مندرجات کا رخ کریں

"عقد نکاح" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{احکام}}
{{احکام}}
'''عقد نکاح''' ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جن کو ادا کرنے سے مرد اور عورت ایک دوسرے کے شریک حیات بن جاتے ہیں۔ اکثر شیعہ فقہاء کے مطابق عقدِ نکاح کو صحیح عربی میں پڑھنا چاہیے۔ انقطاعی نکاح (متعہ) کا عقد بھی دائمی نکاح کے عقد کی طرح ہے صرف فرق اتنا ہے کہ انقطاعی عقد میں مہر کے علاوہ شادی کی مدت کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات عقدِ نکاح جنسی لذت سے ہٹ کر صرف مَحرم بنے کے لیے پڑھا جاتا ہے جسے صیغہ محرمیت کہا جاتا ہے۔ ایسا عقد صحیح ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
'''عقد نکاح''' ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جن کو ادا کرنے سے مرد اور عورت ایک دوسرے کے شریک حیات بن جاتے ہیں۔ اکثر شیعہ فقہاء کے مطابق عقدِ نکاح کو صحیح عربی میں پڑھنا چاہیے۔ انقطاعی نکاح (متعہ) کا عقد بھی دائمی نکاح کے عقد کی طرح ہے صرف فرق اتنا ہے کہ انقطاعی عقد میں مہر کے علاوہ شادی کی مدت کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات عقدِ نکاح جنسی لذت سے ہٹ کر صرف مَحرم بنے کے لیے پڑھا جاتا ہے جسے صیغہ محرمیت کہا جاتا ہے۔ ایسا عقد صحیح ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
==عقد نکاح==
عقد نکاح ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جن کو ادا کرنے سے مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوتے ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۷۸.</ref> عقد نکاح صرف اور صرف ایجاب اور قبول کے ذریعے سے ثابت ہوتا ہے طرفین کا راضی ہونا صرف کافی نہیں ہے۔<ref>یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۸۵۱.</ref> ایجاب، کسی شخص کو کوئی کام انجام دینے کی تجویز دینے کے معنی میں ہے۔<ref>مراجعہ کریں: انصاری و طاہری، دانشنامہ حقوق خصوصی، ۱۳۸۴ش، ج۳، ص۱۵۰۷.</ref> اور قبول اس کام کی تجویز پر رضایت ظاہر کرنے کا نام ہے۔<ref>مراجعہ کریں: انصاری و طاہری، دانشنامہ حقوق خصوصی، ۱۳۸۴ش، ج۳، ص۱۵۰۷.</ref>
وہ الفاظ جو ایجاب کے لیے عورت ادا کرتی ہے<ref>مراجعہ کریں: امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۱.</ref> وہ یہ ہیں: {{حدیث|«زَوَّجْتُكَ»}} یا {{حدیث|«أنْکَحْتُكَ»}}.<ref>شوشتری، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، ۱۳۶۹ش، ج۸، ص۳۳۶.</ref> بعض فقہاء نے {{حدیث|«مَتَّعْتُكَ»}} کا لفظ بھی صحیح قرار دیا ہے<ref>شوشتری، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، ۱۳۶۹ش، ج۸، ص۳۳۶.</ref> اور قبول کے لیے جو الفاظ مرد ادا کرتا ہے<ref>مراجعہ کریں: امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۱.</ref>وہ یہ ہیں: {{حدیث|«قَبِلْتُ التَزْویج»}}، {{حدیث|«قَبِلْتُ النِّکاح»}}، {{حدیث|«قَبِلْتُ التَزْویج و النِّکاح»}} یا {{حدیث|«تَزَوَّجْتُ»}}.<ref>شوشتری، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، ۱۳۶۹ش، ج۸، ص۳۳۶.</ref>
==اقسام==
عقد نکاح کی دو قسمیں ہیں: [[شادی بیاہ|دائمی نکاح]] و [[متعہ|انقطاعی نکاح]].<ref>امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۷۸.</ref> دائمی عقد نکاح میں صرف مہر ذکر ہوتا ہے لیکن انقطاعی نکاح میں مہر کے علاوہ شادی کی مدت بھی بیان ہوتی ہے۔<ref>امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۷۸.</ref>
===دائمی===
