عبد الحسین امینی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | عبد الحسین امینی |
تاریخ ولادت | 1320 ھ |
آبائی شہر | تبریز |
تاریخ وفات | 28 ربیعالثانی 1390 ھ.ق |
مدفن | عراق، نجف |
علمی معلومات | |
اساتذہ | سید ابو الحسن اصفہانی، میرزا محمد حسین نائینی، عبدالکریم حائری یزدی، محمد حسین کمپانی |
تالیفات | الغدیر، شہداء الفضیلۃ و۔۔۔ |
خدمات | |
سماجی | امیرالمؤمنین لائبریری(نجف) کی تاسیس۔ |
عبد الحسین امینی (متوفی 1390ھ)، علامہ امینی کے نام سے معروف، شہرہ آفاق کتاب الغدیر کے مصنف، چودہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ، محدث، متکلم، مورخ، نسخہ شناس اور برجستہ علماء میں سے ہیں۔ تحصیل علم کی غرض سے 22 سال کی عمر میں نجف اشرف چلے گئے اور سید ابوالحسن اصفہانی، میرزا محمد حسین نایینی، محمد حسین غروی اصفہانی اور شیخ عبدالکریم حائری یزدی سے اجتہاد کی اجازت حاصل کیا۔
آپ نے اہم علمی اور قلمی آثار کے علاوہ نجف اشرف کی مشہور لائبریری، امیرالمؤمنین لائبریری کے مؤسس بھی ہیں جس میں 70 ہزار خطی نسخے موجود ہیں۔
سوانح حیات
ولادت اور بچپن
عبد الحسین امینی بن میرزا احمد امینی سنہ 1320 ھ کو تبریز میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد تبریز کے امام جمعہ اور موثر علماء میں سے تھے۔[1] آپ کے دادا ملا نجف علی، امین الشرع کے نام سے معروف تھے اسی بنا پر آپ کے خاندان کو امینی کہا جاتا تھا۔
عبد الحسین امینی نے ابتدائی تعلیم تبریز کے مدارس سے حاصل کی۔ قرآن اور مقدمات کے بعد فقہ و اصول کے دروس کیلئے سید محمد مولانا (مصنف مصباح السالکین)، سید مرتضی خسروشاہی اور شیخ حسین (مؤلف ہدایۃ الانام) کے دورس میں حاضر ہوتے تھے۔[2]
وفات
علامہ امینی نے 28 ربیعالثانی 1390 ھ میں جمعہ کے دن ظہر کے وقت وفات پائی۔[3] آپ نے 70 سال کی عمر میں وفات پائی جبکہ اس وقت آپ جسمانی اعتبار سے صحیح و سالم تھے اسی وجہ سے بعض مورخین آپ کی وفات کو زیادہ مطالعہ اور بغیر وقفہ لائبریری میں کام میں مشغول رہنے کی وجہ سے قرار دیتے ہیں۔[4]
اگلے دن صبح کو آپ کی تشییع ہوئی۔[5] تہران کے علاوہ بغداد، کاظمین، کربلا اور نجف میں بھی آپ کی تشییع ہوئی اور آخر کار حرم امام علی کی طواف کے بعد اپنی وصیت کے مطابق نجف اشرف میں اسی لائبریری کے ایک کمرے میں سپرد خاک کیا گیا جسے آپ نے خود تاسیس کی تھی۔[6]
آپ نے وصیت کی تھی کہ کسی کو آپ کا نائب بنایا جائے جو ان کے نام دس سال کربلا امام حسین کی زیارت کیلئے جائے۔ اسی طرح آپ نے یہ بھی وصیت کی تھی کہ دس سال حضرت فاطمہؑ کی شہادت پر ان کی طرف سے عزاداری منعقد کی جائے۔
حیات علمی
نجف میں
22 سال کی عمر میں آپ[7] تبریز سے نجف تشریف لے گئے اور وہاں پر سید محمد فیروز آبادی (متوفی 1345 ھ) اور سید ابوتراب خوانساری (متوفی 1346 ھ) جیسے مجتہدین کے دروس میں حاضر ہوتے تھے۔[8][9]
اجتہاد اور روایت کی اجازت
