مندرجات کا رخ کریں

"حق مہر" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
سطر 6: سطر 6:
موجودہ دور میں مہر اور شادی کے دیگر اخراجات میں بے تہاشا اضافہ کی وجہ سے مختلف سماجی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ [[حدیث|احادیث]] میں زیادہ مَہر رکھنے کو عورتوں کی بدبخیوں میں سے شمار کرتے ہوئے اس کی مقدار کم رکھنے اور مہر السنۃ (مہر [[حضرت زہرا(س)]]) پر قناعت کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جو تقریبا اس زمانے میں 170 سے 223 گرام سونے کے برابر ہوتا ہے۔
موجودہ دور میں مہر اور شادی کے دیگر اخراجات میں بے تہاشا اضافہ کی وجہ سے مختلف سماجی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ [[حدیث|احادیث]] میں زیادہ مَہر رکھنے کو عورتوں کی بدبخیوں میں سے شمار کرتے ہوئے اس کی مقدار کم رکھنے اور مہر السنۃ (مہر [[حضرت زہرا(س)]]) پر قناعت کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جو تقریبا اس زمانے میں 170 سے 223 گرام سونے کے برابر ہوتا ہے۔


==پیشینہ مہریہ==<!--
==مہر تاریخ کے آئینے میں==
مہریہ در لغت بہ معنای جنسی است کہ در ہنگام نکاح بر عہدۀ شوہر قرار می‌گیرد و در اصطلاح حقوقی نیز مہر یا صداق مالی است کہ زن بر اثر [[ازدواج]] مالک آن می‌گردد و مرد ملزم بہ پرداخت آن بہ زن می‌شود.
"مہر" لغت میں اس جنس کو کہا جاتا ہے جسے نکاح کے وقت شوہر بیوی کو دینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ اصطلاح میں بھی مہر سے یہی مراد لیا جاتا ہے۔ نکاح کے ساتھ ہی یہ مال بیوی کی ملکیت میں آتی ہے اور وہ شوہر سے ہر وقت مطالبہ کر سکتی ہے۔


گونہ‌ہایی از مہریہ پیش از [[اسلام]] نیز در قانون حمورابی و در میان [[زرتشت|زرتشتیان]] و [[ایران]] باستان و اعراب و [[یونان|یونانیان]] وجود داشتہ است ولی در میان [[مسیحیت|مسیحیان]] چنین رسمی وجود ندارد.<ref>[http://www.dokhtiran.com/note/1391_10_01/000773.php سایت دختیران]</ref>
[[اسلام]] قبل حمورابیوں، [[زرتشت|زرتشتیوں]]، [[ایران]] باستان، اعراب اور [[یونان|یونانیوں]] میں بھی مہر کی مختلف اقسام رائج تھیں لیکن [[مسیحیت|مسیحیوں]] میں ایسی کوئی رسم موجود نہیں تھی۔<ref>[http://www.dokhtiran.com/note/1391_10_01/000773.php سایٹ دختیران]</ref>


در گذشتہ، پدران و مادران، مہر را حقّ الزحمہ و شیربہای خود می‌دانستند؛ بدین جہت، در [[نکاح شغار]] کہ رسم [[جاہلیت]] بود، معاوضہ دختر یا خواہر، مہریہ شمردہ می‌شد بدون آنکہ، بہ زن بہرہ‌ای برسد. [[اسلام]] این رسم را منسوخ کرد.
پرانے زمانے میں والدین "مہر" کو اپنا حق الزحمہ اور دودھ کی قیمت سمجھتے تھے اسی وجہ سے [[نکاح شغار]] کی رسم [[زمانہ جاہلیت]] میں رائج تھا۔ بیٹی اور بہن کے تبادلہ کو "مہر" شمار کیا جاتا تھا بغیر اس کی کہ بیوی کو کوئی فائدہ ہو۔ [[اسلام]] نے ان تمام رسومات کو منسوخ کر دیا۔


