صارف:Mohsin/تختہ مشق 3

ویکی شیعہ سے
آیت سِلم
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت سلم
سورہبقرہ
آیت نمبر208
پارہ2
شان نزولتازہ مسلمان ہونے والے یہودیوں کا تورات کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے کا اصرار
محل نزولمدینہ
موضوعاخلاقی اور عقیدتی
مضموندستورات الہی کی اطاعت
مربوط آیاتآیت صلح


آیت سِلْم سے مراد (سورہ بقرہ کی آیت نمبر208 ہے جو دین اسلام میں داخل ہونے یا خدا کے حکم کے تحت آنے اور اس کے حکم کی تعمیل پر زور دیتی ہے۔ اس آیت اور اس سے ملتی جلتی دیگر کچھ آیات میں انسانی معاشرے میں دینی وحدت کو برقرار رکھنے کا طریقہ بتایا گیا ہے اور خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم ہونے کو انسانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ ہمدلی اور آپس میں تعلق سے تعبیرکیا گیا ہے۔ یہ آیت یہودیوں کے ایک ایسے گروہ کے بارے میں نازل ہوئی جو اس باتکے خواہاں تھے کہ پیغمبر خدا (ص) پر ایمان رکھتے ہوئے تورات کے مطابق عمل کیا جانا چاہیے؛ توریت کے احکامات میں سے بعض یہ تھے: ہفتہ کے دن کاروبار کی ممانعت اور اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام ہونا۔ اس آیت میں انہیں بغیر کسی استثناء کے اسلام کے تمام اصولوں اور تعلیمات پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

آیت اور اس کا ترجمہ

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ‎


اے ایمان والو! تم سب کے سب امن و سلامتی (والے دین) میں مکمل طور پر داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت نمبر 208)

تعارف اور شأن نزول

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 208 کو آیت سِلْم کہا جاتا ہے،[1] جسے دیگر چھ آیات کے ساتھ انسانی معاشرے میں دینی وحدت کو برقرار رکھنے کے طریقے کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔[2] یہ آیت عبد اللہ بن سلام کی قیادت میں یہودیوں کے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی جو پیغمبر اسلام (ص) پر ایمان لاتے ہوئے شریعت حضرت موسیٰ کے احکامات و دستورات کی پابندی پر بھی زور دیتے تھا۔ وہ لوگ ہفتہ کا احترام کرتے ہوئے اونٹ کا گوشت اور دودھ استعمال نہیں کرتے تھے اور اپنے توریت کی بعض تعلیمات کی بنیاد عمل کرتے تھے، جن پر مسلمان اعتراض کرتے تھے۔ یہودیوں نے رسول خدا (ص) سے مطالبہ کیا کہ ہفتہ کے دن کاروبار کی ممانعت اور اونٹ کے گوشت کی حرمت کا مسئلہ ان کے لیے برقرار رہنا چاہیے۔ اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی اور ان سے بلا استثناء اسلام کے تمام احکامات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا۔[3]

آیت کا مضمون

اس آیت میں "سِلْم"کا مطلب اسلام، صلح و امن اور خدا کی اطاعت ہے[4] اور "ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ" کے معنی ہیں دین اسلام میں داخل ہونا یا اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنا اور اس کی اطاعت کرنا۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ مکمل طور پر اسلامی احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے اور بلا استثناء تمام احکامات پر عمل کیا جائے۔[5] تفسیر نمونہ کی تفسیر کے مطابق "سلم" سے مراد امن و سکون ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ امن و سکون صرف ایمانی بنیادوں کے تحت ہی ممکن ہے۔ غیر الہی اور مادی قوانین پر اکتفا کرنے سے کبھی بھی دنیا میں امن و سکون نہیں ہوگا، مادی قوانین پرعمل جنگ، عدم تحفظ اورتنازعات کا باعث بنے گا۔[6]
تفسیر المیزان کی تفسیر کے مطابق آیت میں "سلم" کے معنی خدا پر ایمان لانے کے بعد اس کے آگے سر تسلیم خم ہونا اور خدا اور اس کے رسول کے حکم کو پس پشت ڈال کر تفسیر بالرائے اور تاویل کے ذریعہ غیر الہی راستے میں داخل نہ ہونا ہے۔ کیونکہ خدا کے راستے کو چھوڑ کر نفس کے راستے پر چلنے میں ہر قوم کی تباہی ہے۔