آپ نے سید ابو الحسن اصفہانی، میرزا محمد حسین نایینی، محمد حسین غروی اصفہانی[10] اور شیخ عبدالکریم حائری یزدی جیسے مراجع سے اجتہاد کی اجازت دریافت كی۔[8] مذکورہ بالا مراجع کی تاریخ وفات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نے 35 سال کی عمر میں اجتہاد اور روایت کی اجازت دریافت کئے تھے۔
اجتہاد اور روایت کی اجازت دریافت کرنے کے بعد آپ اپنے آبائی شہر تبریز واپس تشریف لے آئے لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ نجف چلے گئے۔[11]
تألیفات
شہداء الفضیلۃ
سنہ 1355ھ کو آپ کی کتاب "شہداء الفضیلہ" منظر عام پر آگئی۔ یہ کتاب چوتھی صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک شہید ہونے والے 130 شیعہ علماء کی حالات زندگی پر مشتمل ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے اس کتاب کو استعمار (برطانیہ) کے مقابلے میں شجاعت اور ثابت قدمی کے فروغ کیلئے تحریر کی۔[12] اس کتاب کی تالیف میس آپ نے عراق اور ایران کی مختلف لائبریریوں سے استفادہ کیا ہے۔[13]
آقا بزرگ تہرانی مذکورہ کتاب کے مقدمے میں آپ کو علامہ بارع و علم علم الیقین و جمال ملت و دین کا لقب دیتے ہیں۔ سید ابو الحسن اصفہانی جو اس وقت دینائے تشیع کے دینی مرجع تھے، حاج آقا حسین قمی اور محمد حسین غروی اصفہانی نے بھی اس کتاب کی تائید میں کچھ نکات تحریر کئے ہیں۔[14] بعض علماء کے بقول مذکورہ کتاب کی تألیف پر حوزہ علمیہ نجف میں آپ کی بے نظیر تجلیل کی گئی۔[15]
بعض منابع کے مطابق علامہ امینی نے مذکورہ کتاب کو موسی جاراللہ کی الوشیعۃ فی نقد عقائد الشیعۃ کے جواب میں تحریر کیا ہے۔[16] موسی جاراللہ اس کتاب میں یہ دعوا کیا تھا کہ شیعہ عقائد پر کوئی منطقی اصول و قواعد نہیں اسی طرح اسلام کے بارے میں شیعوں کی کوئی کتاب موجود نہیں نیز اسلام کی راہ میں شیعوں نے کوئی شہید نہیں دیا وغیره۔[17]
الغدیر فی الکتاب والسنۃ والأدب
آپ کی سب سے مشہور تصنیف "الغدیر فی الکتاب والسنۃ والأدب" ہے جس میں آپ نے پیغمبر اکرمؐ کے بعد بلا فاصلہ امام علیؑ کی امامت و خلافت کو واقعہ غدیر اور حدیث غدیر کی روشنی میں ثابت کیا ہے۔[18]
آپ نے اپنی بابرکت عمر کے 40 سال اس کتاب کی تدوین میں صرف کئے اور آخر کار گیارہ جلدوں پر مشتمل یہ گرانبہا کتاب تصنیف کی۔ اس کتاب کی تصنیف کے سلسلے میں آپ نے واقعہ غدیر سے متعلق منابع کی جانچ پڑتال کیلئے عراق، ایران، ہندوستان، سوریہ اور ترکی کی لائبریریوں سے استفادہ کیا۔[19] سید جعفر شہیدی کے بقول جنہوں نے خود علامہ امینی سے سنا ہے کہ آپ اس کتاب کی تصنیف کی خاطر دس ہزار کتابوں کو اول سے آخر تک مطالعہ کیا ہے۔[20]
کتاب الغدیر کی پہلی سے نویں جد تک سنہ 1364ھ کو نجف اشرف میں منظر عام پر آگئی۔ جبکہ اس کی مکمل گیارہ جلدیں سنہ 1372ھ کو تہران میں شایع ہوئی ہیں۔[21] اس کتاب کی 20 جلدیں ہیں کہ اب تک صرف اس کی گیارہ جلدیں منظر عام پر آگئی ہیں۔[22]
دوسرے آثار
- ابن قولویہ کی کتاب کامل الزیارات پر تحقیق اور حاشیہ، سنہ 1356ھ کو نجف میں شائع ہوئی۔[23]
- ادب الزائر لمن یمّم الحائر، امام حسینؑ کی زیارت کے آداب کی شرح، نجف میں شایع ہویئ ہے۔
