امام باڑا

ویکی شیعہ سے
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


بڑا امام باڑہ، لکھنو
چھوٹا امام باڑا جسے حسین آباد امام باڑا بھی کہتے ہیں۔ لکھنو اترپردیش، بھارت

امام باڑا شیعوں کے مذہبی تہوار منعقد ہونے والی جگہ کو کہا جاتا ہے جس میں عام طور پر امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کی عزاداری برپا کی جاتی ہے۔

دنیا کے اکثر شیعہ نشین علاقوں میں کم سے کم ایک امام باڑا موجود ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1210ء کے عشرے کے اواسط میں تقریبا 2000 امام باڑے لکھنو میں اور 1960ء کے عشرے میں تقریبا 630 امام باڑے تہران میں موجود تھے۔ سنہ 1375 ہجری شمسی کی اعداد و شمار کے مطابق ایران میں 7528 امام باڑے موجود تھے جو اس ملک کے مذہبی مقامات کے 11 فیصد حصے پر مشتمل تھا۔

اگرچہ ان مکانات میں مختلف دینی اور مذہبی رسومات برگزار کی جاتی ہیں لیکن ائمہ اطہارؑ کی اعیاد و وفیات خاص طور پر امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کی عزاداری ان مکانات کے مخصوص مراسم میں سے ہیں۔

دنیا کے مختلف خطوں میں ایک خاص طرز تعمیر کے ساتھ امام باڑوں کی تعمیر کی جاتی ہے مثلا ایران میں ان کی تعمیر سادہ اور دیگر مذہبی مکانات کی طرح ہے لیکن برصغیر پاک و ہند میں امام بارگاہوں کو ایک خاص طرز تعمیر کے ساتھ بنایا جاتا ہے جنکی تعمیر اور ان میں برگزار ہونے والے مراسم کے اخراجات خالص عوامی عطیہ جات اور نذر و نیاز سے پورا ہوتا ہے۔

امام بارگاہ تاریخ کے آئینے میں

امام بارگاہ کا لفظ قدیمی منابع میں موجود نہیں تھا لیکن سلسلہ صفویہ کے دور سے ایران میں حسینیہ، شیعوں کے مذہبی اور ثقافتی مراکز کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور برصغیر میں ان کو امام باڑہ یا امام بارگاہ کہا جاتا ہے۔

آل بویہ کے دور حکومت میں معزالدولہ دیلمی کے حکم سے عاشورا کے دن عزاداری برگزار کرنے کیلئے سڑکوں پر خیمے نصب کئے جاتے تھے۔[1] یہ خیمے مخصوص انداز میں نصب کئے جاتے تھے یہ مراسم آج بھی ایران میں مرسوم ہے۔

پرانے زمانے میں عزاداری کیلئے کوئی مخصوص جگہ متعین نہیں تھا بلکہ مساجد، معصومین کے روضات مقدسہ، بازاروں، تکیہ جات وغیرہ میں منعقد کی جاتی تھی۔ احتمالا سلسلہ قاجاریہ میں ایران میں حسینیہ کی تعمیر شروع ہوئی۔[2]

مختلف مناطق میں امام بارگاہوں کی اصطلاح

عزاداری مولا اباعبداللہ الحسینؑ سے مخصوص مکانات کو مختلف شیعہ مناطق میں اس منطقہ کی ادبیات اور ثقافت کے اعتبار سے مختلف اسامی سے یاد کیا جاتا ہے۔ مثلاً ایران اور عراق میں زیادہ تر "تکیہ" کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا اور گذر زمان کے ساتھ حسینیہ بھی ان اسامی کے ساتھ استعمال ہونے لگا جو ایسے مکانات کیلئے مورد استعمال کیا جاتا تھا یہاں تک کہ ایران معاصر میں اکثر مکانات جن میں عزاداری وغیرہ برگزار ہوتے ہیں کو حسینیہ ہی کہا جاتا ہے۔[3] اب ان مقاصد کیلئے تعمیر ہونے والے کسی نئی عمارت کو تکیہ یا کوئی اور نام نہیں دیا جاتا سوائے حسینیہ کے یہاں تک کہ پرانے "تکیہ جات" کی تمعمیر نو یا مرمت کے بعد ان کا بھی نام یا حسینیہ یا مسجد رکھا جاتا ہے۔[4]

ان مکانات کیلئے عمان اور بحرین میں مَأتَم، برصغیر پاک و ہند میں امام باڑا، امام بارہ، امام بارگاہ، عاشورخانہ اور عزاخانہ اور افغانستان میں منبر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔[5]

