تَبْذیر، گناہان کبیرہ میں سے ہے جو مال و دولت کے غلط استعمال کو کہا جاتا ہے۔ تبذیر اسراف کے ضمن میں آتا ہے جو مال و دولت کے استعمال میں منصوبہ بندی کے بغیر ایک طرح کی زیادہ روی یا اسے خدا کی معصیت میں استعمال کرنے کو کہاجاتا ہے۔ تبذیر اور اسراف ایک دوسرے کے ساتھ بعض چیزوں میں مشابہت رکھنے کے ساتھ ساتھ دونوں میں نمایاں فرق بھی ہے؛ اسراف میں ہر قسم کا انحراف شامل ہے چاہے اعتقادی ہو یا اخلاقی، سماجی ہو یا معاشی، جبکہ تبذیر صرف مال و دولت میں انحراف کی حد تک محدود ہے۔
قرآن میں تبذیر کو ایک شیطانی عمل اور مبذرین کو شیاطین کا بھائی کہا گیا ہے۔ فقہی کتابوں میں تبذیر کو انسان کے اموال میں تصرف کرنے سے روکنے اور منع کرنے کے عوامل میں سے قرار دیا گیا ہے۔
مفہوم شناسی
تبذیر مال و دولت میں اسراف کرنا، بغیر منصوبہ بندی کے خرچ کرنا،[1] بے ہودہ خرچ کرنا یا فضول خرچی،[2] مال دولت کو تباہ کرنا[3] اور مال بے جا استعمال کرنا[4] یا مال دولت کو شرعی احکام کی رعایت کے بغیر خرچ کرنا[5] وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔ تبذیر ہمیشہ ایک قسم کی زیادہ روی اور بد نظمی کے ساتھ ہوتا ہے[6] اسی نبا پر اسے بیج کو نامناسب جگہے پر پھینک دینے سے تشبیہ دی گئی ہے۔[7] تبذیر کو اسراف کا جز بھی قرار دیا گیا ہے؛[8] کیونکہ دونوں میں اعتدال سے خارج ہو جاتا ہے۔
تبذیر کا تحقق مال و دولت کو خدا کی معاصی میں خرچ کرنا اور خدا کی مخالفت بھی جانا گیا ہے۔[9]
اسراف اور تبذیر میں فرق
تبذیر کو اسراف کا جز قرار دیا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض احادیث میں ان دو الفاظ کو ایک ہی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ امام علیؑ سے مروی ایک حدیث میں مال و دولت کو بے جا خرچ کرنے کو اسراف اور تبذیر قرار دیا گیا ہے۔ جو خدا کے یہاں انسان کے سقوط کا باعث بنتا ہے؛[10] البتہ اس تنگاتنگ رابطے کے باوجود ان دو الفاظ کے درمیان تفاوتیں بھی پائی جاتی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
- اسراف کا مفہوم عام اور فراگیر ہے جس میں ہر قسم کا انحراف شامل ہے چاہے وہ اعتقادی ہو یا اخلاقی، اجتماعی ہو یا معاشی۔ لیکن تبذیر اکثر معاشی امور میں اور کبھی کبھار دوسرے موارد مثلا امام علیؑ کی ولایت[11] وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔[12]
- اسراف حد اعتدال سے خارج ہونے کو کہا جاتا ہے بغیر اس کے کہ کسی چیز کو ضایع کیا ہو مثلا ایک ایسا قیمتی لباس پہنیں جو ہماری ضرورت سے کہیں زیادہ ہو؛ لیکن تبذیر اس وقت صدق آتی ہے جب کوئی مال ضایع ہو مثلا 5 آدمیوں کے لئے 10 آدمیوں کے برابر کھانا تیار کیا جائے اور جو بچ جائے اسے دور پھینک دیا جائے۔[13]
- تفسیر مجمع البیان میں طبرسی تبذیر کو مال کا ضایع کرنا اور اسے دور پھینک دینا قرار دیتے ہیں لیکن ضایع کئے بغیر بے انتہا خرچ کرنے کو اگرچہ نیک کاموں جیسے مستحب انفاق وغیرہ میں ہی کیوں نہ ہو کو تبذیر نہیں جانتا ہے۔[14]
- اسراف چہ بسا کسی مباح کام میں زیادہ روی اور چہ بسا بے جا اور غلط جگہے پر استعمال کرنے کو کہا جاتا ہے، اس بنا پر اس کے مصادیق کو کیفیت اور کمیت دونوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے؛ لیکن تبذیر معمولا کیفیت میں یعنی غلط جگہوں پر استعمال کرنے میں تحقق پیدا کرتا ہے مثلا کسی ایسے شخص پر انفاق کرے تاکہ وہ حرام کا مرتکب ہو پس تبذیر اسراف کے برخلاف کبھی بھی کسی نیک کام میں زیادہروی پر صدق نہیں آئے گا۔[15]
