تبذیر

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

تَبْذیر، گناہان کبیرہ میں سے ہے جو مال و دولت کے غلط استعمال کو کہا جاتا ہے۔ تبذیر اسراف کے ضمن میں آتا ہے جو مال و دولت کے استعمال میں منصوبہ بندی کے بغیر ایک طرح کی زیادہ روی یا اسے خدا کی معصیت میں استعمال کرنے کو کہاجاتا ہے۔ تبذیر اور اسراف ایک دوسرے کے ساتھ بعض چیزوں میں مشابہت رکھنے کے ساتھ ساتھ دونوں میں نمایاں فرق بھی ہے؛ اسراف میں ہر قسم کا انحراف شامل ہے چاہے اعتقادی ہو یا اخلاقی، سماجی ہو یا معاشی، جبکہ تبذیر صرف مال و دولت میں انحراف کی حد تک محدود ہے۔
قرآن میں تبذیر کو ایک شیطانی عمل اور مبذرین کو شیاطین کا بھائی کہا گیا ہے۔ فقہی کتابوں میں تبذیر کو انسان کے اموال میں تصرف کرنے سے روکنے اور منع کرنے کے عوامل میں سے قرار دیا گیا ہے۔

مفہوم‌ شناسی

تبذیر مال و دولت میں اسراف کرنا، بغیر منصوبہ بندی کے خرچ کرنا،[1] بے ہودہ خرچ کرنا یا فضول خرچی،[2] مال دولت کو تباہ کرنا[3] اور مال بے جا استعمال کرنا[4] یا مال دولت کو شرعی احکام کی رعایت کے بغیر خرچ کرنا[5] وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔ تبذیر ہمیشہ ایک قسم کی زیادہ روی اور بد نظمی کے ساتھ ہوتا ہے[6] اسی نبا پر اسے بیج کو نامناسب جگہے پر پھینک دینے سے تشبیہ دی گئی ہے۔[7] تبذیر کو اسراف کا جز بھی قرار دیا گیا ہے؛[8] کیونکہ دونوں میں اعتدال سے خارج ہو جاتا ہے۔
تبذیر کا تحقق مال و دولت کو خدا کی معاصی میں خرچ کرنا اور خدا کی مخالفت بھی جانا گیا ہے۔[9]

اسراف اور تبذیر میں فرق

تبذیر کو اسراف کا جز قرار دیا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض احادیث میں ان دو الفاظ کو ایک ہی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ امام علیؑ سے مروی ایک حدیث میں مال و دولت کو بے جا خرچ کرنے کو اسراف اور تبذیر قرار دیا گیا ہے۔ جو خدا کے یہاں انسان کے سقوط کا باعث بنتا ہے؛[10] البتہ اس تنگاتنگ رابطے کے باوجود ان دو الفاظ کے درمیان تفاوتیں بھی پائی جاتی ہیں جو درج ذیل ہیں۔

  • اسراف کا مفہوم عام اور فراگیر ہے جس میں ہر قسم کا انحراف شامل ہے چاہے وہ اعتقادی ہو یا اخلاقی، اجتماعی ہو یا معاشی۔ لیکن تبذیر اکثر معاشی امور میں اور کبھی کبھار دوسرے موارد مثلا امام علیؑ کی ولایت[11] وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔[12]
  • اسراف حد اعتدال سے خارج ہونے کو کہا جاتا ہے بغیر اس کے کہ کسی چیز کو ضایع کیا ہو مثلا ایک ایسا قیمتی لباس پہنیں جو ہماری ضرورت سے کہیں زیادہ ہو؛ لیکن تبذیر اس وقت صدق آتی ہے جب کوئی مال ضایع ہو مثلا 5 آدمیوں کے لئے 10 آدمیوں کے برابر کھانا تیار کیا جائے اور جو بچ جائے اسے دور پھینک دیا جائے۔[13]
  • تفسیر مجمع البیان میں طبرسی تبذیر کو مال کا ضایع کرنا اور اسے دور پھینک دینا قرار دیتے ہیں لیکن ضایع کئے بغیر بے انتہا خرچ کرنے کو اگرچہ نیک کاموں جیسے مستحب انفاق وغیرہ میں ہی کیوں نہ ہو کو تبذیر نہیں جانتا ہے۔[14]
  • اسراف چہ بسا کسی مباح کام میں زیادہ‌ روی اور چہ بسا بے جا اور غلط جگہے پر استعمال کرنے کو کہا جاتا ہے، اس بنا پر اس کے مصادیق کو کیفیت اور کمیت دونوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے؛ لیکن تبذیر معمولا کیفیت میں یعنی غلط جگہوں پر استعمال کرنے میں تحقق پیدا کرتا ہے مثلا کسی ایسے شخص پر انفاق کرے تاکہ وہ حرام کا مرتکب ہو پس تبذیر اسراف کے برخلاف کبھی بھی کسی نیک کام میں زیادہ‌روی پر صدق نہیں آئے گا۔[15]

