شرعی شکار

ویکی شیعہ سے

شرعی شکار جنگلی جانوروں کا شکار کرنا اور انہیں ہتھیار اور شکاری کتے کے ذریعے سے مخصوص شرائط کے ساتھ مارنے کو کہا جاتا ہے۔ یہ ذبح اور نحر کی طرح حیوان کو تذکیہ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ شرعی شکار جنگلی جانوروں کے لیے مخصوص ہے، اور پالتو جانوروں کو شکار کرنے سے وہ حلال نہیں ہوتے ہیں۔ فقہاء نے شکار کی مشروعیت کے لئے آیات اور روایات سے تمسک کیا ہے۔

شکار کرنے والے شکاری کا مسلمان ہونا اور شکار کے آلات کے استعمال کے وقت اللہ کا نام لینا، نیز شکار تک پہنچتے ہوئے اس کا زندہ ہونے کو فقہا نے شکار شدہ حیوان کے تذکیہ کی عمومی شرائط میں سے قرار دیا ہے۔ اسی طرح شکاری کتا تربیت یافت ہو اور مالک کے حکم سے اس نے شکار کیا ہو۔ اسلحے کے شکار میں اس کا تیز ہونا اور حیوان کا گوشت اس کے ذریعے کٹ جانا شرط ہے۔ مچھلی کو کسی بھی طریقے سے پکڑنا اور شکار کرنا جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ شکار کرتے ہوئے مچھلی کو پانی میں زندہ شکار کرے۔

تعارف

شرعی شکار جنگلی جانوروں کو شرعی ذبح اور نحر کے بغیر پکڑنا یا مارنا ہے جو خاص آلات اور خاص شرائط کے ساتھ انجام پاتا ہے۔[1] اس اصطلاح کی مختلف تعریفیں ہوئی ہیں؛ جیسا کہ کہا گیا ہے، شرعی شکار یعنی ان جنگلی جانوروں کو کھانا جو کسی کی ملکیت میں نہیں ہیں[2] یا شکار تزکیہ کرنے کا طریقہ ہے۔[3]

یہ اصطلاح فقہ کی کتابوں اور مختلف ابواب میں استعمال ہوئی ہے جیسے صید و ذباحہ[4] میں اس کے بارہ احکام میں سے ایک کے طور پر بیان ہوئی ہے[5] اور اس کے لئے مخصوص احکام ذکر ہوئے ہیں۔[6] کہا جاتا ہے کہ جو حیوان کسی کی ملکیت میں نہیں وہ مباحات میں شمار ہوتا ہے اور شکار مالکیت کا سبب بنتا ہے۔[7]

کہا گیا ہے کہ شکار اگر گھریلو ضروریات پورے کرنے کے لیے کرے تو حلال ہے، لیکن اگر تفریح ​​جیسے کاموں کے لیے کرے تو حرام ہوگا۔[8] تفریح کے لئے کئے جانے والا شکار حرام ہونے کی علت، نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے اس عمل مناسب نہ ہونا ذکر ہوا ہے؛ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ جنگلی جانور کو بھی جینے کا حق ہے اور اسے صرف اس صورت میں شکار کرسکتے ہیں کہ انسان اس شکار کا محتاج ہو۔[9] شکار میں کچھ کام مکروہ اور کچھ کام مستحب ہیں، شکاری وسیلہ کو ذبح کے آلات کی طرح تیز کرنا مستحب ہے۔[10] احرام کی حالت میں جنگلی جانوروں، پرندوں اور ٹڈیوں کا شکار کرنا حرام ہے اور مشہور کے مطابق یہ مردار کے حکم میں ہوگا؛[11] لیکن کہا گیا ہے کہ احرام کی حالت میں سمندری جانورں کا شکار اور پالتو جانوروں کو ذبح کرنا ممانعت نہیں ہے۔[12]

شرعی مستندات

شکار کے جواز کے لیے فقہاء نے قرآن کی متعدد آیات کا حوالہ دیا ہے جیسے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 1، آیت 2، آیت 94، آیت 95 اور آیت 96؛[13] اور اس حوالے سے متعدد روایات کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے اور تواتر کے قائل ہوئے ہیں۔[14] یہاں تک کہ شکار کی مشروعیت پر اجماع کا ادعا بھی ہوا ہے۔[15]

