واقعہ فخ

ویکی شیعہ سے
(قیام فخ سے رجوع مکرر)
واقعہ فخ
مکہ میں فخ کی پہاڑی، واقعہ فخ کے شہداء کا مقام تدفین
مکہ میں فخ کی پہاڑی، واقعہ فخ کے شہداء کا مقام تدفین
تاریخسنہ 169ھ 8 ذی‌ الحجہ (روز ترویہ)
مقاممکہ کے قریب علاقہ فخ
علل و اسباببنی عباس کی جانب سے علویوں پر روا رکھے گئے مظالم
نتیجہتحریک کی ناکامی
فریق 1حسین صاحب فخ کے یار و مددگار
فریق 2لشکر بنی عباس
سپہ سالار 1حسین بن علی بن حسن
سپہ سالار 2محمد بن سلیمان
نقصان 1صاحب فخ اور ان کے بہت سے ساتھی قتل ہوئے اور بہت سے دوسرے اسیر کیے گئے


واقعهٔ فَخ یا قیام صاحب فَخ سنہ 169ھ میں بنی عباس کے خلاف علویوں کا قیام ہے جو امام محمد تقیؑ کی ایک روایت کے مطابق اہل بیتؑ کے لیے آزمائش کی سخت گھڑی تھا۔ یہ واقعہ امام موسی کاظمؑ کے دور میں مدینہ میں امام حسن مجتبیؑ کی اولاد میں سے ایک صاحب فخ کے نام سے مشہور حسین بن علی بن حسن کی قیادت میں پیش آیا۔ اس واقعے میں صاحب فخ خود بھی اور ان کے اکثر ساتھی قتل ہوئے۔ چونکہ یہ واقعہ مسجد الحرام سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع علاقہ "فخ" میں پیش آیا تھا اس لیے اسے قیام فخ یا قیام صاحب فخ کہا جاتا ہے۔

بعض روایات کے مطابق امام کاظم نے حسین فخ کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور ان کی اس تحریک کی ناکامی کی پیشنگوئی کی تھی۔ البتہ بعض روایتوں کے مطابق صاحب فخ نے اس قیام کے سلسلے میں امام سے مشورہ طلب کیا اور بعض دیگر تاریخی نقل کے مطابق امام کاظمؑ نے حسین بن علی بن حسن کو قیام کرنے کا حکم دیا تھا؛ لیکن دوسری طرف ایک اور روایت میں آیا ہے کہ امامؑ نے بنی عباس کے خلاف قیام کے سلسلے میں لیے گئے مشورے کا مثبت جواب نہیں دیا تھا۔

تاہم بعض محققین کا خیال ہے کہ اس قیام کی تائید یا رد کے حوالے سے احادیث میں امام کاظمؑ کا کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ بعض محققین نے صاحب فخ کی شخصیت کی تائید میں نقل ہونے والی احادیث کو ان کے قیام کی تائید قرار دی ہے۔ لیکن بعض دوسرے مورخین نے اس کو تائید کے سلسلے میں ناکافی جانا ہے۔

مورخین کے مطابق، صاحب فخ کے قیام کا اصلی محرک یہ تھا کہ بنی عباس کی جانب سے علویوں پربکثرت سختیاں کی جاتی تھیں۔ صاحب فخ نے اس واقعے سے چند ماہ قبل مختلف شہروں کے بہت سے لوگوں سے حج کے موسم میں بنی عباس کے خلاف قیام کے لیے بیعت لی۔ مدینہ کے گورنر کے حد سے زیادہ ظلم و ستم نے حسین بن علی بن حسن کو مجبور کیا اور انہیں ایک ماہ قبل یعنی ذوالقعدہ میں ہی مدینہ میں اپنے قیام کا اعلان کرنا پڑا۔ قیام میں شریک لوگوں نے مختصر عرصے میں مدینہ کو اپنے زیر قدرت لیا اور مکہ کی جانب بڑھ گئے۔ جو سرکاری کارندے حج کے سفر پر تھے، ونہوں نے ہادی عباسی کے حکم سے قیام کرنے والوں کے خلاف جنگ کی۔ 8 ذی الحجہ کو لڑی گئی اس جنگ میں خود صاحب فخ اور ان کے بہت سے ساتھی مارے گئے؛ کچھ پکڑے گئے یا فرار ہو گئے۔

