میثاق الست
میثاق اَلَست یا عہدِ اَلَست ایک قرآنی تصور ہے جو سورہ اعراف آیت نمبر 172 سے ماخوذ ہے۔ جس میں خدا کی ربوبیت کے حوالے سے انسانوں اور خدا کے درمیان ایک عہد و میثاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، اس میثاق میں انسانوں سے خدا کی ربوبیت کے اقرار کا تذکرہ ہے کرتے ہیں۔ یہ میثاق نہ صرف قرآن بلکہ شیعہ اور اہل سنت حدیثی منابع میں بھی بیان ہوا ہے اور اسلامی تفاسیر و الہیات میں مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان موجود اختلافی موضوعات میں سے ایک ہے۔ مسلمان علما اس پیمان کو خدا شناسی کے لیے انسان کےلئے ضروری سمجھتے ہیں اور اس کا مقصد قیامت کے دن انسان پر اتمام حجت قرار دیتے ہیں۔
بعض مسلمان علما آیات اور احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس میثاق کو دنیا کی تخلیق سے پہلے کا ایک نہ بھولنے والا عمومی میثاق قرار دیتے ہیں جو اللہ کی ربوبیت پر انسان کی فطری شہود کا اظہار ہے۔ اس عہد و پیمان کے مندرجات کے بارے میں بھی بحث کی گئی ہے؛ بعض اسے صرف خدا کی ربوبیت سے مخصوص قرار دیتے ہیں لیکن بعض اس میں ربوبیت کے ساتھ ساتھ توحید کو بھی شامل کرتے ہیں۔
اس میثاق کی نوعیت کے بارے میں بھی علماء کے نظریات کے درمیان اختلاف ہے، بعض کے مطابق خدا نے اس دنیا میں آنے سے پہلے عالم ذر میں انسانوں سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا۔ جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ خدا نے انسان کو عقل دینے کے ذریعے اسے خدا کی معرفت حاصل کرنے اور اس کی تصدیق کرنے کی صلاحیت دی ہے۔ تیسرے گروہ کا نظریہ ہے کہ خدا نے انبیاء اور وحی کے ذریعے انسانوں کو اپنی شناخت اور معرفت سے آگاہ کیا اور اس کا اقرار لیا ہے۔ اس سلسلے میں دیگر نظریات بھی موجود ہیں کہ ہر ایک، تنقید واعتراضات سے روبرو ہیں۔
اہمیت اور منزلت
"عہدِ الست" سورہ اعراف کی آیت نمبر 172 سے ماخوذ ایک اصطلاح ہے، جس میں اُس عہد کی طرف اشارہ کی گئی ہے جسے خدا نے اپنی ربوبیت کے بارے میں آدم کی نسل سے لیا ہے۔[1] مذکورہ آیت کے علاوہ،[2] اس عہد سے متعلق احادیث بھی نقل کی گئی ہیں۔ شیعہ[3] اور اہل سنت[4] محدثین نے اپنی کتابوں میں میثاق الست سے مبربوط احادیث کے لئے الگ ابواب مختص کئے ہیں۔ عہدِ الست اور اس کی تفصیلات، منجملہ عالمِ ذر، مسلمان علما کے درمیان ابتدائی صدیوں سے اختلافی مسائل میں شامل رہے ہیں۔[5] شیعہ محدث علامہ مجلسی (وفات: 1110ھ) ان اختلافات کے پیشِ نظر اس بات کے قائل ہیں کہ انسان کی عقل اس عہد اور اس کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے، لہٰذا بہتر ہے کہ اس پر زیادہ غور نہ کیا جائے۔[6]
میثاق کی ضرورت
شیعہ مفسر آیت اللہ جوادی آملی (پیدائش: 1312ھ ش) اس ایت سے اپنی علمی برداشت اور تفسیر کے تفسیر کے مطابق، اس الہی عہد و میثاق کو ضروری سمجھتے ہیں۔ قرآن کی اس آیت میں خدا نے اس میثاق کو اس لیے لازمی قرار دیا ہے تاکہ قیامت کے دن کوئی یہ عذر پیش نہ کر سکے کہ ہم اس سلسلے میں بے خبر تھے۔[7] علامہ عبد الحسین امینی (وفات: 1390ھ) اپنی کتاب المقاصد العلیۃ فی المطالب السنتیۃ میں معتقد ہیں کہ اگر انسان نے عالمِ ذر اور عالم ارواح میں یہ عہد نہ کیا ہوتا تو دنیا کی مادی رجحانات اور حجابوں کی بنا پر وہ خدا کو نہیں پہچان سکتا تھا۔ لہذا معرفتِ الہی کے لیے یہ میثاق ناگزیر ہے۔[8] انہوں نے اس سلسلے میں 9 مستند احادیث نقل کئے ہیں جن میں خدا کی ربوبیت، خالقیت اور رزاقیت کی پہچان کے لیے اس عہد کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔[9]
میثاق کی خصوصیات
