کظم غیظ

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

کَظْمِ غَیْظْ، اخلاقی صفات میں سے ایک ہے جس کے معنی غصے پر قابو پانا ہے۔ سورہ آل عمران کی آیہ نمبر 134 میں غصے پر قابو پانے کو نیک لوگوں کی خصوصیات میں سے شمار کیا گیا ہے اور احادیث کے مطابق اللہ کی رضایت کا حصول اور عذاب الہی سے نجات کظم غیظ کے آثار میں سے ہیں۔ علم اخلاق کے ماہرین نے غصے کے باب میں کظم غیظ سے بحث کرتے ہوئے غصے پر قابو پانے کے مختلف طریقوں کو بیان کیا ہے۔

شیعوں کے ساتویں امام حضرت موسی کاظم علیہ السلام غصے کو اپنے قابو میں رکھنے کی وجہ سے کاظم کے لقب سے مشہور ہوئے۔

اہمیت اور تعریف

غَیْظْ غصے کی سب سے شدید حالت ہے اور اس حرارت کو کہا جاتا ہے جو خون دل جوش میں آنے سے اس پر طاری ہوتی ہے۔[1] کظم کے معنی ہیں انسان کا اپنے سانس کو روکنا اور کظم غیظ، اخلاقیات میں مستعمل ایک اصطلاح ہے جس کے معنی غصے کو قابو میں رکھنا اور اس کو ظاہر کرنے سے اجتناب کرنا ہیں۔[2] اور جو شخص غصے پر زیادہ قابو پاتا ہے اسے کاظم کہا جاتا ہے۔[3]

یہ صفت معنی کے لحاظ سے دوسری اخلاقی خصوصیات جیسے حلم اور عفو سے بھی زیادہ نزدیک ہے اور حلم اور کظم غیظ کے درمیان فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جو شخص حلم کے مرحلے تک نہ پہنچا ہو اس سے کظم غیظ ہوسکتا ہے اور کسی بھی وقت غصہ اس سے ظاہر ہوسکتا ہے۔ لیکن وہ اپنے غصے کو قابو میں رکھ کر اسے ظاہر ہونے نہیں دیتا ہے۔[4]

اور بعض احادیث میں کظم غیظ، صبر اور حلم کے مابین رابطہ قائم کیا ہے۔ امام صادقؑ ایک روایت میں غصہ پینے کو اللہ کی بارگاہ میں بہترین گھونٹ سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: کوئی بھی گھونٹ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے جتنا اللہ کا بندہ اپنے پورے جوش و جذبے کے ساتھ غصے کا گھونٹ پی جاتا ہے اور صبر و تحمل سے اسے دور کردیتا ہے۔[5][یادداشت 1]

قرآن مجید میں غصہ پر قابو پانے کو اللہ کے نیک بندوں کی خصوصیات میں سے ذکر کیا ہے۔ "وہ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں (کے قصور) معاف کر دیتے ہیں۔ اور اللہ بھلائی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔"[6] روایات میں غصہ پر قابو کرلینے کو ایک اخلاقی فضیلت اور ائمہؑ نے اس کی بہت تاکید کی ہے۔ کلینی نے کافی کی کتاب ایمان و کفر میں 13 روایتیں غصہ پر کنٹرول کرنے کے بارے میں ذکر کی ہیں۔[7] صحیفہ سجادیہ کی دعائے مکارم الاخلاق میں بھی کظم غیظ کی طرف اشارہ ہوا ہے[8] اور روایات میں اللہ کے عذاب سے نجات اور اللہ کی رضایت کے حصول کو غصہ پر قابو پانے کے آثار میں سے قرار دیا گیا ہے۔[9] پیامبر اکرمؐ سے حدیث نقل ہوئی ہے کہ: "جو بھی اپنے غصے پر قابو پائے گا اللہ اس پر عذاب نہیں کرتا ہے۔"[10] امام سجادؑ ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک غصہ کا گھونٹ اور دوسروں کو سزا نہ دینے کا گھونٹ پینے سے بہتر پینے والی کوئی اور چیز نہیں۔ کسی اور روایت میں غصہ پی جانے اور مصیبت کے وقت غم پی جانے کو اللہ کے ہاں بہترین گھونٹ قرار دیا ہے۔[11] [یادداشت 2]