درج بالا اختلافات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکتا ہے کہ اگرچہ تبذیر اسراف کے ضمن میں اور اس کا جز ہے؛ لیکن اسراف سے بھی تبذیر برا ہے؛[16] کیونکہ اس میں حلال کی بجای حرام کاموں میں صرف ہوتا ہے۔[17]
تبذیر کی ممانعت
قرآن میں سورہ اسراء کی آیت نمبر 26 اور 27 میں تبذیر کا لفظ تین دفعہ آیا ہے۔ ان آیات میں رشتہ داروں، نیازمندوں اور سفر میں محتاج ہونے والوں کے حقوق کی ادائیگی، انفاق اور اسراف و تبذیر سے پرہیز کرنے کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔ اس آیت میں رشتہ داروں اور نیازمنوں کے حقوق کی ادائیگی کے بعد تبذیر سے منع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی شخص ذاتی رشتہ داری کی بنا پر کسی کو اس کے حق سے زیادہ عطا نہ کرے کیونکہ ہر چیز میں تبذیر ایک بری چیز ہے اور بخشش و انفاق وغیرہ میں بھی اعتدال اور میانہ روی کی تاکید کی گئی ہے۔ بعد والی آیت میں مبذرین کو شیاطین کے ساتھ تشبیہ دینا اور ان کو شیاطین کا بھائی قرار دینا نیز تبذیر سے ممنوعت کی دلیل ہے۔[18] مبذرین کا شیاطین کے ساتھ برادری اور تشیبہ حقیقت میں ان دونوں کے اعمال میں ایک دوسرے کا ساتھ شبیہ ہونے کی وجہ سے ہے جس میں دونوں اپنا مال بتاہ کر رہا ہوتا ہے۔[19]
مفسرین سورہ اسراء کی آیت نمبر 27 میں لفظ شیطان سے مراد ابلیس لیتے ہیں جس نے حکم خدا کا انکار کیا تھا، یہ انکار حقیقت میں خدا کی نعمتوں کو ضایع کرنا ہے اور خدا کی دی ہوئی قدرت اور توانائیوں سے غلط استفادہ کرتے ہوئے خدا کے بندوں کو گمراہ کرنا ہے۔[20]
ان آیات میں تبذیر کو ایک شیطانی اور ایک قسم کی ناشکری سے تعبیر کرتے ہیں اور جس طرح مؤمن کو دوسرے مؤمنوں کی برادری کے ذریعے برتری اور فضیلت دی گئی ہے مبذرین کو شیاطین کی برادری کے ذریعے تحقیر کی گئی ہے۔[21]
تبذیر سے پرہیز کرنے کو احادیث میں بھی بڑی اہمیت دی گئی ہے یہاں تک کہ انفاق اور نیک کاموں میں بھی تبذیر سے نہی کی گئی ہے۔ کسی مسلمان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے اولاد ہونے کے باوجود موت سے پہلے 6 غلاموں کو خرید کر آزاد کیا تھا، جب یہ خبر پیغمبر اکرمؐ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا اگر یہ خبر پہلے مجھ تک پہنچ چکی ہوتی تو میں اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے نہیں دیتا کیونکہ اس نے اپنے چھوٹے بچوں کو غربت کے خطرے سے دوچار کیا ہے۔[22]
احکام
تبذیر کا حرام ہونا دین کی ضروریات اور فقہاء کا مورد اجماع قرار دیا گیا ہے۔[23] تبذیر من جملہ ان گناہان کبیرہ میں سے ہے[24] جو محجوریت (اپنے اموال میں تصرف سے منع کرنا) کا باعث بنتا ہے۔ فقہا کے مطابق جو شخص تبذیر جیسی پلیدی میں گرفتار ہوتا ہے شرعی نقطہ نگاہ سے یہ شخص سفیہ یعنی دیوانہ قلمداد کیا جاتا ہے اور حاکم شرع کے حکم سے اسے اپنے اموال میں تصرف سے منع کیا جاتا ہے۔[25]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
مآخذ
اسلام کے اقتصادی احکام |
---|
| عقود | |
---|
| محرمات | |
---|
| مربوطہ | |
---|
|