مسلمان علما کے درمیان عہدِ الست کی نوعیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے: بعض شیعہ علما جیسے ملاصدرا، علامہ امینی اور جوادی آملی اس میثاق سے مربوط دینی منابع کی روشنی میں اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ عہد ہر انسان سے فردا فردا لیا گیا ہے اور سب نے اس پر مثبت جواب دیا ہے۔[10] اس کے برخلاف شیخ طوسی (وفات: 460ھ) کا کہنا ہے کہ یہ میثاق تمام انسانوں سے نہیں بلکہ صرف اُن افراد سے لیا گیا تھا جن کی عقل کامل تھی۔[11] اسی طرح بعض نظریات کے مطابق، عہدِ الست کے وقت انسان جسمانی اور مادی طور پر حاضر تھے،[12] جب کہ بعض دوسروں کا ماننا ہے کہ یہ عہد انسان کی مادی تخلیق سے پہلے، ایک ایک غیرمادی دنیا میں واقع ہوا تھا جہاں زمان کا تصور ہی نہیں تھا۔[13]
میثاق الست کا مضمون
اس سلسلہ میں کہ عہد الست کے مندرجات کیا تھے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں مختلف جوابات دئے گئے ہیں: بعض نے ایت میثاق کی روشنی میں کہا ہے کہ خدا نے انسانوں سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا ہے۔[14] محی الدین ابن عربی (وفات: 638ھ) کے مطابق یہ عہد صرف ربوبیت سے متعلق تھا، نہ توحید کے بارے میں، کیونکہ خدا جانتا تھا کہ بعض لوگ مشرک ہوں گے۔[15] لیکن دیگر مفسرین کے نزدیک اس عہد میں توحید بھی شامل تھا۔[16]
ایسی احادیث بھی موجود ہیں کہ جن کی بناء پر اس میثاق میں نبوت اور ولایت بھی شامل ہیں۔[17] بعض احادیث میں اس بات کو "موجودات کے سامنے ولایت پیش کرنا" سے تعبیر کیا گیا ہے۔[18] چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مفسر عیاشی نے سورہ بقرہ آیت نمبر 138 کی تفسیر میں امام صادقؑ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق اس آیت میں "صِبغَۃَ اللہ" سے مراد ولایتِ علیؑ کی شناخت ہے جو میثاق الست میں انسان کو دی گئی تھی۔[19]
خدا نے انسانوں سے کس طرح میثاق لیا؟
مسلمان متکلمین اور مفسرین کے درمیان اس بارے میں متعدد نظریات موجود ہیں کہ خدا نے انسانوں سے کس طرف عہد و پیمان لیا تھا:
عالمِ ذر
اس نظریے کے مطابق، دنیا میں آنے سے پہلے خدا نے عالم ذر میں ہر انسان کو ایک ذرّے کی مانند جسم میں خلق کیا اور اس میں روح پھونکی۔ انسانوں کا یہ خاکی اور مادی بدن جو پہلے ہی سے عالم ذر میں مقدر کیا گیا تھا اور ان چھوٹے چھوٹے جسموں میں روح پھونکی گئی تھی بلکل اسی طرح حضرت آدم کے پشت سے خلق کر کے مکمل کیا گیا۔[20] اس نظریے کے مطابق انسان نے عالم ذر میں ہی خدا کے "ألستُ بربّکم؟" کیا میں تیرا پروردگار نہیں ہوں؟ کے سوال پر "ہاں" کہہ کر اس کی ربوبیت اور توحید کو تسلیم کیا تھا، اس کے بعد انہیں دوبارہ حضرت آدم کے وجود میں واپس پلٹا دیا گیا تھا۔[21]
بعض شیعہ علماء جو اس نظریے کے قائل ہیں ان میں شیخ صدوق (متوفی: 381ھ)،[22] شیخ حر عاملی (متوفی: 1104ھ)،[23] محمدباقر مجلسی (متوفی: 1110ھ)،[24] و علامہ امینی (متوفی: 1390ھ)۔[25] برخی از مخالفان ہم بدین شرحاند: شیخ مفید (متوفی: 413ھ)،[26] سید مرتضی (متوفی: 436ھ)،[27] شیخ طوسی (متوفی: 460ھ)،[28] فیض کاشانی (متوفی: 1091ھ)،[29] علامہ طباطبائی (متوفی: 1402ھ)۔[30]شامل ہیں۔
عقل
شیخ مفید (متوفی: 413ھ) جیسے علما میثاق الہی کو ایک عقلی شعور قرار دیتے ہیں جو انسان کے اندر رکھا گیا ہے۔ جب انسان کی تخلیق ہوتی ہے تو اس کے اندر عقل جیسی عظیم طاقت رکھ دی جاتی ہے اور طاقت کو بیدار کرنے کے لئے مختلف مواقع پر مختلف پیغامات ارسال کیا جاتا ہے۔ یہ عقل ہے جو انسان کو خدا کی معرفت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور اسے کائنات اور ہستی کی حقیقت کے بارے میں ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ لذا آیہ میثاق میں جس عہد و پیمان کا ذکر کیا گیا ہے وہ حقیقت میں انسان کے اندر موجود علم و شعور ہے جو عقل کی بدولت اس کے اندر پائی جاتی ہے اور انسان کو اپنے پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر تیار کرتی ہے۔