ابو الحسن اشعری

ویکی شیعہ سے
ابو الحسن اشعری
کوائف
مکمل نامعلی بن اسماعیل بن اسحاق اشعری
لقب/کنیتابو الحسن
تاریخ ولادت260ھ (بصرہ)
آبائی شہربصرہ
تاریخ وفات324ھ
مدفنبغداد
علمی معلومات
تالیفاتالابانہ عن اصول الدیانۃ،رسالۃ الایمان،...
خدمات


ابو الحسن علی بن اسماعیل بن اسحاق اشعری (260-324 ھ/874-936ء)، متکلم اور کلام اسلامی کے ایک مکتب کا بانی ہے۔ اس کے پیروکار اشاعرہ کہلاتے ہیں۔ وہ ابو موسی اشعری کی نسل سے تھا۔ ابو الحسن اشعری بصرہ میں پیدا ہوا اور وہیں معتزلی ابو علی جبائی (متوفا 303 ھ) کے درس علم کلام میں گیا۔ اسی طرح وہ شافعی فقیہ ابو اسحاق مروزی (متوفا340 ھ) کے درس میں حاضر ہوتا تھا۔

ابو الحسن اشعری کی زندگی کا اہم ترین موڑ اس میں فکری اور عقیدتی تحول کا آنا تھا۔ کیونکہ اشعری 40 سال تک مذہب اعتزال پر باقی رہا اور اپنے استاد ابو علی جبائی سے کافی نزدیک تھا لیکن پھر ایک عمومی مجمع میں اس نے معتزلی مکتب سے جدائی کا اعلان کیا اور ایک نئے مکتب اشعری کی بنیاد ڈالی۔

سوانح حیات

ابو الحسن علی بن اسماعیل بن اسحاق اشعری ابو موسی اشعری کے پوتوں میں سے تھا اور علم کلام میں اشعری مکتب کا بانی ہے۔ وہ 260 میں بصرہ میں پیدا ہوا۔ جوانی کے دوران ابو علی جبائی کے درس میں حاضر ہوتا لہذا فکری اعتبار سے معتزلہ (اصول مذہب) عقائد کا پابند تھا اور 40 سال تک اسی مسلک پر باقی رہا یہاں تک کہ اس فکر سے جدائی کا اظہار کیا۔ اس نے کلامی مسلک میں تبدیلی کے بعد مکتب اشعری کی بنیاد رکھی اور پھر اپنے جدید اعتقاد کے ساتھ مکتب معتزلی کے خلاف اٹح کھڑا ہوا۔ 324ھ ق کو بغداد میں فوت ہوا۔ وہ کرخ اور باب بصرہ کے درمیان دفن ہوا۔[1]

معتزلی مکتب کو چھوڑنا

اشعری کے معتزلی مکتب چھوڑنے کے بارے میں مختلف روایات نقل ہوئی ہیں۔ ان میں سے قدیمی ترین مصدر و مآخذ ابن ندیم ہے۔ اس کے مطابق ابو الحسن اشعری ایک جمعہ کی رات بصرے کی جامع مسجد میں گیا جہاں اس نے معتزلی مکتب سے برات کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ معتزلی مکتب کو رسوا کرے گا۔[2] ابن عساکر نے اس طرح نقل کیا:ابو الحسن اشعری نے مسجد میں اعلان کیا دلائل عقلی کے ذریعے حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکا بلکہ ہدایت الہی، کتاب اور سنت کا دوبارہ مطالعہ کرنے سے اس پر پہلے عقائد کا بطلان آشکار ہوا۔[3] اشعری کی فکری تبدیلی کے اسباب کے متعلق بھی گوناگوں روایات نقل ہوئی ہیں ان میں سے خواب اور الہام بھی مذکور ہیں۔[4]

کلامی نظریات

معرفت ضروری و اکتسابی

ابو الحسن اشعری معرفت انسانی کی دو اقسام بیان کرتا ہے:

  • اکتسابی معرفت: وہ علم ہے جو عقلی تفکر اور استدلال کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
  • ضروری معرفت: ہر وہ شناخت ہے جو غیر نظری طریقے سے حاصل ہو چاہے وہ حس کے ذریعے حاصل ہو یا بدیہی علم اور وہ شناخت ہے جو خبر موثق کے ذریعے حاصل ہو۔ [5]

