"حزب (قرآن)" کے نسخوں کے درمیان فرق
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
(کوئی فرق نہیں)
|
نسخہ بمطابق 09:25، 7 نومبر 2023ء
حِزب قرآن کی تقسیم کے معیارات میں سے ایک ہے۔[1] قرآن کا ہر پارہ کئی حزب میں تقسیم ہوتے ہیں۔[2] قرآنی کی بعض اشاعتوں میں ہر پارہ دو حزب میں تقسیم کئے گئے ہیں[3] جس کے مطابق قرآن میں حزب کی تعداد 60 ہونگے۔[4] جبکہ بعض دیگر نسخوں میں ہر پارہ 4 حزب میں تقسیم ہوتے ہیں جس کے مطابق قرآن میں حزب کی تعداد 120 حزب ہونگے۔[5] اسی طرح ہر حزب بھی 4 حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور ہر حصے کو رُبع کہا جاتا ہے۔[6] یہ تقسیم آیتوں کے اعتبار سے انجام دی جاتی ہے۔[7] اہل سنت کی بعض حدیثی منابع میں عُمَر بن خَطّاب سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس کے مطابق حزب کی اصطلاح پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے اور خود آنحضرت کی تعابیر میں موجود تھی اور مسمان ہر روز ایک قرآن کے ایک حزب کی تلاوت کرتے تھے۔ البتہ اس روایت میں حزب کی مقدار کی طرف اشارہ نہیں ہوا ہے۔[8]
بعض اسلامی ممالک من جملہ ایران میں قرآن کے ہر حزب کو جداگانہ طور پر بھی شایع کئے جاتے ہیں اس صورت میں قرآن کے 120 پارے بن جاتے ہیں۔ مجالس ترحیم اور ایصال ثواب کی مجلسوں میں اس طرح کے قرآنی پاروں سے استفادہ کرتے ہیں۔[9] البتہ سید محمد حسین تہرانی (متوفی: 1416ق) قرآن کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے شایع کرنے کے مخالف ہیں۔ وہ اس طریقے کو یزید بن معاویہ کی طرف نسبت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایصال ثواب کی مجالس میں کامل قرآن سے استفادہ کرنا چاہئے۔[10]
قرآن کو پاروں اور حزبوں میں تقسیم کرنے کا مقصد قاریوں کو قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی طرف راغب کرنا[11] قرآن کو حفظ [12] اور تعلیم دینے میں آسانی بتایا جاتا ہے۔[13]قرآن کو پارہ اور حزب میں تقسیم کرنے کے نظریے کی نسبت مأمون عباسی (متوفی: 218ھ) کی طرف دی گئی ہے؛ اگرچہ بعض اس کی نسبت حَجّاج بن یوسف ثَقَفی (متوفی: 95ھ) کی طرف دیتے ہیں۔[14] قرآن کو جزء اور حزب میں تقسیم کرنے کے نقصانات میں سے ایک کلام کے درمیان میں تلاوت کا خاتمہ یا آغاز ہے۔[15]
کتاب "الزیادہ و الاحسان فی علوم القرآن" کے مصنفین کے مطابق صحابہ کرام قرآن کو ایک ہفتے میں ختم کرنے کے لئے قرآن کو ساتھ حصوں میں تقسیم کئے ہوئے تھے جس کے ہر حصے کو ایک حزب کہا جاتا تھا۔[16] یہ تقسیم سورتوں کی بنیاد پر انجام دئے گئے تھے۔[17] اس تقسیم کے مطابق پہلے حزب میں قرآن کی پہلی تین سورتیں (سورہ حمد کے علاوہ) شامل تھیں۔ دوسرے حزب میں بعد کی پانچ سورتیں، تیسرے حزب میں بعد کی سات سورتیں، چوتھے حزب میں بعد کی نو سورتیں، پانچویں حزب میں بعد کی گیارہ سورتیں، چھٹے حزب میں بعد کی تیرہ سورتیں اور ساتویں اور آخری حزب جسے مُفَصَّل حزب کہا جاتا تھا میں باقی سورتیں (سورہ ق سے قرآن کے آخر تک) شامل تھیں۔[18] قرآن کو سات حصوس میں تقسیم کرنے کا ایک اور طریقہ بھی صحابہ سے نقل ہوا ہے۔[19] اسی طرح اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر شخص قرآن کے جس حصے کو پڑھنے کو اپنے اوپر الزامی قرار دیتا ہے اسے حزب کہا جاتا ہے۔[20]
