱۰.
  79. انساب الاشراف، ج۷، ص۹۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۱۵.
  80. تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.
  81. تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۴.
  82. الفتوح، ج۶، ص۳۳۸.
  83. الاستیعاب ، ج۳، ص۹۰۷؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.
  84. اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۷۲؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.
  85. تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۰.
  86. الکامل، ج۴، ص۳۵۰؛ الطبقات، خامسہ۲، ص۹۳.
  87. الطبقات، خامسہ۲، ص۹۴؛ اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۱.
  88. الطبقات، خامسہ۲، ص۹۵؛ الانباء، ص۵۰.
  89. الفتوح، ج۶، ص۳۴۰؛ حیاة الحیوان، ج۲، ص۵۹.
  90. تاریخ الاسلام، ج۵، ص۳۱۵.
  91. اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۶۰؛ الفتوح، ج۶، ص۳۴۱.
  92. الوافی بالوفیات، ج۵، ص۳۹۰؛ مجمع الزوائد، ج۷، ص۵۰۳.
  93. الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۳۸.
  94. الطبقات، خامسہ۲، ص۹۹؛ انساب الاشراف، ج۷، ص۱۲۴؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۰.
  95. تاریخ طبری، ج۶، ص۱۸۸؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۲.
  96. تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۷؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۳.
  97. الطبقات، خامسہ۲، ص۹۹؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۴۲.
  98. الاستیعاب، ج۳، ص۹۱۰؛ الجوہرة فی نسب النبی، ج۱، ص۳۲۰.
  99. تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۵۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۵۲.
  100. تاریخ طبری، ج۶، ص۱۹۲؛ الاصابہ، ج۵، ص۲۲.
  101. الطبقات، خامسہ۲، ص۱۱۳-۱۱۴؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۶.
  102. تجارب الامم، ج۲، ص۲۴۷؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۴۲.
  103. تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۵۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۲۶.
  104. الکامل، ج۴، ص۳۵۷؛ نهایة الارب، ج۲۱، ص۱۴۱؛ مجمع الزوائد، ج۷، ص۵۰۷؛ الجوہرة فی نسب النبی، ج۱، ص۳۱۹.
  105. انساب الاشراف، ج۷، ص۱۲۹؛ نہایة الارب، ج۲۱، ص۱۴۱.
  106. تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۲۵۴؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۴۷.
  107. برای نمونہ نک: نجاتی، دانش نامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر».(http://hajj.ir/99/3019#_ftn298)
  108. تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۷۰؛ نہایۃ الارب، ج۲۱، ص۱۴۳.
  109. اخبار مکہ، فاکہی، ج۱، ص۲۵۱؛ الکامل، ج۴، ص۳۶۰.
  110. حلیۃ الاولیاء، ج۱، ص۳۳۵؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۴۰.
  111. تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۷۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۴.
  112. تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۴۴؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۹.
  113. الکامل، ج۴، ص۳۶۰؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۴۰.
  114. تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۷؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۳؛ سبل الہدی، ج۱۰، ص۴۰.
  115. تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۸۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۶.
  116. تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۸۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۶.
  117. اخبار مکہ، فاکہی، ج۱، ص۱۴۰؛ المنتظم، ج۶، ص۱۳۵.
  118. نجاتی، دانش نامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftn306)
  119. شیبانی، الآحاد والمثانی، ج۱، ص۴۱۴؛
  120. مسند أحمد بن حنبل، ج۱، ص۶۴ش ۴۶۱.یلْحِدُ بِمَکَّةَ کَبْشٌ من قُرَیشٍ اسْمُهُ عبد اللَّهِ علیه مِثْلُ نِصْفِ أَوْزَارِ الناس.
  121. تاریخ مدینہ دمشق، ج۲۸، ص۲۲۱لیحرقن هذا البیت علی یدی رجل من آل الزبیر
  122. تاریخ طبری، ج۳، ص۴۱؛ أنساب الأشراف، ج۱، ص۳۱۴
  123. زمخشری، المستقصی فی أمثال العرب، ج۲، ص۱۱۸
  124. شرح نہج البلاغہ لابن أبی الحدید، ج۲۰، ص۱۴۷
  125. انساب الاشراف، ج۳، ص۴۸۲؛ اخبار الدولة العباسیہ، ص۱۱۶.
  126. نک: الطبقات، خامسہ۲، ص۸۵؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۲؛ مروج الذہب، ج۳، ص۸۰.
  127. انساب الاشراف، ج۳، ص۴۸۲؛ مروج الذہب، ج۳، ص۷۹؛ شرح نہج‌ البلاغہ، ج۴، ص۶۱.
  128. نک: شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۱۰.
  129. ضرورت حوالہ
  130. ازرقی،اخبار مکه و ما جاء فیها من الآثار، أزرقی، ج۱، ص: ۲۸۹.
  131. ازرقی، أخبار مکة و ما جاء فیها من الآثار، أزرقی، ج۲، ص: ۷۰.
  132. تعمیر کعبہ کیلئے تفصیل دیکھیں: نجاتی، دانش نامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019

