ماہ رمضان کی تئیسویں رات

ویکی شیعہ سے
(ماہ رمضان کی 23ویں شب سے رجوع مکرر)

ماہ رمضان کی تئیسویں رات ان راتوں میں سے ایک ہے جس کے بارے میں شب قدر ہونے کا احتمال دیا جاتا ہے۔ اسی لیے شیعیان اس رات کو احیاء کرتے ہیں اور پوری رات عبادت میں گزارتے ہیں۔ شیعہ روائی کتب میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ انیسویں اور اکیسویں ماہ رمضان کی نسبت تیئیسویں کی رات شب قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے۔ نیز اس رات کے مخصوص اعمال باقی دو راتوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ اہل بیتؑ کی سیرت سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس رات میں اپنے اہل خانہ کو بیدار رکھتے تھے۔ بعض شیعہ علما نے اپنی تصنیفات کو اسی رات میں اختتام پذیر کیا ہے تاکہ اس کی برکت سے مستفیض ہوسکے۔

23ویں کی رات شب قدر ہونے کا احتمال

کربلا معلیٰ میں تئیسویں ماہ رمضان کی رات شب احیاء کا منظر(رمضان 1443ھ)[1]

ماہ رمضان کی 23ویں کی رات وہ رات ہے جس میں شب قدر ہونے کا زیادہ احتمال دیا جاتا ہے۔[2] اسی لیے شیعہ حضرات اس رات میں احیاء کرتے ہیں اور رات بھر عبادت الہی میں مشغول رہتے ہیں۔[3]

علامہ مجلسی کے کہنے کے مطابق شیعہ علما کا نظریہ ہے کہ شب قدر ماہ رمضان کی 19ویں رات، 21ویں رات اور تئیسویں رات میں سے کسی ایک میں منحصر ہے۔[4] حالانکہ شیخ صدوق کا کہنا ہے کہ ہمارے اساتذہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شب قدر ماہ رمضان کی 23 ویں رات کو ہے۔[5] بعض احادیث میں 23ویں رات کو شب قدر کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔[6] بعض روایات کے مطابق 19ویں کی رات کو انسانوں کی تقدیریں لکھی جاتی ہیں، 21ویں کی شب ان کی تائید ہوتی ہے اور 23ویں کی رات ان پر دستخط کیے جاتے ہیں۔[7] محمد تقی مجلسی کے مطابق شیخ صدوق اور اکثر شیعہ علما کچھ احادیث جیسے روایت جُهَنی کی وجہ سے 23ویں رات کو شب قدر مانتے ہیں؛ حالانکہ مجلسی اول کچھ دیگر روایات کی بنیاد پر اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ 19، 21 اور 23 کی تینوں راتیں شب قدر ہونے کے لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہیں لہذا بہتر یہ ہے کہ ان تینوں راتوں میں شب قدر ہونے کا احتمال دیا جائے۔[8]

23ویں کی رات لیلۃ الجہنی کے نام سے شہرت

امام محمد باقرؑ کی ایک روایت کی رو سے 23ویں کی رات، شب جُهَنِیّ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس روایت کے مطابق ایک دن جُہنی نامی شخص حضرت محمدؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میرے پاس کافی تعداد میں اونٹ، بھیڑ بکریاں اور غلام ہیں، لہذا میری زیادہ مصروفیات کے بموجب ہر وقت مدینہ نہیں آسکتا ہوں۔ اے رسول خداؐ! میں چاہتا ہوں کہ آپؐ مجھے ماہ رمضان کی ایک رات متعین کرلیں تاکہ میں اسی رات کو آپ کے پاس آجاؤں اور نماز میں شرکت کرلوں۔ رسول خداؐ نے اسے اپنے پاس بلایا اور اس کے کان میں کچھ فرمایا۔ اس واقعے کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ جہنی ماہ رمضان کی 23ویں رات کو اپنے گھروالوں، بھیڑ بکریوں، اونٹوں غلاموں کے ہمراہ مدینہ آتا تھا، رات یہیں گزار کر اگلی صبح واپس جاتا تھا۔[9] اس گفتگو اور عبد الله انیس کے رفتار کے بعد جو کہ ہر سال 23ویں شب ماہ رمضان عبادت کے لیے مسجد نبوی آیا کرتا تھا، یہ رات "لیلۃُ الجُہَنی" کے نام سے مشہور ہوئی۔[10]

23ویں کی رات اور سیرت اہل بیتؑ

کتاب دعائم الاسلام میں امام علیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق پیغمبر خداؐ ماہ رمضان کی 23ویں کی شب کو اپنے اہل خانہ کو بیدار رکھتے تھے اور جن پر نیند کا غلبہ آتا تھا ان پر پانی چھڑکاتے تھے تاکہ وہ لوگ بیدار رہ سکیں۔[11] حضرت فاطمہ زہرا(س) بھی 23ویں رات کو اپنے بچوں کو بیدار رکھتی تھیں اور انہیں سونے سے منع کرتی تھیں، انہیں کھانا کم دیتی تھیں اور فرماتی تھیں دن کو کچھ دیر آرام کرلیں تاکہ رات کو جاگ کر عبادت کی جاسکے۔ نیز آپ(س) فرماتی تھیں حقیقی محروم شخص وہ ہے آج کی رات کی نیکیوں سے محروم رہے۔[12] روایت کے مطابق ایک دفعہ 23ویں کی رات امام جعفر صادقؑ بیمار ہوگئے اس کے باوجود آپؑ نے فرمایا کہ مجھے مسجد میں لے جایا جائے تاکہ عبادت خدا بجالاسکوں۔[13] شیخ عباس قمی نے ان روایات کو مفاتیح الجنان میں 23ویں شب کے مخصوص اعمال کے ذیل میں بیان کیا ہے۔[14]

