اسرائیل

ویکی شیعہ سے
(صیہونیوں کی حکومت سے رجوع مکرر)
اسرائیل
عام معلومات
سرکاری دینیہودی، صیہونیست
کل آبادی9 میلین 842 ہزار نفوس (سال 2024ء)[1]
دار الحکومتیروشلیم (مقبوضہ فلسطین) تل‌ابیب
سرکاری زبانعبری
اسلام
مسلم آبادی1 میلین 728 ہزار نفوس (سال 2022ء)/شیعیان: 6000 تا 10000 نفر
شیعوں کی تعداد
مسلم آبادی کے تناسب سے فیصد18٪ (سال 2022ء)
تشیع کی تاریخ
تاریخی واقعاتفلسطین پر قبضہ(سنہ 1948ء)
شیعہ مراکز
زیارتگاہیںمقام رأس الحسین (عسقلان)


اسرائیل یا صیہونی حکومت نے سنہ 1948ء میں صیہونی ازم کی بنیاد پر فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرکے اپنے وجود کا اعلان کیا۔ دنیا کے تمام مسلمان اسرائیل کو ایک غیر قانونی اور جعلی حکومت نیز اسے اسلام کا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ شیعہ مراجع تقلید نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی معاہدے کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور اس حکومت کو سرزمین فلسطین سے نکالے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اسرائیل میں کئی شیعہ مراکز اور مزارات ہیں؛ ان میں سے کچھ یہ ہیں: عسقلان میں مقام راس الحسین، قدس سے یافا کے راستے میں مقام امام علیؑ، بنت امام حسینؑ حضرت فاطمہ(س) سے منسوب مقبرہ اور ایک سکینہ بنت الحسینؑ سے منسوب مزار۔

کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کی بعض یونیورسٹیوں میں اسلام اور شیعہ شناسی جیسے عناوین پر تحقیقات سرانجام دی جاتی ہیں۔ یروشلم یونیورسٹی، حَیْفا، تل ابیب اور بار ایلان کو اسرائیل میں اسلامی علوم کے اہم ترین مراکز سمجھے جاتے ہیں۔

بہت سے اسلامی ممالک جیسے انڈونیشیا، پاکستان، شام، عراق، ملائیشیا، سعودی عرب، یمن اور ایران (اسلامی انقلاب کے بعد) صیہونی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے ساتھ سیاسی اور تجارتی تعلقات قائم نہیں کرتے ہیں۔

اسرائیل کے قیام اور فلسطین پر قبضہ جمانے کے مختلف قسم کے نتیجے برآمد ہوئے ہیں ان میں چند یہ ہیں: کثیر تعداد میں فلسطینیوں کا قتل عام اور بہت سوں کو بے گھر کیا جانا، فلسطین اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں مزاحمت اور عوامی تحریکوں کی تشکیل اور بین الاقوامی سطح پر اسرائیل خلاف احتجاجات کا سلسلہ۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق، سنہ 2023ء تک، فلسطین کا صرف %15 سے بھی کم حصہ (بشمول غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے علاقے) فلسطینیوں کے قبضے میں ہے۔

صیہونیوں نے فلسطین میں اسرائیل کے قیام کے جواز میں کئی قسم کی وجوہات دلائل بیان کی ہیں؛ ان میں بعض یہ ہیں: یہودی برگزیدہ قوم ہیں اور فلسطین وہ سرزمین ہے جس کا یہودیوں سے وعدہ کیا گیا ہے اس لیے فلسطینی عربوں کو یہاں سے بے دخل کرنا یہودیوں اور صیہونیوں کا حق ہے۔ ہولوکاسٹ اور "لوگوں سے خالی سرزمین ان کے ہے جن کے پاس سرزمین نہیں" کا نعرہ۔

320x320پیکسل

شیعہ علما کے اسرائیل مخالف نظریات

شیعہ علماء نے ہمیشہ اسرائیل کے قیام کی مخالفت اور اس کے مظالم و جرائم کی مذمت کی ہے۔ بعض مراجع تقلید؛ جیسے سید محمد ہادی میلانی،[2] امام خمینی[3] اور محمد فاضل لنکرانی[4] وغیرہ نے اسرائیل کے کسی قسم کے تعلقات قائم کرنےاور اسرائیلی سامان کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے۔ سید محسن حکیم، سید ابوالقاسم خوئی، آیت اللہ بروجردی، سید عبد الحسین شرف الدین اور سید ابوالقاسم کاشانی[5] اور امام خمینی[6] جیسے دوسرے بعض مجتہدین نے اسرائیل کے جرائم کی مذمت کرتے ہوئے اس حکومت کو فلسطین سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چودہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ عبد الکریم زنجانی نے سنہ 1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے وجود اور عربوں کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کا اعلان کرنے کے بعد اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا ہے۔[7]

امام خمینی نے اسرائیل کو اسلام، قرآن اور پیغمبر اکرم(ص) کا سب سے بڑا اور ایسا دشمن قرار دیا ہے جو اسلامی ممالک کے خلاف کسی جرم کے ارتکاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔[8] مرتضی مطہری کے مطابق اسرائیل مسلمانوں کا سخت ترین اور خطرناک دشمن ہے۔[9]

