مندرجات کا رخ کریں

"حق مہر" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 77: سطر 77:
== تعدیل و محاسبۀ مہریہ بہ نرخ روز==
== تعدیل و محاسبۀ مہریہ بہ نرخ روز==
مہریہ اگر سکہ یا شیء مشخصی باشد بہ ہمان اندازہ پرداخت می‌شود ولی در مواردی کہ مہریہ وجہ رایج باشد بہ لحاظ تغییرات اوضاع اقتصادی کشور و نرخ تورم، قانون<ref>در سال ۱۳۷۶، تبصرہ ذیل قانون مدنی ۱۰۸۲</ref> برای دفاع از حقوق زنان، مہریہ را بہ روز قیمت گذاری می‌کند. شاخص قیمت سالانہ، ہر سال توسط بانک مرکزی اعلام می‌شود.<ref>[http://www.tabnak.ir/fa/pages/?cid=117100 سایت تابناک]</ref> برخی [[فقیہ|فقہا]] نقدہایی بہ این روند داشتہ و آن را خلاف [[قواعد فقہی]] می‌دانند.<ref>[http://www.ensani.ir/storage/Files/20120326104805-1100-251.pdf مقالہ تبدیل مہریہ بہ نرخ روز]</ref>
مہریہ اگر سکہ یا شیء مشخصی باشد بہ ہمان اندازہ پرداخت می‌شود ولی در مواردی کہ مہریہ وجہ رایج باشد بہ لحاظ تغییرات اوضاع اقتصادی کشور و نرخ تورم، قانون<ref>در سال ۱۳۷۶، تبصرہ ذیل قانون مدنی ۱۰۸۲</ref> برای دفاع از حقوق زنان، مہریہ را بہ روز قیمت گذاری می‌کند. شاخص قیمت سالانہ، ہر سال توسط بانک مرکزی اعلام می‌شود.<ref>[http://www.tabnak.ir/fa/pages/?cid=117100 سایت تابناک]</ref> برخی [[فقیہ|فقہا]] نقدہایی بہ این روند داشتہ و آن را خلاف [[قواعد فقہی]] می‌دانند.<ref>[http://www.ensani.ir/storage/Files/20120326104805-1100-251.pdf مقالہ تبدیل مہریہ بہ نرخ روز]</ref>
 
-->
==پانویس==
==حوالہ جات==
{{پانویس|قلم=ریز|۳}}
{{حوالہ جات|3}}


==منابع==
==منابع==
{{ستون-شروع}}
{{ستون آ|2}}
* فرہنگ موضوعی قرآن مجید: الفہرس الموضوعی للقرآن الکریم. کامران فانی؛ بہاء‌الدین خرمشاہی، انتشارات ہدی، ۱۳۶۹ش.
* فرہنگ موضوعی قرآن مجید: الفہرس الموضوعی للقرآن الکریم. کامران فانی؛ بہاء‌الدین خرمشاہی، انتشارات ہدی، ۱۳۶۹ش.
* دکتر محمد خزائلی، احکام قرآن، انتشارات جاویدان.
* دکتر محمد خزائلی، احکام قرآن، انتشارات جاویدان.
سطر 94: سطر 94:
* نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، انتشارات دایرۃ المعارف فقہ اسلامی.
* نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، انتشارات دایرۃ المعارف فقہ اسلامی.
* توضیح المسائل مراجع، انتشارات جامعہ مدرسین، قم.
* توضیح المسائل مراجع، انتشارات جامعہ مدرسین، قم.
{{پایان}}
{{ستون خ}}
-->
 
{{فروع دین}}
{{فروع دین}}



نسخہ بمطابق 15:26، 5 جنوری 2017ء

مَہر سے مراد وہ مال ہے جو مرد نکاح کے وقت بیوی کو دینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ مہر بیوی کا حق ہے اور وہ عقد کے فورا بعد اس کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ بیوی کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کو ورثہ میں ملتی ہے اور وہ شوہر سے مطالبہ کر سکتے ہیں۔

نکاح موقت میں مہر کا تعیین نہ ہونا اکثر مراجع کے فتوے کے مطابق نکاح کے بطلان کا سبب بنتا ہے۔ قرآن کریم مردوں کو عورتوں کا مہر مکمل طور پر ادا کرنے اور بیوی سے ناراضگی کی صورت میں اسے تنگ کر کے مہر سے ہاتھ اٹھانے یا اس کا کچھ حصہ واپس کرنے پر مجبور نہ کرنے کی سفارش کرتا ہے۔

