قناعت

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

قناعت، اخلاقی فضائل میں سے ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تھوڑے کو کافی سمجھنا اور اس کے مقابلے میں زیادہ خواہی آتی ہے۔ اسلامی ادبیات اور اسلامی ثقافت میں یہ لفظ " فضول خرچی کے مقابلے میں صحیح استعمال کرنے" کے معنی میں بھی آیا ہے۔

قناعت کا مفہوم

قناعت کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان کسی چیز کے بارے میں اپنی ضرورت بھر مقدار کے اوپر رک جائے۔[1] اسی طرح قناعت کے معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ کوئی اپنی قسمت پر راضی رہے۔[2]۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قناعت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا سے اپنی ضرورت بھر استعمال کرے ۔[3] نہ یہ کہ دنیا سے بالکل کوئی فائدہ نہ اٹھائے۔ دینی کتابوں میں قناعت کو ایسی صفت بتایا گیا ہے جو مشق اور محنت کے ذریعے سے انسان کے اندر ملکہ اور عادت کی صورت میں پیدا ہوجاتی ہے، جس کے بعد انسان کم چیز پر خوش اور راضی ہو جاتا ہے اور زیادہ خواہی سے اپنے نفس کو روک لیتا ہے۔[حوالہ درکار]


اہمیت

مِن شَرَفِ الهمَّة لُزومُ القَناعَة ترجمہ: قناعت کی پابندی، عظیم ہمت و حوصلے کا کام ہے۔

حدیث، (تصنیف غررالحکم و درر الکلم، ح ۸۹۹۹)

حضرت علی نے اپنے ماتحتوں اور گورنروں کو اسراف اور تبذیر سے پرہیز کرنے کی بہت سفارش کی ہے اور ان کے اوپر لازمی کیا ہے کہ بیت المال کی بچت اور کم استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ آپ فرماتے ہیں کہ قلم کی نوک کو باریک اور سطروں کے فاصلوں کو کم کر لو اور بیت المال کو زیادہ استعمال کرنے سے پرہیز کرو اس لیے کہ مسلمانوں کے مال کو کوئی خسارہ نہیں ہونا چاہیے۔[4] اسی طرح حضرت علی علیہ السلام سے منقول ایک روایت کی بنیاد پر قناعت وہ خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔[5]

علم اخلاق میں قناعت کو حرص اور لالچ کے مقابلے میں قرار دیا جاتا ہے اور قناعت کی وجہ سے انسان اپنی ضرورت بھر کی مقدار کے اوپر اکتفا کرتا ہے اور اس سے زیادہ کا خواہش مند نہیں ہوتا۔[6] اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے قناعت تک پہنچنے کے لئے لالچ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کو پہلا قدم شمار کیا ہے۔[7] اور سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی سیاسی اور معاشی عزت ایک قوم کی قناعت پسندی اور ضرورت بھر استعمال کرنے میں ہی پائی جاتی ہے۔[8]

اثرات، مقام اور نشانیاں

روایت میں قناعت کے بہت سے اثرات ذکر ہوئے ہیں: جیسے رضایت الہی[9] عزت انسان،[10] قیامت میں حساب کا ہلکا ہونا،[11] لوگوں سے بے نیازی[12]اور حیات طیبہ کا عطا ہونا۔ منجملہ یہ کہ حضرت علی سے سورہ نحل کی آیت نمبر 97 (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثىَ‏ وَ ہوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہ حَيَوة طَيِّبَة[؟؟])[13] کے بارے میں سوال کیا گیا کہ حیات طیبہ سے اللہ کی مراد کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: هی القناعہ یعنی اس سے مراد قناعت ہے۔[14]

قناعت کے دو مرتبہ ہیں ایک عالی اور ایک اعلی۔پہلا مرتبہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت کے مطابق مقدار پر راضی ہو جانا اور دوسرا رتبہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے کم تر پر راضی رہنا ۔[15]

احادیث میں قناعت پسند لوگوں کی کچھ نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ مثلا ان کی ہمت بلند ہوتی ہے اور وہ شکر گزار ہوتے ہیں۔ نمونہ کے طور پر حضرت علی علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں آیا ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ قناعت پسند بنو تاکہ سب سے زیادہ شکر گزار بن سکو[16] یا ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ قناعت پسند زندگی بلند ہمتی کی نشانی ہے۔[17]

معترّ اور قانع کا فرق

سورہ حج کی 36 ویں آیت کی تفسیر میں قانع اور معتر کے فرق کے سلسلہ میں آیا ہے کہ قانع اسے کہتے ہیں کہ اگر کوئی چیز اسے دے دو تو اسی پر قناعت کرتا ہے اور راضی اور خوش رہتا ہے اور کوئی اعتراض یا غصہ نہیں کرتا ہے۔ اور معتر اسے کہتے ہیں جو خود آپ کے پاس آتا ہے اور آپ سے تقاضا کرتا ہے اور مانگتا ہے اور ممکن ہے کہ اگر آپ اسے کچھ دیں تو اس پر راضی نہ ہو اور اعتراض کرے۔[18] کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ قانع وہ شخص ہے جو مانگتا ہے اور معتر وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو اطعام کی جگہ قرار دیتا ہے اور مانگتا نہیں ہے۔[19] روایت کے اعتبار سے پہلی تفسیر صحیح لگتی ہے۔[20] اہم بات یہ ہے کہ معتر کے اوپر قانع کا مقدم ہونا اس بات کی علامت ہے کہ جو محروم لوگ، پاک نفس اور خود دار ہیں ان کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ توجہ ملنا چاہئے۔[21]