جنگلی جانور کی شرائط

حلال گوشت جانوروں کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے: آبی جانور اور بری جانور۔[16] آبی اور سمندری جانورں کا تذکیہ مچھلی کی طرح پانی میں انہیں زندہ پکڑنا ہے[17] اور اسی طرح ٹڈی جیسے خشکی کے بعض جانور کا تذکیہ بھی اسے زندہ پکڑنا ہے۔[18] جبکہ خشکی کے باقی حیوانات کو ذبح، نحر یا شکار تینوں میں سے کسی ایک طریقے سے تذکیہ کرنا ہوگا۔[19] جیسے شکاری کتے کے ذریعے کیا جانے والا شکار مخصوص شرائط کے ساتھ حلال ہوگا۔[20]

کہا گیا ہے کہ شکار کے ذریعے جانور حلال ہونے کا حکم صحرائی اور جنگلی جانوروں کے ساتھ خاص ہے جیسے؛ ہرن، بارہ سنگا، چکور اور پہاڑی بکری (Ibex) جیسے جنگلی جانوروں کے لیے مخصوص ہے، جن کا آسانی سے شکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس پر سوچ بچار اور شکاری اوزار استعمال کئے بغیر ممکن نہیں؛ لہٰذا حلال گھریلو جانور جیسے گائے، بھیڑ اور مرغیاں ذبح کے بجائے شکار کرنے سے حلال نہیں ہوتی ہیں؛[21] مگر یہ کہ گھریلو جانور جنگلی ہو جائے۔[22] شکار کے لیے مذکور شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ جانور کے لئے فرار ہونا ممکن ہو؛ لہٰذا زخمی جانوروں یا پرندوں کے بچے اور ایسے جانور جو بھاگنے سے قاصر ہوں ان کو شکار کے اوزار سے شکار کرنا حرام ہے اور ان کا گوشت جائز نہیں ہے۔[23]

شکار کے اوزار

جنگلی جانوروں کو شکار کرنے کے لیے استعمال ہونے والے اوزار اور آلات، جنہیں شکار کے اوزار کہا جاتا ہے[24] اور ان کی دو قسمیں بتائی گئی ہیں: جاندار اور بے جان۔[25]

شکاری کتے کے ذریعے شکار

شکار کے طریقوں میں سے ایک، شکاری کتوں کے ساتھ شکار کرنا ہے؛ جو کسی بھی نسل سے ہو خواہ سلوقی، کالی یا کوئی اور؛[26]لہٰذا ہر حلال گوشت جنگلی جانور جسے کتا کاٹ کر مارتا ہے وہ شرعی ذبح کے حکم میں ہے[27] اور اس کا کھانا حلال ہے۔[28]

یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تربیت یافتہ کتے کا شکار حلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے[29] بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیعہ علما تربیت یافتہ کتے کے شکار کو مطلقا مباح سمجھتے ہیں۔[30]

شکاری کتے کے شکار کردہ جانور کے حلال ہونے کے لیے فقہاء نے کچھ شرائط بیان کی ہیں جن میں سے بعض کتے کی شرائط ہیں اور بعض کتے کو شکار کے لئے چھوڑنے والے شکاری کی ہیں۔[31]