عقد دائم میں اگر مرد اور عورت آپس میں خود عقد پڑھیں تو پہلے عورت کو کہنا چاہئے: {{حدیث|«زَوَّجْتُكَ نَفْسِی عَلىَ الصِّداقِ الْمَعْلُومِ»}} یعنی میں نے اس مہر پر جو معین ہوچکا ہے اپنے آپ کو تمہاری بیوی بنایا اور اس کے فوراً بعد مرد کہے: {{حدیث|«قَبِلْتُ التَزْوِیجَ عَلىَ الصِّداقِ المَعْلُوْمِ»}} یعنی میں نے ازدواج کو معین مہر کے مطابق قبول کیا۔ یا صرف {{حدیث|«قَبِلْتُ التَّزْوِیجَ»}} کہے اور اس سے اسی معین مہر کے مقابلے میں شادی کا ارادہ کرے۔<ref>امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۱.</ref>
اگر مرد اور عورت کی طرف سے عقد نکاح پڑھنے کے لیے کوئی اور وکیل مقرر کریں تو اگر مثال کے طور پر مرد کا نام احمد اور عورت کا نام فاطمہ ہو اور عورت کا وکیل کہے "زَوَّجتُ مُوِکِّلَکَ اَحمَدَ مُوَکِّلَتیِ فَاطِمَۃَ عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ" یعنی میں نے اپنی موکلہ فاطمہ کو معین مہر کے مقابلے میں تمہارے موکل احمد کے عقد میں لایا ہے اور اس کے لمحہ بھر بعد مرد کا وکیل کہے " قَبِلتُ التَّزوِیجَ لِمُوَکِّلِی اَحمَدَ عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ" یعنی اس شادی کو معین مہر کے بدلے میں نے اپنے موکل احمد کے لیے قبول کیا۔<ref>امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۱.</ref>
===غیر دائمی===
اگر مرد اور عورت آپس میں خود سے انقطاعی عقد نکاح پڑھنا چاہیں تو ازدواج کی مدت اور مہر معین کرنے کے بعد عورت کہے: {{حدیث|«زَوَّجْتُكَ نَفْسِي فِي المُدَّةِ المَعْلُومَةِ عَلَی المَهْرِ المَعْلُومِ»}}. یعنی میں نے اپنے آپ کو معین مہر کے بدلے مقررہ مدت کے لیے تمہارے عقد میں لایا ہے۔ اس کے فوراً بعد مرد کہے: {{حدیث|«قَبِلْتُ»}}.<ref>امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۳.</ref>
اور اگر مرد اور عورت اپنا عقد پڑھنے کے لیے وکیل مقرر کریں تو پہلے عورت کا وکیل مرد کے وکیل سے یوں کہے: {{حدیث|«زَوَّجْتُ مُوَكِّلَتِي مُوَكِّلَكَ فِي المُدَّةِ المَعْلُومَةِ عَلَى المَهْرِ المَعْلُومِ»}} یعنی میں اپنی موکلہ کو معین مہر کے بدلے معین مدت کے لیے تمہارے موکل کے عقد میں لے آیا ہوں پھر مرد کا وکیل فوراً کہے: {{حدیث|«قَبِلْتُ التَّزْوِيجَ لِمُوَكِّلِي هكَذا»}} یعنی جس طرح سے کہا گیا ہے اس شادی کو میں نے قبول کیا۔<ref>امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۳.</ref>
==خطبہ عقد==
عقد نکاح کے [[مستحب|مستحبات]] میں سے ایک صیغہ عقد سے پہلے خطبہ پڑھنا ہے<ref>بابازادہ، مراسم عروسی، ۱۳۷۹ش، ص۱۰۸.</ref> اس خطبے میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] اور [[اہل البیت علیہم السلام|اہل بیتؑ]] پر درود بھیجا جاتا ہے<ref>بابازادہ، مراسم عروسی، ۱۳۷۹ش، ص۱۰۸.</ref>پیغمبر اکرمؐ کی [[حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا|حضرت خدیجہ]] سے اور [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہؑ]] سے اور دیگر [[ائمہ معصومینؑ]] کی شادی کے خطبے فقہی اور حدیثی کتابوں مندرج ہیں۔<ref>مثال کے طور پر مراجعہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰۳، ص ۲۶۹؛ کلینی، الفروع من الکافی، ۱۳۶۷ش، ج۵، ص۳۷۰.</ref>
پیغمبر اکرمؐ سے حضرت علیؑ اور حضرت زہراؑ کے نکاح سے پہلے مندرجہ ذیل خطبہ پڑھنا:
::::<font color=green>{{حدیث|'''«الحمدلله الذی رفع السمآء فبناها، وبسط الارض فدحاها، وأثبتها بالجبال فأرسیها، أخرج منها ماءها و مرعیها، الذی تعاظم عن صفات الواصفین...أیها الناس إنما الانبیاء حجج الله فی أرضه، الناطقون بکتابه، العاملون بوحیه، إن الله عزوجل أمرنی أن ازوج کریمتی فاطمة بأخی وابن عمی و أولی الناس بی‌ علی بن أبی‌طالب، و [أن] قد زوجه فی السماء بشهادة الملائکة، وأمرنی أن ازوجه واشهدکم علی ذلک»'''}}</font><ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰۳، ص۲۶۹-۲۷۰.</ref>