میں اسرائیل کی آزادی کے منصوبے کی حمایت اور اسے تسلیم کرنے کو مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور اسلامی حکومتوں کو معدوم کرنے کا پیش خیمہ اور اس کی مخالفت کو اسلام کا عظیم فریضہ سمجھتا ہوں۔[10]

امام موسیٰ صدر اسرائیلی حکومت کو اجارہ داری، ظلم و بربریت، قبضے اور بے رحمی کا استعارہ سمجھتے ہیں[11] آیت اللہ خامنہ ای صیہونی حکومت کو غاصب اور مجرم،[12] جھوٹا،[13] بچوں کا جلاد و قاتل؛[14] جعلی[15] سمجھتے ہوئے اسے اسلام اور انسانیت کے بدترین دشمن[16] قرار دیتے ہیں۔

اسلامی ممالک کا اسرائیل کےساتھ رابطہ

مسلم ممالک اور اسرائیل کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ بہت سے اسلامی ممالک جیسے انڈونیشیا، پاکستان، شام، عراق، افغانستان، الجزائر، بنگلہ دیش، کویت، لبنان، لیبیا، ملائیشیا، عمان، قطر، صومالیہ، سعودی عرب، تیونس، یمن اور ایران (اسلامی انقلاب کے بعد) اسرائیلی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔[17]

تاہم، اسلامی ممالک کے بعض حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لایا ہوا ہے۔ مصر، اردن، بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور مراکش سمیت انہی ممالک میں شامل ہیں۔[18] ترکی کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور باہمی تعاون قائم کرنے والا پہلا مسلم ملک سمجھا جاتا ہے۔ ترکی نے مارچ 1949ء میں اسرائیل کو تسلیم کیا اور سنہ 1952ء میں اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے۔[19]

مارچ 1950ء میں ایران نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم کر لیے۔[20] دو سال بعد جب محمد مصدق اقتدار میں آئے تو ان کی حکومت نے سرکاری طور پر اسرائیل سے تعلقات منقطع کر لیے۔[21] محمد رضا پہلوی کی حکومت میں، ایران اور اسرائیل کے درمیان تعلقات دوبارہ شروع ہوئے اور ستمبر1967ء میں اسرائیلی سفارت خانے نے باضابطہ طور پر ایران میں کام کرنا شروع کیا، جو ایرانی اسلامی انقلاب کی کامیابی تک فعال رہا۔[22] ایران میں 11 فروری 1979ء کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات منقطع ہوگئے اور اسرائیلی سفارت خانے کو فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔[23]

اسرائیل میں اسلام اور شیعہ شناسی پر تحقیق کا سلسلہ

شیعہ مذہب اور ایران دو ایسے موضوعات ہیں جن پر اسرائیلی یونیورسٹیوں میں تحقیقی مضامین لکھے جاتے ہیں۔[24] "اسرائیل میں اسلامی مطالعات" نامی کتاب میں آیا ہے کہ اسرائیل نے دنیا کے بہت سے تعلیمی مراکز اور ممتاز شخصیات کو متحرک کر کے اپنی تحقیقی سرگرمیوں کا ایک بڑا حصہ اسلام، اسلامی فرقوں، مسلمانوں اور اسلامی معاشروں کے ساتھ مختص کردیا ہے۔[25]

اسلام کے بارے میں تحقیق کی کتاب کی تصویر مولف: اکبر محمودی

"شیعہ مطالعات" اور "انگریزی زبان شیعہ تحقیق کرنے والے" نامی کتاب کے مطابق بیت المقدس میں واقع اسرائیل کی اہم یونیورسٹیوں میں سے یروشلم کی عبرانی زبان کی یونیورسٹی میں باقاعدہ طور پر شیعہ مذہب کے موضوع پر نظریہ پردازی کی نشستیں منعقد ہوتی ہیں۔[26] اسرائیل کی سب سے بڑی یونیورسٹی تل ابیب یونیورسٹی کو اسلام اور شیعہ شناسی کا اہم مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔[27]

ایتھن کاہلبرگ کی تصنیف "شیعہ امامیہ کا عقیدہ اور فقہ" نامی کتاب،[28] جوزف الیاس کی "شیعہ امامیہ ان کی روایات کی رو سے" نامی کتاب[29] اور زابینه اِشْمیتْکِه کی کتاب "شیعہ امامیہ کا کلام، فلسفہ اور عرفان" وہ کتابیں ہیں جو اسرائیل میں شیعہ شناسی کے عنوان پر لکھی گئی ہیں۔ زابینه اِشْمیتْکِه نے سنہ 2002ء میں اسلامی جمہوری ایران کا سالانہ عالمی میڈل انعام دریافت کیا۔[30]

مقبوضہ فلسطین میں شیعہ اور شیعہ مقامات کی حالت

مقبوضہ فلسطین میں شیعہ آبادی کی تعداد کے سلسلے میں اسرائیل کی جانب سے کوئی درست اعداد و شمار بتائے نہیں گئے ہیں۔ مقبوضہ القدس کے شماریاتی مرکز نے اعلان کیا ہے کہ سنہ 2007ء میں شیعوں کی تعداد 600 تھی؛ لیکن اس اعداد و شمار کو درست نہیں سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ شیعوں کی ایک بڑی تعداد اسرائیلی سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے پہچانے جانے کے خوف سے اپنے شیعہ ہونے کو چھپاتی ہے۔ یمن ٹی وی کی چینل 7 کی ویب سائٹ نے اسی سال شیعوں کی تعداد 6000 بتائی۔ یہ تعداد 10,000 تک بھی بتائی گئی ہے۔[31]

کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے وجود کے اعلان کے بعد سے شیعہ اسرائیل میں رہ رہے ہیں اور "اولاد عبد الرافع" اور "حقیقی شیعیان" جیسے شیعہ گروہ خفیہ طور پر سرگرم ہیں۔[32] سنہ 2022ء میں مقبوضہ علاقوں (اسرائیل) میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک میلین سات لاکھ اٹھائیس ہزار بتائی گئی ہے۔[33]

مقبوضہ فسلطین میں اہل بیتؑ سےمنسوب مقامات

فائل:زیارتگاه رأس الحسین در عسقلان فلسطین.jpg
زیارت گاه مقام رأس‌الحسین (عسقلان) فلسطین۔

عسقلان میں مقام راس الحسین اسرائیل میں موجود شیعہ مراکز میں سے ایک ہے جسے بعض محققین مقبوضہ فلسطین میں اہل بیتؑ سے منسوب سب سے اہم اور مشہور زیارت گاہ سمجھتے ہیں۔[34] اس مقام کی شہرت اور اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ ایک قول کے مطابق امام حسینؑ کا سر مبارک یہاں مدفون ہے۔[35] کہا جاتا ہے کہ امام حسینؑ کا سر مبارک چھٹی صدی ہجری کے وسط میں قاہرہ منتقل کیا گیا تھا؛ لیکن عسقلان میں مقام راس الحسینؑ کا احترام اسی طرح باقی رہا اور لوگ اس کی زیارت کرتے ہیں۔[36]

یہاں بہت سے مقامات امام علیؑ سے بھی منسوب ہیں؛ منجملہ قدس سے یافا جاتے ہوئے راستے میں (تل ابیب) میں مقام و زیارت گاہ امام علیؑ، ابھی اسے منہدم کردیا گیا ہے، شہر نابلس، عَکّا اور لُد میں مقام امام علیؑ ان میں سے نابلس شہر، ایکر شہر اور لود شہر میں امام علی (ع) کا مقام ہے۔[37] شہر الخلیل میں فاطمہ بنت الحسینؑ سے منسوب ایک قبر ہے، اسی طرح شہر طبریہ میں ایک اور مقبرہ ہے جو سکینہ بنت الحسین سے منسوب ہے۔[38]

فلسطین پر قبضہ اور اسرائیلی ریاست کا باقاعدہ اعلان

14 مئی 1948ء کو فلسطین پر برطانوی تسلط کے خاتمے کے ساتھ،[39] اسرائیلی ریاست کے بانی اور اس کے باپ ڈیوڈ بین گوریون[40] نے تل ابیب کے جلسہ گاہ میں اسرائیل کی آزادی اور قیام کا اعلان کیا۔[41] اس کے بعد فلسطین پر سرکاری قبضہ شروع ہوگیا۔[42]

اسرائیل کے سنہ 1917ء سے 2020ء تک فلسطین پر قبضے کا عمل۔ سفید رنگ: مقبوضہ علاقے۔

اسرائیلی ریاست کے اعلان کے ایک دن بعد، پانچ عرب ممالک (مصر، لبنان، شام، اردن اور عراق)[43] کی فوجیں فلسطین کے تحفظ کے لیے اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑی۔[44] اس جنگ کے بعد مقبوضہ علاقے %78 تک پہنچ گئے۔[45]

میڈیا رپورٹس کے مطابق سنہ 2023ء تک فلسطینیوں کی زمین کا 15 فیصد سے بھی کم حصہ (بشمول غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے علاقے) فلسطینیوں کے ہاتھ میں باقی رہا اور دیگر علاقوں پر صیہونیوں نے قبضہ کر لیا۔[46]

اسرائیلی ریاست کے اعلان کے دن کو فلسطینیوں میں "یوم نکبت" یا "یوم فاجعہ" کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہ ہر سال اس دن کی مذمت کرتے ہیں اور اس موقع پر مظاہرے بھی کرتے ہیں۔[47] بیت المقدس اور فلسطین پر بے جا قبضہ کرنے کی وجہ سے اسرائیل غاصب حکومت کے طور پر جانا جاتا ہے۔[48]

سنہ 1948ء میں فلسطینی عوام کو اپنے گھروں سے جبری جلاوطن کردیا گیا،
فلسطین پر قبضہ سنہ 1880ء سے 2020ء تک۔
تھمب نیل بنانے کے دوران میں نقص:
14 مئی سنہ 1948ء کو بین گوریون نے تل ابیب کےاسمبلی ہال میں اسرائیل کے وجود کا اعلان کیا۔

اسرائیلی ریاست کےاعلان کے بعد برآمد شدہ نتائج

باقاعدہ طور پر اسرائیلی ریاست کے اعلان اور فلسطین پر اس کے قبضے کے بعد فلسطین اور عالم اسلام پر مختلف قسم کے اثرات مرتب ہوئے جن میں سے کچھ یہ ہیں:

فلسطینیوں کا قتل عام اور بے گھر ہونا: مرکز اطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1948ء سے 2023ء تک اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔[49] اس مرکز نے "آنروا" کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سنہ 2020ء تک فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد 6.4 ملین تک پہنچی ہے۔[50]