استعمال

عزاداری اور ماتم داری

مساجد کی خاص اہمیت کے باوجود شیعہ ثقافت میں عزاداری ، ماتم داری، سینہ زنی، روضہ خوانی اور وعظ و نصیحت یا بعض مناطق میں تعزیہ خوانی وغیرہ برگزار کرنے کیلئے امام بارگاہ کا ایک خاص تشخص ہے۔ امام بارگاہوں کے بارزترین استعمالات میں: محرم کا پہلا عشرہ یا اول محرم سے 28 صفر تک امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کیلئے عزاداری یا دیگر ائمہ معصومین کے ایام ولادت اور ایام شہادت کی مناسب سے مختلف مراسم کا انعقاد ہے۔

شیعوں کا باہمی ارتباط اور ہمدلی

شیعیوں کا با سب سے با رونق اجتماع محرّم اور صفر میں انہی امام بارگاہوں میں منعقد ہوتا ہے۔ ان مراسم میں لوگوں کی شرکت اور انہیں با رونق طریقے سے برگزار کرنے کیلئے کسی سنی، گروہی، مالی، یا سماجی اختلاف کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ان کے درمیان ہمبستگی اور بھائی چارگی کو تویت دیتی ہے۔

امام بارگاہوں کا بطور زائر سرا استعمال

اہم زیارتی شہروں جیسے کربلا، نجف، مشہد اور قم میں اکثر امام بارگاہوں کو مختلف مناستوں میں زائرین کیلئے وقتی طور پر زائر سرا کے عنوان سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دور دراز علاقوں سے زیارتی سفر پر جانے والے زائرین کی قیام کیلئے مختلف شہروں میں امام بارگاہوں کے ساتھ ساتھ زائر سرا وغیرہ کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے تاکہ زائرین اطمینان کے ساتھ ان جگہوں پر قیام کر سکیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے شمال میں رہنے والے لوگ بطور خاص بلتستان کے لوگوں کی یہ خاصیت رہی ہے کہ یہ لوگ تقریبا ہر چھوٹے بڑے شہروں میں اپنا کوئی نہ کوئی امام بارگاہ بناتے ہیں مثلا بلتستان کے علاوہ راولپنڈی، کوئٹہ، زاہدان، مشہد مقدس، قم المقدس ، نجف اشرف، اور کربلا میں قدیم الایام سے ان کی امام بارگاہیں موجود ہیں جہاں پر ائمہ معصومین کی اعیاد و وفیات میں مراسم برگزار کرنے کے ساتھ ساتھ دور دراز علاقوں سے زیارت پر آنے والے زائرین کو مفت یا مختصر اخراجات کے ساتھ سکونت دیا جاتا ہے۔

امام بارگاہ اور مذہبی مرکزیت

مسجد کے بعد کسی بھی شہر یا محلے میں دینی اور مذہبی حوالے سے امام بارگاہ کو مرکزیت حاصل ہے۔ عام طور پر ہر شہر یا محلے میں امام بارگاہوں کو شہر کے مرکز یا ایسی جگہ تعمیر کی جاتی ہے جہاں لوگوں کی رفت و آمد زیادہ ہو یا لوگوں وہاں با آسانی جمع ہو سکیں۔ بعض مناطق میں حتی شہری معماری میں بھی امام بارگاہوں کی مرکزیت کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، مثلاً ایران کے شہر نائین، زوارہ، تفت اور میبد میں مختلف شاہراہوں کا نقطہ اختتام یا نقطہ شروع امام بارگاہوں سے ہوتا ہے۔[6]

طرز معماری

امام بارگاہوں کی طرز تعمیر مختلف مناطق میں اس منطقے کی تمدن کے لحاظ سے مختلف ہے مثلا ایران میں اکثر امام بارگاہوں کو دوسرے مذہبی مکانات کی طرح سادہ انداز میں تعمیر کیا جاتا ہے لیکن بعض امام بارگاہوں کے داخلی اور بیرونی حصوں کو کاشیکاری کے ساتھ تزئین کیا جاتا ہے مثلا مہشہر میں امام بارگاہ شیخ محمدتقی فرحی اور آقا شیخ علی اور مازندران میں امام بارگاہ مشیر؛[7] حسینیہ ارشاد جسے ثقافتی اور سماجی اہداف کیلئے تقریبا سنہ 1345 ش کو تہران میں تأسیس کیا گیا ہے، جدید معماری اور ایک بڑا کانفرنس ہال پر مشتمل ہے۔

اکثر امام بارگاہیں ایک منفرد تعمیرات کا حامل ہیں گاہی ان کے ساتھ باغات، مسجد، ایوان، حمام اور بازارچے وغیرہ بھی لوگوں کی سہولت کیلئے تعمیر کئے جاتے ہیں۔ جیسے شیرازحسینیہ مشیر [8] اور حسینیہ امیر سلیمانی تہران۔[9]