اس جنگ کے بعد مدینہ کے گورنر نے قیام کرنے والے ایک گروہ کے مکانات اور املاک کو نذر آتش کردیا اور کچھ دوسرے اموال کو ضبط کر لیا، شہداء کے سروں کو گرفتار شدگان کے ساتھ خلیفہ کے پاس بھیج دیا گیا۔

محققین کے مطابق مقررہ وقت سے پہلے قیام کی تیاری، بعض علوی بزرگوں اور مکہ و مدینہ کے لوگوں کا صاحب فخ کا ساتھ نہ دینا اس قیام کی ناکامی کی سب سے اہم وجوہات ہیں۔ واقعہ فخ کے موضوع پر مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے احمد بن سہل رازی (متوفی:چوتھی صدی ہجری) کی تحریر کردہ کتاب اَخبارُ فَخ ہے جو قدمت کے لحاظ سے سب سے پرانی کتاب ہے۔ یہ کتاب مستقل طور پر واقعہ فخ سے متعلق ہے۔

واقعہ فخ، شیعوں کے لیے ایک تلخ واقعہ

دعبل کی نظم کا ایک حصہ جس میں واقعہ فخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

أفاطم قومی یا بنت الخیر فاندبینجوم سماوات بأرض فلات
قبور بکوفان وأخری بطیبةوأخری بفخ نالها صلوات

اے فاطمہ!، اے اللہ کے بہترین مخلوق کی دختر نیک اختر! اٹھو اور زمین پر گرے ستاروں پر گریہ کرلو۔ کوفہ میں بنی قبروں، مدینہ کی قبروں اور فخ میں بنی اس قبر پر میرا سلام ہو۔

واقعہ فخ شیعہ تاریخ کے سب سے تلخ واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ سے منقول کچھ روایات[1] اس دعوے کا ثبوت ہیں۔[2] امام محمد تقیؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق واقعہ فخ اہل بیتؑ کے لیے بہت بڑی آزمائش تھا۔[3]

چوتھی صدی ہجری کے مورخ اَبوالفَرَجِ اِصفَهانی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ اور امام جعفر صادقؑ نے فخ میں حسین بن علی بن حسن (صاحب فخ) کے قتل ہونے اور ان کے جنتی ہونے کی پیشینگوئی کی تھی۔[4]یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ امام موسی کاظمؑ فخ کے شہداء کو یاد کر کے ان پر گریہ اور خدا سے ان کے قاتلوں کے لیے موت اور سخت سزا کی بد دعا کرتے تھے۔[5] امام کاظمؑ نے واقعہ فخ میں شہید ہونے والوں کے یتیم اور بیوہ وارثین کی کفالت کا اپنے اوپر ذمہ لیا۔[6] واقعہ فخ کے بارے میں شعراء نے اشعار کہے ہیں جن میں دعبل خزاعی کی کہی گئی نظم کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔[7]

قیام کا رہبر

حسین بن علی المعروف صاحب فَخ کا شجرہ نسب ماں باپ[یادداشت 1] دونوں کی طرف سے امام حسن مجتبیؑ کی نسل سے جا ملتا ہے۔[8] ان کا والد علی(جو کہ علی نیکو اور بزرگوار کے نام سے معروف تھا) اور والدہ زینب تھی (عبد اللہ بن حسن مثنی کی بیٹی) جو کثرت عبادت کی وجہ سے "صالح بیوی" کے نام سے معروف تھی۔[9] صاحب فخ ایک بہادر اور سخی انسان تھے، [10] ان کی سخاوت و بخشش کے بارے میں مختلف روایات بیان ہوئی ہیں۔[11] شیخ طوسی نے ان کو امام جعفر صادقؑ کے اصحاب میں سے شمار کیا ہے۔[12] صاحب فخ نے سنہ 169ھ کو 41 سال کی عمر میں وفات پائی۔[13]

قیام صاحب فخ کے بارے میں امام موسی کاظمؑ کا موقف

کلینی کی کتاب الکافی میں منقول روایت کے مطابق جب صاحب فخ نے قیام کا آغاز کیا تو امام موسی کاظمؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا؛ لیکن امامؑ نے بیعت کرنے سے رد کر دیا اور ان سے کہا کہ وہ انہیں بیعت کرنے پر مجبور نہ کریں، انہوں نے ایسا ہی کیا۔[14] عبد اللہ مامقانی کے عقیدے کے مطابق صاحب فخ نے امام کاظمؑ سے ظاہری طور پر بیعت کا مطالبہ کیا تھا تاکہ اگر وہ اس قیام میں کامیاب ہو جائیں تو وہ خلافت امامؑ کے حوالے کر دیں گے اور امامؑ نے بھی تقیہ کو بروئے کار لاتے ہوئے صاحب فخ کو قیام کرنے سے منع کیا، اگرچہ اندرونی طور پر امامؑ اس قیام پر راضی تھے، اس مدعی پر گواہی یہ ہے کہ امام کاظمؑ نے صاحب فخ کی شہادت پر ان کے لیے رحمت کی دعا کی۔[15]

