صارف:Mohsin/تختہ مشق 3

ویکی شیعہ سے
آیت رکوب
فائل:آیہ خلافت.png
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت رکوب
سورہبقرہ
آیت نمبر13-14
پارہ25
صفحہ نمبر490
محل نزولمکہ
موضوععقیدتی و اخلاقی
مضمونسواری کے وقت رب کی نعمتوں کو یاد کرنا


اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

آیت رُکوب یا آیت تسخیر سورہ زخرف کی 13ویں اور 14ویں آیات کو کہتے ہیں جن میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خدا کے فضل کے بغیرانسان اپنی سواری کو تسخیر اور اسے اپنے اختیار میں نہیں لاسکتا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو سواری جیسی نعمت سے مستفید ہوتے وقت کس طرح شکر ادا کرنا ہے؟ اس کا طریقہ بتایا گیا ہے نیز آخرت اور قیامت کو یاد کرنے کی تاکید کی ہے۔

حج اور جہاد کے دوران سواریوں پر سوارہوتے وقت آیت رکوب کا پڑھنا مستحب عمل ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیتؑ حیوانات پر سوارہوتے وقت یہ آیت پڑھا کرتے تھے۔

متن و ترجمہ آیت رکوب

لِتَسْتَوُوا عَلَى ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (13) وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ(14)


تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھو اور پھر اپنے پروردگار کی نعمت کو یاد کرو اور کہو پاک ہے وہ ذات جس نے ان چیزوں کو ہمارے لئے مسخر کر دیا اور ہم ایسے نہ تھے کہ ان کو اپنے قابو میں کرتے(13) اور بےشک ہم اپنے پروردگار کی طرف لو ٹنے والے ہیں(14)۔ (سورہ زخرف، آیت نمبر 13-14)


تعارف

سورہ زخرف کی 13ویں اور 14ویں آیات کو آیاتِ رکوب یا آیات تسخیر کہا جاتا ہے۔[1] ان آیات میں پچھلی آیات میں مذکور جانوروں اور کشتیوں جیسی ان نعمات الہی کا ذکر آیا ہے[2] جنہیں انسان سفر کے دوران منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔[3]

آیت رکوب میں انسانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ حیوانات پر سوار ہونے پر نعمت الہی کا شکر ادا کرنے کے لیے کیا کہنا چاہیے[4] اور اللہ کی طرف سے نعمتوں کی تخلیق کے حتمی مقصد کو مد نظر رکھ اللہ کا شکر کیسے ادا کرنا ہے۔[5]

آیات کے مندرجات

آیت رکوب میں مندرج مطالب فضل و الطاف الہی کی یاد دہانی کراتے ہیں اور یقیناً حیوانات اور دیگر سواریوں کے بارے میں انسان کی طرف سے ان کا شکر ادا کرنا، ان سے فائدہ اٹھانے کی طاقت حاصل کرنا اور انہیں رام کرنا خدا کے فضل کے بغیر ممکن نہیں۔[6] جیسا کہ بعض مفسرین نے اس معاملے میں انسانی بے بسی کو آیت کا ایک بنیادی پیغام قرار دیا ہے۔[7]

ناصر مکارم شیرازی سمیت بعض مفسرین نے ان سواریوں کے استعمال کے دوران فاصلوں کے کم ہونے اور انسانی رفتار میں اضافے کو خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک قرار دیا ہے، یہ سواریاں کم وقت میں زیادہ فاصلے طے کرنے کا سبب بنتی ہیں لہذا اللہ کی طرف سے دی گئی ان نعمات کا شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔[8]