اس تفسیر کے مطابق غیر دینی چیزوں کو دین و مذہب کے نام پر اورحق کی شکل میں اور باطل کو زینت دے کر اس کی طرف دعوت دینا شیطان کے نقش قدم پر چلنے کے مترادف ہے؛ ایسی دعوت جسے جاہل لوگ بغیردلیل کے قبول کرتے ہیں اور اس کے شیطانی ہونے کی علامت یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی تعلیمات میں اس کا ذکر تک نہیں ملتا ہے۔[7]
آیت سلم سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلام نے وہ تمام احکامات اور بنیادی تعلیمات مہیا کر دی ہیں جن کی لوگوں کو ضرورت ہے اور اس کی صلاح میں ہیں۔ ان احکامات کی موجودگی میں انہیں کسی اور اصول اور علم کی ضرورت نہیں ہے۔[8]

خدا پر ایمان اور اس کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا انسانی معاشرہ میں وحدت و یگانگت کا باعث ہے اور قوموں اور لوگوں کے درمیان روابط پیدا ہون کا راز ہے اور یہی چیز انسانوں کے درمیان ہمدلی پیدا کرتی ہے۔[9]

آیت کی ولایتِ علیؑ سے تفسیر

بعض روایات کے مطابق اس آیت میں خدا کے حکم کی اطاعت میں داخل ہونے کو امام علیؑ اور باقی ائمہ معصومینؑ کی ولایت میں داخل ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔[10] امام حسن عسکریؑ سے منسوب تفسیر میں آیت سلم کے ذیل میں امام علیؑ کی ولایت کو قبول کرنے کو پیغمبر اسلام (ص) کی نبوت کو قبول کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا جو کوئی بھی نبی اسلام (ص) کی نبوت کو تسلیم کرتا ہے؛ لیکن اگر وہ علیؑ کی ولایت کو نہ مانے اور آپؑ کو اپنا ولی تسلیم نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔[11]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. الراضی، سبیل النجاه فی تتمه المراجعات، 1402ھ، ج1، ص54۔
  2. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص101۔
  3. واحدی، اسباب نزول القرآن، 1411ھ، ص68؛ مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل، 1423ھ، ج1، ص180۔
  4. طوسی، التبیان، بیروت، ج2، ص186۔
  5. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج2، ص536۔
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371شمسی، ج2، ص82۔
  7. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص101-102۔
  8. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص101۔
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371شمسی، ج2، ص82۔
  10. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص417؛ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص299۔
  11. تفسیر منسوب به امام عسکری، 1409ھ، ج1، ص626۔

