ولید بن عتبہ بن ابی سفیان

ویکی شیعہ سے
ولید بن عتبہ بن ابی سفیان
بنی امیہ کے حکمران
کوائف
پورا نامالولید بن عتبۃ بن صخر بن حرب بن أمیۃ بن عبد شمس الأموی
نسبقریش طائفہ
مشہور اقاربمعاویۃ بن ابی سفیان (چچا)، یزید بن معاویہ (چچازاد بھائی)
جائے پیدائشمدینہ
علمی معلومات
دیگر معلومات
منصبمدینہ کا گورنر


وَلید بن عُتبَۃ بن ابی سفیان بنی امیہ کی حکومت کے کارندوں میں سے ایک اور معاویہ بن ابی سفیان کے بھتیجے تھے۔ وہ مروان بن حکم کے بعد مدینہ کا حکمران بنا اور معاویہ کے دور حکومت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہا۔ ولید، یزید بن معاویہ کے بعد خلافت کا حقدار سمجھا جارہا تھا لیکن اس نے انکار کر دیا۔ ولید کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ جسے کتابوں میں بڑے پیمانے پر بیان کیا ہے، وہ اس کا یزید کے لیے امام حسینؑ سے بیعت لینے پر مامور ہونا ہے۔

مروان سے مشورہ کرنے کے بعد ولید نے امامؑ کو دارالامارہ میں بلایا اور یزید کی بیعت کرنے کو کہا۔ امامؑ نے اس کی درخواست کو قبول نہیں کیا اور اگلے دنوں سر عام بیعت کا کہہ کر ملتوی کردیا۔ ولید نے امام کو قید کرنے اور لازمی بیعت لینے کے لیے مروان کے دباؤ کے باوجود امامؑ کی رائے کو قبول کیا۔ امام اس ملاقات کے بعد گھر واپس آئے اور کچھ مدت بعد مکہ روانہ ہوئے۔ اس واقعہ کا علم ہونے کے بعد یزید نے ولید کو مدینہ کی امارت سے ہٹا کر شام میں بلایا۔ کہا جاتا ہے کہ عاشورہ کے واقعہ کے بعد انہیں دوبارہ مدینہ کا حاکم مقرر کیا گیا۔

بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ولید کے امام کے بارے میں نرم رویہ کی وجہ اس کا فتنہ سے دوری اور اپنی مصلحت پسندی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، بعض لوگ امام کے مقام کے بارے میں ان کی آگاہی کو اس کی ایک اہم وجہ سمجھتے ہیں، جسے ولید کی امام سے رخصت ہونے کے بعد مروان کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

تعارف

ولید بن عتبہ بن ابی‌سفیان بن حرب اموی[1] جن کا پورا نام الولید بن عتبۃ بن صخر بن حرب بن أمیۃ بن عبدشمس الأموی[2] کہا گیا ہے جو بنی امیہ کے بزرگوں میں سے تھے[3] اور وہ معاویہ بن ابی سفیان کے بھتیجے تھے[4] ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ زیرک،[5] اور ہوشیار انسان تھے۔[6] اس کے علاوہ بعض مصادر میں ان کی فصاحت و بلاغت، بردباری،[7] اور سخاوت[8] کا تذکر بھی ہوا ہے۔

تاریخی مآخذ میں ان کی سوانح عمری اور تاریخ پیدائش کے بارے میں کچھ ذکر نہیں ہوا ہے اور صرف زندگی کے چند اہم واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔[9] انہیں یزید بن معاویہ کے بعد خلافت کے لئے موزوں فرد سمجھا جاتا تھا؛[10] جیسا کہ کہا گیا ہے کہ شام کے لوگ یزید کے بعد ولید بن عتبہ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے[11] لیکن انہوں نے انکار کیا۔[12] کہا جاتا ہے کہ ولید بن عتبہ نے معاویہ بن یزید کے جنازے پر نماز پڑھائی۔[13]

ولید کو خلوت میں شراب پینے کا بڑا شوق تھا اور عبد الرحمن بن سیحان نامی دوست کے ساتھ پیتا تھا۔[14] وہ 64ھ میں طاعون میں مبتلا ہوا اور اس کی وجہ سے دنیا سے چل بسا۔[15] یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معاویہ بن یزید کی نماز جنازہ پڑھاتے ہوئے وہ طاعون میں مبتلا ہوا۔[16]