درج بالا اختلافات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکتا ہے کہ اگرچہ تبذیر اسراف کے ضمن میں اور اس کا جز ہے؛ لیکن اسراف سے بھی تبذیر برا ہے؛[16] کیونکہ اس میں حلال کی بجای حرام کاموں میں صرف ہوتا ہے۔[17]

تبذیر کی ممانعت

قرآن میں سورہ اسراء کی آیت نمبر 26 اور 27 میں تبذیر کا لفظ تین دفعہ آیا ہے۔ ان آیات میں رشتہ داروں، نیازمندوں اور سفر میں محتاج ہونے والوں کے حقوق کی ادائیگی، انفاق اور اسراف و تبذیر سے پرہیز کرنے کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔ اس آیت میں رشتہ داروں اور نیازمنوں کے حقوق کی ادائیگی کے بعد تبذیر سے منع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی شخص ذاتی رشتہ داری کی بنا پر کسی کو اس کے حق سے زیادہ عطا نہ کرے کیونکہ ہر چیز میں تبذیر ایک بری چیز ہے اور بخشش و انفاق وغیرہ میں بھی اعتدال اور میانہ روی کی تاکید کی گئی ہے۔ بعد والی آیت میں مبذرین کو شیاطین کے ساتھ تشبیہ دینا اور ان کو شیاطین کا بھائی قرار دینا نیز تبذیر سے ممنوعت کی دلیل ہے۔[18] مبذرین کا شیاطین کے ساتھ برادری اور تشیبہ حقیقت میں ان دونوں کے اعمال میں ایک دوسرے کا ساتھ شبیہ ہونے کی وجہ سے ہے جس میں دونوں اپنا مال بتاہ کر رہا ہوتا ہے۔[19]
مفسرین سورہ اسراء کی آیت نمبر 27 میں لفظ شیطان سے مراد ابلیس لیتے ہیں جس نے حکم خدا کا انکار کیا تھا، یہ انکار حقیقت میں خدا کی نعمتوں کو ضایع کرنا ہے اور خدا کی دی ہوئی قدرت اور توانائیوں سے غلط استفادہ کرتے ہوئے خدا کے بندوں کو گمراہ کرنا ہے۔[20]
ان آیات میں تبذیر کو ایک شیطانی اور ایک قسم کی ناشکری سے تعبیر کرتے ہیں اور جس طرح مؤمن کو دوسرے مؤمنوں کی برادری کے ذریعے برتری اور فضیلت دی گئی ہے مبذرین کو شیاطین کی برادری کے ذریعے تحقیر کی گئی ہے۔[21]
تبذیر سے پرہیز کرنے کو احادیث میں بھی بڑی اہمیت دی گئی ہے یہاں تک کہ انفاق اور نیک کاموں میں بھی تبذیر سے نہی کی گئی ہے۔ کسی مسلمان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے اولاد ہونے کے باوجود موت سے پہلے 6 غلاموں کو خرید کر آزاد کیا تھا، جب یہ خبر پیغمبر اکرمؐ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا اگر یہ خبر پہلے مجھ تک پہنچ چکی ہوتی تو میں اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے نہیں دیتا کیونکہ اس نے اپنے چھوٹے بچوں کو غربت کے خطرے سے دوچار کیا ہے۔[22]