مآخذ

  • التفسیر المنسوب إلی الإمام الحسن بن علی العسکری علیهم السلام، قم، مدرسه امام مهدی، 1409ھ۔
  • الراضی، حسین، سبیل النجاة فی تتمة المراجعات، بیروت، 1409ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیا التراث العربی، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تهران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دارالثقافة، 1414ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مصحح احمد حبیب عاملی، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دارالکتب الاسلامیة، 1407ھ۔
  • مقاتل بن سلیمان، تفسیر، محقق عبدالله محمود شحاته، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، 1423ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب العلمیة، 1371ہجری شمسی۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، محقق کمال بسیونی زغلول، بیروت،‌ دار الکتب العلمیة، 1411آیت سِلْم سے مراد (سورہ بقرہ کی آیت نمبر208 ہے جو دین اسلام میں داخل ہونے یا خدا کے حکم کے تحت آنے اور اس کے حکم کی تعمیل پر زور دیتی ہے۔ اس آیت اور اس سے ملتی جلتی دیگر کچھ آیات میں انسانی معاشرے میں دینی وحدت کو برقرار رکھنے کا طریقہ بتایا گیا ہے اور خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم ہونے کو انسانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ ہمدلی اور آپس میں تعلق سے تعبیرکیا گیا ہے۔ یہ آیت یہودیوں کے ایک ایسے گروہ کے بارے میں نازل ہوئی جو اس باتکے خواہاں تھے کہ پیغمبر خدا (ص) پر ایمان رکھتے ہوئے تورات کے مطابق عمل کیا جانا چاہیے؛ توریت کے احکامات میں سے بعض یہ تھے: ہفتہ کے دن کاروبار کی ممانعت اور اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام ہونا۔ اس آیت میں انہیں بغیر کسی استثناء کے اسلام کے تمام اصولوں اور تعلیمات پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

متن و ترجمه آیه سلم

سانچہ:جعبه گفتگوی آیه

تعارف اور شأن نزول

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 208 کو آیت سِلْم کہا جاتا ہے،[1] جسے دیگر چھ آیات کے ساتھ انسانی معاشرے میں دینی وحدت کو برقرار رکھنے کے طریقے کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔[2] یہ آیت عبد اللہ بن سلام کی قیادت میں یہودیوں کے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی جو پیغمبر اسلام (ص) پر ایمان لاتے ہوئے شریعت حضرت موسیٰ کے احکامات و دستورات کی پابندی پر بھی زور دیتے تھا۔ وہ لوگ ہفتہ کا احترام کرتے ہوئے اونٹ کا گوشت اور دودھ استعمال نہیں کرتے تھے اور اپنے توریت کی بعض تعلیمات کی بنیاد عمل کرتے تھے، جن پر مسلمان اعتراض کرتے تھے۔ یہودیوں نے رسول خدا (ص) سے مطالبہ کیا کہ ہفتہ کے دن کاروبار کی ممانعت اور اونٹ کے گوشت کی حرمت کا مسئلہ ان کے لیے برقرار رہنا چاہیے۔ اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی اور ان سے بلا استثناء اسلام کے تمام احکامات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا۔[3]

آیتکا مضمون

اس آیت میں "سِلْم"کا مطلب اسلام، صلح و امن اور خدا کی اطاعت ہے[4] اور "ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ" کے معنی ہیں دین اسلام میں داخل ہونا یا اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنا اور اس کی اطاعت کرنا۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ مکمل طور پر اسلامی احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے اور بلا استثناء تمام احکامات پر عمل کیا جائے۔[5] تفسیر نمونہ کی تفسیر کے مطابق "سلم" سے مراد امن و سکون ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ امن و سکون صرف ایمانی بنیادوں کے تحت ہی ممکن ہے۔ غیر الہی اور مادی قوانین پر اکتفا کرنے سے کبھی بھی دنیا میں امن و سکون نہیں ہوگا، مادی قوانین پرعمل جنگ، عدم تحفظ اورتنازعات کا باعث بنے گا۔[6]
تفسیر المیزان کی تفسیر کے مطابق آیت میں "سلم" کے معنی خدا پر ایمان لانے کے بعد اس کے آگے سر تسلیم خم ہونا اور خدا اور اس کے رسول کے حکم کو پس پشت ڈال کر تفسیر بالرائے اور تاویل کے ذریعہ غیر الہی راستے میں داخل نہ ہونا ہے۔ کیونکہ خدا کے راستے کو چھوڑ کر نفس کے راستے پر چلنے میں ہر قوم کی تباہی ہے۔