ابوالفرج اصفہانی کے مطابق حسین نے قیام کے سلسلے میں امام کاظمؑ سے مشورہ کیا اور امامؑ کے حکم سے ہی قیام کیا۔[16] 7ویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین سید ابن طاووس کے مطابق ہادی عباسی حسین کے قیام کو امام کاظمؑ کے حکم کے عین مطابق سمجھتا تھا۔[17] تاہم، کتاب کافی کی ایک روایت کی بنیاد پر، یحییٰ بن عبد اللہ نے امام کاظمؑ کو لکھے گئے اپنے خط میں فخ کے قیام کے سلسلے میں لیے گئے مشورے پر امام کے منفی ردعمل کی شکایت کی۔[18]

چوتھی صدی ہجری میں زیدی مذہب کے دو مورخین احمد بن ابراہیم حسنی اور احمد بن سہل کے مطابق، امام کاظمؑ واقعہ فخ کے دوران حج کرنے کے لیے مکہ میں تھے۔[19] ان دونوں کے مطابق، خلافت عباسی کے حکومتی کارندہ موسیٰ بن عباسی نے حسین کے قیام کے دوران امامؑ کو اپنے پاس طلب کیا اور امام وہاں گئے اور قیام کے اختتام تک ان کے ساتھ رہے۔[20] اس تاریخی نقل کے مطابق جنگ کے بعد جب امامؑ سرزمین منیٰ پہنچے تو کٹے ہوئے سروں کو امامؑ کے سامنے لائے گئے۔[21] ابوالفرج اصفہانی کے مطابق جب امام کاظمؑ نے سر حسین بن علی کو دیکھا تو آپؑ نے آیت استرجاع کی تلاوت کی اور ان کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا ایک صالح شخص کے طور پر تعارف کرایا۔[22]

کتاب بحار الانوار کے مصنف علامہ مجلسی نے اگرچہ حسین فخی کی شخصیت کی تعریف کی ہے لیکن ان کا عقیدہ یہ ہے کہ صاحب فخ کی شخصیت پر تنقید بھی ہوئی ہے۔ ہیں۔ [23] بعض محققین کا خیال ہے کہ اگرچہ صاحب فخ کے کردار کی تائید میں روایات موجود ہیں لیکن یہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے قیام کی شیعہ ائمہؑ نے تائید کی ہو۔[24]معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق اگرچہ قیام فخ کو عباسیوں کے خلاف علویوں کی سب سے زیادہ مثبت پہلو کے حامل قیام کہہ سکتے ہیں لیکن اس بات کا کوئی یقین نہیں ہے کہ یہ قیام امام کاظمؑ کے حکم سے انجام پایا ہو؛ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ائمہؑ ان جیسی تحریکوں سے متفق نہیں تھے؛ کیونکہ اس مسئلہ میں خود علویوں کے مابین بھی اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔[25]

قیام فخ کی وجوہات

تیسری صدی ہجری کے مورخ احمد بن ابی یعقوب کے مطابق سنہ 169ھ میں جب ہادی عباسی برسراقتدار آیا تو اس نے علویوں پر سختیاں بڑھادیں اور آل ابو طالب کا پیچھا کرنے پر مُصِر رہا۔[26] اس نے علویوں کے خلاف دہشت پیدا کر دی اور اپنے والد مہدی عباسی کی طرف سے علویوں کو دی جانے والی حکومتی مراعات کو ختم کردیا۔ [27] اس نے مختلف مقامات پر اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ علویوں کو گرفتار کر کے اپنے پاس لائے جائیں۔[28]

ہادی نے عمر بن خطاب کے پوتے عبد العزیز بن عبداللہ کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا۔[29] وہ بھی آل ابو طالب کے ساتھ برا سلوک کرتا تھا اور آئے دن علویوں کو دار الامارہ میں پیش کرتا تھا۔[30]