- سیرتنا و سنتنا سیرۃ نبینا و سنتہ، خاندان پیغمبرؐ کی ولایت اور محبت کے سلسلے میں ایک تاریخی مستند تحقیق نیز عاشورا کے دن عزاداری کی تاریخ پر ایک رپورٹ)[24]۔ اس کتاب میں آپ نے اہل سنت منابع سے استناد کرتے ہوئے امام حسینؑ عزاداری اور گریہ و زاری کو سنت نبوی قرار دیا اور شیعوں کو اس امر میں پیغمبر اکرمؐ کا تابع قرار دیا ہے۔[25]
- اعلام الانام فی معرفہ الملک العلام فارسی زبان میں توحید کے بارے میں۔
- شہداء الفضیلۃ
- تفسیر سورہ حمد۔ اس کتاب کی پہلی فصل اس سورت کی تفسیر میں جبکہ اس کی دوسری فصل میں اس کی تحلیل اور اس کے بیان کی ظریفی کو بیان کریا ہے۔ یہ کتاب سنہ 1395ھ کو تہران میں شایع ہوئی ہے۔
- تفسیر آیہ (وللہ الاسماء الحسنی)
- تفسیر آیہ (و کنتم ازواجا ثلاثۃ)
- تفسیر آیہ عالم ذر
- تفسر آیہ (قالوا ربنا امتنا اثنتین)
- ثمرات الاسفار
- علم «درایہ» میں ایک رسالہ
- نیت پر ایک رسالہ
- ریاض الانس (2 جلدوں اور ہر جلد 1000 صفحات پر مشتمل ہے جس میں ان خطی کتابوں کی معرفی کی گئی ہے جسے آپ نے مطالعہ کیا ہے۔)[26]
- شیخ انصاری کی کتاب رسائل پر حاشیہ
- شیخ انصاری کی کتاب مکاسب پر حاشیہ
- زیارت کی حقیقت سے متعلق ایک رسالہ(پاکستان کی علماء کے جواب میں)
- العترۃ الطاہرۃ فی الکتاب العزیز۔[27] (یہ کتاب ایک طرح کی تفسیر ہے جو اسلام میں سیاسیت کے مبادی فلسفہ پر مشتمل ہے یعنی یہ کتاب قرآن کریم کی ان آیات پرمشتمل ہے جو خاندان پیغمبرؐ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور حق اولویت و مولویت رکھنے والی ہستیوں کو ان کے اوصفاف کے ساتھ معرفی کی گیئ ہیں۔)[28]
- نظرۃ فی كتاب منہاج السنۃ النبویۃ یہ کتاب حقیقت میں کتاب الغدیر کی تین جلدیں ہیں لیکن چونکہ یہ کتاب ابن تیمیہ کی کتاب منہاج السنہ کے جواب میں لکھی گئی ہے اس لئے اسے مستقل طور پر شایع کی گئی ہے۔
- السجود علی التربۃ الحسینیہ عند الشیعۃ الامامیہ
امیرالمؤمنین لائبریری(نجف)
18 ذی الحجہ 1379ھ کو حوزہ عملیہ نجف اشرف کے بزرگان من جملہ آقا بزرگ تہرانی کی موجودگی میں علامہ امینی نے اس لائبریری کا افتتاح کیا۔ یہ لائبریری 5 لاکھ عنوان پر مختلف زبانوں میں کتابیں موجود ہیں اور صرف خطی کتابوں کی تعداد 70 ہزار ہے۔[29] آپ نے اپنی شخصی لائبریری میں موجود کتابوں کو جن کی تعداد 5000 تھی کو بھی اس لائبریری کیلئے ہدیہ کیا۔ آپ کے بیٹے محمد ہادی نے بھی ہزار جلد کتابیں اس لائبریری کو ہدیہ کیں۔ [30]
علامہ امینی کتاب الغذیر کی تحریر کے دوران مختلف احادیث کی جمع آوری کیلئے اسلامی دنیا کے مختلف لائبریریوں کا دورہ کیا۔ اس زمانے میں نجف اشرف کی سب سے بڑی لائبریری میں کتابوں کی تعداد صرف 4000 تھی۔ نجف اشرف جیسے علمی شہر میں کتابوں کی اس کمی نے آپ کو ایک عظیم لائبریری کی تاسیس پر مجبور کیا۔[31]
علامہ امینی نے جمادی الاولی سنہ 1373ھ کو 53 سال کی عمر میں اس لائبریری کیلئے کتابیں مہیا کرنا شروع کیا۔[32]
نظریات اور مقاصد
اگر میں مرجع تقلید ہوتا اور میرے پاس وجوہات شرعی ہوتا تو اسے طلاب کو دیے دیتا تاکہ وہ دنیا کا سفر کریں، میں ان سے کہتا یہ سفر کا خرچہ ہے اور جاؤ دنیا اور انسانوں کو پہجان لو!