نسخہ بمطابق 13:49، 26 نومبر 2018ء

عقد نکاح ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جن کو ادا کرنے سے مرد اور عورت ایک دوسرے کے شریک حیات بن جاتے ہیں۔ اکثر شیعہ فقہاء کے مطابق عقدِ نکاح کو صحیح عربی میں پڑھنا چاہیے۔ انقطاعی نکاح (متعہ) کا عقد بھی دائمی نکاح کے عقد کی طرح ہے صرف فرق اتنا ہے کہ انقطاعی عقد میں مہر کے علاوہ شادی کی مدت کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات عقدِ نکاح جنسی لذت سے ہٹ کر صرف مَحرم بنے کے لیے پڑھا جاتا ہے جسے صیغہ محرمیت کہا جاتا ہے۔ ایسا عقد صحیح ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔

عقد نکاح

عقد نکاح ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جن کو ادا کرنے سے مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوتے ہیں۔[1] عقد نکاح صرف اور صرف ایجاب اور قبول کے ذریعے سے ثابت ہوتا ہے طرفین کا راضی ہونا صرف کافی نہیں ہے۔[2] ایجاب، کسی شخص کو کوئی کام انجام دینے کی تجویز دینے کے معنی میں ہے۔[3] اور قبول اس کام کی تجویز پر رضایت ظاہر کرنے کا نام ہے۔[4] وہ الفاظ جو ایجاب کے لیے عورت ادا کرتی ہے[5] وہ یہ ہیں: «زَوَّجْتُكَ» یا «أنْکَحْتُكَ».[6] بعض فقہاء نے «مَتَّعْتُكَ» کا لفظ بھی صحیح قرار دیا ہے[7] اور قبول کے لیے جو الفاظ مرد ادا کرتا ہے[8]وہ یہ ہیں: «قَبِلْتُ التَزْویج»، «قَبِلْتُ النِّکاح»، «قَبِلْتُ التَزْویج و النِّکاح» یا «تَزَوَّجْتُ».[9]

اقسام

عقد نکاح کی دو قسمیں ہیں: دائمی نکاح و انقطاعی نکاح.[10] دائمی عقد نکاح میں صرف مہر ذکر ہوتا ہے لیکن انقطاعی نکاح میں مہر کے علاوہ شادی کی مدت بھی بیان ہوتی ہے۔[11]

دائمی

عقد دائم میں اگر مرد اور عورت آپس میں خود عقد پڑھیں تو پہلے عورت کو کہنا چاہئے: «زَوَّجْتُكَ نَفْسِی عَلىَ الصِّداقِ الْمَعْلُومِ» یعنی میں نے اس مہر پر جو معین ہوچکا ہے اپنے آپ کو تمہاری بیوی بنایا اور اس کے فوراً بعد مرد کہے: «قَبِلْتُ التَزْوِیجَ عَلىَ الصِّداقِ المَعْلُوْمِ» یعنی میں نے ازدواج کو معین مہر کے مطابق قبول کیا۔ یا صرف «قَبِلْتُ التَّزْوِیجَ» کہے اور اس سے اسی معین مہر کے مقابلے میں شادی کا ارادہ کرے۔[12] اگر مرد اور عورت کی طرف سے عقد نکاح پڑھنے کے لیے کوئی اور وکیل مقرر کریں تو اگر مثال کے طور پر مرد کا نام احمد اور عورت کا نام فاطمہ ہو اور عورت کا وکیل کہے "زَوَّجتُ مُوِکِّلَکَ اَحمَدَ مُوَکِّلَتیِ فَاطِمَۃَ عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ" یعنی میں نے اپنی موکلہ فاطمہ کو معین مہر کے مقابلے میں تمہارے موکل احمد کے عقد میں لایا ہے اور اس کے لمحہ بھر بعد مرد کا وکیل کہے " قَبِلتُ التَّزوِیجَ لِمُوَکِّلِی اَحمَدَ عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ" یعنی اس شادی کو معین مہر کے بدلے میں نے اپنے موکل احمد کے لیے قبول کیا۔[13]