  • کتا تربیت یافتہ ہو؛ کتا اس طرح سدھایا ہوا ہو کہ جب بھی اسے شکار پکڑنے کے لئے بھیجا جائے تو چلا جائے اور جب اسے جانے سے روکا جائے تو رک جائے اور شکار کھانے کی عادت بھی نہ ہو؛[32] لہذا اگر کتا تربیت یافتہ نہ ہو تو قرآنی آیات کا ظہور یہ ہے کہ وہ شکار حلال نہیں ہوگا۔[33]
  • مالک اسے شکار کے لئے بھیجے؛ اور اگر وہ اپنے آپ ہی شکار کے پیچھے جائے اور کسی حیوان کو شکار کر لے تو اس حیوان کا کھانا حرام ہے۔[34]
  • شکار، کتے کے کاٹنے سے مر جائے کسی اور وجہ سے نہ مرے۔[35]
  • جو شخص کتے کو شکار کے پیچھے لگائے ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہو۔[36]
  • کتے کو شکار کے پیچھے بھیجتے وقت یا کتا حیوان تک پہنچنے سے پہلے شکاری اللہ تعالیٰ کا نام لے؛[37] کہا گیا ہے کہ اس بارے میں شیعہ فقہا کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔[38]
  • جس شخص نے کتے کو شکار کے پیچھے بھیجا ہو اگر وہ (شکار کئے گئے حیوان کے پاس) اس کے مرنے کے بعد پہنچے، ورنہ ذبح کرنا ضروری ہے؛[39] مگر یہ کہ حیوان ذبح کرنے کے لئے وقت کافی نہ ہو۔[40]

کہا گیا ہے کہ شکار کو کتے نے جہاں کاٹا ہے وہ جگہ نجس ہے اور اسے دھونا ہوگا۔[41] کتے کے علاوہ چیتا، شیر اور عقاب وغیرہ کے ذریعے کئے جانے والے شکار کے بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے[42] بعض ان جانورں کے شکار کو جائز نہیں سمجھتے ہیں اگرچہ اس کام کے لئے تربیت یافتہ ہی کیوں نہ ہوں[43] بعض فقہا نے اس بارے میں شہرت کا دعوا کیا ہے۔[44]

اسلحے کا شکار

شکار کا ایک اور طریقہ بے جان اوزار کا استعمال کرنا ہے جیسے آتشیں ہتھیاروں سے شکار کرنا یا کسی تیر اور آہنی تیغ جیسے تیر، نیزہ، تلوار اور تیز خنجر وغیرہ سے شکار کرنا۔[45] کہا گیا ہے کہ آتشیں ہتھیاروں یا تیر و تلوار وغیرہ سے کئے گئے شکار بعض شرائط کے ساتھ حلال اور پاک ہے[46] ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  • شکار کا ہتھیار چھری اور تلوار کی طرح تیز اور کاٹنے والا ہو یا نیزے اور تیر کی طرح تیز اور نوکدار ہو؛[47] جو حیوان کے بدن کو چاک کردے اور حیوان اسی وجہ سے مرجائے؛[48] اگرچہ زخم تذکیہ کی جگہے پر نہ ہو۔[49]اور اگر حیوان کا شکار جال یا لکڑی یا پتھر یا انہی جیسی چاک نہیں کرنے والی چیزوں کے ذریعے کیا جائے اور مرجائے تو وہ حلال نہیں ہوگا۔[50] بعض فقہا کا کہنا ہے کہ آتشین اسلحے کے ذریعے سے کئے جانے والا شکار اس صورت میں حلال ہے کہ گولی تیز ہو اور جانور کے بدن کو چاک کرے اور جانور کو مار دے۔[51] اگرچہ آتشیں اسلحے کا شکار حلال نہ ہونے کے بارے میں بھی کچھ احتمالات پائے جاتے ہیں۔[52]
  • ہتھیار اسی حیوان کو شکار کرنے کے لئے استعمال کرے اور اگر کوئی شخص سور کے شکار کے لئے گولی چلائے اور غلطی سے کسی حلال گوشت جانور کو لگ جائے تو جانور حلال نہیں ہوگا۔[53]
  • شکاری مسلمان ہو[54] اور شکار کرتے وقت اللہ کا نام زبان پر جاری کرے۔[55]
  • حیوان کو شکار کرنے کے بعد اسے ذبح کرنے کے لئے وقت کافی نہ ہو۔ اگر جنگلی جانور کسی ہتھیار کی زد میں آکر حرکت کرنا چھوڑ دے اور وہ فرار نہ ہو سکے تو شکاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ حسب معمول جلدی سے جانور تک پہنچ جائے۔ اس صورت میں اگر جانور مر گیا ہو، یا زندہ ہو اور شریعی ذبح کے لئے وقت کافی نہ ہو، تو شرعی شکار حاصل ہو گئی ہے اور جانور پاک و حلال ہے؛ البتہ اگر شرعی ذبح کے لئے وقت ہو تو جانور کو ذبح کرنا ضروری ہے، ورنہ اگر جانور مر جائے تو اس کا گوشت نجس ہوگا اور اس کا استعمال حرام ہوگا۔[56]