علامہ امینی، حکیمی، حماسہ غدیر، ص۲۸۵۔
اجتہاد اور مرجعیت
علامہ امینی اس بات کے معتقد تھے کہ موجودہ دور میں کسی ایک انسان کی بس کی بات نہیں ہے کہ وہ تمام ابواب فقہ میں اجتہاد کرے بلکہ اس کام کیلئے اب "فتوا کمیٹی" تشکیل دینا چاہئیے جو مقتدر، شجاع اور زمانشناس شخصیات پر مشتمل ہو۔ آپ ایسے مرجع تقلید کیلئے جو پوری دنیا کے شیعوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے، صرف توضیح المسائل لکھنے کو کافی نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ ایسے افراد کی مذمت کرتے تھے جو بغیر شائستگی کے مرجعیت کی ذمہ داری کو قبول کرتے تھے اور اس کام کو ایک قسم کی جنایت سے تعبیر کرتے تھے اور اسے تمام اسلامی اور دینی اقدار کی پایمالی کے مساوی سمجھتے تھے۔ [33]
آپ مجتہد، صاحب رسالہ، مقلَّد، اور "مرجع تقلید شیعیان جہان" جیسے عناوین کو ایک جیسا نہیں سمجھتے تھے بلکہ آپ مرجعیت کیلئے معروف عمومی شرائط جیسے (بلوغ، عقل وغیرہ) کے علاوہ بعض اور شروط کو بھی لازمی سمجھتے تھے۔[34] آپ کی نظر میں اس وقت دنیا میں سینکڑوں فلسفی، سیاسی، تربیتی، اقتصادی اور نظامی افکار موجود ہیں اس بنا پر علی اور آل علی کے علمی، حقوقی، اجتماعی اور سیاسی میراث کو چند سال فقہ و اصول پرھنے اور حوزہ علمیہ میں طالب علمی کی زندگی بسر کرنے والے فلان شخص کی نذر نہیں کیا جا سکتا اور اس عظیم سرمایے کو ڈرپوک، تنگ نظر، کوتاہ بین، جمود فکری کا شکار، دلسوزی اور درد دل سے عاری شخصیات کے سپرد نہیں کیا جا سکتا ہے۔[35]
مذہبی کتب پر تنقید
آپ دینی موضوعات پر سطحی اور غیر علمی کتابوں کی اشاعت کے مخالف تھے جن میں موثق اور معتبر مآخذ سے استفادہ نہ کیا گیا ہو یا صحیح علمی اور منطقی دلائلی سے نتیجہ نہ نکالا گیا ہو۔ آپ اپنے زمانے میں منتشر ہونے والی بعض مذہبی کتابوں کے بارے میں کہتے تھے: موجودہ دور میں ائمہ معصومین کی حالات زندگی پر فارسی میں لکھی گئی کتابوں کو دریا برد کرنا چاہیئے۔[36]
بعض مذہبی محافل و مجلسوں پر تنقید
علامہ امینی اپنے زمانے کے بعض مذہبی محافل اور مجالس سے راضی نہیں تھے اور ان پر تنقید کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے آپ کے اعتراضات میں سے اہم اعتراض ان پروگراموں میں پڑھنے والے خطباء اور ذاکروں کی اسلامی معارف سے نا آشنائی یا کم آشنائی تھا۔ آپ بعض خطباء اور ذاکروں کی جانب سے احادیث اور اسلامی معارف سے استفادہ کرنے کی بجای غیر مستند اور نامناسب مطالب اور مصائب پر اعتراض کرتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ ایک واقعہ یوں بیان کرتے تھے: "تہران میں عزاداری کی ایک مجلس میں شرکت کیا، مجلس کے درمیان باوجود اس کے کہ یہ کام مناسب نہیں تھا، مجلس سے باہر آگیا کیونکہ میرے نزدیک اس مجلس میں بیٹھنا اور اس میں بیان ہونے والے مطالب کو سننا حرام تھا۔"[37]