ایمان به خدا و تسلیم در برابر فرمان او را نقطه وحدت جامعه انسانی و رمز ارتباط اقوام و ملت‌ها دانسته‌اند که به عنوان حقله اتصال میان قلوب بشر عمل می‌کند.[7] اس تفسیر کے مطابق غیر دینی چیزوں کو دین و مذہب کے نام پر اورحق کی شکل میں اور باطل کو زینت دے کر اس کی طرف دعوت دینا شیطان کے نقش قدم پر چلنے کے مترادف ہے؛ ایسی دعوت جسے جاہل لوگ بغیردلیل کے قبول کرتے ہیں اور اس کے شیطانی ہونے کی علامت یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی تعلیمات میں اس کا ذکر تک نہیں ملتا ہے۔[8]
آیت سلم سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلام نے وہ تمام احکامات اور بنیادی تعلیمات مہیا کر دی ہیں جن کی لوگوں کو ضرورت ہے اور اس کی صلاح میں ہیں۔ ان احکامات کے موجودگی میں انہیں کسی اور اصول اور علم کی ضرورت نہیں ہے۔[9]

خدا پر ایمان اور اس کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا انسانی معاشرہ میں وحدت و یگانگت کا باعث ہے اور قوموں اور لوگوں کے درمیان روابط پیدا ہون کا راز ہے اور یہی چیز انسانوں کے درمیان ہمدلی پیدا کرتی ہے۔[10]

آیت کی ولایت علیؑ سے تفسیر

براساس برخی از روایات داخل شدن تحت اطاعت امر خدا در این آیه را به داخل شدن تحت ولایت امام علی(ع) و ائمه(ع) تعبیر کرده‌اند. در تفسیر منسوب به امام حسن عسکری ذیل تفسیر آیه سلم، قبول ولایت امام علی(ع) مانند قبول نبوت پیامبر اسلام(ص) دانسته شده است. ازاین‌رو، کسی که اعتراف به نبوت پیامبر(ص) داشته باشد؛ ولی به ولایت علی(ع) به عنوان وصی او اعتراف نکند، مسلمان نیست. بعض روایات کے مطابق اس آیت میں خدا کے حکم کی اطاعت میں داخل ہونے کو امام علیؑ اور باقی ائمہ معصومینؑ کی ولایت میں داخل ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔[11] امام حسن عسکریؑ سے منسوب تفسیر میں آیت سلم کے ذیل میں امام علیؑ کی ولایت کو قبول کرنے کو پیغمبر اسلام (ص) کی نبوت کو قبول کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا جو کوئی بھی نبی اسلام (ص) کی نبوت کو تسلیم کرتا ہے؛ لیکن اگر وہ علیؑ کی ولایت کو نہ مانے اور آپؑ کو اپنا ولی تسلیم نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔[12]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. الراضی، سبیل النجاه فی تتمه المراجعات، 1402ھ، ج1، ص54۔
  2. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص101۔
  3. واحدی، اسباب نزول القرآن، 1411ھ، ص68؛ مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل، 1423ھ، ج1، ص180۔
  4. طوسی، التبیان، بیروت، ج2، ص186۔
  5. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج2، ص536۔
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371شمسی، ج2، ص82۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ش، ج2، ص82۔
  8. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص101-102۔
  9. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص101۔
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371شمسی، ج2، ص82۔
  11. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص417؛ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص299۔
  12. تفسیر منسوب به امام عسکری، 1409ھ، ج1، ص626۔

مآخذ

  • التفسیر المنسوب إلی الإمام الحسن بن علی العسکری علیهم السلام، قم، مدرسه امام مهدی، 1409ھ۔
  • الراضی، حسین، سبیل النجاة فی تتمة المراجعات، بیروت، 1409ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیا التراث العربی، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تهران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دارالثقافة، 1414ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مصحح احمد حبیب عاملی، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دارالکتب الاسلامیة، 1407ھ۔
  • مقاتل بن سلیمان، تفسیر، محقق عبدالله محمود شحاته، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، 1423ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب العلمیة، 1371ہجری شمسی۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، محقق کمال بسیونی زغلول، بیروت،‌ دار الکتب العلمیة، 1411ھ۔