مزاحمتی تحریک کی تشکیل اور عوامی قیام کا سلسلہ: اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضے کے بعد یہاں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں مختلف تحریکیں اور مزاحمتی تنظیمیں وجود میں آئیں، سنہ 1959ء میں تحریک فتح تشکیل پائی،[51] سنہ 1964ء میں تنظیم آزادی فلسطین کی بنیاد رکھی گئی،[52] سنہ 1979ء میں تحریک جہاد اسلامی فلسطین بنی،[53] اور سنہ 1987ء میں حماس بنا۔[54] اسی طرح سنہ 1975ء کو لبنان میں تحریک امل[55] اور سنہ 1982ء میں حزب اللہ لبنان وجود میں آئی۔[56] یہ ساری تحریکیں اور تنظیمیں اسرائیل مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے وجود میں آئیں۔

فلسطینی عوام نے اپنی سرزمین پر قبضے کے دوران کئی بار اسرائیل کے خلاف قیام کیا۔[57] فلسطین میں بھی تین تین اسم کی انقلابی تحریکیں وجود میں آئیں: پہلا انتفاضہ (پتھر کا انتفاضہ) سنہ 1987ء میں بنا، دوسرا انتفاضہ (الاقصی انتفاضہ) ستمبر 2000ء میں وجود میں آیا اور تیسرا انتفاضہ (قدس انتفاضہ) یکم اکتوبر2015ء کو بنا۔[58]

اسرائیل کی بنیاد رکھنے کے اغراض و مقاصد

صحن براق کے آخری کونے میں کھدائی، ہیکل سلیمانی کی دریافت اور تعمیر نو کے لیے قدس اور مسجد اقصی کے نیچے صیہونی حکومت کی کھدائی کی ایک مثال۔

اسرائیلی ریاست کی بنیاد رکھنے کا اہم ترین ہدف یہ تھا کہ یہاں یہودی شناخت اور مشرق وسطیٰ میں علاقائی سپر پاور کے حامل ایک ملک کا قیام عمل میں لایا جائے جسے گریٹر اسرائیل(Greater Israel) کا نام دیا گیا۔[59] ایک فرانسیسی مصنف اور سیاست دان راجر گاراڈی(Roger Garaudy) کا خیال ہے کہ صہیونیوں کا بنیادی ہدف تمام یہودیوں کی "ارض موعود" کی طرف ہجرت کرنا[60] اور فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام ہے۔[61] امام خمینی کے مطابق فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا واحد مقصد عالم اسلام پر غلبہ حاصل کرنا اور اسلامی سرزمینوں کو استعماری طاقت کا آماجگاہ بنانا تھا۔[62]

اسرائیل کے قیام کی صہیونی وجوہات

"وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تین ہزار سال پہلے، ہم میں سے دو افراد [داؤد اور سلیمان] نے وہاں ایک عارضی مدت کے لیے حکومت کی۔۔۔ ان تمام دو تین ہزار سالوں میں، فلسطین کی سرزمین یہودیوں سے متعلق کب ہوئی؟۔۔۔ نہ اسلام سے پہلے ان کا تھا اور نہ اسلام کے بعد۔ جس دن مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا اس دوران فلسطین یہودیوں کے ہاتھ میں نہیں عیسائیوں کے ہاتھ میں تھا۔ اتفاق کی بات یہ کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کی، جو چیز انہوں نے امن معاہدے میں شامل کی تھی وہ یہ تھی کہ تم یہودیوں کو یہاں نہ آنے دو۔ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اچانک سے اس جگہے کا نام یہودیوں کے وطن کا نام کیسے پڑ گیا؟"[63]

صیہونیوں نے فلسطین پر قبضہ کرنے اور وہاں اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کے چند قسم کے اسباب اور جواز پیش کیے ہیں، جنہیں اسرائیلی دیومالائی کہانی یا اسرائیل کا افسانہ بھی کہا جاتا ہے۔[64] ان اسباب و وجوہات میں سے کچھ مذہبی پہلو کے حامل ہیں جبکہ دیگر کچھ غیر مذہبی پہلو رکھتے ہیں: ان کا ایک مذہبی پہلو یہ ہے کہ صیہونیوں کے مطابق فلسطین "ارض موعود" ہے[65] جس کا سِفْر پیدائش[یادداشت 1] میں اس زمین کو اولاد ابراہیمؑ کو بخشے جانے کے بارے میں ذکر آیا ہے۔[66] صیہونیوں کے مطابق، اس سرزمین سے دوسروں کو بے دخل کرنا جس کا صرف بعض لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا، نہ صرف ایک حق ہے بلکہ ایک فرض بھی ہے۔[67]

ہولوکاسٹ کا واقعہ صہیونیوں کی غیر مذہبی وجوہات میں سے ایک ہے اور وہ اسے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا جواز بلکہ بنیادی وجہ سمجھتے ہیں؛[68] یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کی ریاست کا قیام اللہ کی جانب سے ایک عظیم قربانی کا بدلہ تھا۔[69] یہودیوں کا خیال ہے کہ اس واقعہ میں دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہاتھوں چھ لاکھ یہودی مارے گئے تھے۔[70] یہ واقعہ صیہونیوں کو اپنے ظلم و ستم کا رونا رونے اور عالمی برادری سے اس کی تلافی کے مطالبے کا سبب بنا۔ یورپی ممالک بھی اس نقصان کی تلافی کے بہانے ان کے لیے ایک آزاد حکومت قائم کرنے فکرمند ہوگئے۔[71] تاہم، اس معاملے کے ناقدین یہودیوں کے اس دعوے اور ان کی موت سے متعلق اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہیں۔[72]