اشعری کے عقیدے کے مطابق خدا کی شناخت و معرفت ہر انسان پر واجب ہے۔ وہ ایسی معرفت ہو جو انسان کو تعبد خدا تک پہنچائے نیز یہ معرفت اکتسابی ہے اس کا حصول نظر و استدلال کے علاوہ کسی اور چیز سے نہ کیا جائے، اسی وجہ سے اس کے نزدیک معرفت خدا میں تقلید جائز نہیں ہے۔[6]

وجوب شناخت خدا

اشعری کا معتزلہ سے اصلی فرق یہ ہے کہ وہ پہلے واجب کا سبب یعنی خدا کی معرفت عقلی کے وجوب کا سبب دلائل نقلیہ کو قرار دیتا ہے؛اس معنا میں کہ انسان حکم عقل کی وجہ سے نہیں بلکہ حکم شرع کی وجہ سے مکلف ہے کہ وہ عقل کے ذریعے خدا کی معرفت حاصل کرے کیونکہ (اس کی نگاہ میں) عقل میں اس بات کی صلاحیت نہیں کہ شائستگی نہیں ہے کہ وہ یہ کہے : خدا کے مقابلے میں انسان کسی چیز کا مکلف ہے یا نہیں۔ [7]

حسن و قبح شرعی

حسن و قبح شرعی کے نام کی اصل سے اشعری پہچانا جاتا ہے۔ اشعری مکتب نظری اور عملی احکام کے درمیان عقل کا قائل ہے اور ان کے نزدیک عقل کا دائرہ کار صرف نظری احکام ہیں۔ لہذا ان کے نزدیک افعال کے نیک و بد کے متعلق عقل کسی قسم کا کوئی حکم نہیں لگا سکتی۔ پس اسی وجہ سے عقل کے ذریعے وجوب یا حرمت کا حکم نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ کسی بھی چیز کے وجوب یا حرمت کا بیان صرف خدا ہی کر سکتا ہے۔[8]

موثق اخبار کے ذریعے شناخت

اشعری اعتقادات میں موثق اخبار کے ذریعے حاصل ہونے والی شناخت حسی طریقے سے حاصل ہونے والی شناخت کی مانند بدیہی شناخت ہے۔ اس بنا پر جس طرح حس کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات میں کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور وہ اپنے دلائل میں ان معلومات کو استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح معتبر اخبار سے حاصل ہونے والی معلومات بھی نیز حسی شناخت کے حکم میں ہوتی ہے۔[9] اب پیغمبر الہی نے ہمیں خبر دی ہے کہ اگر ہم اس کی دعوت اور اس کی نشانیوں میں فکر نہیں کریں گے تو عذاب الہی سے دو چار ہو نگے۔ انسان رسول خدا کی راستگوئی کے بارے میں جو شناخت اور علم رکھتے ہیں، وہ علم اور شناخت رسول اللہ کی علامات میں فکر اور سوچ و بچار کرنے کو ان پر واجب کرتی ہے اور اس فکر کرنے کے نتیجے میں انسان غیب پر ایمان لائے گا اور شرعی احکام کے مقابلے میں کسی بحث و تکرار کے بغیر اپنا سر تسلیم کر لے گا۔ [10] تکلیف انسان در دیدگاہ اشعری، این‌ گونہ آغاز می‌شود.