زیارت
علامہ امینی اس بات کے معتقد تھے کہ ائمہ معصومین اور امامزادگان کی زیارت کا جو طریقہ اس وقت شیعوں کے نزدیک رائج ہے، اس کے برخلاف ان زیارتوں میں تربیتی پہلو کو زیادہ اجاگر کرنا چاہئے۔ اسی بنا پر اس باب میں موجود سب سے زیادہ معتبر زیارتی کتاب کامل الزیارات کی اشاعت آپ کی ابتدائی عملی آثار میں سے ہے۔ اسی طرح اس باب میں آپ کی ایک اور تصنیف "ادب الزائر" ہے جسے آپ نے امام حسینؑ کی زیارت کی شرح میں تحریر کیا ہے۔[38]
وہ اہداف جو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے
محمد رضا حکیمی یادنامہ علامہ امینی کے مقدمے میں ان اہداف کے متعلق جو علامہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے، لکھتے ہیں: جو کچھ علامہ امینی نے انجام دیا ہے ان کے علاوہ بہت سارے اور اہداف تھے جنہیں آپ پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ من جملہ ان اہداف میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- تأسیس دار التألیف (خانہ نویسندگان)۔
- کسی ایسے بین الاقوامی مرکز کی تأسیس جس میں اسلام سے متعلق نشر ہونے والی نشریات کی جانچ پڑتال اور حفاظت کی جائے۔
- مبانی مرجعیت کی توسیع اور تحکیم۔
- بہت سارے علماء کی کتابوں کی اشاعت جو خطی نسخوں کی شکل میں موجود ہیں۔
- دینی علوم میں مشغول طالب علموں کی بصیرت افزائی اور انہیں دنیا کے مختلف گوشہ و کنار میں سفر کرنے کی تشویق کرنا تاکہ وہ دنیا کے مختلف مسائل اور علوم سے زیادہ سے زیادہ واقف ہوں۔
- مذہبی کتابوں کی تصحیح اور ان کی دقیق نگرانی؛ تاکہ آہستہ آہستہ ان مسائل پر ایسے اشخاص قلم فرسائی کریں جو مذہبی مسائل میں کافی معلومات اور مہارت رکھتے ہوں نہ یہ کہ ہر کس و ناکس مذہبی موضوعات پر لکھنے بیٹھ جائیں۔
- مذہبی مجالس اور محافل کو با مقصد بنانا اور ان کے طریقہ کار کی تصحیح تاکہ لوگ ان سے کچھ سیکھ سکیں۔[39]
بزرگان کی نظر میں
- شیعہ علماء کی نظر میں
سید ابو الحسن اصفہانی آپ کی کتاب شہداء الفضیلۃ پر لکھے گئے تقریظ میں آپ کو علم و دانش اور اسلامی تفکر کا کا علمبردار قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علامہ امینی اپنی دلچسپ اختراعات کی وجہ سے متقدم اور متأخر مؤلفین پر سبقت لے گئے ہیں اور علمی، تاریخی، ادبی اور اخلاقی حوالے سے بہت سے قیمتی اثاثے چھوڑ گئے ہیں۔[40]