جنگیں اور قتل و غارت

اسرائیل نے فلسطین اور لبنان کے عوام اور خطے کے مسلم ممالک پر بارہا حملے کیے ہیں اور متعدد جنگیں شروع کی ہیں جن کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری مارے گئے ہیں اور ان علاقوں میں بڑی تباہیاں ہوئی ہیں۔[73]

اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ ۳۳ روزہ جنگ میں تباہ شدہ علاقوں کا منظر(ضاحیه، جنوب بیروت، سنہ 2006ء)

نیز، اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے لوگوں پر بارہا حملہ کیا ہے۔ منجملہ سنہ 2008ء کی 22 روزہ جنگ، سنہ 2012ء کی 8 روزہ جنگ اور سنہ 2014ء کی 51 روزہ جنگ ان جنگوں کی مثالیں ہیں۔[74] اکتوبر 2023ء میں اسرائیل طوفان الاقصیٰ کے جواب میں غزہ کی پٹی پر حملہ کیا جس میں 20,000 سے زائد فلسطینی شہید اور 54 ہزار سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں۔[75]

جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر آیت‌ اللہ خامنه‌ ای کا عالمی یوم قدس کے اجتماع سے خطاب:
"موجودہ زمانے میں انسانی جرائم میں اس حجم اور اس شدت کے ساتھ کوئی جرم نہیں ہے۔ کسی ملک پر قبضہ کرنا اور لوگوں کو ان کے گھروں اور آبائی زمینوں سے ہمیشہ کے لیے بے دخل کرنا، انہیں قتل و غارت کرنا، انتہائی گھناؤنے انداز میں ان کی نسل کشی کرنا اور تاریخ میں کئی دہائیوں پر مشتمل ظلم و جبر درندگی اور شیطان صفتی کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ "۔[76]

اجتماعی قتل و غارت

فلسطین پر قبضے کے دوران اسرائیل نے فلسطین اور اس کے اطراف کے علاقوں میں بے شمار قتل عام کیے ہیں۔ کچھ خبر رساں ایجنسیوں نے 120 مرتبہ اسرائیلی مظالم کا ذکر کیا ہے۔[77] مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1948ء سے سنہ 2023ء تک صیہونیوں کے ہاتھوں 100 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔[78] فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جرائم اور صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہریوں اور بچوں کے قتل کو عالمی برادری نے فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا ہے۔[79]

دہشتگردانہ حملے

خبر رساں ایجنسیز کے اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیلی صیہونیوں نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے دوران سے اب تک 2,700 سے زیادہ دہشتگردانہ حملے کیے ہیں۔[80] انگریزی اخبار آئرش انڈیپنڈنٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی (موساد) کو"دنیا کا سب سے قتل و غارت کرنے والا قاتل" کا عنوان دے کر اسے بے رحمانہ قاتل مشین کا لقب دیا ہے۔[81] اسرائیل کی دہشتگردی صرف فلسطینی سرزمین اور مقاومتی مجاہدین تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے دنیا بھر میں کئی سیاسی رہنماؤں اور سائنسدانوں کو بھی قتل کیا ہے۔[82] اسرائیلی دہشتگردانہ حملوں کا شکار ہونے والوں میں سے کچھ یہ ہیں: لبنان میں حزب اللہ کے دوسرے سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی، حزب اللہ کا کمانڈرعماد مغنیہ، لبنانی مزاحمتی بلاک سردار شہداء لقب پانے شیعہ عالم دین راغب حرب، لبنانی مزاحمتی تنظیم کے رکن سَمیر قِنْطار، آزادی فلسطین تحریک کے بانی فتحی شقاقی، حماس کے رہبران شیخ احمد یاسین اور اسماعیل ہنیہ۔[83] [84] دستاویزات اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق، اسرائیلی انٹیلیجنس (موساد) ایرانی جوہری سائنسدانوں جیسے علی محمدی، شہریاری، احمدی روشن، رضائی نژاد اور فخر زادہ کے قتل میں بھی ملوث تھی۔[85]

بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کی خلاف ورزی

اسرائیل اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کا نقشہ

اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مخالفت کے سلسلے میں عالمی ریکارڈ ہولڈر جانا جاتا ہے۔[86] کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سنہ 1948ء سے سنہ 2016ء تک 102 سے زائد قراردادیں اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے سنہ 2066ء سے سنہ2023ء تک اسرائیل کی مذمت میں 104 قراردادیں پاس کیں ہیں۔[87] امریکہ نے سنہ 1972ء سے 1996ء تک اسرائیل کی حمایت میں تیس بار اقوام متحدہ کی اسرائیل کی مذمت میں پاس کی گئی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے۔[88]