بنی امیہ کا حکومتی کارندہ

ولید بن عتبہ معاویہ بن ابی سفیان اور اس کے بیٹے یزید کی حکومت کے عہدے داروں میں سے تھے۔[17] اور وہ کئی بار مدینہ کے گورنر بنے۔[18] وہ 57ھ میں مروان بن حکم کی برطرفی کے بعد اس سرزمین کی گورنری تک پہنچے۔[19] اور معاویہ کی حکومت کا خاتمہ تک اس عہدے پر باقی رہے۔[20] اور 60ھ میں اسے مدینہ کی امارت سے ہٹا دیا گیا اور عمرو بن سعید نے اس کی جگہ لی؛ لیکن اسے دوبارہ مدینہ کی حکمرانی تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔[21] بعض اطلاعات کے مطابق وہ 56ھ، 57ھ، 58ھ،[22] 61ھ اور 62ھ کو امیر الحاج کے عنوان سے حاجیوں کی رہبری کے عہدے پر فائز ہوا۔[23]

امام حسینؑ سے مالی اختلافات

کہا جاتا ہے کہ مدینہ میں ولید بن عتبہ کے دور میں ذی المروہ نامی علاقے میں ان کے اور امام حسین علیہ السلام کے درمیان مالی تنازعہ پیدا ہو گیا۔ امام نے اسے دھمکی دی اور کہا کہ اگر اس نے اپنا حق واپس نہ کیا تو امام تلوار اٹھائے گا اور لوگوں کو مسجد النبی میں حلف الفضول کی دعوت دے گا۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے امام کی حمایت پر آمادگی کا اعلان کیا۔[24] جب یہ خبر ولید بن عتبہ تک پہنچی تو اس نے امام حسینؑ کو ان کا حق دیا اور انہیں راضی کیا۔[25]

بعض دیگر روایات میں ولید کے امام حسینؑ کے ساتھ دیگر اختلافات مذکور ہیں جن میں امام کے ساتھ ان کی تعظیم کا ذکر کیا گیا ہے۔[26] بعض کتابوں میں امام سجادؑ کے ساتھ ولید کا ایک چشمے پر تنازعہ کا ذکر کیا گیا ہے جو امام حسینؑ کا تھا۔[27] یہی بات بعض فقہاء نے پانی بیچنے کے جائز ہونے کے لئے حوالے کے طور پر بیان کیا ہے۔[28]

امام حسینؑ سے یزید کے لئے بیعت لینے کی ذمہ داری

ولید بن عتبہ کا امام حسین علیہ السلام کو مدینہ کے دار الامارہ میں بلانا اور امام سے یزید بن معاویہ کے لئے بیعت لینے کی کوشش کو اس کی زندگی کا اہم واقعہ سمجھا گیا ہے۔[29] یہ واقعہ جو امام حسینؑ کی تحریک اور قیام کے آغاز کے عنوان سے اکثر منابع میں متعدد بار نقل ہوا ہے ان میں سے بعض نے اس واقعہ کی تفصیلات میں گئے بغیر کلی طور پر بیان کیا ہے[30] جب کہ بعض نے اس سے مکمل طور پر بیان کیا ہے۔[31]

60ھ کے ماہِ رجب میں معاویہ بن ابی سفیان کے مرنے کے بعد[32] یزید یزید نے ان لوگوں سے بیعت لینے کی کوشش کی جنہوں نے معاویہ کی بیعت نہیں کی تھی جن میں امام حسینؑ، عبد اللہ بن زبیر و عبد اللہ بن عمر شامل تھے۔[33] یزید نے مدینہ کے گورنر کو ایک خط کے ذریعے معاویہ کی موت کا ذکر کرنے کے بعد اس سے کہا کہ ان لوگوں کو جلد از جلد گرفتار کر کے ان سے بیعت کرنے کو کہا جائے[34] اور مخالفت کی صورت میں ان کا سر قلم کر دیا جائے۔[35] کہا جاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنے کے لیے یہ یزید کا پہلا اقدام تھا۔[36]