محمد حسین غروی اصفہانی، علامہ امینی کی پہلی کتاب کی تقریظ میں آپ کی اس علمی اثر کی تعریف و تمجید کے بعد آپ کی ذاتی کمالات کی تعریف کرتے ہوئے آپ کو فن تحریر، راستگوئی اور راستجوئی میں نابغۂ روزگار قرار دیتے ہیں۔[41]
آیت اللہ خوئی، علامہ امینی کی زیارت کو درس پڑھنے سے بھی زیادہ افضل قرار دیتے ہوئے کسی عالم دین سے مخطاب ہو کر فرماتے کہ "آپ مطمئن رہئے کہ ان کی زیارت کا ثواب ان دروس سے بھی زیادہ ہے"۔[42]
آقا بزرگ تہرانی، آپ کی کتاب "شہداء الفضیلۃ" پر لکھے گئے تقریظ میں آپ کو دین کی سچائی کا مظہر اور یقین کی منزل پر پہنچی ہوئی شخصیت اور آپ کی اس کتاب کو امت محمدی کیلئے ایک شاہکار قرار دیتے ہیں۔[43]
- اہل سنت علماء کی نظر میں
محمد عبد الغنی حسن مصری جو اہل سنت عالم ہیں، نے آپ کے بارے میں ایک شعر لکھا ہے جس میں وہ اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ اگرچہ بحث کے دوران امینی کا لہجہ کچھ سخت ہے لیکن اخلاقی طور پر آپ بہت نرم مزاج انسان ہیں۔ اسی طرح وہ علامہ امینی کیلئے خدا سے جزائے خیر کی دعا کرتے ہیں ایسا ثواب جو آپ کے اس عظیم کام کے ساتھ شائستہ اور سزاوار ہو۔[44][45]
محمد سعید دحدوح، جو حلب کے بزرگ علماء میں سے ہیں، علامہ امینی کو لکھے گئے اپنے بعض خطوط میں لکھتے ہیں: یقینا انہیں آل محمدؐ سے ایسا اخلاقی رویہ ورثے میں ملا ہے جو آپ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملا ہے مگر بہت کم با اخلاق اور پرہیزگار لوگوں کو۔[46]
اخلاقی صفات
آپ کے بعض شاگردوں اور قریبی رشتہ داروں نے علامہ کی جن اخلاقی صفات کی طرف اشارہ کئے ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
عبادت: محمدرضا حکیمی کے بقول آپ عبادت اور راز و نیاز کے پابند تھے، مستحب نمازوں کی ادائگی اور قرآن کریم کی تلاوت کے بہت عاشق تھے؛ نماز شب اور نماز صبح کے بعد قرآن کی مکمل ایک پارے کی تدبر کے ساتھ تلاوت کرتے تھے۔[47]
زہد و تقوا: باوجود اس کے کہ آپ نے 40 سال نجف میں قیام کیا وہاں آپ کا کوئی ذاتی مکان نہیں تھا۔[48] سید جعفر شہیدی، علامہ امینی کو آیہ شریفہ "يُجَاہِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّہِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَۃَ لآئِمٍ"[49] کا مصداق قرار دیتے تھے۔[50]
آپ کے بارے میں لکھے گئے آثار
- حماسہ غدیر، جس میں محمد رضا حکیمی نے کتاب الغدیر کی تشریح اور اس پر تنقید کے ساتھ ساتھ علامہ امینی کی حالات زندگی کے بارے میں بھی لکھا ہے۔