اسرائیل کے اقدامات کی مذمت میں پاس ہونے والی قراردادوں میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  • 22 نومبر 1974ء کی قرارداد نمبر 3236: اس قرارداد میں فلسطینیوں کے لیے حق خود ارادیت اور خودمختاری اور پناہ گزینوں کو اپنی زمینوں پر واپس جانے کے حق کی منظوری دی گئی لیکن اسرائیل نے اس قرارداد کو پاؤں تلے روند ڈالی۔[89]
  • 23 دسمبر 2016ء کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2334: یہ قرارداد فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیرات کی مذمت اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کے سلسلے میں جاری کی گئی تھی۔[90]
  • سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر242: اس قرارداد میں 22 نومبر1967ء کو سلامتی کونسل نے سنہ 1967ء میں مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے صیہونی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کیا۔[91]

اس جوہری مذاکرات کے مکمل ہونے کے بعد سننے میں آیا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کی طرف سے کہا گیا کہ فی الحال ہم ان مذاکرات کی وجہ سے 25 سال تک ایران کی طرف سے پیدا کی جانے والی پریشانیوں سے آزاد ہو جائیں گے... میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ [اسرائیل] اگلے 25 سال نہیں دیکھ پائیں گے! ان شاء اللہ اگلے 25 سالوں میں اللہ کے فضل و کرم سے خطے میں صیہونی حکومت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔[92]

کتابیات

اسرائیل کی تاریخ تشکیل، اس کی پالیسیوں، جنگوں اور مسائل کے بارے میں دنیا کی مختلف زبانوں میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

  • دانشنامه صهیونیسم و اسرائیل: یہ کتاب فارسی زبان میں چھ جلدوں میں لکھی گئی ہے۔ یہ چھ جلدی کتاب 1900 عناوین پر مشتمل ہے۔ اس میں صیہونیسم اور اسرائیل کی شناخت کے سلسلے میں مطالب بیان ہوئے ہیں۔ مولف مجید صفاتاج ہیں اور "آرون" پبلیشرز نے اسے شائع کیا ہے؛
  • سیاست و دیانت در اسرائیل، یہ کتاب عبد الفتاح محمد ماضی کا قلمی اثر ہے جسے غلام رضا تہامی نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے: یہ کتاب پہلی بار سنہ 2002ء میں سنا پبلیشرز نے شائع کیا ہے؛
  • مجموعه چہارجلدی «تو زودتر بکش»، اس کتاب کا مصنف رونین برگمن ہیں جسے وحید خضاب نے فارسی زبان میں ترجمہ کیا ہے: یہ کتاب درحقیقت اسرائیلی آپریشنل اور انٹیلی جنس فورسز موساد کے ساٹھ سال پر محیط قتل عام کی داستان ہے۔ اسے "شہید کاظمی" پبلیشرز نے 2020ء میں قم سے شائع کیا ہے۔[93]
  • ماجرای فلسطین و اسرائيل، تألیف: مجید صفا تاج، تہران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چاپ اول، 1380شمسی؛
  • ده غلط مشهور درباره اسرائیل (وہ چیزیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن عام لوگ اسے حقیقت سمجھتے ہیں): تصنیف: ایلان پاپه، اسرائیلی مورخ، اس کو وحید خضاب نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب میں ایسے دس خرافات اور غلط افکار کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے جن کی بنیاد پر اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔[94] ان غلط افکار میں سے ایک صیہونیت کی یہودیت کے ساتھ اور صیہونیت کی یہود دشمنی کو مساوی اور برابر جاننے کا خیال ہے جسے اس کتاب کے تیسرے باب میں رد کیا گیا ہے۔[95] یہ کتاب پہلی بار کتابستان معرفت پبلیشرز نے سنہ 2019ء میں شائع کیا ہے؛
  • اسلام‌ پژوهی در اسرائیل، قلمی اثر: اکبر محمودی: اس کتاب میں اسرائیل میں اسلام کے بارے میں تحقیقات انجام دیے جانے کے اہم ترین مراکز، افراد اور کام اور تحقیق کا تعارف کرایا گیا ہے۔[96]

مذکورہ کتب کے علاوہ عربی، انگریزی اور اردو زبان میں اسرائیل سے متعلق متعدد کتابیں ضبط تحریر میں لائی گئی ہیں۔