پس از تحقق عقد ازدواج، رابطہ زوجیت بین طرفین ایجاد و حقوق و تکالیفی برای طرفین مقرر می‌شود کہ از جملۀ آن تکالیف پرداخت [[نفقہ]]، مہریہ، [[اجرت المثل]]، نحلہ و در صورت شرط ہنگام عقد، تنصیف اموال مرد می‌باشد کہ بعضی از این‌ہا با عقد ازدواج بہ عہدۀ شوہر است مثل نفقہ و مہریہ و بعضی از آن‌ہا منوط بہ تحقق طلاق و جدایی میان آن ہاست مثل اجرت المثل و نصف کردن دارایی مرد.
عقد نکاح منعقد ہونے کے بعد مرد اور عورت کے درمیان علقہ زوجیت وجود میں آجاتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی مختلف احکامات اور وظائف ایک دوسرے کی گردن پر آجاتے ہیں منجملہ یہ کہ [[نفقہ]]، مہریہ، [[اجرت المثل]]، نحلہ اور عقد کے وقت اگر شرط رکھی جائے کہ مرد کے اموال کا نصف حصہ بیوی کا ہو گا تو اس شرط پر عمل کرنا وغیرہ ہیں ان میں سے بعض صرف نکاح کی وجہ سے شوہر کے ذمہ آجاتی ہیں جیسے نفقہ اور مہر جبکہ بعض طلاق اور جدایی کی صورت میں مرد کی گردن پر آجاتی ہیں جیسے اجرت المثل، اور شوہر کے اموال کی تنصیف وغیرہ۔


تعیین مہر پیش از ازدواج دائم لازم نیست و دو طرف می‌توانند پس از عقد روی آن توافق کنند، ولی در صورت مشخص نبودن آن در [[ازدواج موقت]]، مطابق [[فتوا|فتوای]] بیشتر [[مراجع تقلید]]، عقد باطل است.<ref>[http://www.hawzah.net/fa/Question/View/55835/ مجلہ حوزہ] </ref>
دائمی نکاح سے پہلے مہر کا تعیین کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ عقد کے بعد بھی مرد اور عورت اس پر توافق کر سکتے ہیں لیکن اگر [[نکاح انقطاعی]] میں مہر معین نہ کیا جائے تو اکثر [[مراجع تقلید]] کے [[فتوی|فتوے]] کے مطابق عقد باطل ہے۔<ref>[http://www.hawzah.net/fa/Question/View/55835/ مجلہ حوزہ] </ref>


==مہر در آیات و روایات==
==مہر در آیات و روایات==<!--
کلمۀ «مہر» در [[قرآن]] بہ کار نرفتہ است<ref> فرہنگ موضوعی قرآن مجید. تالیف کامران فانی و بہاءالدین خرمشاہی، مہریہ </ref> بلکہ عناوین «صَدُقات»<ref> در آیۀ چہارم [[سورہ نساء]] </ref> و «اجور» (بیشتر در مورد [[متعہ]] و ازدواج با کنیزان)<ref> دکتر محمد خزائلی، احکام قرآن، ص۴۷ </ref> و «صداق» و «فریضہ»<ref> و ان طلقتموہن من قبل ان تمسوہن و قد فرضتم لہن فریضۃ فنصف ما فرضتم </ref> بہ جای مہریہ بہ کار رفتہ‌اند.
کلمۀ «مہر» در [[قرآن]] بہ کار نرفتہ است<ref> فرہنگ موضوعی قرآن مجید. تالیف کامران فانی و بہاءالدین خرمشاہی، مہریہ </ref> بلکہ عناوین «صَدُقات»<ref> در آیۀ چہارم [[سورہ نساء]] </ref> و «اجور» (بیشتر در مورد [[متعہ]] و ازدواج با کنیزان)<ref> دکتر محمد خزائلی، احکام قرآن، ص۴۷ </ref> و «صداق» و «فریضہ»<ref> و ان طلقتموہن من قبل ان تمسوہن و قد فرضتم لہن فریضۃ فنصف ما فرضتم </ref> بہ جای مہریہ بہ کار رفتہ‌اند.