حوالہ جات

  1. مفردات راغب، ص۴۱۳؛ طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، ج۴، ص۳۸۴
  2. ابن منظور، ۱۹۹۷: لفظ قَنَعَ کے زیل میں
  3. دشتی، ۱۳۸۴: ۷۰۴
  4. بحارالانوار۔ ج۴۱۔ ص۱۰۵۔
  5. الْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ: نہج البلاغہ حکمت۵۷۔
  6. دیکھیے: نراقی، ملا مہدی، جامع السعادات، ج ۲، ص۱۰۴
  7. تمیمی آمدی، ۱۳۸۴: ۵ / ۶۶
  8. اخلاق اسلامی در نہج‌البلاغہ، ص۳۵۸۔
  9. کلینی، الکافی، ج۳، ص۲۰۷۔
  10. میزان الحکمہ۔ ج۸۔ ح ۱۶۸۶۰۔
  11. میزان الحکمہ۔ ج۸۔ ص۲۸۳ - ۲۸۲۔
  12. کلینی، الکافی۔ج۳۔ ص۲۰۹۔ حدیث ۸۔
  13. جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ہایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے
  14. نہج البلاغہ، حکمت 229
  15. نقطه‌های آغاز در اخلاق عملی، ص۶۳۶.
  16. ارشاد القلوب۔ جزء اول۔ ص۱۱۸۔
  17. میزان الحکمہ۔ ج۲۔ ح ۱۶۸۶۳۔
  18. تفسیر نمونہ، ج ۱۴، ص۱۰۸۔
  19. تفسیر مجمع البیان، ج ۱۶، ص۲۱۷۔
  20. تفسیر مجمع البیان، ج ۱۶، ص۲۱۷۔
  21. تفسیر نمونہ، ج ۱۴، ص۱۰۸۔

مآخذ

  • قرآن کریم
  • نہج البلاغہ
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، جلد: ۱،‌ دار الفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع، دار صادر، بیروت۔
  • پایندہ، ابو القاسم، نہج الفصاحہ: مجموعہ کلمات قصار حضرت رسول(ص)، علمی، تہران، ۱۳۸۲شمسی ہجری۔
  • تمیمی آمدی، عبدالواحد، غرر الحکم و درر الکلم، موسسہ فرہنگی و اطلاع رسانی تبیان، قم، ۱۳۸۷شمسی ہجری۔
  • خادم الذاکرین، اکبر؛ اخلاق اسلامی در نہج ‌البلاغہ، مدرسۃ الامام علی بن ابی‌ طالب (ع)، چاپ چہارم، قم، ۱۳۸۲شمسی ہجری۔
  • دشتی، محمد، نہج‌ البلاغہ، موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امیرالمومنین، قم، ۱۳۸۴شمسی ہجری۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، إرشاد القلوب (ترجمۀ طباطبایی)، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، قم، ۱۳۷۶شمسی ہجری۔
  • طبرسی، حسن بن فضل؛ تفسیر مجمع البیان، ترجمہ مترجمان، فراہانی، چاپ اول، تہران، ۱۳۶۰شمسی ہجری۔
  • طریحی، فخر الدین بن محمد، مجمع البحرین (۶ جلد)، مرتضوی، تہران، ۱۳۷۵شمسی ہجری۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی - ترجمہ کمرہای (۶ جلد)، اسوہ، قم، ۱۳۷۵شمسی ہجری۔
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار (۱۱۱ جلد)،‌ دار احیاء التراث العربی، بی‌جا۔
  • محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمۃ (با ترجمہ فارسی)، ۱۴ جلد، موسسہ علمی فرہنگی‌ دار الحدیث، سازمان چاپ و نشر، قم، ۱۳۸۹شمسی ہجری۔
  • معین، محمد، فرہنگ فارسی، امیرکبیر، نوبت چاپ: بیست و ششم۔
  • مکارم شیرازی و ہمکاران؛ تفسیر نمونہ، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ اول، تہران، ۱۳۷۴شمسی ہجری۔
  • مہدوی کنی، محمد رضا؛ نقطہ‌ہای آغاز در اخلاق عملی، بی‌جا، چاپ ششم، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۷۵شمسی ہجری۔
  • ناظم ‌زادہ قمی، اصغر، جلوہ‌ہای حکمت: گزیدہ موضوعی کلمات امیرالمومنین علی(ع) در ۲۲۵ موضوع۔ غرر الحکم و درر الحکم۔ نہج البلاغہ، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، قم، ۱۳۷۵شمسی ہجری۔
  • نراقی، مہدی بن ابی‎ذر، جامع السعادات (۳ جلد)، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت۔