حوالہ جات

  1. jewish virtual library. ,«Vital Statistics: Latest Population Statistics for Israel»
  2. پاک‌ نیا تبریزی، «علمای شیعه و دفاع از قدس شریف»، ص160و161۔
  3. خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج2، ص139۔
  4. محتشمی‌پور، «مروری بر شکل‌گیری رژیم اشغالگر قدس»، ص122۔
  5. ملاحظہ کیجیے: پاک‌ نیا تبریزی، «علمای شیعه و دفاع از قدس شریف»، ص156-163۔
  6. خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج2، ص139 و ج6،‌ ص469۔
  7. سرحدی، «علمایی که نسبت به مسئله فلسطین واکنش نشان دادند»،‌ پژوهشکده تاریخ معاصر۔
  8. خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج19، ص28۔
  9. مطهری، مجموعه ‌آثار،‌ 1390شمسی، ج26،‌ ص340۔
  10. خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج16، ص293۔
  11. «اسرائیل باطل مطلق است»، سایت موسسه تحقیقاتی فرهنگی امام موسی صدر۔
  12. «سخنرانی تلویزیونی به مناسبت روز جهانی قدس»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔
  13. «بیانات در مراسم گشایش کنفرانس بین‌المللی حمایت از انتفاضه فلسطین»، پایگاه اطلاع‌ رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔
  14. «بیانات در دیدار مسئولان نظام و سفرای کشورهای اسلامی»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای؛ «بیانات در دیدار دست‌ اندرکاران دومین کنگره ملی شهدای ورزشکار»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔
  15. «بیانات در دیدار مسئولان نظام و سفرای کشورهای اسلامی»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔
  16. «بیانات در دیدار جمعی از خانواده‌های شهدا و آزادگان»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔
  17. دهقان، «آشنایی اجمالی با رژیم غاصب کودک‌کش اسرائیل»، روزنامه اترک، تاریخ 9 اردیبهشت 1401شمسی؛ توفیقی، «کدام کشورها اسرائیل را به رسمیت نمی‌شناسند؟»، خبرگزاری رویداد 24۔
  18. توفیقی، «کدام کشورها اسرائیل را به رسمیت نمی‌شناسند؟»، خبرگزاری رویداد 24۔
  19. مؤسسه تحقیقات و پژوهش‌های سیاسی-علمی ندا، مروری بر روابط خارجی رژیم صهیونیستی، 1389ش، ص337۔
  20. سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص388۔
  21. سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391ش، ص388۔
  22. سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص389۔
  23. رجوع کیجیے: سویدان، دایرة المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391 شمسی، ص399۔
  24. رضوی، «مرجعیت‌پژوهی در اسرائیل»، وبگاه پرتوی از جامعه ایرانی۔
  25. محمودی، اسلام‌پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص302۔
  26. حسینی، شیعه‌ پژوهی و شیعه‌ پژوهان انگلیسی‌زبان، 1387شمسی، ص49۔
  27. «مطالعات اسلام‌ شناسی و شیعه‌ شناسی در دانشگاه تل آویو»، پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه۔
  28. حسینی، شیعه‌پژوهی و شیعه‌پژوهان انگلیسی‌زبان، 1387ش، ص49؛ محمودی، اسلام‌پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص118۔
  29. محمودی، اسلام‌ پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص233و306۔
  30. محمودی، اسلام‌ پژوهی در اسرائیل، 1399ش، ص217 و 218۔
  31. معتز، «شیعه در اسرائیل»، دوهفته‌نامه پگاه حوزه۔
  32. معتز، «شیعه در اسرائیل»، دوهفته‌نامه پگاه حوزه۔
  33. jewish virtual library. ,«Vital Statistics: Latest Population Statistics for Israel»
  34. خامه‌ یار، «مزارات اهل‌بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص183۔
  35. خامه‌ یار، «مزارات اهل‌بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص183۔
  36. خامه‌ یار، «مزارات اهل‌بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص184۔
  37. ملاحظہ کیجیے: خامه‌ یار، «مزارات اهل‌ بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص182 و 183؛ «از آثار اسلامی و زیارتی اهل‌بیت(ع) در فلسطین چه می‌دانیم؟»، خبرگزاری رضوی۔
  38. خامه‌ یار، «مزارات اهل‌ بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص185و186۔
  39. کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392ش، ص186؛‌ ,Sicherman and others «Israel», The Encyclopaedia Britannica۔
  40. مهتدی، «بن گوریون،‌دیوید»، ص356۔
  41. سویدان، دایره المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391ش، ص261؛ کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392ش، ص186۔
  42. «روز نکبت و جنایات صهیونیست‌ها از سال 1948 تا به الان»،‌ خبرگزاری فارس۔
  43. صفاتاج، ماجرای فلسطین و اسرائیل، 1381ش، ص199؛ کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392شمسی، ص187۔
  44. Nakba Day: What happened in Palestine in 1948?», Al Jazeera Media Network۔
  45. کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392ش، ص201؛ صفاتاج، ماجرای فلسطین و اسرائیل، 1381ش، ص202؛ Nakba Day: What happened in Palestine in 1948?», Al Jazeera Media Network۔
  46. «نقشه فلسطین و مساحت غزه»، شبکه العالم؛ «75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین۔
  47. Ashly and Hefawi, «Nakba: ‘It remains bitter and continues to burn’», Al Jazeera Media Network؛ «تظاهرات مردم فلسطین به مناسبت روز نکبت»، خبرگزاری آناتولی۔
  48. ملاحظہ کیجیے:‌ خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج15، ص151، 154، 160 و162، ج16، ص399؛ محتشمی‌پور، «مروری بر شکل‌گیری رژیم اشغالگر قدس»، ص100،‌ 116 و 122۔