نسخہ بمطابق 15:23، 5 جنوری 2017ء

مَہر سے مراد وہ مال ہے جو مرد نکاح کے وقت بیوی کو دینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ مہر بیوی کا حق ہے اور وہ عقد کے فورا بعد اس کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ بیوی کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کو ورثہ میں ملتی ہے اور وہ شوہر سے مطالبہ کر سکتے ہیں۔

نکاح موقت میں مہر کا تعیین نہ ہونا اکثر مراجع کے فتوے کے مطابق نکاح کے بطلان کا سبب بنتا ہے۔ قرآن کریم مردوں کو عورتوں کا مہر مکمل طور پر ادا کرنے اور بیوی سے ناراضگی کی صورت میں اسے تنگ کر کے مہر سے ہاتھ اٹھانے یا اس کا کچھ حصہ واپس کرنے پر مجبور نہ کرنے کی سفارش کرتا ہے۔

موجودہ دور میں مہر اور شادی کے دیگر اخراجات میں بے تہاشا اضافہ کی وجہ سے مختلف سماجی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ احادیث میں زیادہ مَہر رکھنے کو عورتوں کی بدبخیوں میں سے شمار کرتے ہوئے اس کی مقدار کم رکھنے اور مہر السنۃ (مہر حضرت زہرا(س)) پر قناعت کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جو تقریبا اس زمانے میں 170 سے 223 گرام سونے کے برابر ہوتا ہے۔

مہر تاریخ کے آئینے میں

"مہر" لغت میں اس جنس کو کہا جاتا ہے جسے نکاح کے وقت شوہر بیوی کو دینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ اصطلاح میں بھی مہر سے یہی مراد لیا جاتا ہے۔ نکاح کے ساتھ ہی یہ مال بیوی کی ملکیت میں آتی ہے اور وہ شوہر سے ہر وقت مطالبہ کر سکتی ہے۔

اسلام قبل حمورابیوں، زرتشتیوں، ایران باستان، اعراب اور یونانیوں میں بھی مہر کی مختلف اقسام رائج تھیں لیکن مسیحیوں میں ایسی کوئی رسم موجود نہیں تھی۔[1]

پرانے زمانے میں والدین "مہر" کو اپنا حق الزحمہ اور دودھ کی قیمت سمجھتے تھے اسی وجہ سے نکاح شغار کی رسم زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔ بیٹی اور بہن کے تبادلہ کو "مہر" شمار کیا جاتا تھا بغیر اس کی کہ بیوی کو کوئی فائدہ ہو۔ اسلام نے ان تمام رسومات کو منسوخ کر دیا۔

عقد نکاح منعقد ہونے کے بعد مرد اور عورت کے درمیان علقہ زوجیت وجود میں آجاتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی مختلف احکامات اور وظائف ایک دوسرے کی گردن پر آجاتے ہیں منجملہ یہ کہ نفقہ، مہریہ، اجرت المثل، نحلہ اور عقد کے وقت اگر شرط رکھی جائے کہ مرد کے اموال کا نصف حصہ بیوی کا ہو گا تو اس شرط پر عمل کرنا وغیرہ ہیں ان میں سے بعض صرف نکاح کی وجہ سے شوہر کے ذمہ آجاتی ہیں جیسے نفقہ اور مہر جبکہ بعض طلاق اور جدایی کی صورت میں مرد کی گردن پر آجاتی ہیں جیسے اجرت المثل، اور شوہر کے اموال کی تنصیف وغیرہ۔

دائمی نکاح سے پہلے مہر کا تعیین کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ عقد کے بعد بھی مرد اور عورت اس پر توافق کر سکتے ہیں لیکن اگر نکاح انقطاعی میں مہر معین نہ کیا جائے تو اکثر مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق عقد باطل ہے۔[2]

مہر در آیات و روایات