غصے پر قابو پانے کے طریقے

اخلاق کی کتابوں میں اخلاقی برائیوں کے ضمن میں کظم غیظ پر بھی بحث ہوئی ہے۔[12]علم اخلاق کے ماہرین نے غصے پر قابو پانے کے لئے کچھ طریقے بھی بیان کئے ہیں۔[13]

فیض کاشانی نے اپنی کتاب المحجۃ البیضا میں غصے پر قابو پانے کے علمی اور عملی طریقے بیان کیے ہیں۔ انہوں نے غصہ کو قابو میں رکھنے، حلم اور عفو کی فضیلت کے بارے میں منقول روایات میں غور و فکر کرنے، ان روایات میں مذکور ثواب پر توجہ دینے، غصے کی حالت میں چہرے کے بدلتے برے تیور پر توجہ دینے، اللہ کی قدرت اور غضب کو یاد کرنے اور انتقام لینے کے احساس کی مذمت کو غصے پر کنٹرول کرنے کے علمی طریقوں کے طور پر بیان کیا ہے.[14]

اسی طرح فیض کاشانی نے استعاذہ (اللہ سے پناہ مانگنے)اور حالت کی تبدیلی کو غصہ پر قابو پانے کے عملی طریقوں کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر استعاذہ کارآمد نہ ہوا تو غصے والا انسان اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، اور بیٹھا ہوا ہو تو ٹیک لگا لے یا لیٹ جائے۔ اسی طرح بعض روایات میں غصہ کو آگ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آگ کو پانی کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں بجھا سکتی لہذا جو شخص غصے کی حالت میں ہو اس کو وضو کرنا چاہئے۔[15] بعض دوسری روایات میں رسول اللہؐ سے منقول ہے کہ جس شخص کو غصہ آتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے چہرے کو زمین سے مس کردے۔ ورام بن ابی فراس نے کہا ہے کہ اس سے پیغمبر اکرمؐ کا مراد سجدہ کرنا ہے تاکہ وہ ذلت و خواری کا احساس کرے اور غصہ ٹھنڈا ہو جائے۔[16]

امام باقر علیہ السلام غصہ پر قابو پانے کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ جس کو بھی لوگوں پر غصہ آجائے، اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے تاکہ شیطان کی پلیدی اور ناپاکی اس سے دور ہوجائے اور جسے اپنے رشتہ داروں پر غصہ ہوجائے تو اس کے نزدیک چلا جائے اور بدن سے بدن ملائے (مثلا ہاتھ ملائے) کیونکہ رشتہ دار ایک دوسرے کو چھو لینے سے سکون پاتا ہے۔[17]

امام کاظمؑ اور کظم غیظ

ساتویں امام موسی بن جعفرؑ کو کاظم کا لقب ملنے کی وجہ بھی یہی بیان ہوئی ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے غصے کو قابو میں رکھتے تھے۔[18] مختلف کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ آپؑ اپنے دشمنوں اور ان لوگوں کے مقابلے میں غصہ پر قابو کرتے تھے جو آپ کے ساتھ برا رویہ اختیار کرتے تھے۔[19] جیسا کہ کہا گیا ہے: عمر بن خطاب کی نسل میں سے کسی نے امام کاظمؑ کے حضور، امام علیؑ کی توہین کی تو امام کے ساتھی نے اس پر حملہ کرنا چاہا؛ لیکن امامؑ نے اسے منع کیا اور آپ اس مرد کے کھیت میں چلے گئے۔ جب اس مرد نے آپؑ کو دیکھا تو شور کرتے ہوئے کہا کہ میری فصل کو پاؤں تلے مت روندو! امامؑ اس کے قریب گیے اور خوشروئی سے کہا: اس فصل کی کاشت میں کتنا خرچہ کیا ہے؟ اس نے کہا: 100 دینار! آپؑ نے پھر سوال کیا: اس سے کتنا محصول آتا ہے؟ اس مرد نے کہا: مجھے علمِ غیب نہیں آتا۔ امام کاظمؑ نے پوچھا: محصول کی تمہیں کتنی توقع ہے؟ اس نے کہا: 200 دینار! امام نے اسے 300 دینار دیا اور کہا: یہ 300 دینار بھی اور تمہارا جتنا محصول ہو وہ بھی تمہارا ہے۔ پھر آپ مسجد کی طرف گئے۔ اس شخص نے اپنے آپ کو امام سے پہلے مسجد تک پہنچایا اور امام کاظمؑ کو دیکھتے ہی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس آیت کی تلاوت کی:اللَّه أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِ‌سَالَتَهُ؛ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں پر رکھ دینا ہے۔(سورہ انعام آیہ 124)[20]