  49. «75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین۔
  50. «75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین۔
  51. کفاش و دیگران، دایر‌ة المعارف مصور تاریخ فلسطین،‌ 1392شمسی، ص210۔
  52. کفاش و دیگران، دایر‌ة المعارف مصور تاریخ فلسطین،‌ 1392شمسی، ص212۔
  53. مالکی و رشیدی، «جهاد اسلامی، جنبش»، ص437۔
  54. مالکی، «حماس، جنبش»، ص79 و 80۔
  55. خسروشاهی، «جنبش امل و امام موسی صدر (قسمت دوم)»، دفتر حفظ و نشر آثار و اندیشه‌های استاد سیدهادی خسروشاهی۔
  56. توفیقیان، «حزب الله نماد عزت و اقتدار لبنان»، وبگاه پژوهه۔
  57. «مروری بر تاریخ مبارزات مردمی فلسطین از 1967 تا 2022»، وبگاه مرکز اسناد انقلاب اسلامی۔
  58. «مروری بر تاریخ مبارزات مردمی فلسطین از 1967 تا 2022»، وبگاه مرکز اسناد انقلاب اسلامی۔
  59. نگاه کنید به: صفاتاج، ماجرای فلسطین و اسرائیل، 1381شمسی، ص164؛ «رؤیای صهیونیست‌ها در تأسیس اسرائیل بزرگ چگونه بر باد رفت؟»، خبرگزاری فارس: خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج21، ص398، پاورقی دوم۔
  60. گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384شمسی، ص41۔
  61. گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص75و76 و 82؛ گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384شمسی، ص66۔
  62. خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج3، ص2۔
  63. مطهری، مجموعه آثار، 1390شمسی، ج17،‌ ص288۔
  64. ملاحظہ کیجیے: گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص 13-17، 33، 35 و 47-50؛ پاپه، ایده اسرائیل، 1398شمسی، ص152۔
  65. فیروزآبادی، کشف الاسرار صهیونیسم، ‌1393شمسی، ص25؛ سجادی، پیدایش و تداوم صهیونیسم، 1386شمسی، ص45۔
  66. گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص37و38 و 187۔
  67. گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384شمسی، ص41۔
  68. گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384ش، ص76۔
  69. گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص171۔
  70. سویدان، دایره المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص297۔
  71. فیروزآبادی، کشف الاسرار صهیونیسم،‌1393شمسی، ص28۔
  72. سویدان، دایره المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص297و298۔
  73. ملاحظہ کیجیے: از عملیات سلامت الجلیل و شکل‌گیری حزب‌الله تا خوشه‌های خشم»، خبرگزاری تسنیم؛ «پرونده سنگین جنایت‌های ارتش اسرائیل»، خبرگزاری مهر۔
  74. ملاحظہ کیجیے: «پرونده سنگین جنایت‌های ارتش اسرائیل»، خبرگزاری مهر؛ «ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان»، خبرگزاری مشرق۔
  75. «الاحتلال يواصل تصعيده بالضفة ويعتقل عددا من الفلسطينيين»، خبرگزاری الجزیره۔
  76. «سخنرانی تلویزیونی به مناسبت روز جهانی قدس»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔
  77. ملاحظہ کیجیے: «ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان»، خبرگزاری مشرق۔
  78. «75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین۔
  79. ملاحظہ کیجیے: «نمایندگان پارلمان اروپا حملات اسرائیل علیه غزه را نسل‌کشی دانستند»، خبرگزاری آناتولی؛ Ayyash, «A genocide is under way in Palestine», Al Jazeera Media Network۔
  80. «مهمترین ترورهای انجام شده توسط اسرائیل در سراسر جهان»، پایگاه خبری جماران؛ «بیش از 2700 ترور هدفمند میراث شوم اسرائیل»، خبرگزاری جمهوری اسلامی۔
  81. «The world's deadliest assassins», Irish independent۔
  82. «نگاهی بر جنایات رژیم صهیونیستی در 86 سال گذشته»، خبرگزاری فارس۔
  83. «اسماعیل هنیه که بود؟»، خبرگزاری ایسنا۔
  84. ملاحظہ کیجیے: سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص346 و 347؛ «بیش از 2700 ترور هدفمند میراث شوم اسرائیل»، خبرگزاری جمهوری اسلامی۔
  85. برای نمونه نگاه کنید به: «Israel teams with terror group to kill Iran's nuclear scientists, U.S. officials tell NBC News», NBC news؛ «The world's deadliest assassins», Irish independent؛ «نقش آمریکا در عملیات تروریستی در ایران بعد از پیروزی انقلاب اسلامی»، مرکز اسناد انقلاب اسلامی۔
  86. چامسکی، مثلث سرنوشت‌ ساز، 1369شمسی، ص122۔
  87. نگاه کنید به:‌ «نگاهی به جنایات رژیم صهیونیستی در 86 سال گذشته»، خبرگزاری فارس۔
  88. گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص14۔
  89. «اسرائیل و نقض قطعنامه‌های بین‌المللی درباره بازگشت آوارگان فلسطینی»، خبرگزاری مهر۔
  90. «قطعنامه 2231 و دیگر قطعنامه‌های شورای امنیت که دولت ترامپ نقض کرد»، وبگاه جامعه خبری تحلیل الف۔
  91. دهقانی، «قطعنامه تقسیم فلسطین مبنای راه حل دو دولت و ملاکی برای راه حل همه پرسی»، ص1029۔
  92. خامنه‌ ای، فلسطین، 1397شمسی، ص603۔
  93. https://ketab.ir/book/af9a7c36-32b1-4bac-936b-49f557e83993
  94. پاپه، ده غلط مشهور درباره اسرائیل، 1399شمسی، ص14۔
  95. پاپه، ده غلط مشهور درباره اسرائیل، 1399شمسی، ص16 و 59-90۔
  96. محمودی، اسلام‌پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص26۔

نوٹ

  1. «اس دن یَهُوَه نے اِبْرام کے ساتھ عہد باندھا اور کہا: میں نے یہ ملک مصر کے دریا سے لے کر دریائے فرات تک تیری اولاد کو بخش دیا ہے»۔(عهد عتیق، سفر پیدایش، باب 15، آیه 18.)

مآخذ

بیرونی رابطہ