بعض تاریخی نقل سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید فخ نے مہدی عباسی کی حکومت کے زمانے سے ہی قیام کا ارادہ کر رکھا تھا؛[31] کیونکہ کتاب اخبار فخ کے مصنف رازی کے مطابق مختلف شہروں سے تقریباً تیس ہزار لوگوں نے حسین کی بیعت کی تھی اور ان سے عہد کیا تھا کہ حج کے موقع پر عرفات میں قیام کریں گے۔[32] انہوں نے خراسان اور دیگر علاقوں میں اپنے بااعتماد لوگوں کو بھی خطوط لکھ کر اپنی منصوبہ بندی سے آگاہ کر دیا تھا۔[33] مدینہ کے گورنر کی دھمکیوں اور حسین کے متعدد ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد صاحب فخ نے قیام جلد شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔[34]

مدینہ میں قیام کا آغاز

حسین فخی سنہ 169ھ کے ماہ ذی القعدہ میں مدینہ میں اؤنے قیام کا آغز کیا۔[35] صاحب فخ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ صبح کی نماز کے دوران "احد احد" کے نعروں کے ساتھ مسجد النبی میں داخل ہوئے اور موذن کو شیعوں کی طرح اذان (یعنی اس جملے کے اضافے کے ساتھ «حیّ علی خیر العمل»)دینے پر مجبور کیا۔[36] حاکم مدینہ شیعوں کی اذان سن کر وحشت زدہ ہوا اور مدینہ سے بھاگ نکلا۔[37] لوگوں نے حسین کی امامت میں نماز ادا کی اور نماز کی ادائیگی کے بعد انہوں نے خطبہ دیا اور لوگوں کو ان سے بیعت کرنے کی دعوت دی تاکہ لوگ کتاب خدا، سنت رسول خداؐ اور "الرضا من آل‌محمد" (یعنی وہ شخص جس کی بیعت کی جانے پر آل محمدؐ راضی ہیں) کی پیروی کریں۔[38] البتہ کچھ تاریخی مآخذ کے مطابق لوگوں نے ان کی بیعت کرنے سے اجتناب کیا اور ان کے ساتھ نہیں دیا۔[39]

مدینے میں حکومتی مشینری کی جانب سے حسین فخی کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا؛ چند لوگ اس لڑائی میں مارے گئے اور حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔[40] حکومت کی جانب سے مبارک ترکی(عباسی حکومت کے ایک حاکم) سے بدستور حسین فخی کا مقابلہ کرنے کے سلسلے کی جانے والی کوششیں جاری رکھیں؛ [41] تاہم ابوالفرج اصفہانی کے مطابق مبارک نے (جو حسین کے ساتھ جنگ کرنے کا مخالف تھا)،ایک خفیہ پیغام میں حسین سے کہا کہ وہ اس پر حملہ کرے تاکہ اسی بہاے بھاگنے پر مجبور ہو جائیں۔[42] حسین نے ایسا ہی کیا اور مبارک مکہ کی طرف بھاگ گیا۔[43] اس طرح شہر مدینہ پر حسین کو تسلط قائم ہوا، حسین نے صرف گیارہ دن میں مدینہ کو اپنے ماتحت میں لے لیا۔[44] شہید فخ نے دِنیارِ (دِرباس)[45] خزاعی نامی ایک شخص کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا اور ماہ ذی القعدہ میں خود اپنے 300 ساتھوں کے ساتھ مکہ کی جانب روانہ ہوگئے۔[46]

جنگ فخ

ہادی عباسی نے حج پر آئے ہوئے حکومت کے بعض سرکردگان کو حکم دیا کہ وہ حسین کا مقابلہ کریں اور جنگ کی سپہ سالاری محمد بن سلیمان کے سپرد کر دی۔[47] عباسی حکومت کے لشکر کا 8 ذی الحجہ (روز ترویہ) کو "فخ" نامی ایک جگہ پر حسین کی فوج کا آمنا سامنا ہوا۔[48] عباسی حکومت کے سپہ سالار نے حسین کو امان دیا؛ لیکن حسین نے امان لینے سے انکار کیا۔ نتیجتاََ لڑی گئی جنگ میں حسین اور اس کے بہت سے ساتھی شہید ہو گئے [49] اس کے علاوہ حسین کے ساتھیوں کا ایک گروہ پکڑا گیا اور دوسرے کچھ افراد فرار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔[50]اسیر شدگان میں سے بھی بعض لوگ مارے گئے[51]اور بعض کو شہداء کے سروں کے ساتھ بغداد میں ہادی عباسی کے پاس بھیجا گیا۔[52] ہادی نے حسین کا سر ایک مدت تک بغداد کے پل پر لٹکائے رکھا پھر خراسان روانہ کیا گیا۔[53] شہدا کے پیکر تین دن تک زمین پر پڑے رہے اور درندے اور پرندے ان کے جسموں کو کھاتے رہے۔ [54] اس مشہور قول کے برخلاف کہ یہ جنگ سنہ 169ھ مورخہ 8 ذی الحجہ کو چھڑی گئی تھی،[55] بعض منابع میں یہ جنگ 7 ذی الحجہ[56] کو لڑی گئی ہے جبکہ بعض دیگرتاریخی نقل کے مطابق سنہ 167ھ 9 ذی الحجہ (روز عرفہ) میں یہ جنگ ہوئی تھی۔[57]بیہقی کے لباب الانساب میں نقل کے مطابق صاحب فخ کے قتل کے بعد امام موسی کاظم نے ان کے جسد پر نماز جنازہ پڑھی۔[58]