غیر دائمی

اگر مرد اور عورت آپس میں خود سے انقطاعی عقد نکاح پڑھنا چاہیں تو ازدواج کی مدت اور مہر معین کرنے کے بعد عورت کہے: «زَوَّجْتُكَ نَفْسِي فِي المُدَّةِ المَعْلُومَةِ عَلَی المَهْرِ المَعْلُومِ». یعنی میں نے اپنے آپ کو معین مہر کے بدلے مقررہ مدت کے لیے تمہارے عقد میں لایا ہے۔ اس کے فوراً بعد مرد کہے: «قَبِلْتُ».[14]

اور اگر مرد اور عورت اپنا عقد پڑھنے کے لیے وکیل مقرر کریں تو پہلے عورت کا وکیل مرد کے وکیل سے یوں کہے: «زَوَّجْتُ مُوَكِّلَتِي مُوَكِّلَكَ فِي المُدَّةِ المَعْلُومَةِ عَلَى المَهْرِ المَعْلُومِ» یعنی میں اپنی موکلہ کو معین مہر کے بدلے معین مدت کے لیے تمہارے موکل کے عقد میں لے آیا ہوں پھر مرد کا وکیل فوراً کہے: «قَبِلْتُ التَّزْوِيجَ لِمُوَكِّلِي هكَذا» یعنی جس طرح سے کہا گیا ہے اس شادی کو میں نے قبول کیا۔[15]

خطبہ عقد

عقد نکاح کے مستحبات میں سے ایک صیغہ عقد سے پہلے خطبہ پڑھنا ہے[16] اس خطبے میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا، پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ پر درود بھیجا جاتا ہے[17]پیغمبر اکرمؐ کی حضرت خدیجہ سے اور امام علیؑ کی حضرت فاطمہؑ سے اور دیگر ائمہ معصومینؑ کی شادی کے خطبے فقہی اور حدیثی کتابوں مندرج ہیں۔[18]

پیغمبر اکرمؐ سے حضرت علیؑ اور حضرت زہراؑ کے نکاح سے پہلے مندرجہ ذیل خطبہ پڑھنا:

«الحمدلله الذی رفع السمآء فبناها، وبسط الارض فدحاها، وأثبتها بالجبال فأرسیها، أخرج منها ماءها و مرعیها، الذی تعاظم عن صفات الواصفین...أیها الناس إنما الانبیاء حجج الله فی أرضه، الناطقون بکتابه، العاملون بوحیه، إن الله عزوجل أمرنی أن ازوج کریمتی فاطمة بأخی وابن عمی و أولی الناس بی‌ علی بن أبی‌طالب، و [أن] قد زوجه فی السماء بشهادة الملائکة، وأمرنی أن ازوجه واشهدکم علی ذلک»[19]
  1. مراجعہ کریں: امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۷۸.
  2. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۸۵۱.
  3. مراجعہ کریں: انصاری و طاہری، دانشنامہ حقوق خصوصی، ۱۳۸۴ش، ج۳، ص۱۵۰۷.
  4. مراجعہ کریں: انصاری و طاہری، دانشنامہ حقوق خصوصی، ۱۳۸۴ش، ج۳، ص۱۵۰۷.
  5. مراجعہ کریں: امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۱.
  6. شوشتری، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، ۱۳۶۹ش، ج۸، ص۳۳۶.
  7. شوشتری، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، ۱۳۶۹ش، ج۸، ص۳۳۶.
  8. مراجعہ کریں: امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۱.
  9. شوشتری، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، ۱۳۶۹ش، ج۸، ص۳۳۶.
  10. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۷۸.
  11. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۷۸.
  12. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۱.
  13. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۱.
  14. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۳.
  15. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۵۸۳.
  16. بابازادہ، مراسم عروسی، ۱۳۷۹ش، ص۱۰۸.
  17. بابازادہ، مراسم عروسی، ۱۳۷۹ش، ص۱۰۸.
  18. مثال کے طور پر مراجعہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰۳، ص ۲۶۹؛ کلینی، الفروع من الکافی، ۱۳۶۷ش، ج۵، ص۳۷۰.
  19. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰۳، ص۲۶۹-۲۷۰.