ابو تراب

ویکی شیعہ سے

ابوتراب رسول خدا کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کو دئے جانے والے القاب میں سے ایک لقب ہے۔

وجہ تسمیہ

تراب عربی زبان میں خاک کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ حضرت علی کو ابوتراب کا لقب دیے جانے میں چند روایات مذکور ہوئیں ہیں:

پہلی روایت

عَبایَۃ بن رِبعی نے عبدالله بن عباس سے سوال کیا: رسول اللہ نے حضرت علی کو ابو تراب کا لقب کیوں دیا؟ عبدالله بن عباس نے جواب دیا: کیونکہ رسول اللہ کے بعد وہ صاحب زمین اور اہل زمین کیلئے حجت خدا ہے اور اسی کی وجہ سے زمین کو بقا اور اسی کے وجود سے زمین کو سکون حاصل ہے۔ اور میں نے رسول اللہ سے سنا انہوں نے فرمایا:قیامت کے روز کافر شیعہ کی منزلت ،کرامت اور جزا کو دیکھے گا کہ جسے خدا نے علی کے شیعہ کیلئے قرار دیا ہو گا اور وہ حسرت سے کہے گا: "یا لَیتَنْی کنْتُ تُرّابیا" یعنی کاش میں علی کے شیعوں میں ہوتا۔یہ "وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَالَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا" (40) [النبأ: 40][1] کی طرف اشارہ ہے ۔[2]

دوسری روایت

سکتواری[3] کہتا ہے : سب سے پہلے جس شخص کو ابو تراب کی کنیت سے پکارا گیا وہ حضرت علی کی ذات گرامی ہے ۔رسول اللہ نے یہ کنیت علی کو اسوقت دی جب وہ خاک پر سو رہے تھے اور ان کا پہلو خاک آلودہ تھا۔ رسول اللہ نے لطف و مہربانی سے علی سے فرمایا:ابو تراب! اٹھو۔یہ انکا محبوب ترین لقب شمار ہوتا ہے۔اس کے بعد نفس محمدی کی برکت سے یہ کرامت علی سے مخصوص ہو گئی اور تراب قیامت تک کیلئے اسے اس ہر چیز سے آگاہ کرتی ہے جو اس پر رونما ہوتا۔ اس راز جلی کو سمجھو۔[4]

تیسری روایت

رسول اللہ ہجرت کے دوسرے سال جمادی اولیٰ کے نصف میں ابو سفیان کی سرپرستی میں شام کی طرف قریش کے جانے والے کاروان کی تعقیب میں عشیرہ نامی جگہ تک اس کے پیچھے گئے لیکن کاروان کا کوئی نام و نشان نہیں پایا ۔ یہیں پر ایک روز رسول خدا حضرت علی اور عمار کے سرہانے آئے تو دیکھا کہ وہ سوئے ہیں اور علی کے چہرے پر مٹی پڑی ہوئی ہے ۔آپ ص نے نرمی و ملائمت سے انہیں بیدار کیا اور علی سے مخاطب ہوئے:اے ابو تراب اٹھو۔کیا تم نہیں چاہتے کہ میں تمہیں روئے زمین پر شقی ترین شخص کی خبر دوں ۔ان میں سے ایک احیمر (قدار بن سالف کا لقب ہے) جس نے حضرت صالح کے ناقہ کی کونجیں کاٹی تھیں اور دوسرا وہ ہے جو اپنی تلوار کے وار سے تمہارے محاسن کو سرخ کرے گا۔[5]

اس کے بعد علی اصحاب میں ابو تراب مشہور ہو گئے۔اس کنیت کو حضرت علی بہت پسند کرتے تھے کیونکہ نبی اکرم (ص) نے اس سے انہیں پکارا تھا ۔[6][7]

اس بنا پر ابو تراب کا ترجمہ خاک کا باپ کرنا زیادہ دقیق نہیں بلکہ بہتر ہے خاک آلود ترجمہ کیا جائے۔

ابو تراب اور بنو امیہ کا زمانہ

بنو امیہ کے زمانے میں منبروں سے حضرت علی کو دشنام دینے کی تبلیغ شروع ہو گئی اور ابو تراب کو آپ کی تحقیر کیلئے استعمال کئے جانے لگا۔روایت میں آیا ہے :

سہل بن سعد کو کہا گیا حاکم مدینہ کا ارادہ ہے کہ تمہیں علی کو گالیاں دینے کیلئے طلب کرے اور تمہیں گالیاں دینے پر اکسائے ۔پس سہل نے کہا: اسے کیسے سب کروں؟ اسے کہا:ابو تراب کہہ کر سب کرو۔اس نے جواب میں کہا:خدا کی قسم! یہ لفظ تو رسول اللہ نے اسکے لئے مخصوص کیا تھا۔پھر مزید کہا: خدا کی قسم! ابو تراب اس کے لئے سب سے بہتر اسم شمار ہوتا ہے ۔[8]

جابر بن یزید جُعْفی نے کہا میں نے امام سجاد علیہ السلام سے بنی امیہ اور انکے پیروکاروں کی شکایت کی اور کہا۔ میرے مولا! وہ ہمارے مولا اور آقا پر کھلے عام منبروں، میناروں ،بازاروں، گلی کوچوں میں لعنت کرتے ہیں اور ان سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں یہانتک کہ مسجد النبی میں اکٹھے ہو کر لعنت کرتے ہیں کوئی ایک ایسا نہیں ہے جو انہیں منع کرے یا انہیں روکے اور اظہار ناراحتی کرے۔اگر کوئی ایک انہیں منع کرتا ہے تو وہ سب اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور کہتے ہیں یہ رافضی اور ابو ترابی ہے ۔اسے پکڑ کر اپنے فرمانروا کے پاس لیجاتے ہیں اور کہتے ہیں :اس نے ابو تراب کو نیکی سے یاد کیا ہے اسے مارتے پیٹتے ہیں زندانی کرتے ہیں اور پھر اسے قتل کرتے ہیں۔[9]

حوالہ جات

  1. کاش میں خاک ہوتا۔
  2. مجلسی، بحارالانوار، ج۳۵، ص۵۱؛ صدوق، علل الشرائع، ج۱، ص۱۵۶.
  3. سکتواری بسنوی، محاضرة الأوائل، ص81.
  4. امینی، الغدیر، ج۶، ص۳۳۷ – ۳۳۸.
  5. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۱، ص۵۲۲؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ج۳، ص۱۳۳.
  6. بَلاذُری، أنساب الأشراف، ج۲، ص:۸۹ (چاپ زکار، ج۲، ص:۳۴۳).
  7. ناظم زاده، مظہر ولایت، ص۳۸.
  8. امین، اعیان الشیعہ، ج۲، ص۱۰۱.
  9. مجلسی، بحارالانوار، ج۴، ص۱۰.

مآخذ

  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ.
  • ابن شہر آشوب، مناقب.
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت،‌دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۱۸ ه ق، چاپ پنجم، تحقیق سید حسن امین.
  • بَلاذُری، احمد بن یحیی بن جابر، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت،‌دار الفکر، ط الأولی، ۱۴۱۷/۱۹۹۶.
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر.
  • سكتواري بسنوي، علاء الدين علي دده، محاضرة الأوائل ومسامرة الأواخر.دار الکتاب العربی بیروت لبنان۔طبعہ ثانیہ1978م۔
  • صدوق، علل الشرائع.
  • صدوق، معانی الاخبار.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار.
  • ناظم زاده، سید اصغر، مظہر ولایت.