خط ملنے کے بعد ولید نے مروان بن حکم کو مشاورت کے لیے بلایا۔ مروان نے اس سے کہا کہ جلد از جلد ان لوگوں کو بلوائیں اور ان سے بیعت کرنے کو کہیں اور اگر وہ متفق نہ ہوں تو انہیں قتل کر دیں۔[37] اس کا خیال تھا کہ اگر انہیں معاویہ کی موت کا علم ہوا تو وہ مختلف جگہوں پر بھاگ جائیں گے اور مخالفت شروع کر دیں گے اور لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے۔[38]

امام کی دار الامارہ میں حاضری

ولید بن عتبہ نے رات کو امام حسینؑ اور عبد اللہ بن زبیر کو ایک پیغام بھیجا اور انہیں دار الامارہ میں بلایا۔ عبد اللہ بن زبیر نے امام سے پوچھا، آپ کے خیال میں اس وقت بلانے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ امام نے کہا کہ لگتا ہے معاویہ مرگیا ہے اور یزید کے لئے بیعت لینا چاہتے ہیں۔[39] امام حسین کسی ممکنہ سازش سے بچنے کے لیے بنی ہاشم کے نوجوانوں کے ساتھ دار الامارہ میں داخل ہوئے اور انہیں ضرورت پڑنے پر کاروائی کرنے کو کہا۔[40]

اس وقت ولید نے معاویہ کی موت کی خبر امام کو دی اور ان سے یزید کی بیعت کرنے کو کہا؛ لیکن امام نے یہ کہہ کر اگلے دن تک ٹال دیا کہ بیعت عوام کے سامنے ہونی چاہیے اور ولید نے بھی اسے قبول کر لیا۔[41] اس وقت مروان نے ولید سے کہا کہ اگر وہ اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس سے بیعت نہیں مانگ سکے گا، جب تک کہ فریقین کو بہت زیادہ جانی نقصان نہ پہنچے۔ اس نے ولید سے کہا کہ وہ امام کو بیعت تک قید کردے اور اگر اس نے انکار کیا تو اس کا سر قلم کردے۔[42] امام نے سختی سے مروان کو مخاطب کیا اور فرمایا: یابن الزرقا[یادداشت 1] تو مجھے مار دوگے یا وہ؟ خدا کی قسم تم نے جھوٹ بولا اور گناہ کیا۔[43]

امام حسین علیہ السلام پھر ولید کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے بیانات میں اپنے آپ کو اہل بیت نبوت، معدن رسالت، فرشتوں کی رفت و آمد کا مقام اور مقام رحمت قرار دیا اور یزید کا تعارف ایک بدکار، شرابی، اور عزت دار جانوں کے قاتل سے کیا اور آخر میں یزید کی بیعت نہ کرنے کی طرف اشارہ کیا۔[44] امام حسینؑ دار الامارہ سے نکلے اور گھر واپس آئے[45] اور کچھ عرصہ بعد مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے۔[46]

مدینہ کی گورنری سے برطرفی

[[بنی‌امیہ|امویوں] نے ولید کا امام حسینؑ سے نرم رویہ رکھنے پر اپنا احتجاج خلیفہ تک پہنچادیا جس پر یزید غصہ ہوا اور ولید کو مدینہ کی گورنری سے معذول کیا۔[47] یزید نے ان کی جگہ عمرو بن سعید بن العاص الاشداق کو منصوب کیا۔[48]

اموی خلیفہ نے ولید کو شام بلایا اور کچھ عرصے بعد وہ دربار کا مشاور بن گیا؛ لیکن 61ھ کو واقعہ کربلا کے بعد ایکبار پھر سے مدینہ کا حاکم بنا [49] جو مکہ میں عبداللَّہ بن زبیر کے قیام کے ساتھ معاصر ہوا۔[50]

امام حسینؑ سے نرم رویہ کی وجوہات

کہا جاتا ہے کہ ولید امام حسینؑ کے خلاف کوئی قدم اٹھانا نہیں چاہتا تھا اور اسی وجہ سے وہ اپنے عہدے سے برطرف ہوا۔[51] ابو مخنف کی روایت جس کی طرف دوسروں نے بھی ان سے نقل کر کے اشارہ کیا ہے اس کے مطابق[52] ولید، صلح پسند شخص تھا[53] اور فتنہ فساد سے دور رہتا تھا اور اسی وجہ سے امام حسینؑ سے الجھنا نہیں چاہتا تھا اور جب امام نے یزید کی بیعت سے انکار کیا تو آپ کو بیعت کرنے ہر مجبور نہیں کیا یہاں تک کہ آپ کے لئے مکہ کا راستہ بھی کھلا رکھا۔[54]