- "ربع قرن مع العلامۃ الامینی (خاطرات)"، تألیف: حسین شاکری۔
- "ہمرہی خضر" تألیف حسین شاکری۔ وہ 25 سال تک علامہ امینی کی خدمت میں رہے ہیں۔ اس کتاب کا اصلی نام: ہمرہی خضر (علامہ امینی کے ساتھ 25 سالہ دور) ہے۔ مؤلف نے اس کتاب میں علامہ امینی کی زندگی اور آپ کے سفروں سے متعلق مکمل وضاحت دی گئی ہے۔
- "یادنامہ علامہ امینی" جو سید جعفر شہیدی اور محمد رضا حکیمی کے زیر نگرانی شایع ہوئی ہے۔ یہ کتاب ان مقالات کا مجموعہ ہے جو حوزہ اور یونیورسٹیوں کے مختلف شخیات نے علامہ کے بارے میں لکھے ہیں۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 28 پر شہیدی اور حکیمی نے علامہ کی حالات زندگی کے بارے میں لکھا ہے جس کے بعد علامہ سے متعلق مختلف علمی شخصیات کے 20 مقالوں کو درج کیا ہے۔
- "امین شریعت (یادنامہ)"، کتاب المقاصد العلیۃ فی المطالب السنیۃ کی رسم رونمائی پر لکھی گئی خصوصی کتاب ہے جو "بنیاد محقق طباطبائی" کے بعض محققین نے سنہ 1391ھ.ش کو قم میں شایع کی ہیں۔
- محقق طباطبائی سے علامہ امینی کے بارے میں گفتگو۔
- "سلامِ قطرہ، بہ دریادلِ غدیری"، مہدی اخوان ثالث کا علامہ امینی کے بارے میں لکھے گئے اشعار۔
- "علامہ امینی مصلح نستوہ"، تالیف :علی رضا سید کباری، علامہ کی حالات زندگی پر مشتمل ہے۔
- "علامہ امینی جرعہ نوش غدیر"، تالیف: دی لطفی، یہ کتاب 256 صفحات پر مشتمل ہے جس میں آپ کی حالات زندگی بیان ہوئی ہے۔
- "یک مسافرت تاریخی"، علامہ امینی اصفہان ایک ماہہ سفر کی رویداد۔
- "الحجۃ الأمینی طاب ثراہ؛ زندگی نامہای تازہیاب از علامہ امینی" تألی: سید محمد صادق بحر العلوم، مصحح: محسن صادقی ۔
- "چند نکتہای دربارہ کتاب المقاصد العلیۃ"، تألیف: حسن انصاری۔
- "سال شمار زندگانی علامہ امینی"، تألیف: عبد الحسین طالعی۔
حوالہ جات
- ↑ سید مصطفی حسینی دشتی، معارف و معاریف، ج ۲، ص ۵۵۰۔
- ↑ سید مصطفی حسینی دشتی، معارف و معاریف، ج ۲، ص ۵۵۰، محمد رضا حکیمی، علامہ امینی، در یادنامہ علامہ امینی، ص نوزدہ۔
- ↑ یاد نامہ، ص ۲۷۔
- ↑ سید مصطفی حسینی دشتی، معارف و معاریف، ص ۵۵۳۔
- ↑ حماسہ غدیر، ص ۳۴۷۔
- ↑ ربع قرن مع العلامہ، ص ۲۸۶۔
- ↑ سید علی رضا سید کباری، «علامہ امینی، غواص غدیر»، ۴۳ و ۴۴۔
- ↑ 8.0 8.1 خطا در حوالہ: ناقص
<ref>
ٹیگ؛Hakimi nozde
کے نام والے حوالوں کے لیے کوئی متن نہیں دیا گیا - ↑ سید علی رضا سید کباری، «علامہ امینی، غواص غدیر»، ۴۳ و ۴۴۔
- ↑ سید مصطفی حسینی دشتی، معارف و معاریف، ص ۵۵۰۔