امام بارگاہوں کی نام گزاری

جس طرح مساجد اور دیگر مذہبی مقامات میں سے ہر ایک کیلئے ایک مخصوص نام رکھا جاتا ہے اسی طرح امام بارگاہ کیلئے بھی کوئی نہ کوئی نام رکھا جاتا ہے۔ ان ناموں میں کبھی کبھار اس شخص کا نام جس نے اس امام بارگاہ کیلئے زمین یا دوسرے مصالحہ جات وقف کی ہیں مثلا کربلا میں حسینیہ سیدمحمد صالح، نجف میں حسینیہ اصطہباناتی اور کاظمین میں حسینیہ مؤمن علی یزدی۔[10] یا اشخاص یا اصناف کا نام جیسے ایران کے شہر بیرجند میے تین حسینیوں کا نام حسینیہ خیاط‌ ہا(درزیوں)، حسینیہ دباغ‌ہا (چمڑا رنگنے والے)، حسینیہ صباغ‌ہا(کپڑا رنگنے والا)۔[11] یا سبزوار میں حسینیہ خرازہا(بساطی)، حسینیہ نجارہا(ترکھان)، حسینیہ قنادہا(حلوائی) حسینیہ بزازہا(بیوپار)۔[12] بعض امام بارگاہوں کا نام جو کسی شہر میں کسی اور شہر یا ملک کے رہنے والوں کی طرف سے تعمیر کی گئی ہو تو متعلقہ شہر کا نام یا وہاں کے شہریوں کا نام رکھا جاتا ہے جیسے کربلا میں حسینیہ اصفہانی‌ہا، حسینیہ تہرانی‌ہا، حسینیہ قمی‌ہا اور حسینیہ آذربایجانی‌ہا وغیرہ۔[13] بعض امام بارگاہوں کا نام جس محلہ یا شہر میں واقع ہو اسی شہر یا محلے کا نام رکھا جاتا ہے۔[14] بعض اماما بارگاہوں کا نام اماموں، معصومین یا امام زادگان کے نام رکھا جاتا ہے۔[15]

اخراجات اور آمدنی

بعض امام بارگاہوں کی تعمیر، انکی نگہداری اور ان میں برگزار ہونے والے مراسم کے اخراجات کو اس کے بانی حضرات قبول کرتے ہیں۔ اکثر اوقات ایسے امام بارگاہوں کیلئے بانی حضرت کوئی نہ کوئی ذریعہ آمدنی مہیا کیا جاتا ہے جن میں مارکیٹوں یا باغات کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن اکثر و بیشتر ان اخراجات کو متعلقہ مناطق کے باسیوں کی نذر و نیاز اور عطیہ جات کے ذریعے تأمین کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات مختلف افراد اپنے گھر یا کوئی اور ملکیت کو بعنوان امام بارگاہ وقف کرتے ہیں۔ [16]

حوالہ جات

  1. فقیہی، ص۴۶۶
  2. ملاحظہ کریں: دایرۃالمعارف تشیع، حسینیہ کے ذیل میں
  3. معتمدی، ج۱، ص۱۴۵ـ ۳۵۱
  4. معتمدی، ج۱، ص۵۱۰؛ شاطری، ص۳۳
  5. توسلی، ص۸۲؛ جانب اللہی، ص۱۵ـ۲۰؛ د.اسلام، چاپ دوم، ذیل"Imam-bara"؛ دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ذیل “اِمامْ بارہ”؛ دایرۃالمعارف جہان اسلام آکسفورد، ذیل واژہ؛ تاسی، ۵۳؛ فرہنگ، ص۳۰۸ـ۳۱۸؛ ولی، ص۱۲۵ـ۱۲۶
  6. سلطان زادہ، ۱۳۷۴ش، ص۱۳۱
  7. ہمایونی، ہمانجا؛ ستودہ، ج۴، بخش ۱، ص۶۹۰ـ۶۹۱
  8. ہمایونی، ص۱۰ـ۱۴؛ دایرۃ المعارف تشیع، ذیل “حسینیہ مشیر”
  9. تابندہ، ص۲۴۹ـ۲۵۵؛ دایرۃالمعارف تشیع، ذیل “حسینیہ امیرسلیمانی”
  10. انصاری قمی، وقف، سال ۲،ش ۱، ص۷۷،ش ۳، ص۸۴، سال ۳،ش ۱، ص۱۰۱
  11. رضائی، ص۱۲۶ـ۱۲۷
  12. محمدی، ص۲۶۱
  13. انصاری قمی، وقف، سال۲، ش۳، ص۸۳ـ۸۴
  14. سلطان زادہ، ۱۳۷۴ش، ص۱۳۰؛ بلوکباشی، ص۵۹، ۶۱؛ مشہدی نوش آبادی، ص۱۰
  15. ر ک. معتمدی، ج۱، ص۱۵۱، ۱۶۵، ۱۶۸، ۱۸۰ و جاہای دیگر
  16. انصاری قمی، وقف، سال۲، ش۳، ص۸۳ـ۸۴؛ شہری باف، ج۲، ص۳۶۰؛ طعمہ، ص۱۸۰ـ۱۸۱؛ دایرۃ المعارف جہان اسلام آکسفورد، ہمانجا.