23ویں رات اور شیعہ علما کی تالیفات

محمد محمدی رے شہری کے مطابق 23ویں رات کی برکت کی وجہ سے بعض علما نے اپنی معروف کتابوں کی کتابت کو اسی رات میں اختتام پذیر کیا ہے؛[15] جواہر الکلام (1254ھ) تالیف محمد حسن نجفی، شرح منظومہ (1261ھ) تالیف ملاہادی سبزواری اور المیزان (1392ھ) تالیف علامہ طباطبایی انہی کتابوں میں سے ہیں۔[16] رے شہری نے خود میزانُ الحِکْمہ کو مورخہ 1405ھ کے ماہ رمضان کی 23ویں رات میں اختتام پذیر کیا ہے۔[17]

23ویں رات کے اعمال

شیخ عباس قمی نے ماہ رمضان کی تیئیسویں رات کے اعمال کو مفاتیح الجنان میں بیان کیا ہے۔[18] انہوں نے علامہ مجلسی سے نقل کیا ہے کہ اس رات میں جتنی مقدار میں ممکن ہو قرآن کی تلاوت کی جائے اور دعائیں پڑھی جائیں، مخصوصاً صحیفہ سجادیہ میں منقول دعائیں، اسی طرح دعائے مکارم الاخلاق اور |دعائے توبہ پڑھی جائے۔[19] نیز اس رات میں جس حالت میں بھی ہو، کھڑے ہوکر، بیٹھ کر یا سجدے میں دعائے اللہم کن لولیک کو زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے۔[20]

23ویں ماہ رمضان کے اعمال
دیگر راتوں کے ساتھ مشترک اعمال
23ویں کے مخصوص احکام

حوالہ جات

  1. «مراسم احیاء شب بیست و سوم ماه مبارک رمضان در بین الحرمین کربلای معلی»، خبرگزاری میزان۔
  2. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج20، ص334۔
  3. مجیدی خامنه، «شبهای قدر در ایران»، ص21.
  4. مجلسی، مرآة العقول، 1404ھ، ج16، ص381۔
  5. صدوق، الخصال، 1362شمسی، ص519۔
  6. ملاحظہ کیجیے: صدوق، من لایحضره الفقیه، 1413ھ، ج2، ص160۔
  7. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص159 و 160۔
  8. مجلسی، لوامع صاحبقرانی، 1404ھ، ج6، ص599۔
  9. قاضی‌ نعمان، دعائم الاسلام، 1385ھ، ج1، ص282؛ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، 1413ھ، ج2، ص160-161۔
  10. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج97، ص3-5۔
  11. قاضی‌ نعمان، دعائم الاسلام، 1385ھ، ج1، ص282۔
  12. قاضی‌ نعمان، دعائم الاسلام، 1385ھ، ج1، ص282؛ قمی، کلیات مفاتیح الجنان، نشر آیین دانش، اعمال مخصوصه شب بیست و سوم، ص416۔
  13. شیخ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص676۔
  14. قمی، کلیات مفاتیح الجنان، اسوه، اعمال شب‌های قدر، ص236-237۔
  15. محمدی ری‌شهری، ماه خدا، 1398شمسی، ج2، 815، پانویس1۔
  16. محمدی ری‌شهری، ماه خدا، 1389شمسی، ج2، 815، پانویس1۔
  17. محمدی ری‌شهری، ماه خدا، 1389شمسی، ج2، 815، پانویس1۔
  18. قمی، کلیات مفاتیح الجنان، اسوه، اعمال شب‌های قدر، ص236-237۔
  19. قمی، کلیات مفاتیح الجنان، اسوه، اعمال شب‌ های قدر، ص236-237۔
  20. قمی، کلیات مفاتیح الجنان، اسوه، اعمال شب‌ های قدر، ص236-237۔
  21. قمی، کلیات مفاتیح الجنان، اسوه، اعمال شب‌های قدر، ص225-226۔
  22. قمی، کلیات مفاتیح الجنان، اسوه، اعمال شب‌ های قدر، ص235-237۔
  23. صدوق، امالی، 1417ھ، ص747۔

مآخذ

  • شیخ صدوق، محمد بن علی، امالی، موسسہ بعثت، قم چاپ اول، 1417ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، 1362ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری، قم، انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، تحقیق مؤسسة البعثہ، قم، دارالثقافہ، الطبعة الاولی، 1414ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الاعلمی، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • قاضی‌نعمان، نعمان بن محمد، دعائم الإسلام، قم، مؤسسہ آل البیت، چاپ دوم، 1385ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، کلیات مفاتیح الجنان، قم، اسوہ، بی‌تا۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتاب الاسلامیة، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مجیدی خامنہ، فریدہ، «شبہای قدر در ایران»، در مجلہ گلستان قرآن، شمارہ 37، آذر 1379ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول‏، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • مجلسی، محمد تقی، لوامع صاحبقرانی مشہور بہ شرح فقیہ، قم، مؤسسہ اسماعیلیان‏، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • محمد محمدی رے شہری، محمد، ماہ خدا: پژوہشی جامع دربارہ ماہ مبارک رمضان از نگاہ قرآن و حدیث، ترجمہ جواد محدثی، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث، 1389ہجری شمسی۔
  • «مراسم احیاء شب بیست و سوم ماہ مبارک رمضان در بین الحرمین کربلای معلی»، خبرگزاری میزان، تاریخ درج مطلب 5 اردیبہشت 1401شمسی، تاریخ بازدید: 27 فروردین 1403ہجری شمسی۔