کتاب اعیان الشیعہ کے مصنف سید محسن امین کا کہنا ہے کہ امام سے نرم رویہ کی وجہ امام کے مقام و منزلت سے آشنائی تھی اور صرف امن پسند ہونا نہیں تھا۔[55] ولید کا امام کی شان و منزلت پر یقین ان کی مروان سے ہونے والی گفتگو میں نظر آتا ہے؛ جیسا کہ جب مروان نے مزمت کی تو کہا کہ اگر پوری دنیا بھی مل جائے تو امام حسینؑ کو قتل کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امام کا قتل قیامت میں نقصان اور دردناک عذاب کا باعث بنے گا۔[56]

امام حسینؑ کا سر اقدس دیکھنا

کتاب تاریخ مدینہ دمشق کے مصنف ابن عساکر کہتے ہیں جب امام حسینؑ کو جب عمرو بن سعید کے پاس لایا گیا تو ولید بھی وہاں حاضر تھا۔ عمرو نے امام حسینؑ کے سر کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے بعد ولید سے بات کرنے کو کہا تو ولید نے امام کی مغفرت کی دعا کی اور امام کے قاتلوں کی مجبوری قرار دیا اور کہا: ہم ایسے کام پر مجبور ہوئے جس سے ہمیں نفرت تھی اور اس میں ہمیں کوئی اختیار نہیں تھا۔ خدا کی قسم ان کی آسائش کو ہر قیمت میں فراہم کرتے اگرچہ دوسرے مذمت ہی کیوں نہ کرتے۔[57]