حوالہ جات
- ↑ طیار، المحرر فی علوم القرآن، 1429ھ، ص249۔
- ↑ صالح، مباحث فی علوم القرآن، 1372ہحری شمسی، ص97۔
- ↑ زرقانی، مناہل العرفان، 1424ھ، ج1، ص403۔
- ↑ جرمی، معجم علوم القرآن، 1422ھ، ص14۔
- ↑ مستفید، تقسیمات قرآنی، 1384ہحری شمسی، ص41۔
- ↑ زرقانی، مناہل العرفان، 1424ھ، ج1، ص403۔
- ↑ دخیل، اقراء القران الکریم، 1429ھ، ص120-121۔
- ↑ مالک، الموطا، 1425ھ، ج2، ص280۔
- ↑ دہخدا، لغعتنامہ، ذیل واژہ صدو بیست پارہ۔
- ↑ «دیدگاہ علاّمہ طہرانی نسبت بہ برگزاری محافل جشن و عروسی و ترحیم»، مکتب وحی۔
- ↑ سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، 1394ھ، ج1، ص222؛ مصری، فقہ قراءۃ القرآن، 1418ھ، ص15۔
- ↑ خضیری، تفسیر التابعین، 1420ھ، ج2، ص1145۔
- ↑ مستفید، تقسیمات قرآنی، 1384ہحری شمسی، ص41۔
- ↑ معرفت، التمہید، 1388ہحری شمسی، ج1، ص360۔
- ↑ طیار، المحرر فی علوم القرآن، 1429ھ، ص249۔
- ↑ عقیلہ، الزیادہ و الاحسان، 1427ھ، ج2، ص253۔
- ↑ دخیل، اقراء القران الکریم، 1429ھ، ص120-121۔
- ↑ حداد، التجدید فی الاتقان و التجوید، 1424ھ، ص65۔
- ↑ مستفید، تقسیمات قرآنی، 1384ہحری شمسی، ص30-32۔
- ↑ مجیدی، اذہاب الحزن، دار الایمان، ص429۔
مآخذ
- جرمی، ابراہیم، معجم علوم القرآن، دمشھ، دار القلم، چاپ اول، 1422ھ۔
- حداد، محمد بن علی، التجدید فی الاتقان و التجوید، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1424ھ۔
- خضیری، محمد بن عبداللہ، تفسیر التابعین، ریاض، دار الوطن للنشر، 1420ھ۔
- دخیل، عبداللہ، اقراء القرآن الکریم، جدہ، مرکز الدراسات و المعلومات القرآنیہ بمعہد الامام الشاطبی، 1429ھ۔
- دہخدا، علیاکبر، لغتنامہ۔
- «دیدگاہ علاّمہ طہرانی نسبت بہ برگزاری محافل جشن و عروسی و ترحیم»، مکتب وحی، بازدید: 9 آبان 1402ہحری شمسی۔
- زرقانی، محمد عبدالعظیم، مناہل العرفان فی علوم القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1424ھ۔
- سیوطی، عبدالرحمن بن ابیبکر، المحقق: محمد أبو الفضل إبراہيم، الناشر: الہيئۃ المصريۃ العامۃ للكتاب، الطبعۃ: 1394ق 1974 مو
- صالح، صبحی، مباحث فی علوم القرآن، قم، الشریف الرضی، 1372ہحری شمسی۔
- طیار، مساعد بن سلیمان، المحرر فی علوم القرآن، جدہ، مرکز الدراسات و المعلومات القرآنیہ بمعہد الامام الشاطبی، چاپ دوم، 1429ھ۔
- عقیلہ، محمد بن احمد، الزیادہ و الاحسان فی علوم القرآن، شارقہ، مرکز پژوہشہا و مطالعات دانشگاہ شارقہ، چاپ اول، 1427ھ۔
- فاضل موحدی لنکرانی، محمد، مقدمات بنیادین علم تفسیر، تہران، بنیاد قرآن، 1381ہحری شمسی۔
- مالک بن انس، الموطا، تحقیق: محمد مصطفی الأعظمی، مؤسسۃ زاید بن سلطان آل نہیان للأعمال الخیریۃ والإنسانیۃ - أبوظبی - الإمارات، چاپ اول، 1425ھ۔
- مجیدی، عبدالسلام، اذہاب الحزن و شفاء الصدر السقیم، اسکندریہ، دار الایمان، بیتا۔
- مستفید، محمدرضا، تقسیمات قرآنی و سور مکی و مدنی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1384ہحری شمسی۔
- مصری، سعید، فقہ قراءۃ القرآن، قاہرہ، مکتبۃ القدسی، چاپ اول، 1418ھ۔
- معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسہ فرہنگی انتشاراتی التمہید، 1388ہحری شمسی۔