مندرجات کا رخ کریں

مسودہ:ثنیۃ الوداع

ویکی شیعہ سے

ثَنِیّۃ الوَداع مدینہ کے قریب ایک مقام تھا جہاں سے مسافروں کو رخصت اور ان کا استقبال کیا جاتا تھا۔ یہ جگہ مسجد نبوی سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھی۔ ثنیۃ الوداع شمالی مدینہ کی سمت سے شام جانے والا راستہ سمجھا جاتا تھا۔ نیز روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ مدینہ کے جنوب میں بھی اسی نام کا ایک اور مقام تھا، کہا جاتا ہے کہ رسول اکرم(ص) اسی راستے سے مدینہ میں داخل ہوئے تھے۔ نبی اکرم(ص) کے استقبال کے وقت جو قصیدہ پڑھا گیا تھا، اس میں بھی اس مقام کا ذکر ملتا ہے۔ ثنیۃ الوداع اپنے جغرافیائی محل وقوع کی بناء پر متعدد تاریخی واقعات کا شاہد رہا ہے۔

محل وقوع

ثنیۃ الوداع مدینہ کے جوار میں ایک مقام تھا[1] جہاں لوگ مسافروں کو رخصت کرنے یا آنے والوں کا خیرمقدم کرنے آتے تھے۔[2] یہ مقام مسجد نبوی سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔[3] شمالی مدینہ سے شام کی طرف سفر کرنے والوں کے لئے یہی راستہ معروف تھا۔[4] سید جعفر مرتضی عاملی (متوفیٰ: 1441ھ) کے مطابق رسول خدا جب شام کی طرف غزوات کے لئے نکلتے تو اسی راستے سے گزرتے تھے۔[5]

کچھ تاریخی مصادر کے مطابق جنوبی مدینہ سے مکہ کی طرف جانے والے راستے پر بھی ثنیۃ الوداع ہی نام کا ایک مقام موجود تھا۔[6] رسول اکرم (ص) مدینہ میں داخل ہوتے وقت اسی طرف سے آئے تھے۔[7] مدینہ میں مسجد ثنیۃ الوداع کے نام سے ایک مسجد کا بھی ذکر ملتا ہے۔[8] بعض دیگر تاریخی مصادر میں مکہ میں بھی اسی نام سے ایک مقام کا تذکرہ ہے۔[9]

وجہ تسمیہ

ثنیۃ الوداع کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض کے مطابق یہ مقام رسول اکرم(ص) کی مدینہ کی جانب ہجرت سے پہلے ہی مسافروں کو الواداع کہنے کی جگہ کے طور پر مشہور تھا، اسی وجہ سے اس کا نام ’’ثنیۃ الوداع‘‘ پڑ گیا۔[10] یہ بھی کہا گیا ہے کہ رسول خدا(ص) جب مختلف علاقوں میں جنگ کے لیے سپہ سالار بھیجتے تھے، تو انہیں اسی مقام پر الوداع اور رخصت کیا جاتا تھا، اسی مناسبت سے یہ نام رکھا گیا۔[11]

بعض اہل سنت مصادر نے اس کی وجہ تسمیہ کو اپنے اس عقیدے سے جوڑا ہے کہ انہوں نے متعہ کی حرمت سے متعلق ایک واقعہ یہاں پیش آنے کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق رسول خدا (ص) نے یہاں متعہ سے منع کیا اور اسی مقام پر اپنی متعہ والی زوجات سے الوداع کیا[12] جس کی وجہ سے اس مقام کا یہ نام پڑگیا۔ البتہ بعض تاریخی روایات میں آیا ہے کہ یہ واقعہ جنگ خیبر یا تبوک سے واپسی پر پیش آیا ہے۔[13] تاہم ثنیۃ الوداع کا نام ان جنگوں سے پہلے بھی معروف تھا۔[14]

تاریخی واقعات

ثنیۃ الوداع نامی مقام کئی تاریخی واقعات کا گواہ رہا ہے۔ رسول خدا(ص) جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو آنحضرت(ص) کا اسی مقام پر استقبال کیا گیا۔[15] اس موقع پر وہ معروف قصیدہ پڑھا گیا جس کا آغاز اس مصرعہ سے ہوتا ہے: "طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا"[16] اور اسی قصیدے میں اس مقام کا نام بھی آیا ہے۔[17]