حاضر سے غائب پر استدلال کرنا

ابوالحسن اشعری کے نزدیک عقائد دینی میں عقلی استدلال کرنا حاضر اور موجود کے ذریعے غائب پر استدلال کرنے کی مانند ہے۔ یعنی عقلی استدلال میں انسان محسوس امور اور اس جہان سے مربوط احکام کو جہان کے غیر معلوم موارد کی طرف سرایت دیتا ہے۔[11] البتہ اشعری قیاس کی حجیت کو قبول کرتا ہے، اپنے براہین و دلائل میں بعض عقلی مفاہیم کو استعمال کرتا ہے اور عقلی نتائج کو نصوص دینی کے ملتزم ہونے میں رکاوٹ نہیں سمجھتا لیکن عقل کے وسیع دائرہ کار کو محدود سمجھتا ہے۔ اس کی رائے کے مطابق وہ مقامات جہاں احکام عقلی اس بات کا موجب بنے ہیں کہ معتزلہ نے نصوص دینی میں تاویل کا سہارا لیا یہ وہ مقامات ہیں جہاں عقل کوئی اعتبار نہیں رکھتی ہے۔ اسکے باوجود، بعض موارد میں کلامی آرا کے منطقی لوازمات کے قائل ہونے کی وجہ سے وہ اصحاب حدیث کے عقیدے سے جدا ہوا ہے۔ یہ خصوصیت اسے اکثر اصحاب حدیث اور عقل پسند (عقلی رجحان رکھنے والوں) کے درمیان قرار دیتی ہے۔[12]

عقائد و نظریات

خدا اور صفات خدا

اشعری وجود خدا کے اثبات کیلئے برہان اتقان صنع سے استفادہ کرتا ہے۔ برہان اتقان صنع کی جزو کہ جو مستقیم طور پر جہان کے مخلوق ہونے کو ثابت کرتی ہے، اشعری اس کے ساتھ ایک اور برہان لاتا ہے کہ جس کا نتیجہ جہان کے حادث ہونے کو ثابت کرتا ہے۔[13] خدا کی توحید کے اثبات کیلئے اشعری برہان تمانع ذکر کرتا ہے۔ وہ خدا کیلئے سات ذاتی صفات شمار کرتا ہے اور معتقد ہے کہ دیگر تمام صفات الہی انہی سات صفات کی طرف لوٹتی ہیں: عالم، قادر، حیّ، مرید، متکلم، سمیع و بصیر.[14]

قرآن اور کلام الہی

اشعری اصحاب حدیث کی مانند کلام خدا کو قدیم اور اس کی ذات کے ساتھ قائم سمجھتا ہے۔ اس کے عقیدے کے مطابق کلام اور علم، خدا کی صفت حیات کے لوازمات میں سے ہے۔ اس بنا پر کلام خدا اس کی حیات کی مانند ازلی ہے۔ اشعری کا کلام نفسی‌ کا نظریہ صفات ذاتی میں سے ہر ایک کی وحدت پر تاکید کے نتایج میں سے ہے۔ وہ اس نظریے میں کلام الہی کے قدیم ہونے (کلام نفسی) اور قرآن کے درمیان فرق کرتا ہے۔ اس کی نظر میں قرآن اجزا پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے کہ جو حروف اور کلمات سے تشکیل پائی ہے اور وہ ازلی نہیں ہو سکتی ہے۔ اشعری قرآن کو کلام قدیم الہی کا ترجمہ سمجھتا ہے جو رسول اللہ کی زبان مبارک پر جاری ہوا ہے۔ اشعری نے تاریخ خلق قرآن اور دشوار مسئلہ کی صورت کو اس طرح تبدیل کیا: قرآن کے مخلوق نہ ہونے کے بارے میں اصحاب حدیث اور اہل سنت جو کچھ کہتے ہیں وہ کلام نفسی پر صادق آتا ہے۔[15] ٌَِْٔؐ

رؤیت خداوند

اشعری نظریے کی بنیاد پر اگر نصوص دینی توحید کے مبانی کے ساتھ متعارض نہ ہوں تو انہیں تاویل نہیں کرنا چاہئے لہذا اس وجہ سے وہ معتقد ہے:

قرآن کی شہادت اور گواہی کی وجہ سے مومنین خدا کو اسی ظاہری آنکھوں کے ذریعے دیکھ سکیں گے۔ اشعری نے اس مسئلے کے بارے میں تین کتابیں اور ایک رسالہ لکھا ہے۔[16][17]