مآخذ

  • انصاری قمی، محمد رضا، “موقوفات ایرانیان در عراق”، وقف: میراث جاویدان، سال ۲،ش ۱ (بہار ۱۳۷۳)،ش ۳ (پاییز ۱۳۷۳)، سال ۳،ش ۱ (بہار ۱۳۷۴).
  • بلوکباشی، علی، نخل گردانی: نمایش تمثیلی از جاودانگی حیات شہیدان، تہران ۱۳۸۰ش.
  • تابندہ، علی، خورشید تابندہ: شرح احوال و آثار عالم ربّانی و عارف صمدانی حضرت آقاحاج سلطان حسین تابندہ گنابادی “رضاعلیشاہ” (طاب ثراہ)، تہران ۱۳۷۳ش.
  • توسلی، محمود، “حسینیہ‌ہا ـ تکایا ـ مصلی‌ہا”، در معماری ایران: دورہ اسلامی، بہ کوشش محمد یوسف کیانی، ج۱، تہران: جہاد دانشگاہی، ۱۳۶۶ش.
  • جانب اللہی، محمد سعید، تأثیر اماکن مذہبی بر بافت محلات سنتی شہرستان تفت”، در مجموعہ مقالات مردم شناسی، دفتر۳، (تہران): سازمان میراث فرہنگی کشور، مرکز مردم شناسی، ۱۳۶۶ش.
  • دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، زیرنظر کاظم موسوی بجنوردی، تہران ۱۳۶۷ش ـ، ذیل “اِمامْبارہ” (از یداللّہ غلامی).
  • دایرۃ المعارف تشیع، زیرنظر احمد صدر حاج سید جوادی، کامران فانی، و بہاءالدین خرمشاہی، تہران ۱۳۶۶ش. ذیل “حسینیہ ارشاد” (از حسن یوسفی اشکوری)، “حسینیہ امیر سلیمانی”، “حسینیہ مشیر” (از پرویز ورجاوند).
  • رضائی، جمال، بیرجند نامہ: بیرجند در آغاز سدہ چہاردہم خورشیدی، بہ اہتمام محمود رفیعی، تہران ۱۳۸۱ش.
  • ستودہ، منوچہر، از آستارا تا اِستارباد، تہران ۱۳۴۹ش.
  • سلطان زادہ، حسین، روند شکل گیری شہر و مراکز مذہبی در ایران، تہران ۱۳۶۲ش.
  • ہمو، نائین: شہر ہزارہ‌ہای تاریخی، تہران ۱۳۷۴ش؛
  • شاطری، علی اصغر، واژہ نامہ محرّم (کاشان)، کاشان ۱۳۸۳ش.
  • شہری باف، جعفر، طہران قدیم، تہران ۱۳۸۱ش.
  • طعمہ، سلمان ہادی، کربلاء فی الذاکرۃ، بغداد ۱۹۸۸.
  • فرہنگ، محمد حسین، جامعہ شناسی و مردم شناسی شیعیان افغانستان، قم ۱۳۸۰ش.
  • فقیہی، علی اصغر، آل بویہ و اوضاع زمان ایشان با نموداری از زندگی مردم در آن عصر، تہران ۱۳۵۷ش.
  • محمدی، محمود، فرہنگ اماکن و جغرافیای تاریخی بیہق (سبزوار) براساس معجم البلدان یاقوت و تاریخ بیہق، سبزوار ۱۳۸۱ش.
  • مشہدی نوش آبادی، محمد، نوش آباد در آینہ تاریخ: آثار تاریخی و فرہنگ، کاشان ۱۳۷۸ش.
  • معتمدی، حسین، عزاداری سنتی شیعیان در بیوت علما و حوزہ‌ہای علمیہ و کشورہای جہان، ج۱، قم ۱۳۷۸ش.
  • میرمحمدی، حمید رضا، “پراکندگی جغرافیایی اماکن مذہبی کشور در قالب استانی”، مسجد،ش ۵۸ (مہر و آبان ۱۳۸۰).
  • ولی، محمد طہ، المساجد فی الاسلام، بیروت ۱۴۰۹/۱۹۸۸.
  • ہمایونی، صادق، حسینیہ مشیر، عکاسی از عباس بہمنی و منوچہر چہرہ نگار شیرازی، تہران ۱۳۷۱ش.

بیرونی روابط