نتائج

صاحب فخ کے قیام کے بعد حاکم مدینہ عمری نے حسین اور ان کے خاندان کے ایک گروہ کے مکانات اور باغات کو نذر آتش کردیا اور املاک کا ایک ایک حصہ ضبط کر لیا گیا۔[59] عباسی حکومت کا کارندہ موسیٰ بن عیسیٰ بھی مدینہ چلا گیا؛ وہان پہنچ کر شہر کے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور انہیں آل ابی طالب، حسین اور ان کے ساتھیوں کو سرعام ناسزا کہنے پر مجبور کیا۔[60]

ہادی عباسی کا واقعہ فخ کے رد عمل کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں۔[61] کتاب "اخبار فخ" کے مصنف رازی کے مطابق جب قاسم بن محمد بن عبد اللہ کو گرفتار کر کے ہادی کے پاس لے جایا گیا تو ہادی نے حکم دیا کہ اس کے جسم کے تمام اعضاء کو آری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔[62] اس کے علاوہ اس کے حکم سے متعدد اسیروں کے سر قلم کیے گئے۔[63] تاریخ کے دوسرے بعض ذرائع کے مطابق واقعہ فخ کے بعض قاتلوں کے اموال کو ضبط کرنے کا حکم دیا۔[64] ایک اور تاریخی نقل کے مطابق ہادی عباسی شہدائے فخ کے سروں کو دیکھ کر رو پڑا اور ان کے قاتلوں کی کم از کم سزا یہ مقرر کردی کہ ان کو انعام سے محروم رکھا جائے۔[65] البتی دوسری طرف بعض محققین کا خیال ہے کہ ہادی عباسی نے ان کشیدہ حالات کے مخالفین کو مطمئن کرنے اور معاشرے میں پیدا شدہ اشتعال انگیزی کو ختم کرنے کے لیے ظاہری طور پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔[66] عبد اللہ بن حسن مثنیٰ کے بیٹے یعنی یعنی سلیمان، ادریس اور یحییٰ اس واقعے کے سرگرم افراد میں سے تھے۔[67] سلیمان بن عبد اللہ اور حسن بن محمد بن عبداللہ محض اس واقعے میں مارے گئے۔[68] ادریس بن عبداللہ واقعہ فخ میں زندہ بچ گئے، وہ مغرب کی طرف بھاگ گئے اور وہاں حکومت ادریسیان قائم کی۔[69] یحییٰ بن عبداللہ بھی اس واقعے سے زندہ بچ نکلا اور دیلم کی طرف فرار کر گئے۔[70] ہارون رشید نے اسے امان نامہ بھیجا اور اسے بغداد بلایا اور وہیں اسے قید کر لیا اور آخر کار بغداد میں ہی انتقال کر گیا۔[71]

شکست کی وجوہات

مکہ میں محلہ شہداء، واقعہ فخ کے بعض شہداء کے محل دفن

بعض محققین نے واقعہ فخ کی شکست کے مندرجہ ذیل عوامل و اسباب بیان کیے ہیں:

  • ماحول اور افراد سازی کے بغیر قیام کا آغاز کرنا؛
  • بعض علویون کا ساتھ نہ دینا؛
  • بعض ساتھیوں کی عہد شکنی؛
  • ایام حج میں قیام کرنا حالانکہ ان ایام میں لوگ اپنے اقتصادی امور میں مشغول ہوتے ہیں؛
  • مکہ کے بعض سرکردگان کا ساتھ نہ دینا؛
  • اہل مدینہ کا ساتھ نہ دینا؛
  • حجاز میں ماحول کا سازگار نہ ہونا.[72]