احکام

تبذیر کا حرام ہونا دین کی ضروریات اور فقہاء کا مورد اجماع قرار دیا گیا ہے۔[23] تبذیر من جملہ ان گناہان کبیرہ میں سے ہے[24] جو محجوریت (اپنے اموال میں تصرف سے منع کرنا) کا باعث بنتا ہے۔ فقہا کے مطابق جو شخص تبذیر جیسی پلیدی میں گرفتار ہوتا ہے شرعی نقطہ نگاہ سے یہ شخص سفیہ یعنی دیوانہ قلمداد کیا جاتا ہے اور حاکم شرع کے حکم سے اسے اپنے اموال میں تصرف سے منع کیا جاتا ہے۔[25]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. دہخدا، لغت نامہ، ذیل واژہ تبذیر۔
  2. عمید، فرہنگ فارسی، ذیل واژہ تبذیر۔
  3. فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۰، ص۱۹۳۔
  4. حقی، روح البیان، ج۱۵، ص۱۵۱۔
  5. طیب، اطیب البیان، ج۸، ص۲۴۱؛ ج۹، ص۶۵۴۔
  6. مصطفوی، التحقیق، ذیل واژہ بذر۔
  7. راغب اصفہانی، مفردات، ذیل واژہ بذر۔
  8. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۵۰۱۔
  9. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۲۶، ص۵۲؛ عطایی، «اسراف و تبذیر در قرآن»۔
  10. نہج البلاغہ بہ تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۲۶، ص۱۸۳۔
  11. عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۲۸۸۔
  12. راغب اصفہانی، مفردات، ذیل واژہ بذر؛ فخر رازی، التفسر الکبیر، ۱۴۲۰، ج۹، ص۲۸۔
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲، ص۸۵۔
  14. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج ۶، ص۶۳۳۔
  15. معموری، «اسراف»، ص۲۰۲۔
  16. ابوہلال عسکری، الفروق اللغویہ، ص۱۱۵؛ روح المعانی، ج۱۵، ص۹۰۔
  17. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۴۱۳؛ مقدس اردبیلی، زبدۃ البیان، ۱۳۸۶ق، ص۴۰۹۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲، ص۸۸۔
  19. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۱۲۔
  20. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۱۲۔
  21. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳ش، ح۷، ص۴۶۔
  22. صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۵۶۶۔
  23. مشکینی، مصطلحات الفقہ، ۱۳۹۲ش، ص۷۰۔
  24. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۳، ص۳۱۰۔
  25. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۲۶، ص۵۲۔

مآخذ

  • ابو ہلال عسکری، حسن بن عبداللہ، الفروق اللغویہ، مصر، دار العلم، ۱۴۱۴ق
  • آلوسی، محمود بن عبداللہ، روح المعانی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق
  • حقی برسوی، اسماعیل، تفسیر روح البیان، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۵ق
  • دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ، تہران، دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ش۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ قرآن، لبنان - سوریہ، دار العلم- الدار الشامیۃ‌، ۱۴۱۲ق
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتاب فروشی داوری، ۱۳۸۵ش
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، ۱۳۷۸ش۔
  • عطایی، محمدرضا، «اسراف وتبذیر در قرآن»، نشریہ مشکات، شمارہ ۵۵، ۱۳۸۸ش۔
  • عمید، حسن، فرہنگ فارسی، تہران، امیرکبیر، ۱۳۷۱ش۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، مصحح ہاشم‏ رسولى محلاتى، تہران، المطبعۃ العلميۃ، ۱۳۸۰ق
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احياء التراث العربى، ۱۴۲۰ق
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق
  • مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، دار الحدیث، ۱۳۹۲ش۔
  • مصطفوی، حسن‌، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم‌، تہران، مرکز الکتاب للترجمۃ و النشر‌، ۱۴۰۲ق
  • معموری، علی، «اسراف»، در دائرہ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۲ش۔
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، زبدۃ البیان فی احکام القرآن، مصحح محمد باقر بہبودی، تہران، مکتبہ المرتضویہ، ۱۳۸۶ق
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ش۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، محقق ابراہیم سلطانی نسب، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۳۶۲ش۔
  • نہج البلاغہ، بہ تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، ۱۴۱۳ق