حوالہ جات

  1. زرکلی، الأعلام، 1989م، ج‌8، ص121۔
  2. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص206۔
  3. زرکلی، الأعلام، 1989م، ج‌8، ص121۔
  4. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص206۔
  5. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص206۔
  6. مجلسی، زندگانی حضرت امام حسین(ع)، 1364ش، ج‌2، ص403۔
  7. زرکلی، الأعلام، 1989م، ج‌8، ص121۔
  8. عامری حرضی، غربال الزمان، 1405ق، ص59؛ ابو مخرمہ، قلادۃ النحر، 1428ق، ج‌1، ص405۔
  9. ملاحظہ کریں: ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص206۔
  10. عامری حرضی، غربال الزمان، 1405ق، ص59؛ قابومخرمہ، قلادۃ النحر، 1428ق، ج‌1، ص405؛ ابن‌عماد حنبلی، شذرات الذہب، 1406ق، ج‌1، ص287۔
  11. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص212۔
  12. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص211۔
  13. خلیفۃ بن خیاط، تاریخ‌ خلیفۃ، 1415ق، ص158؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ق، ج‌8، ص114۔
  14. مادلونگ، جانشینی محمد، 1377ش، ص473۔
  15. عامری حرضی، غربال الزمان، 1405ق، ص59؛ ابو مخرمہ، قلادۃ النحر، 1428ق، ج‌1، ص405؛ ابن عماد حنبلی، شذرات الذہب، 1406ق، ج‌1، ص287۔
  16. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص211۔
  17. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص206۔
  18. ابومخرمہ، قلادۃ النحر، 1428ق، ج‌1، ص405۔
  19. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص207؛ ذہبی، تاریخ‌ الإسلام، 1413ق، ج‌4، ص162-163؛ ابن جوزی، المنتظم، 1412ق، ج‌5، ص289۔
  20. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص208۔
  21. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص207۔
  22. طبری، تاریخ‌ الطبری، 1387ق، ج‌5، ص،301، 308، 309 ؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ق، ج‌8، ص78، 81، 82۔
  23. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص208۔
  24. ابن ­ہشام، السیرہ النبویہ، دار المعرفہ،‌ ج1، ص134-135؛ ابو الفرج اصفہانی، الأغانی، 1415ق، ج‌17، ص188؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص210؛ اعرجی، مناہل الضرب، 1419ق، ص27؛ ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، 1404ق، ج‌15، ص226-227۔
  25. ابن اثیر، الکامل، 1385ش، ج‌2، ص41؛ ابن كثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ق، ج2، ص293؛ یوسفی غروی، تاریخ تحقیقی اسلام، 1383ش، ج‌1، ص265۔
  26. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص210۔
  27. ابن شہر آشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب، 1379ق، ج‌4، ص144؛ مجلسی، زندگانی حضرت سجاد و امام محمد باقر علیہما السلام، 1396ق، ص40۔
  28. بَابُ جَوَازِ بَیعِ الْمَاءِ إِذَا کانَ مِلْکاً لِلْبَائِعِ وَ اسْتِحْبَابِ بَذْلِہِ لِلْمُسْلِمِ تَبَرُّعا نوری، مستدرک الوسائل، 1408ق، ج‌13، ص243-244۔
  29. ابو مخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص75-83۔
  30. بلاذری، أنساب‌ الأشراف،1417ق، ج‌3، ص155؛ بندنیجی قادری، جامع الأنوار، 1422ق، ص71-72؛ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، 1325ق، ج‌2، ص348؛ اربلی، کشف الغمۃ، 1381ق، ج‌2، ص42۔
  31. ملاحظہ کریں: طبری، تاریخ‌ الطبری، 1387ق، ج‌5، ص338-340؛ شامی، الدر النظیم، شامی، ص540؛ دینوری، الأخبار الطوال، 1368ش، ص،227-228؛ ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ق، ج‌5، ص322؛ اعرجی، مناہل الضرب، 1419ق، ص383۔
  32. اعرجی، مناہل الضرب، 1419ق، ص383؛ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ق، ج‌1، ص587۔
  33. ابو مخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص75۔
  34. ابو مخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص75؛ ابن‌ حجر عسقلانی، الإصابۃ، 1415ق، ج‌2، ص69۔
  35. یعقوبی، تاریخ‌ الیعقوبی، بیروت، ج‌2، ص241۔
  36. شاوی، با کاروان حسینی از مدینہ تا مدینہ، 1386ش، ج‌6، ص65۔
  37. ابومخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص77؛ یعقوبی، تاریخ‌ الیعقوبی، بیروت، ج‌2، ص241۔
  38. ابو مخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص77۔
  39. ابو مخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص79۔
  40. ابو مخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص80۔
  41. ابو مخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص80۔
  42. ابو مخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص81۔
  43. ابومخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص80-82۔
  44. ابن‌اعثم الکوفی، الفتوح، 1411ق، ج‌5، ص14؛ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ق، ج‌1، ص588؛ ابن نما حلی، مثیر الأحزان، 1406ق، ص24۔
  45. ابومخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص81۔
  46. ابو مخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص83؛ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج‌2، ص32-34؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1375ش، ج‌1، ص171۔
  47. مجلسی، زندگانی حضرت امام حسین(ع)، 1364ش، ج‌2، ص403؛‌ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ق، ج‌1، ص588۔
  48. طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج‌5، ص343؛ مجلسی، زندگانی حضرت امام حسین(ع)، 1364ش، ج‌2، ص403۔
  49. زرکلی، الأعلام، 1989م، ج‌8، ص121۔
  50. ابن‌طاووس، لہوف، 1380ش، ص85۔
  51. تقی‌زادہ داوری، تصویر امامان شیعۃ در دایرۃ المعارف اسلام، 1385ش، ص150۔
  52. طبری، تاریخ‌ الطبری، 1387ق، ج‌5، ص340؛ ابن جوزی، المنتظم، 1412ق، ج‌5، ص322۔
  53. ابو مخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ق، ص81۔
  54. مجلسی، زندگانی حضرت امام حسین(ع)، 1364ش، ج‌2، ص403۔
  55. امین، أعیان الشیعۃ، 1403ق، ج‌1، ص588۔
  56. امین، أعیان الشیعۃ، 1403ق، ج‌1، ص588؛ تھوڑے اختلاف کے ساتھ: ابن‌اعثم الکوفی، الفتوح، 1411ق، ج‌5، ص14؛ طبری، تاریخ‌ الطبری، 1387ق، ج‌5، ص340؛‌ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج‌2، ص34؛ دینوری، الأخبار الطوال، 1368ش، ص228۔
  57. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج‌63، ص211۔

نوٹ

  1. زرقاء مروان کی ماں کا لقب تھا جن کا نام لقب ام‌ حبتل تھا جو عصر جاہلیت میں معلوم بدکار عورتوں میں شمار ہوتی تھی۔ (ابن جوزی، تذكرۃ الخواص، 1417ق، ص188-189.)