منطقه فخ

کتاب اخبار فخ، واقعہ فخ کا سب سے زیادہ پرانا ماخذ

علاقہ فخ یا محلہ شہدائے مکہ، مکہ کے شمالی دروازے پر مسجد الحرام سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے[73] اس علاقے بعض صحابہ کی قبریں تھیں۔[74] محققین کے مطابق محلہ شہدائے مکہ میں شہدائے فخ کی قبور دو حصوں میں واقع ہیں: [75] فخ کے بعض شہداء کو ایک بند جگہ میں دفن کیا گیا ہے، جہاں اس کے اوپر «مقبرةُ عبدالله بن عمر، شمارہ2» کا بورڈ لگا ہوا ہے؛ بعض دیگرشہداء کی قبریں اس جگہ کے سامنے کوہ فخ («جبل‌البرود» یا «جبل‌الشہید») کے دامنref>لحیانی، «حي الشهداء أرض معركة فخ التاريخية».</ref> میں واقع ہے۔[76] سنہ601ھ میں صاحب فخ کے مزار پر ایک مقبرہ بنایا گیا۔[77] کوہ فخ کے ساتھ ایک ہموار علاقہ ہے جسے "ذی طویٰ" کہا جاتا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے دوران قبیلہ قریش کے اجلاسیہ کی جگہ تھی۔[78]

مونو گراف

واقعہ فخ کے موضوع پر لکھی گئی تحریریں مندرجہ ذیل ہیں:

  • اَخبارُ فخ؛ مولف: احمد بن سهل رازی. یہ کتاب چوتھی صدی ہجری میں لکھی گئی اور واقعہ فخ کے سلسلے میں سب سے پرانا ماخذ کے طور پر جانی جاتی ہے۔[79] کہتے ہیں کہ اس کتاب میں ایسے اسناد و مدارک موجود ہیں جو دوسرے منابع میں ناپید ہیں۔[80] اس کتاب کو سنہ1995ء میں ڈاکٹر ماہر جرار کی تحقیق کے ساتھ دار الغرب الاسلامی پبلیشرز بیروت نے شائع 398 صفحات میں کیا ہے۔[81]
  • ماہیت قیام شہید فخ؛ مولف: ابوفاضل رضوی اردکانی۔ مولف نے اسے 11 فصلوں میں صاحب فخ کی شخصیت اور قیام فخ سے متعلق ایک جائزہ پیش کیا ہے۔[82] اس کتاب کو سنہ 1375ہجری شمسی میں دفتر تبلیغات اسلامی پبلشرز نے 280صفحات میں شائع کیا ہے۔[83]
  • بَطَلُ فَخ (فخ کے پہلوان)؛ مولف: محمد ہادی امینی نجفی۔ اس نسخے کو سنہ1388ھ کو المَطبعةُ الحیدریة نے 206 صفحات میں نجف سے شائع کیا ہے۔[84]