انسان کے ارادے اور کسب کا نظریہ

انسان کے اختیار اور اسکا خدا کی وسیع قدرت کے ساتھ تعلق کا مسئلہ اشعری کلام کے نمایاں ترین مسائل میں سے ہے۔ اشعری نظریہ کسب (بعد میں اس کے پیروکاروں نے اسے مزید تفصیل سے بیان کیا) کے ذریعے ایک ہی وقت میں خدا کی قدرت واسعہ اور ارادے کے عقیدے کے ساتھ ساتھ انسان کے ارادے کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جس کے زریعے وہ تکلیف اور ثواب و عقاب کی اصل کو معنا بخشتا ہے۔ اشعری نے کسب اور اکتساب کو جس معنا میں استعمال کیا ہے وہ استعمال اس سے پہلے بھی موجود تھا۔[18] معتزلیوں میں سے دو شخصیتوں: ضرار اور نجّار کی طرف اس استعمال کی نسبت دی گئی ہے۔ لیکن اس نظریے کو ثابت کرنے اور تبیین کرنے میں اشعری کا نمایاں سہم ہے۔ اسی وجہ سے کسب و اکتساب کا نظریہ اشعری کے مخصوص نظریات میں سے شمار کرنا چاہئے۔[19]

عدل الہی

اشعری عدل الہی کے متعلق معتزلہ سے جداگانہ نظریہ رکھتا ہے۔ عدل کے بارے میں اس کی یہ نظر کلام کے دیگر ابواب میں گہرے اثرات رکھتا ہے۔ اس کی نظر میں خدا کے افعال سراسر عدل و حکمت پر مشتمل ہیں لیکن ان افعال کے عادلانہ اور حکیمانہ ہونے کا ملاک و معیار صرف ذات باری تعالی سے ان کا صادر ہونا ہے۔ یعنی اگر کسی فعل خدا کو عدل سمجھا جاتا ہے وہ انسانی معیاروں پر نہیں ہے بلکہ ہر وہ عمل جو خدا سے صادر ہو وہ عین عدل ہے اور وہی عدل کا ملاک اور معیار ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ ہر اس عمل کو خلاف عدل اور ظلم سمجھا جائے گا جو حدود الہی سے باہر ہو گا اور کوئی حقیقت خدا سے بالاتر موجود نہیں ہے اور نہ ہی خدا کیلئے کسی حد و مرز کو وضع کیا جا سکتا ہے لہذا اس بنا پر جو عمل بھی خدا سے صادر ہو گا وہ عین عدل ہو گا۔[20]

ایمان

ایمان کے بارے میں اشعری کی نگاہ مجموعی طور پر اہل سنت و الجماعت کے نزدیک ہے۔ اشعری کے نزدیک وحدانیت خدا کی تصدیق ایمان ہے اور وہ ارزش عمل کو ایمان کے مفہوم سے خارج سمجھتا ہے۔ اس نظریے کی دلیل یہ ہے:

کتاب الہی میں کلمات اگرچہ اصطلاحی معنا میں ہی استعمال ہوئے ہوں لیکن الفاظ کا لغوی معنا ہر حال میں اصطلاحی معنا میں محفوظ رہتا ہے؛ اس بنا پر ایمان کے تحقق کیلئے اس کا لغوی معنا یعنی تصدیق کافی ہے۔[21] لیکن حقیقت ایمان ایک قلبی امر ہے اور زبانی اقرار قلبی اقرار کے ساتھ نہ ہو تو یہ حقیقی ایمان نہیں ہے اگرچہ فقہی اور ظاہری احکام اس پر صادق آتے ہیں۔ اسی طرح زبانی انکار اگر قلبی انکار کے ساتھ نہ ہو تو اسے حقیقی کفر نہیں سمجھا جائے گا۔[22]

امامت

ابن فورک کے مطابق اشعری حسن و قبح شرعی کی اصل کو ماننے کی وجہ سے امامت کے عقلی لحاظ سے لازم ہونے کا انکار کرتا ہے اور وہ معتقد ہے کہ خدا پر واجب نہیں ہے کہ وہ انبیا کو بھیجے۔اس بنا پر جو امامت کے بارے میں جو احکام شارع نے وضع کیے ہیں صرف وہی ہیں دیگر امامت کے متعلق مزید کوئی ذمہ داریاں نہیں سونپی گئیں کہ جنہیں وہ انجام دے۔[23] وہ معتقد ہے کہ رسول خدا کے بعد کسی بھی مخصوص شخص کی امامت کیلئے کوئی نص موجود نہیں ہے اور خلفائے راشدہ میں سے ہر ایک کا انتخاب اہل و عقد کے ذریعے انجام پایا اور اہل و عقد کے منتخب خلیفہ کہ جو اشعری عقیدے کے مطابق اہل زمان میں افضل ہے، کی اطاعت، بیعت کر لینے کے بعد سب پر واجب ہے۔[24][25]