مآخذ

  • ابن أبی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • ابن‌ ا‌ثیر، علی بن ابی‌ الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌دار صادر، 1385ہجری شمسی۔
  • ابن‌ اعثم الکوفی، أحمد، کتاب الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، 1411ھ۔
  • ابن‌ جوزی، سبط، تذكرۃ الخواص، قم، منشورات الشریف الرضی، 1417ھ۔
  • ابن‌ جوزی، عبد الرحمن بن علی بن محمد، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1412ھ۔
  • ابن‌ حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
  • ابن‌ حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، بیروت،‌دار صادر، 1325ھ۔
  • ابن‌ شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب(ع)، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • ابن‌ عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق و ذکر فضلہا و تسمیۃ من حلہا من الأماثل أو اجتاز بنواحیہا من واردیہا و أہلہا، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
  • ابن‌ عماد حنبلی، عبد الحی بن احمد، شذرات الذہب فی أخبار من ذہب، دمشق،‌دار ابن‌کثیر، 1406ھ۔
  • ابن‌کثیر الدمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
  • ابن‌ نما حلی، جعفر بن محمد، مثیر الأحزان، قم، مدرسہ امام مہدی، چاپ سوم، 1406ھ۔
  • ابن ہشام، السیرہ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبدالحفیظ شلبی، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا.
  • ابو مخرمہ، عبداللہ طیب بن عبداللہ، قلادۃ النحر فی وفیات أعیان الدہر، بیروت، دارالمنہاج، 1428ھ۔
  • ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین، الأغانی، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، 1415ھ۔
  • ابو مخنف کوفی، لوط بن یحیی، وقعۃ الطف، قم، جامعہ مدرسین، چاپ سوم، 1417ھ۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، تبریز، بنی ہاشمی، 1381ھ۔
  • اعرجی، جعفر بن محمد، مناہل الضرب فی أنساب العرب، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آیت‌اللہ العظمی مرعشی نجفی، 1419ھ۔
  • امین، محسن، أعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، دارالفکر، 1417ھ۔
  • بندنیجی قادری، عیسی صفاء الدین، جامع الأنوار فی مناقب الأخیار، بیروت، الدار العربیۃ للموسوعات، 1422ھ۔
  • تقی‌ زادہ داوری، محمود، تصویر امامان شیعہ در دایرۃ المعارف اسلام، قم، موسسہ شیعہ شناسی، 1385ہجری شمسی۔
  • خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق فواز، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
  • دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر، قم، منشورات الرضی، 1368ہجری شمسی۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • زرکلی، خیر الدین، الأعلام (قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین)، بیروت،‌دار العلم للملایین، 1989م.
  • شامی، یوسف بن حاتم، الدر النظیم فی مناقب الأئمۃ اللہامیم، قم، جامعہ مدرسین، 1420ھ۔
  • شاوی، علی، با کاروان حسینی از مدینہ تا مدینہ(ترجمۃ مع الرکب الحسینی من المدینۃ الی المدینۃ)، قم، زمزم ہدایت، چاپ دوم، 1386ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، 1387ھ۔
  • عامری حرضی، یحیی بن ابی‌ بکر، غربال الزمان فی وفیات الأعیان، دمشق، دارالخیر، 1405ھ۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، قم، انتشارات رضی، 1375ہجری شمسی۔
  • مادلونگ، ویلفرد، جانشینی محمد، مشہد، آستان قدس رضوی، 1377ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، زندگانی حضرت امام حسین علیہ‌السلام، ترجمہ محمد جواد نجفی، تہران، اسلامیہ، 1364ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، زندگانی حضرت سجاد و امام محمد باقر علیہما السلام (ترجمہ جلد 46 بحار الأنوار)، تہران، اسلامیہ، چاپ دوم، 1396ھ۔
  • نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، 1408ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌دار صادر، بی‌تا.
  • یوسفی غروی، محمد ہادی، تاریخ تحقیقی اسلام (موسوعۃ التاریخ الاسلامی)، قم، موسسہ امام خمینی، چاپ چہارم، 1383ہجری شمسی۔