حوالہ جات

  1. محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص574؛ سیفی مازندرانی، دلیل تحریر الوسیلۃ، 1415ھ، ص1؛ طباطبایی حائری، الشرح الصغیر فی شرح مختصر النافع، 1409ھ، ج 3، ص77؛ سبزواری، مہذب الأحکام، 1413ھ، ج 23، ص5۔
  2. مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1393ش، ص347۔
  3. سیفی مازندرانی، دلیل تحریر الوسیلۃ، 1415ھ، ص1۔
  4. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص193؛ محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص574؛ وحید خراسانی، منہاج الصالحین، 1428ھ، ج 3، ص370؛ جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج 1، ص135۔
  5. مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1393ش، ص405۔
  6. ملاحظہ کریں: امام خمینی، تحریر الوسیلة، قم، ج‌۲، ص۱۳۵؛ جمعی از پژوهشگران، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت(ع)، ۱۴۲۶ھ، ج‌۱، ص۱۳۶‌۔
  7. محقق داماد، قواعد فقہ، 1406ھ، ج 1، ص263۔
  8. جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ج 48، ص173۔
  9. قرشی، قاموس قرآن، 1412ھ، ج 4، ص168 ۔
  10. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج 1، ص134۔
  11. محمودی، مناسک عمرہ مفردہ، 1429ھ، ص55-56۔
  12. محمودی، مناسک عمرہ مفردہ، 1429ھ، ص56۔
  13. قرشی، قاموس قرآن، 1412ھ، ج 4، ص168 ۔
  14. سیفی مازندرانی، دلیل تحریر الوسیلۃ، 1415ھ، ص2-4۔
  15. محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص574؛ حلی، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، 1404ھ، ج 4، ص3۔
  16. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج 1، ص135۔
  17. نجفی، مصطفی الدین القیم، 1427ھ، ص211 ۔
  18. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج 1، ص134۔
  19. محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص574؛ ایروانی، دروس تمہیدیۃ، 1427ھ، ج 3، ص143 ؛ جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج 1، ص134۔
  20. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص196 ؛ محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص574۔
  21. ایروانی، دروس تمہیدیۃ، 1427ھ، ج 3، ص163۔
  22. جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ج 48، ص174 ۔
  23. جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ج 48، ص174 ۔
  24. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج 1، ص135۔
  25. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج 2، ص135؛ طباطبایی حائری، الشرح الصغیر فی شرح مختصر النافع، 1409ھ، ج 3، ص77؛ سبزواری، مہذب الأحکام، 1413ھ، ج 23، ص6؛ فاضل موحدی لنکرانی، تفصیل الشریعۃ، 1424ھ، ص313۔
  26. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج 2، ص135۔
  27. محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص575 ؛ ایروانی، دروس تمہیدیۃ، 1427ھ، ج 3، ص143۔
  28. فیاض کابلی، رسالہ توضیح المسائل، 1426ھ، ص601۔
  29. محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص574۔
  30. جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ج 30، ص277۔
  31. محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج 3، ص154-155؛ سبزواری، مہذب الأحکام، 1413ھ، ج 23، ص6 ۔
  32. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص197 ؛ محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص577؛ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ج 30، ص277۔
  33. محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص575 ۔
  34. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص202 ؛ محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج 3، ص155۔
  35. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج 2، ص136؛ ایروانی، دروس تمہیدیۃ، 1427ھ، ج 3، ص143 ۔
  36. محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج 3، ص155؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص201 ؛ محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص578۔
  37. محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج 3، ص155؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج 2، ص136۔
  38. محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص578۔
  39. سبزواری، مہذب الأحکام، 1413ھ، ج 23، ص15؛ فاضل موحدی لنکرانی، تفصیل الشریعۃ، 1424ھ، ص323۔
  40. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج 2، ص136-137؛ ایروانی، دروس تمہیدیۃ، 1427ھ، ج 3، ص143 ۔
  41. محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج 3، ص158؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص206 ؛ محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص580؛ فیاض کابلی، رسالہ توضیح المسائل، 1426ھ، ص603 ۔
  42. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج 1، ص136 ۔
  43. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج 2، ص135۔
  44. محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج 2، ص575 ؛ طباطبایی حائری، الشرح الصغیر فی شرح مختصر النافع، 1409ھ، ج 3، ص78۔
  45. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج 1، ص136 ۔
  46. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج 1، ص136 ۔
  47. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص203 ۔
  48. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص203 ۔
  49. نجفی، مصطفی الدین القیم، 1427ھ، ص210۔
  50. فیاض کابلی، رسالہ توضیح المسائل، 1426ھ، ص604 ۔
  51. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج 1، ص136 ۔
  52. صدر، ما وراء الفقہ، 1420ھ، ج 7، ص263۔
  53. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص204 -205۔
  54. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص205 ۔
  55. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص204 ۔
  56. محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج 3، ص158؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج 7، ص198 ؛ جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج 1، ص135-136۔