دیگر واقعات میں بھی اس جگہ کا ذکر ملتا ہے۔ رسول اکرم(ص) نے جنگِ موتہ کے لئے بھیجے گئے مجاہدین کو ثنیۃ الوداع تک خود پہنچایا اور وہیں اُن سے خطاب فرمایا۔[18] اسی طرح مسلمانوں کا لشکر جنگ تبوک کے لئے روانہ ہوتے وقت اسی مقام پر اکٹھا ہوا تھا۔[19] اسی مقام پر نبی اکرم(ص) نے حضرت علی(س) سے الوداع کیا، جو جنگِ تبوک کے موقع پر مدینہ میں آپ(ص) کے جانشین مقرر ہوئے تھے اور یہ جدائی حضرت علی(س) کے لئے رقت آمیز ثابت ہوئی۔[20]

دوسری صدی ہجری میں عباسیوں کے خلاف قیام کرنے والے نفس زکیہ کی قبر بھی اس مقام کے قریب واقع تھی، تاہم بعد میں اس کے آثار مٹ گئے۔[21]

حوالہ جات

  1. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج‏2، ص86۔
  2. جعفریان، آثار اسلامی مکّہ و مدینہ، 1387شمسی، ص309۔
  3. کعکی، معالم المدینۃ المنورۃ بین العمارۃ و التاریخ، 2007ء، ج1، ص38۔
  4. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج8، ص394۔
  5. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، 1426ھ، ج4، ص109۔
  6. صبری باشا، کتاب موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین وجزیرۃ العرب، 2004ء، ج3، ص172؛ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، 1426ھ، ج4، ص109۔
  7. صبری باشا، کتاب موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین وجزیرۃ العرب، 2004ء، ج3، ص172۔
  8. جعفریان، آثار اسلامی مکّہ و مدینہ، 1387شمسی، ص309۔
  9. ابن‌منظور، لسان العرب، 1414ھ، ج8، ص387۔
  10. یاقوت حموی، معجم البدان، 1995ء، ج2، ص86۔
  11. یاقوت حموی، معجم البدان، 1995ء، ج2، ص86۔
  12. ربانی، «ثنیۃ الوداع»، ص606؛ ابی‌یعلی تمیمی، مسند أبی‌یعلی، 1404ھ، ج11، ص503۔
  13. ابن‌شبہ، تاریخ المدینہ المنوره، 1399ھ، ص269۔
  14. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج9، ص202؛ خیاری، تاریخ معالم المدینۃ المنورۃ قدیماً و حدیثاً، 1419ھ، ص176۔
  15. خیاری، تاریخ معالم المدینۃ المنورۃ قدیماً و حدیثاً، 1419ھ، ص176۔
  16. شعیب، مرآت الاولیاء، 1379شمسی، ص81۔
  17. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج9، ص202۔
  18. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج21، ص60۔
  19. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص292۔
  20. شیخ طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص171۔
  21. جعفریان، آثار اسلامی مکّہ و مدینہ، 1387شمسی، ص309۔

مآخذ

  • ابن‌شبہ بصری، عمر بن شبۃ، تاریخ المدینۃ، جدۃ، نشر سید حبیب محمود أحمد، 1399ھ۔
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار صادر، چاپ سوم، 1414ھ۔
  • ابی‌یعلی تمیمی، أحمد بن علی، مسند أبی یعلی، دمشق، دار المأمون للتراث، چاپ اول، 1404ھ۔
  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، نشر مشعر، چاپ نہم، 1387ہجری شمسی۔
  • خیاری، احمد یاسین احمد، تاریخ معالم المدینۃ المنورۃ قدیماً و حدیثاً، عربستان، الأمانۃ العامۃ للإحتفال بمرور مائۃ عام علی تأسیس المملکۃ، 1419ھ۔
  • ربانی، ابوالفضل، «ثنیۃ الوداع»، مجلہ دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ج5، تہران، مشعر، 1395ہجری شمسی۔
  • شعیب، محمد، مرآت الاولیاء، اسلام‌آباد، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، 1379ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن‏، الامالی، قم، دار الثقافۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • صبری باشا، ایوب، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، ترجمہ ماجدہ معروف، حسین مجیب المصری، عبدالعزیز عوض، قاہرہ، دارالآفاق العربیۃ، 2004ء۔
  • عاملی، جعفر مرتضی‏، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم‏، قم، دارالحدیث‏، چاپ اول، 1426ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: سید طیب موسوی جزائری،‏ قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • کعکی، عبدالعزیز، معالم المدینۃ المنورۃ بین العمارۃ و التاریخ، مصحح: عبیداللہ محمدامین کردی، احمد محمد محمد شعبان، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، 2007ء۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، اول، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1420ھ۔
  • یاقوت حموی، شہاب الدین، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، چاپ دوم، 1995ء۔