مآخذ

اس مقالے کا اکثر حصہ دانشنامہ حج و حرمین شریفین میں محمد سعید نجاتی کے مقالے ابن زبیر سے کچھ تغیر و تبدل کے ساتھ لکھا تحریر ہوا ہے۔

  • ابن ابی‌ الحدید (م۶۵۶ق)، شرح نہج البلاغہ: بہ کوشش محمد ابو الفضل،‌ دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۳۷۸ق.
  • ابن اعثم الکوفی (م۳۱۴ق)، الفتوح، بہ کوشش علی شیری، بیروت،‌ دار الاضواء، ۱۴۱۱ق.
  • ابن سعد (م۲۳۰ق)،الطبقات الکبری، بہ کوشش محمد عبد القادر، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
  • احمد بن حنبل (۲۴۱ق)، مسند أحمد، مؤسسہ قرطبہ، مصر.
  • عبد الکریم السمعانی (م۵۶۲ق)، الانساب، بہ کوشش عبد الرحمن بن یحیی، حیدر آباد، دائرة المعارف العثمانیہ، ۱۳۸۲ق.
  • ابن عبد ربہ، احمد بن محمد بن عبد ربہ (۳۲۸ق)، العقد الفرید،‌ دار إحیاء التراث العربی، بیروت لبنان، الطبعہ الثالثہ، ۱۴۲۰ق.
  • فاکہی (م۲۷۵ق)، اخبار مکہ، بہ کوشش عبد الملک دہیش، بیروت،‌ دار خضر، ۱۴۱۴ق.
  • ابن داود الدینوری (م۲۸۲ق)، الاخبار الطوال، بہ کوشش عبد المنعم، قم، الرضی، ۱۴۱۲ق.
  • ابن عساکر (م۵۷۱ق)، تاریخ مدینہ دمشق، بہ کوشش علی شیری، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۱۵ق.
  • احمد بن یعقوب (م۲۹۲ق)، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌ دار صادر، ۱۴۱۵ق.
  • البلاذری (م۲۷۹ق)،انساب الاشراف، بہ کوشش زکار، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۱۷ق.
  • ابن اثیر علی بن محمد الجزری (م.۶۳۰ق.)، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌ دار صادر، ۱۳۸۵ق.
  • ابن کثیر (م.۷۷۴ق.)، البدایہ و النہایہ، بیروت، مکتبة المعارف، بی‌تا.
  • خلیفة بن خیاط (م.۲۴۰ق.)، تاریخ خلیفہ، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق.
  • المطہر المقدسی (م.۳۵۵ق)، البدء و التاریخ، بیروت،‌ دار صادر، ۱۹۰۳ع
  • ابن جوزی (م.۵۹۷ق)، المنتظم، بہ کوشش نعیم زرزور، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۲ق.
  • المسعودی (م.۳۴۶ق)، مروج الذهب، بہ کوشش اسعد داغر، قم،‌دار الہجره، ۱۴۰۹ق.
  • ابن اعثم الکوفی (م.۳۱۴ق)، الفتوح، بہ کوشش علی شیری، بیروت،‌ دار الاضواء، ۱۴۱۱ق.
  • ابن ابی‌ شیبہ (م.۲۳۵ق)،المصنّف، بہ کوشش سعید محمد،‌ دار الفکر، ۱۴۰۹ق.
  • عبد الرزاق الصنعانی (م.۲۱۱ق)، المصنّف، بہ کوشش حبیب الرحمن، المجلس العلمی، بی‌ تا.
  • طحاوی حنفی، أحمد بن محمد (۳۲۱ق)، شرح معانی الآثار، تحقیق محمد زہری النجار، ناشر‌ دار الکتب العلمیہ، بیروت، الطبعہ الأولی، ۱۳۹۹ع
  • زمخشری، محمود بن عمرو بن أحمد جار الله(۵۳۸ق)، المستقصی فی أمثال العرب،‌ دار الکتب العلمیہ، بیروت، الطبعہ الثانیہ، ۱۹۸۷ع
  • طبری، محمد بن جریر (۳۱۰ق)، تاریخ الطبری،‌ دار الکتب العلمیہ، بیروت.
  • بلاذری، احمد بن یحیی (م۲۷۹)جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت،‌ دار الفکر، ط الأولی، ۱۴۱۷.
  • ابن عساکر، علی بن الحسن إبن ہبۃ الله(۵۷۱ق)، تاریخ مدینہ دمشق، تحقیق محب الدین أبی سعید عمر بن غرامہ العمری،‌ دار الفکر، بیروت، ۱۹۹۵.
  • محمد بن احمد المقدسی (م.۳۸۰ق)،احسن التقاسیم، قاہره، مکتبہ مدبولی، ۱۴۱۱ق.
  • شیبانی، أحمد بن عمرو (۲۸۷ق)، الآحاد والمثانی، تحقیق د. باسم فیصل أحمد الجوابرة، دار الرایة،الریاض، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۱ق.