[31] تاہم اس نظریے پر مختلف اعتراضات کئے گئے ہیں منجملہ یہ کہ ناقدین کہتے ہیں کہ قرآن کی مذکورہ آیت میں ماضی میں واقع ہونے والی ایک میثاق کی بات کی گئی ہے، جو اس نظریے سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ مذکورہ آیت میں کہا گیا ہے کہ ہم نے عہد و پیمان لیا ہے تاکہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہے کہ ہم اس بارے میں غافل اور بے خبر تھے۔ حالانکہ عقلی طور پر یہ امکان موجود ہے کہ قیامت کے دن بعض افراد کہے کہ دنیا میں ہم عقلی طور پر مستعد اور کامل نہیں تھے۔[32]
وحی
اس نظریے کے مطابق، جس عھد سے انسان روبرو ہے اسے انبیا اور وحی کے ذریعہ انسانوں تک پہونچایا کیا گیا ہے ، لہذا اس پر حجت تمام ہوگئی ہے اور وہ قیامت کے دن اس بات کا دعوا نہیں کرسکتا کہ حقیقت سے اگاہ نہیں تھا۔[33] البتہ اس نظریے پر اعتراض یہ ہے کہ تمام انسانوں نے انبیا کی دعوت کو قبول نہیں کیا ہے، اس لیے قیامت کے دن بعض لوگ عذر پیش کرسکتے ہیں۔[34]
تمثیل
بعض مفسرین معتقد ہیں کہ آیہ میثاق میں «أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ؟ قالوا: بَلَىٰ» کا جملہ، تمثیلی ہے، یعنی خدا نے عقل اور دیگر واضح دلائل کے ذریعے انسانوں کو اپنی ربوبیت کی طرف متوجہ کرایا اور گویا اُن سے اقرار لیا۔ انسانی عقل نے بھی گویا این دلائل کی بنیاد پر اقرار کیا کہ "ہاں تو ہمارا پروردگار ہے"۔[35] اس نظریہ کا اس طرح نقد کیا گیا ہے کہ پہلے یہ کہ ایت کے ظاھری معنی سے گریز کرنے اور تمثیل پر کوئی محکم دلیل موجود نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ سب انسانوں نے عقل کے ذریعے خدا کو نہیں پہچانا ہے تاکہ وہ قیامت کے دن اس کا اعتراف کریں۔[36]
عالمِ ارواح
بعض علما کچھ احادیث جن کے مطابق خدا نے انسانوں کی ارواح کو جسموں سے 2000 سال قبل پیدا کیا ہے،[37] سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا نے انسانوں سے جو عہد و پیمان لیا تھا وہ اسی عالم سے مربوط ہے جسے عالم ارواح کہا جاتا ہے۔[38] آیت اللہ جوادی آملی اس بات کے معتقد ہیں کہ میثاق الست اگرچہ عالمِ ارواح میں بھی ثابت کیا جا سکتا ہے، لیکن قرآن کی مذکورہ آیت اس پر دلالت نہیں کرتی ہے۔[39]
عالمِ جبروت یا مُثُل افلاطونی
شیعہ فلسفی ملا صدرا (متوفی: 1050ھ) کے مطابق، "ألستُ بربّکم" کا خطاب انسانی عقل کی حقیقت سے ہے جن کی نوری اور مجرد صورت عالمِ مثال میں خدا کے علم میں موجود ہے۔ حکمائے ربّانی ان صورتوں کو اربابِ نوع قرار دیتے ہیں، جو فرشتوں کی طرح اس نوع کے افراد کی سرپرستی اور ہدایت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔[40] تاہم اس نظریے پر اعتراض یہ ہے کہ مُثُل افلاطونی پر قطعی دلائل موجود نہیں ہے، اور اگر ایسے موجودات پائے بھی جاتے ہوں تو بھی میثاق الست کو ان پر تطبیق کرنے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔[41]
عالمِ ملکوت
علامہ طباطبائی اس بات کے معتقد ہیں کہ انسان اس دنیا میں آنے سے پہلے کسی اور خدا کے یہاں ایک اور عالم میں وجود رکھتا تھا۔ ہر موجود دو جہتیں رکھتا ہے: ایک دنیوی جہت جو کہ بتدریج کمال تک پہنچ جاتی ہے، اور ایک الہی جہت جو تمام شروع سے کمالات کا حامل ہوتی ہے۔ عالمِ ملکوت میں انسان خدا کو بلاواسطہ پہچانتا ہے اور اس کی توحید کی تصدیق کرتا ہے۔ اس عالم میں یہ شناخت اور معرفت حضوری اور بلاواسطہ ہوتی ہے نہ کہ دلائل کے ذریعے۔[42] آیت اللہ جوادی آملی دوسرے نظریات کے مقابلے میں اس نظریے کو بہتر قرار دینے کے باوجود بھی اس نظریے پر مختلف اعتراضات کرتے ہوئے اسے بھی ناقابلِ قبول سمجھتے ہیں۔[43]