اللہ تعالیٰ نے سورہ زخرف کی چودہویں آیت میں قیامت اور اس کی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔[9] بعض مفسرین آیت تسخیر میں قیامت کے تذکرے کو اس وجہ سے ضروری سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو ان نعمتوں کی لافانییت کا احساس نہیں ہو[10] اور وہ کبر و نخوت کا شکار نہ ہوں؛ نیز ان وسائل کو دوسروں پر برتری حاصل کرنے کے لیے استعمال نہ کرے؛[11] اسی طرح ان سواریوں کے ذریعے سفر کے دوران یہ چیز بھی انسان کے مد نظر رہے کہ اس نوعیت کے سفر کے علاوہ ایک اور اہم سفر بھی درپیش ہے اور وہ سفر آخرت ہے جس کے لیے وہ ہمہ وقت تیار رہے اور اسے فراموش نہ کرے[12] اور خدا کی طرف لوٹنے کے سلسلے میں کبھی غفلت کا شکار نہ ہوں۔[13]

حیوانات یا کشتیوں پر سوار ہونے کے بعد اللہ کی نعمتوں کو یاد کرنے کا مطلب ایک لحاظ سے اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں انسان کے لیے مسخر کی ہیں اور انسان ان کو اپنے استعمال میں لاتا ہے لہذا انہیں یاد کی جائے، یا اس لحاظ سے ہے کہ اللہ کی نعمتوں کی مطلق طور پر یاد دہانی ہو، کیونکہ عام طور پر انسان کسی نعمت کو یاد کرتا ہے تو وہ دوسری نعمتوں کو بھی یاد کرنے لگتا ہے۔[14] علامہ طباطبائی نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ اس آیت میں جملہ "سبحان الذی" میں تنزیہ سے مراد ربوبیت اور الوہیت میں شریک کی نفی اور تنزیہ ہے اور یہ نعمتوں پر شکرسے مختلف ہے، شکر میں یہ ہوتا کہ جب انسان نعمتوں کو یاد کرتا ہے تو اس وقت وہ نعمت دینے والے کو بھی یاد کرتا ہے۔ احادیث میں یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ انسان مَرکَب پر سوار ہوتے وقت اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرے۔ امام حسنؑ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنے مرکب پر سوار ہوتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کررہا ہے، امامؑ نے اس سے سوال کیا کہ کیا تمہیں اس کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے؟ اس نے امامؑ سے پوچھا کہ پس ہمیں کیا کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟، امامؑ نے فرمایا اپنے رب کی نعمتوں کو یاد کرو۔[15]

مرکب پر سوار ہوتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کا مستحب ہونا

روایات اور فقہی کتابوں میں آیا ہے کہ حج،[16] جہاد[17] یہاں تک کہ دیگر سفروں[18] میں بھی آیت رکوب کی تلاوت کرنا مستحب ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی خدا کی طرف سے اپنے انبیاء کو کشتیوں پر چڑھنے یا اترنے کے سلسلے میں تعلیم دی گئی ہے۔[19]

پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیتؑ کی سیرت میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ وہ حیوانات پر سوار ہوتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کیا کرتے تھے[20] یہاں تک کہ آیت کی تلاوت سے پہلے کچھ ابتدائی ذکر مثلا وحدانیت خدا اور پیغمبر خدا(ص) کی نبوت کی گواہی؛ پڑھنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔[21] بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ آیت صرف حیوانات پر سوار ہوتے وقت پڑھنے کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی سواری پر سوار ہوتے اس آیت کا پڑھنا مستحب ہے؛[22] البتہ بعض نے آیت رکوب کو صرف حیوانات پر سوار ہوتے وقت پڑھنے کو مستحب جانا ہے۔[23]