- ↑ سید علی رضا سید کباری، «علامہ امینی، غواص غدیر»، ۴۴۔
- ↑ سید علی رضا سید کباری، «علامہ امینی، غواص غدیر»، ۴۴۔
- ↑ سید علی رضا سید کباری، «علامہ امینی، غواص غدیر»، ۴۴، سید مصطفی حسینی دشتی، معارف و معاریف، ص ۵۵۱۔
- ↑ سید مصطفی حسینی دشتی، معارف و معاریف، ص ۵۵۱۔
- ↑ سید مصطفی حسینی دشتی، معارف و معاریف، ص ۵۵۱۔
- ↑ مہدی لطفی، علامہ امینی جرعہنوش غدیر، ص ۵۵۔
- ↑ مہدی لطفی، علامہ امینی جرعہنوش غدیر، ص ۵۶۔
- ↑ دائرۃ المعارف تشیع، ج ۱۲، ص ۳۹۔
- ↑ دائرۃ المعارف تشیع، ج ۱۲، ص ۳۹ و ۴۰۔
- ↑ سید جعفر شہیدی، تطور مذہب شیعہ و امینی مجدد مذہب۔
- ↑ سید مصطفی حسینی دشتی، معارف و معاریف، ص ۵۵۱۔
- ↑ مہدی لطفی، علامہ امینی جرعہنوش غدیر، ص ۶۲۔
- ↑ مہدی لطفی، علامہ امینی جرعہنوش غدیر، ص ۵۷۔
- ↑ حکیمی، حماسہ غدیر، ص۳۲۳۔
- ↑ مہدی لطفی، علامہ امینی جرعہنوش غدیر، ص ۵۹۔
- ↑ حکیمی، حماسہ غدیر، ص۳۲۳۔
- ↑ حکیمی، علامہ امینی، در یادنامہ۔۔۔، ص ۲۴۔
- ↑ حکیمی، حماسہ غدیر، ص۳۲۳۔
- ↑ مہدی لطفی، علامہ امینی جرعہنوش غدیر، ص ۶۴۔
- ↑ مہدی لطفی، علامہ امینی جرعہنوش غدیر، ص ۶۳۔
- ↑ مہدی لطفی، علامہ امینی جرعہنوش غدیر، ص ۶۳۔
- ↑ جدایی، ص ۱۷۔
- ↑ حکیمی، حماسہ غدیر، ص ۲۸۹۔
- ↑ حکیمی، حماسہ غدیر، ص ۲۹۰۔
- ↑ حکیمی، حماسہ غدیر، ص ۲۹۴۔
- ↑ حکیمی، حماسہ غدیر، ص ۲۹۷۔
- ↑ حکیمی، حماسہ غدیر، ص ۲۹۸-۲۹۹۔
- ↑ حکیمی، حماسہ غدیر، ص ۳۰۴۔
- ↑ حکیمی، یادنامہ علامہ امینی، ص ۲۷۔
- ↑ جدایی، ص۱۲
- ↑ جدایی، ص۱۳
- ↑ یادنامہ، ص ۷۰۔
- ↑ جدایی، ص۱۳
- ↑ حماسہ غدیر: ص ۲۰۵؛ شاکری، ربع قرن مع العلامۃ الامینی، ص ۳۱۸۔
- ↑ یادنامہ علامہ امینی، ص ۳۱۔
- ↑ ترجمہ الغدیر، ج ۱، ص ۲۱۔
- ↑ حماسہ غدیر، ص ۵۵۱۔
- ↑ ربع القرن مع العلامہ، ص ۲۸۳۔
- ↑ مائدہ: ۵۴۔
- ↑ حماسہ غدیر، ص ۴۸۱۔
مآخذ
- اخوان ثالث، مہدی، گزینہ اشعار مہدی اخوان ثالث، تہران: مروراید، ۱۳۷۹ش.
- محمد رضا حکیمی، علامہ امینی، در یادنامہ علامہ امینی، بہ اہتمام سید جعفر شہیدی و محمد رضا حکیمی، تہران، مؤسسہ انجام کتاب، سال ۱۳۶۱ش/۱۴۰۳ق.
- شہیدی، سید جعفر، تطور مذہب شیعہ و امینی مجدد مذہب، در یغما، سال بیست و ششم، بہمن ۱۳۵۲، شمارہ ۱۱ (پیاپی ۳۰۵).
- مہدی لطفی، علامہ امینی جرعہنوش غدیر، چاپ اول، قم، نسیم حیات، ۱۳۷۹.
- محمد رضا حکیمی، حماسہ غدیر، دلیل ما، ۱۳۸۶.
- عبدالحسین طالعی، امین شریعت، قم، بنیاد محقق طباطبائی، ۱۳۹۲.سالشمار زندگانی علامہ امینی
- حسین شاکری، ہمرہی خضر، محسن رفعت، پیام سفید، تہران، ۱۳۸۹ش.