فطرت
سید مرتضی (متوفی: 436ھ) کے مطابق، خدا نے انسان کو اس طرح خلق کیا ہے کہ اس کا وجود خدا کی نشانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ نشانیاں اس قدر روشن اور واضح ہیں کہ گویا ہم بغیر کسی دلیل و برہان کے دل و جان سے خدا کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہیں۔[44]
حوالہ جات
- ↑ گذشتہ، «الست»، ج10۔
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1390ھ، ج8، ص306۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ: صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص70-89؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص12؛ برقی، المحاسن، دارالکتب الإسلامیۃ، ج1، ص135۔
- ↑ ابنابیعاصم، کتاب السنۃ، 1400ھ، ص87؛ بیہقی، القضاء و القدر، 1421ھ، ص140۔
- ↑ بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394ش، ص483-561۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج5، ص261۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392ش، ج31، ص66۔
- ↑ امینی، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، 1434ھ، ص138۔
- ↑ امینی، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، 1434ھ، ص138-140۔
- ↑ صدرالدین شیرازی، تفسیر القرآن الکریم، 1366ش، ج2، ص245؛ امینی، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، 1434ھ، ص138؛ جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392ش، ج31، ص42-44۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص30۔
- ↑ بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394ش، ص433۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392ش، ج31، ص41۔
- ↑ شرف الدین، فلسفۃ المیثاق و الولایۃ، 1432ھ، ص3-4۔
- ↑ ابنعربی، الفتوحات المکیۃ، 1405ھ، ج2، ص211۔
- ↑ شبر، تفسیر القرآن الکریم، دارالہجرۃ، ص44؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج7، ص16؛ جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392ش، ج31، ص48۔
- ↑ شبر، تفسیر القرآن الکریم، دارالہجرۃ، ص44۔
- ↑ بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394ش، ص42۔
- ↑ عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص62۔
- ↑ بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394ش، ص433۔
- ↑ صدرینیا، عالم ذر، 1388ش، ص49۔
- ↑ شیخ صدوق، الہدایۃ، 1418ھ، ص24-25۔
- ↑ شیخ حر عاملی، الفصول المہمۃ في أصول الأئمۃ، 1418ھ، ج1، ص425۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج5، ص257؛ مجلسی، مرآۃ العقول في شرح أخبار آل الرسول، 1404ھ، ج5، ص16-161۔
- ↑ امینی، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، 1434ھ، ص136-138۔
- ↑ شیخ مفید، المسائل السرویۃ، 1413ھ، ص46۔
- ↑ سید مرتضی، تفسیر الشریف المرتضی، 1431ھ، ج2، ص376۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص29۔
- ↑ فیض کاشانی، الوافی، 1406ھ، ص502۔
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج8، ص315-316۔
- ↑ شیخ مفید، المسائل العکبریۃ، 1413ھ، ص113؛ سید مرتضی، تفسیر الشریف المرتضی، 1431ھ، ج2، ص377؛ فیض کاشانی، الوافی، 1406ھ، ص502؛ شرف الدین، فلسفۃ المیثاق و الولایۃ، 1432ھ، ص16-17۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392ش، ج31، ص89-92۔
- ↑ سید مرتضی، تفسیر الشریف المرتضی، 1431ھ، ج2، ص377؛ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج5، ص27-28۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392ش، ج31، ص93-94۔