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۴۲۶ھ، ج‌۱، ص۱۷۱.
  2. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ھ، ج۱۷، ص۱۵۵.
  3. طوسی، التبیان، بیروت، ج۹، ص۱۸۶.
  4. ثعلبی، الکشف و البیان، ۱۴۲۲ھ، ج۸، ص۳۲۹.
  5. طوسی، التبیان، بیروت، ج۹، ص۱۸۶.
  6. شاہ عبد العظیمی، تفسیر اثنی عشری، ۱۳۶۳شمسی، ج۱۱، ص۴۵۷؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱شمسی، ج۸، ص۴۴۰.
  7. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸شمسی، ج۸، ص۴۴۰.
  8. سبزواری، الجدید فی تفسیر القرآن المجید، ۱۴۰۶ھ، ج۶، ص۳۴۳؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱شمسی، ج۲۱، ص۲۰.
  9. ثعلبی، الکشف و البیان، ۱۴۲۲ھ، ج۸، ص۳۲۹؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۱۸، ص۸۸.
  10. حسینی ہمدانی، انوار درخشان، ۱۴۰۴ھ، ج۱۵، ص۱۰۹.
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱شمسی، ج۲۱، ص۲۲.
  12. طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸ء، ج۵، ص۴۶۳؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، ۱۴۱۶ھ، ج۵، ص۸۷؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲شمسی، ج۹، ص۶۳؛ سلطان علی شاہ، بیان السعادۃ، ۱۴۰۸ھ، ج۴، ص۵۴.
  13. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۲۵، ص۳۴؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ھ، ج۱۷، ص۱۵۶.
  14. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱۸، ص۸۹.
  15. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱۸، ص۸۸.
  16. ابن بابویہ، المقنع، ۱۴۱۵ھ، ص۲۱۷؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۱۰ھ، ج۹۶، ص۸۸؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۱۸، ص۱۴۱.
  17. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۱۰ھ، ج۹۷، ص۳۶؛ جمعی از محققان، جہاد در آینہ روایات، ۱۴۲۸ھ، ج۲، ص۵۱۳.
  18. مغربی، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ھ، ج۱، ص۳۴۶؛ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۲۷۲.
  19. سورہ مومنون، آیہ۲۸-۲۹.
  20. قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۳شمسی، ج۲، ص۲۸۱؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ھ، ج۶، ص۱۴؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۶ھ، ج۴، ص۳۸۵.
  21. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ھ، ج۸، ص۱۴۰.
  22. سبزواری، الجدید فی تفسیر القرآن المجید، ۱۴۰۶ق، ج۶، ص۳۴۸.
  23. ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۱۴۲۲ھ، ج۵، ص۴۸.

مآخذ

  • ابن بابویہ، محمد بن علی، المقنع، قم، موسسہ امام ہادی(ع)، ۱۴۱۵ق.
  • ابن بابویہ، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ق.
  • ابن‌عطیہ، عبدالحق بن غالب، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۲۲ق.
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۴۰۸ق.
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۱۸ق.
  • ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان (تفسیر الثعلبی)، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ق.
  • جمعی از محققان، جہاد در آینہ روایات، قم، زمزم ہدایت، ۱۴۲۸ق.
  • حسینی ہمدانی، محمد، انوار درخشان در تفسیر قرآن، تہران، لطفی، ۱۴۰۴ق.
  • سبزواری، محمد، الجدید فی تفسیر القرآن المجید، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق.
  • سلطان علیشاہ، محمد بن حیدر، بیان السعادۃ فی مقامات العبادۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۸ق.
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ العظمی مرعشی نجفی(رہ)، ۱۴۰۴ق.
  • شاہ عبدالعظیمی، حسین، تفسیر اثنی عشری، تہران، میقات، ۱۳۶۳ش.
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۳۹۰ق.
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر: تفسیر القرآن العظیم، اربد اردن، دارالکتاب الثقافی، ۲۰۰۸م.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۴۱۲ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، تفسیر الصافی، تہران، مکتبۃ الصدر، چاپ دوم، ۱۴۱۵ق.
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، ۱۳۸۸ش.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، ۱۳۶۳ش.
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت(ع)، زیر نظر سید محمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت(ع)، ۱۴۲۶ق.
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامع لدرر اخبار الائمہ الاطہار(ع)، بیروت، موسسہ الطبع و النشر، ۱۴۱۰ق.
  • مغربی، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، قم، موسسہ آل‌البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۵ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ش.
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۴۰۴ق.
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، موسسہ آل‌البیت(ع)، ۱۴۰۸ق.