خلقت اور جہان ہستی

اشعری کی طرف سے عقائد اہل سنت کو عقلانیت کے پیرائے میں بیان کرنے کے پیش نظر کلام اسلامی میں جہان کے متعلق ابحاث میں اس کا کافی حصہ ہے جس طرح سے معتزلہ کے علم کلام میں اس بحث کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اشاعرہ خدا کی قدرت مطلقہ اور اس جہان ہستی میں ہر نئی پیدا ہونے والی چیز میں خدا کی موجودیت کی بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ حدوث جہاں اور جہان میں خدا کی بلا واسطہ فاعلیت کے اثبات کیلئے درج ذیل دو اصلوں کی طرف استناد کرتے ہیں البتہ یہ دو اصلیں اشعریوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں:

  • اصل جوہر یا جزء لا یتجزأ: یعنی جہان نا قابل تجزیہ ذرات سے تشکیل ہوا ہے۔
  • یہ قاعدہ کہ عَرَض صرف ایک لحظہ کیلئے پائدار رہتا ہے (العرض لا یبقی زمانین: عرض کو دو زمانوں میں بقا حاصل نہیں ہے)[26]

آثار

اشعری چند گنے چنے آثار باقی ہیں۔ اس نے 320 ھ ق کتاب العُمَد فی الرؤیۃ لکھی جس میں اپنی تالیفات کی فہرست ذکر کی ہے۔ان میں سے اکثر آثار کی فہرست ابن عساکر ذکر کی ہے جو اشعری کی فہرست سے ہی لی گئی ہے۔ ابن عساکر اس حصے کو طبقات المتکلمین کے مفقود حصے العمد سے عینا نقل کرتا ہے۔[27]اشعری کے موجود آثار کے اسما درج ذیل ہیں:

  1. الابانۃ عن اصول الدیانۃ
  2. اللمع فی الرد علی اہل الزیغ و البدع
  3. مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین
  4. رسالۃ فی استحسان الخوض فی علم الکلام
  5. رسالۃ کتب بہا إلی اہل الثغر، یا رسالۃ الثغر
  6. رسالۃ الایمان

اشعری کے غیر موجود آثار درج ذیل ہیں:

  1. الجوابات فی الصفات
  2. کتاب فی تفسیر القرآن، کہ جو بعد میں المختزن کے نام سے مشہور ہوئی.
  3. الفصول و الرد علی الملحدین و الخارجین عن الملۃ کالفلاسفۃ و الطبائعیین و الدہریین
  4. کتاب فی الرد علی الفلاسفۃ
  5. المسائل المنثورۃالبغدادیۃ[28]