متعلقہ مضامین

نوٹ

  1. حسین بن علی بن حسن بن حسن مثنی، زوجہ امام حسن مجتبیؑ خولہ کا بیٹا تھا

حوالہ جات

  1. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص366–367؛ حسنی، المصابیح، 1423ھ، ص463-464.
  2. گلستانی و میرابوالقاسمی، «صاحب فخ»، ص112.
  3. بخاری، سرّ السلسلة العلویة، 1963م، ص14-15.
  4. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، 1419ھ، ص366-367.
  5. امینی، بطل فخ، 1388ھ، ص139.
  6. امینی، بطل فخ، 1388ھ، ص139.
  7. اربلی، کشف الغمة فی معرفة الأئمة، 1381ھ، ج2، ص322.
  8. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص364.
  9. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، 1419ھ، ص364؛ مُحَلِّی، الحَدائِق الوَرْدیّة، 1423ھ، ج1، ص317
  10. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج6، ص94؛ هارونی، الافادة فی تاریخ الأئمة السادة، 1387ہجری شمسی، ص26.
  11. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص368-371.
  12. طوسی، رجال الطوسی، 1373ہجری شمسی، ص182.
  13. هارونی، الافادة فی تاریخ الأئمة السادة، 1387ہجری شمسی، ص26-28.
  14. کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص366.
  15. مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، 1423ھ، ج22، ص285-287.
  16. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص383.
  17. سید ابن‌طاووس، مهج الدعوات، 1411ھ، ص218.
  18. کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص366-367.
  19. رازی، اخبار فخ، تحقیق ماهر جرّار، 1995ء، ص298؛ حسنی، المصابیح، 1423ھ، ص482.
  20. رازی، اخبار فخ، تحقیق ماهر جرّار، 1995ء، ص298؛ حسنی، المصابیح، 1423ھ، ص482.
  21. رازی، اخبار فخ، تحقیق ماهر جرّار، 1995ء، ص298؛ حسنی، المصابیح، 1423ھ، ص482.
  22. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص380.
  23. مجلسی، الوجیزة فی الرجال، 1420ھ، ص64.
  24. شریفی، «ائمه و قیامهای شیعی»، ص89-90.
  25. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، 1387ہجری شمسی، ص389.
  26. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص404.
  27. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص404.
  28. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص404.
  29. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج6، ص90.
  30. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص372.
  31. رازی، اخبار فخ، تحقیق ماهر جرّار، 1995ء، ص52
  32. رازی، اخبار فخ، تحقیق ماهر جرّار، 1995م، ص142 و 284.
  33. رازی، اخبار فخ، تحقیق ماهر جرّار، 1995م، ص284.
  34. الهی‌زاده، جنبش حسنیان، 1385ہجری شمسی، ص204؛ پیشوایی، سیره پیشوایان، 1397ہجری شمسی، ص443.
  35. حسنی، المصابیح، 1423ھ، ص466؛ هارونی، الافادة فی تاریخ الأئمة السادة، 1387ہجری شمسی، ص26؛ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج8، ص195.
  36. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص375.
  37. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص375.
  38. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص378.
  39. حسنی، المصابیح، 1423ھ، ص474؛ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج8، ص194-195.
  40. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج8، ص194.
  41. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج8، ص194–195.
  42. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص377.
  43. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص377.
  44. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج8، ص195.
  45. رازی، اخبار فخ، تحقیق ماهر جرّار، 1995ء، ص142.
  46. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج8، ص195.
  47. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج8، ص196.
  48. مسعودی، مروج الذهب، 1409ھ، ج3، ص326.
  49. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج8، ص195–200؛ ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص377–379.
  50. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج8، ص195–200؛ ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص377–379.
  51. مسعودی، مروج الذهب، 1409ھ، ج3، ص327.
  52. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص380.
  53. بغدادی، المحبر، 1421ھ، ص448.
  54. مسعودی، مروج الذهب، 1409ھ، ج3، ص327.
  55. گلستانی و میرابوالقاسمی، «صاحب فخ»، ص111.
  56. بغدادی، المحبر، 1421ھ، ص65.
  57. بیهقی، لباب الانساب، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۳۲۹.
  58. بیهقی، لباب الانساب، 1428ھ، ج1، ص412.
  59. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص382؛ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج8، ص200.
  60. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص381.
  61. لیثی، جهاد الشیعة فی العصر العباسی الاول، 1428ھ، ص361.
  62. رازی، اخبار فخ، 1995ء، ص159–160.
  63. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص380.
  64. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج8، ص198.
  65. مسعودی، مروج الذهب، 1409ھ، ج3، ص327.
  66. لیثی، جهاد الشیعة فی العصر العباسی الاول، 1428ھ، ص361.
  67. گلستانی و میرابوالقاسمی، «صاحب فخ»، ص112.
  68. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص365.
  69. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج4، ص16-17.
  70. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص390.
  71. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج3، ص274.
  72. لیثی، جهاد الشیعة فی العصر العباسی الاول، 1428ھ، ص365-368؛ الهی‌زاده، جنبش حسنیان، 1385ہجری شمسی، ص209.
  73. عسکری، «از قیام فخ و شهدای آن در مکه چه می‌دانید؟ تصاویر»، سایت حوزه نمایندگی ولی فقیه در حج و زیارت.
  74. ابن‌اثیر، اسد الغابة، 1409ھ، ج5، ص325.
  75. لحیانی، «حي الشهداء أرض معركة فخ التاريخية»؛ عسکری، «از قیام فخ و شهدای آن در مکه چه می‌دانید؟ تصاویر»، سایت حوزه نمایندگی ولی فقیه در حج و زیارت.
  76. عسکری، «از قیام فخ و شهدای آن در مکه چه می‌دانید؟ تصاویر»، سایت حوزه نمایندگی ولی فقیه در حج و زیارت.
  77. المُحَلِّی، الحَدائِق الوَرْدیّة، 1423ھ، ج1، ص328.
  78. عسکری، «از قیام فخ و شهدای آن در مکه چه می‌دانید؟ تصاویر»، سایت حوزه نمایندگی ولی فقیه در حج و زیارت.
  79. سلیمان‌زاده افشار، «اخبار فخ؛ به روایت احمد بن سهل و ابوالفرج اصفهانی»، ص91.
  80. سلیمان‌زاده افشار، «اخبار فخ؛ به روایت احمد بن سهل و ابوالفرج اصفهانی»، ص91.
  81. رازی، اخبار فخ، تحقیق ماهر جرّار، 1995ء.
  82. رضوی اردکانی، ماهیت قیام شهید فخ، 1375ہجری شمسی.
  83. رضوی اردکانی، ماهیت قیام شهید فخ، 1375ہجری شمسی۔
  84. امینی، بطل فخ، 1388ھ۔