- ↑ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج2، ص176؛ ابوحیان، البحر المحیط في التفسیر، 1420ھ، ج5، ص218-220۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392ش، ج31، ص95-97۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ: برقی، المحاسن، 1371ھ، ج1، ص135؛ صفار، بصائر الدرجات في فضائل آل محمّد(ص)، 1404ھ، ج1، ص87، کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص438۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ: آملی، تفسیر المحیط الأعظم، 1428ھ، ج4، ص259-260 و ج5، ص361-362؛ شیخ بہایی، الأربعون حديثا، 1431ھ، ص78۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392ش، ج31، ص109-110۔
- ↑ صدرالدین شیرازی، تفسیر القرآن الکریم، 1366ش، ج2، ص243۔
- ↑ بیابانی اسکویی، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، 1394ش، ص507۔
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1390ھ، ج8، ص318-321۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، 1392ش، ج31، ص105-109۔
- ↑ سید مرتضی، تفسیر الشریف المرتضی، 1431ھ، ج2، ص377-378۔
مآخذ
- آملی، حیدر بن علی، تفسیر المحیط الأعظم و البحر الخضم في تأویل کتاب اللہ العزیز المحکم، قم، نور علی نور، 1428ھ۔
- ابوحیان، محمد بن یوسف، البحر المحیط في التفسیر، بیروت، دارالفکر، 1420ھ۔
- ابنابیعاصم، احمد بن عمرو، کتاب السنۃ، بیروت، المکتب الإسلامی، 1400ھ۔
- ابنعربی، محمد بن علی، الفتوحات المکیۃ، قاہرۃ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1405ھ۔
- امینی، عبدالحسین، المقاصد العليۃ في المطالب السنيۃ، قم، دارالتفسیر، 1434ھ۔
- برقی، احمد بن محمد، المحاسن، قم، دارالکتب الإسلامیۃ، بیتا.
- بیابانی اسکویی، محمد، جایگاہ عالم ذر و ارواح در فطرت توحیدی انسان، تہران، موسسہ فرہنگی نبأ، 1394ہجری شمسی۔
- بیہقی، احمد بن حسین، القضاء و القدر، ریاض، مکتبۃ العبیکان، 1421ھ۔
- جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، قم، اسراء، 1392ہجری شمسی۔
- زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف، بیروت، دار الکتاب العربی، 1407ھ۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، تفسیر الشریف المرتضی، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، 1431ھ۔
- شبر، عبداللہ، تفسیر القرآن الکریم، قم، دارالہجرۃ، بیتا.
- شرف الدین، عبدالحسین، فلسفۃ المیثاق و الولایۃ، بیروت، مؤسسۃ آل البیت (ع) لإحیاء التراث، 1432ھ۔
- شیخ بہایی، محمد بن عزالدین، الأربعون حديثا، قم، جماعۃ العلماء و المدرسين في الحوزۃ العلميۃ بقم المقدسۃ، 1431ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بیتا.
- شیخ مفید، محمد بن محمد، المسائل العکبریۃ، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
- صدرالدین شیرازی، محمد بن ابراہیم، تفسیر القرآن الکریم، قم، بیدار، 1366ہجری شمسی۔
- صدرینیا، حسین، عالم ذر، تہران، سایہ روشن، 1388ہجری شمسی۔
- صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشي النجفي (رہ)، 1404ھ۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، الاعلمی فی المطبوعات، 1390ھ۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تہران، مکتبۃ العلمیۃ الإسلامیۃ، 1380ھ۔
- فیض کاشانی، محمد محسن بن شاہ مرتضى، الوافی، اصفہان، كتابخانہ امام أمير المؤمنين على(ع)، 1406ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
- گذشتہ، ناصر، «الست»، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی.
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1403ھ۔