موجودہ دور میں مہر اور شادی کے دیگر اخراجات میں بے تہاشا اضافہ کی وجہ سے مختلف سماجی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ احادیث میں زیادہ مَہر رکھنے کو عورتوں کی بدبخیوں میں سے شمار کرتے ہوئے اس کی مقدار کم رکھنے اور مہر السنۃ (مہر حضرت زہرا(س)) پر قناعت کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جو تقریبا اس زمانے میں 170 سے 223 گرام سونے کے برابر ہوتا ہے۔

مہر تاریخ کے آئینے میں

"مہر" لغت میں اس جنس کو کہا جاتا ہے جسے نکاح کے وقت شوہر بیوی کو دینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ اصطلاح میں بھی مہر سے یہی مراد لیا جاتا ہے۔ نکاح کے ساتھ ہی یہ مال بیوی کی ملکیت میں آتی ہے اور وہ شوہر سے ہر وقت مطالبہ کر سکتی ہے۔

اسلام قبل حمورابیوں، زرتشتیوں، ایران باستان، اعراب اور یونانیوں میں بھی مہر کی مختلف اقسام رائج تھیں لیکن مسیحیوں میں ایسی کوئی رسم موجود نہیں تھی۔[1]

پرانے زمانے میں والدین "مہر" کو اپنا حق الزحمہ اور دودھ کی قیمت سمجھتے تھے اسی وجہ سے نکاح شغار کی رسم زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔ بیٹی اور بہن کے تبادلہ کو "مہر" شمار کیا جاتا تھا بغیر اس کی کہ بیوی کو کوئی فائدہ ہو۔ اسلام نے ان تمام رسومات کو منسوخ کر دیا۔

عقد نکاح منعقد ہونے کے بعد مرد اور عورت کے درمیان علقہ زوجیت وجود میں آجاتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی مختلف احکامات اور وظائف ایک دوسرے کی گردن پر آجاتے ہیں منجملہ یہ کہ نفقہ، مہریہ، اجرت المثل، نحلہ اور عقد کے وقت اگر شرط رکھی جائے کہ مرد کے اموال کا نصف حصہ بیوی کا ہو گا تو اس شرط پر عمل کرنا وغیرہ ہیں ان میں سے بعض صرف نکاح کی وجہ سے شوہر کے ذمہ آجاتی ہیں جیسے نفقہ اور مہر جبکہ بعض طلاق اور جدایی کی صورت میں مرد کی گردن پر آجاتی ہیں جیسے اجرت المثل، اور شوہر کے اموال کی تنصیف وغیرہ۔

دائمی نکاح سے پہلے مہر کا تعیین کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ عقد کے بعد بھی مرد اور عورت اس پر توافق کر سکتے ہیں لیکن اگر نکاح انقطاعی میں مہر معین نہ کیا جائے تو اکثر مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق عقد باطل ہے۔[2]

مہر در آیات و روایات

حوالہ جات

منابع

  • فرہنگ موضوعی قرآن مجید: الفہرس الموضوعی للقرآن الکریم. کامران فانی؛ بہاء‌الدین خرمشاہی، انتشارات ہدی، ۱۳۶۹ش.
  • دکتر محمد خزائلی، احکام قرآن، انتشارات جاویدان.
  • مسالک الافہام، زین الدین بن علی العاملی الشہید الثانی، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، قم، ۱۴۱۴ق.
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۹ق.
  • محمدی ری شہری، میزان الحکمہ، انتشارات دارالحدیث.
  • مشکینی، علی، مواعظ العددیہ، نشر الہادی.
  • ابن شہر آشوب، مناقب، موسسہ انتشارات علامہ، بی‌تا.
  • متقی ہندی، فاضل، کنزالعمال، موسسہ الرسالہ.
  • علامہ مجلسی محمد باقر، بحار الانوار، دارالکتب اسلامیۃ، تہران، ۱۳۶۲ش.
  • نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، انتشارات دایرۃ المعارف فقہ اسلامی.
  • توضیح المسائل مراجع، انتشارات جامعہ مدرسین، قم.