مآخذ

  • ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1419ھ۔
  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن‌خلدون، بیروت، دار الفکر، 1408ھ۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الأئمة، تبریز، بنی‌هاشمی، 1381ھ۔
  • الهی‌زاده، محمدحسن، جنبش حسنیان، قم، شیعه‌شناسی، 1385ہجری شمسی۔
  • امینی، محمدهادی، بطل فخ، بیروت، 1388ھ۔
  • بخاری، سهل بن عبدالله، سرّ السلسلة العلویة، نجف، المطبعة الحیدریة، 1963ء.
  • بغدادی، محمد بن حبیب، المحبر، قاهره، دار الغد العربی، 1421ھ۔
  • بیهقی، علی بن زید، لباب الانساب و الالقاب و الاعقاب، قم، کتابخانه آیت‌الله مرعشی نجفی، 1428ھ۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، قم، انصاریان، 1387ہجری شمسی۔
  • حسنی، احمد بن ابراهیم، المصابیح، صنعاء، مؤسسة الامام زید بن علی الثقافیة، 1423ھ۔
  • رازی، احمد بن سهل، أخبار فخ و خبر یحیی بن عبدالله و أخیه ادریس بن عبدالله، تحقیق ماهر جرّار، بیروت، دار الغرب الإسلامی، 1995ء.
  • رضوی اردکانی، سید ابوفاضل، ماهیت قیام شهید فخ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، چاپ دوم، 1375ہجری شمسی۔
  • سلیمان‌زاده افشار، ثروت، «اخبار فخ؛ به روایت احمد بن سهل و ابوالفرج اصفهانی»، در مجله میقات حج، شماره 78، 1390ہجری شمسی۔
  • سید ابن‌طاووس، علی بن موسی، مهج الدعوات و منهج العبادات، قم، الذخائر، 1411ھ۔
  • شریفی، محسن، «ائمه و قیامهای شیعی»، در فصلنامه طلوع، شماره 17، بهار 1385ہجری شمسی.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1373ہجری شمسی۔
  • عسکری، محمدحسین، «از قیام فخ و شهدای آن در مکه چه می‌دانید؟ تصاویر»، سایت حوزه نمایندگی ولی فقیه در حج و زیارت، تاریخ درج مطلب: 29 بهمن 1392ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 13 مهر 1399ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، اسلامیة، 1407ھ۔
  • گلستانی، پروین، و میرابوالقاسمی، سیده رقیه، «صاحب فخ»، در دانشنامه جهان اسلام، جلد 29، تهران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی، 1400ہجری شمسی۔
  • لحیانی،‌ بدر، «حي الشهداء أرض معركة فخ التاريخية»، در سایت صحیفة مکة، تاریخ درج: 9 آوریل 2015م، تاریخ بازدید: 31 اردیبهشت 1402ہجری شمسی۔
  • لیثی، سمیرة مختار، جهاد الشیعة فی العصر العباسی الاول، قم، دار الکتاب الاسلامی، 1428ھ۔
  • مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال فی علم الرجال، قم، موسسة آل البیت (ع) لإحیاء التراث، 1423ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، الوجیزة فی الرجال، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، 1420ھ۔
  • محلّی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیّة فی مناقب ائمة الزیدیة، صنعاء، مکتبة بدر، 1423ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، قم، دار الهجرة، 1409ھ۔
  • هارونی، یحیی بن حسین، الافادة فی تاریخ الأئمة السادة، تهران، مرکز پژوهشی میراث مکتوب، 1387ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، [بی‌تا].