حوالہ جات

  1. شمس الدین الذہبی، تہذیب سیر اعلام النبلاء، ج2، ص68؛ الزرکلی خیرالدین، الاعلام، ج4، ص263؛ السبکی عبد الوہاب، طبقات الشافعیۃ الکبری، ج3، ص347
  2. ابن ندیم، الفہرست، ص231
  3. ابن عساکر علی، تبیین الکذب المفتری فیما نسب الی الامام ابی الحسن الاشعری، ص39
  4. نک: ابن عساکر، ص38 – 43، 91؛ ابن جوزی، ج6، ص333؛ سبکی، ج3، ص347-349
  5. ابن فورک، ص13، 15، 17
  6. اشعری، رسالۃ فی استحسان الخوض فی علم الکلام، ص2؛ ابن فورک، ص15، 251-252؛ نسفی، ج1 ص28–29
  7. ابن فورک، ص32، 250، 285، 292 – 293
  8. ابن فورک، ص32، 285 – 286؛ شہرستانی نہایۃالاقدام، ص371
  9. ابن فورک، ص287
  10. ابن فورک، ص23، 285
  11. ابن فورک، ص286
  12. انواری محمد جواد، اشعری، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج9، ص54
  13. شہرستانی، نہایۃ الاقدام، ص11، ابن فورک، ص203
  14. انواری محمد جواد، اشعری، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج9، ص55
  15. انواری محمد جواد، اشعری، در دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج9، ص57 - 58
  16. نک: ابن عساکر، ابن عساکر، ص128، 131، 134
  17. انواری محمد جواد، اشعری، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج9، ص59
  18. نکـ: اشعری، مقالات الاسلامیین، ص199، 542، 549؛ بغدادی الفرق بین الفرق، ص107؛ شہرستانی، الملل و النحل، ج1، ص47؛ و نیز نکـ: ولفسن، ص665 - 666
  19. انواری محمدجواد، اشعری، در دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج9، ص60 - 62
  20. انواری محمد جواد، اشعری، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج9، ص62
  21. اللمع، ص75؛ ابن فورک، ص149 - 150، 153 - 156، 191
  22. انواری محمدجواد، اشعری، در دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج9، ص63
  23. ص 174، 180 - 181
  24. اللمع، 81، 83؛ ابن فورک، 182 - 186؛ نسفی، ج2، ص834
  25. انواری محمد جواد، اشعری، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج9، ص64
  26. انواری محمد جواد، اشعری، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج9، ص64
  27. ص128 - 134
  28. انواری محمد جواد، اشعری، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج9، ص52 - 53

مآخذ

  • ابن عساکر علی، تبیین الکذب المفتری فیما نسب الی الامام ابی الحسن الاشعری، تحقیق حسام الدین قدسی، دمشق 1347ھ۔
  • ابن جوزی عبدالرحمان، المنتظم، بیروت، 1359ھ۔
  • الذہبی شمس الدین، تہذیب سیر اعلام النبلاء، بیروت، 1412ھ۔
  • السبکی عبد الوہاب، طبقات الشافعیۃ الکبری، تحقیق محمود محمد طناحی و عبدالفتاح محمد الحلو، قاہرہ،
  • الزرکلی خیر الدین، الاعلام، بیروت، 2002ء۔
  • ابن‌ نديم، كتاب‌الفہرست، چاپ ايمن فؤاد سيد، لندن 1430/2009
  • ابن فورک محمد، مجرد مقالات الشیخ ابی الحسن الاشعری، تحقیق دانیل ژیمارہ، بیروت، 1987ء۔
  • اشعری علی، الابانۃ عن اصول الدیانۃ، قاہرہ، 1348ھ۔
  • _______، اصول اہل السنۃ و الجماعۃ (رسالۃ النفر)، تحقیق محمد سید جلیند، ریاض، 1410ھ۔
  • _______، رسالۃ فی استحسان الخوض فی علم الکلام، حیدر آباد دکن، 1400ھ۔
  • _______، اللمع، تحقیق جوزف مک کارتی، بیروت، 1953ء۔
  • _______، مقالات الاسلامیین، تحقیق ہلموت ریتر، بیروت، 1400ھ۔
  • بغدادی عبد القاہر، اصول الدین، استانبول، 1346ھ۔
  • _______، الفرق بین الفرق، تحقیق محمد زاہد کوثری، قاہرہ، 1367ھ۔
  • دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، زیر نظر کاظم موسوی بجنوردی، تہران: مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1391ہجری شمسی۔
  • شہرستانی عبد الکریم، الملل و النحل، تحقیق عبدالعزیز محمد وکیل، قاہرہ، 1387ھ۔
  • _______، نہایۃ الاقدام، تحقیق آلفرد گیوم، پاریس، 1934ء۔
  • نسفی میمون، تبصرۃالادلۃ، تحقیق کلود سلامۃ، دمشق1993
  • Wolfson H. A., The Philosophy of the Kalam, Harvard, 1976

بیرونی رابط

مآخذ مقالہ: دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج9، مدخل اشعری