متعلقہ مضامین

کاظم (لقب)

نوٹ

  1. مَا مِنْ جُرْعَةٍ يَتَجَرَّعُهَا عَبْدٌ أَحَبَّ إِلَى اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ جُرْعَةِ غَيْظٍ يَرُدُّهَا فِي قَلْبِهِ وَ رَدَّهَا بِصَبْرٍ أَوْ رَدَّهَا بِحِلْمٍ.
  2. ما من جرعتين أحب إلى الله عز وجل أن يجرعهما عبده المؤمن في الدنيا من جرعة غيظ كظم عليها وجرعة حزن عند مصيبة صبر عليها

حوالہ جات

  1. راغب اصفہانی، مفردات، 1412ھ، ص619.
  2. راغب اصفہانی، مفردات، 1412ھ، ص712.
  3. نراقی، جامع السعادات، مؤسسه الاعلمی للمطبوعات، ج1، ص333؛ غزالی، احیاء علوم الدین، دار المعرفہ، ج3، ص176.
  4. نراقی، جامع السعادات، مؤسسه الاعلمی للمطبوعات، ج1، ص333؛ غزالی، احیاء علوم الدین، دار المعرفه، ج3، ص176.
  5. کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص111. {
  6. سوره آل عمران، آیت 134۔
  7. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص109-111.
  8. صحیفہ سجادیہ، بیسویں دعا۔
  9. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص109-111.
  10. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج5، ص306-307.
  11. مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، مؤسسةالوفاء بیروت، ج 47، ص 301 العروسي الحويزي، تفسير نور الثقلين، ج1، ص390
  12. ورام، مجموعہ وارم، 1410ھ، ج1، ص123-124.
  13. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج5، ص306-307.
  14. فیض کاشانی، المحجة البیضاء، مؤسسة النشر الاسلامی، ج5، ص306-307.
  15. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج5، ص306-307.
  16. ورام، مجموعہ ورام، 1410ھ، ج1، ص124.
  17. کلینی، کافی،1407ھ، ج2، ص302.
  18. ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج6، ص164؛ ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، 1418ھ، ص312.
  19. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص233؛ قرشی، حیاۃ الامام موسی بن جعفر، 1429ھ، ج2، ص162-160.
  20. بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج13، ص30.

مآخذ

  • صحیفہ سجادیہ۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر، 1385ھ۔
  • ابن جوزی، سبط، تذکرۃ الخواص، قم، منشورات شریف الرضی، 1418ھ۔
  • بغدادی، خطیب، تاریخ بغداد، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1417ھ۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، تصحیح: صفوان عدنان، دمشھ، دار القلم-الدار الشامیہ، 1412ھ۔
  • قرشی، باقر شریف، حیاۃ الإمام موسی بن جعفر علیہما السلام، تحقیق: مہدی باقر القرشی، بی‌ جا، مہر دلدار، 1429ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، المحجۃ البیضاء فی تہذیب الاحیاء، تصحیح: علی ‌اکبر غفاری، قم، موسسۃ النشر الاسلامی، بی ‌تا۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مفید، محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، كنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • ورام بن ابی فراس، مجموعہ ورام، مکتبہ فقہیہ، قم، 1410ھ۔
  • نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، بی‌تا.
  • «کتاب مهار خشم»، پژوهشگاه قرآن و حدیث، مشاهده 16 تیر 1399 شمسی ہجری.