مآخذ

  • امام خمینی، سید روح اللّہ موسوی، تحریر الوسیلۃ، قم، مؤسسہ مطبوعات دار العلم، بی تا.
  • ایروانی، باقر، دروس تمہیدیۃ فی الفقہ الاستدلالی علی المذہب الجعفری، قم، چاپ دوم، 1427ھ۔
  • جمعی از پژوہشگران زیر نظر سید محمود ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ۔
  • جمعی از مؤلفان، مجلۃ فقہ أہل البیت(ع) (بالعربیۃ)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، بی تا.
  • حلی، مقداد بن عبد اللّہ سیوری، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، قم، انتشارات کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • سبزواری، سید عبد الأعلی، مہذّب الأحکام، قم، مؤسسہ المنار، چاپ چہارم، 1413ھ۔
  • سیفی مازندرانی، علی اکبر، دلیل تحریر الوسیلۃ - الصید و الذباحۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1415ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی عاملی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ(المحشّی-کلانتر)، قم، کتابفروشی داوری، 1410ھ۔
  • صدر، سید محمد، ما وراء الفقہ، بیروت، دار الأضواء للطباعۃ و النشر و التوزیع، بیروت، 1420ھ۔
  • طباطبایی حائری، سید علی بن محمد، الشرح الصغیر فی شرح مختصر النافع-حدیقۃ المؤمنین، قم، انتشارات کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1409ھ۔
  • فاضل موحدی لنکرانی، محمد، تفصیل الشریعۃ - الوقف، الوصیۃ، الأیمان و النذور، الکفارات، الصید، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1424ھ۔
  • فیاض کابلی، محمد اسحاق، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات مجلسی، 1426ھ۔
  • «قانون مدنی، مرکز پژوہش ہای مجلس شورای اسلامی»، تاریخ بازدید: 16 بہمن 1402ہجری شمسی۔
  • قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، 1412ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • محقق داماد یزدی، سید مصطفی، قواعد فقہ، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، چاپ دوازدہم، 1406ھ۔
  • محقق سبزواری، محمد باقر بن محمد مؤمن، کفایۃ الأحکام، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1423ھ۔
  • محمودی، محمد رضا، مناسک عمرہ مفردہ(محشی)، قم، نشر مشعر، 1429ھ۔
  • مشکینی، میرزا علی، مصطلحات الفقہ، قم، دارالحدیث، 1393ہجری شمسی۔
  • نجفی، بشیر حسین، مصطفی الدین القیم، نجف، دفتر حضرت آیۃ اللہ نجفی، 1427ھ۔
  • وحید خراسانی، حسین، منہاج الصالحین، قم، مدرسہ امام باقر(ع)، چاپ پنجم، 1428ھ۔