"علم غیب" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Mabbassi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Mabbassi |
||
سطر 11: | سطر 11: | ||
[[قرآن]] و [[حدیث]] کی اصطلاح میں اس چیز کو غیب کہا جاتا ہے جس کی شناخت عام طور پر ممکن نہ ہو<ref>سبحانی، ج۳، ص۴۰۲-۴۰۷</ref> | [[قرآن]] و [[حدیث]] کی اصطلاح میں اس چیز کو غیب کہا جاتا ہے جس کی شناخت عام طور پر ممکن نہ ہو<ref>سبحانی، ج۳، ص۴۰۲-۴۰۷</ref> | ||
== | == اقسام== | ||
ایک تقسیم بندی میں غیبی امور کو یوں تقسیم کر سکتے ہیں: | ایک تقسیم بندی میں غیبی امور کو یوں تقسیم کر سکتے ہیں: | ||
#ایسی چیز جو تعلیم، غور و فکر اور ریاضت سے آشکار ہو جاتی ہے۔ | #ایسی چیز جو تعلیم، غور و فکر اور ریاضت سے آشکار ہو جاتی ہے۔ |
نسخہ بمطابق 14:33، 14 اپريل 2016ء
اسلام |
---|
خداشناسی | |
---|---|
توحید | توحید ذاتی • توحید صفاتی • توحید افعالی • توحید عبادی • صفات ذات و صفات فعل |
فروع | توسل • شفاعت • تبرک |
عدل (افعال الہی) | |
حُسن و قُبح • بداء • امر بین الامرین | |
نبوت | |
خاتمیت • پیامبر اسلام • اعجاز • عدم تحریف قرآن | |
امامت | |
اعتقادات | عصمت • ولایت تكوینی • علم غیب • خلیفۃ اللہ • غیبت • مہدویت • انتظار فرج • ظہور • رجعت |
ائمہ معصومینؑ | |
معاد | |
برزخ • معاد جسمانی • حشر • صراط • تطایر کتب • میزان | |
اہم موضوعات | |
اہل بیت • چودہ معصومین • تقیہ • مرجعیت |
علم غیب یا علم لدنّی ، سے مراد ایسی آگاہی ہے جو عام طور پر ہر انسان کو حاصل نہیں ہوتی بلکہ خداوندعالم بعض انسانوں کو اس سے نوازتا ہے۔ شیعہ عقائد کے مطابق غیب سے آگاہ ہونا بنیادی طور پر خدا سے مختص ہے لیکن بعض مصلحتوں کی بناء پر خدا اپنے بعض مخصوص بندوں کو یہ علم عطا کرتا ہے۔ اس کے باوجود بھی علم غیب کی بعض اقسام جیسے خدا کی ذات پر علم حاصل ہونا وغیرہ صرف اور صرف خدا کے ساتھ مختص ہے اور خدا کے علاوہ کسی اور کو اس تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے تمام انبیاء یا کم از کم بعض پیغمبر اسلام(ص)، آئمہ معصومین سمیت انبیا ، بعض نیک اور صالح بندگان خدا علم غیب سے آگاہ ہیں۔ البتہ علم غیب سے آگاہی کی کیفیت اور مقدار کے حوالے سے یہ افراد ایک دوسرے سے متفاوت ہیں اور اس حوالے سے پیغمبر اکرم(ص) اور آپ کے حقیقی جانشین آئمہ معصومین سب سے زیادہ علم غیب سے آگاہ ہیں۔
آئمہ معصومین کے علم غیب کے حوالے سے شیعہ متکلمین کے درمیان دو عمده نظریے حداقلی و حداکثری رائج ہیں۔ اکثر متأخرین اس حوالے سے لامحدود علم غیب کے معتقد ہیں۔
لغوی اور اصطلاحی معنی
لغت میں غیب سے مراد مخفی اور پوشیدہ چیز کو کہا جاتا ہے، شہود کے مقابے میں جس سے مراد ایسی چیز کے ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے قابل درک ہوتی ہے۔[1]
قرآن و حدیث کی اصطلاح میں اس چیز کو غیب کہا جاتا ہے جس کی شناخت عام طور پر ممکن نہ ہو[2]
اقسام
ایک تقسیم بندی میں غیبی امور کو یوں تقسیم کر سکتے ہیں:
- ایسی چیز جو تعلیم، غور و فکر اور ریاضت سے آشکار ہو جاتی ہے۔
- ایسی چیز جس تک رسائی اور اس پر علم حاصل ہونا صرف خدا کے علاوہ کسی کیلئے ممکن نہ ہو۔ لیکن خدا جسے چاہے عطا کرے۔
دوسری قسم خود دو اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:
- ایسی چیز جس کا آشکار کرنا انبیاء اور الہی نمائندوں کیلئے ضروری ہے، انبیاء کے معجزات اسی قسم میں سے ہے۔
- ایسی چیز جو صرف اور صرف خدا سے مختص ہے اور خدا اسے کسی کو بھی عطا نہیں کرتا۔[3] علم غیب کی یہ قسم خواص خمسہ یا فکری اور قلبی احاطے کے ذریعے غیر خدا کیلئے قابل مشاہدہ نہیں ہے جیسے خدا کی ذات پر کنہ معرفت حاصل کرنا۔[4]
آیا غیب سے آگاہ ہونا ممکن ہے؟
اسلامی تعلیمات کی رو سے خداوند متعال کسی کو بھی چاہے علم غیب سے مطلع کر سکتا ہے یعنی جو کچھ واقع ہوگئی ہے یا جو کچھ آئندہ وقوع پذیر ہے سے آگاہ کرتا ہے۔ جیسے قرآن میں آیا ہے: یعْلَمُ مَا بَینَ أَیدِیهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ یحِیطُونَ بِشَیءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء ترجمہ، وہ جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو پبُ پشت ہے سب کوجانتا ہے اور یہ اس کے علم کے ایک حّصہ کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر وہ جس قدر چاہے۔[5]
ابن سینا نیز تجربہ کو مبناء قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
- جس طرح نیند کی حالت میں غیبی امور سے مطلع ہو سکتے ہیں اور یہ چیزیں محقق بھی ہوئی ہیں، کوئی مانع نہیں ہے کہ بیداری کی حالت میں بھی یہ کام ہو سکتا ہے۔[6]