اصلاح ذات البین

کم لنک
ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

اِصلاح ذات‌البَین کے معنی لوگوں کے درمیان صلح و صفائی قائم کرتے ہوئے ان کے مابین تعلقات کی اصلاح کرنا ہیں۔ اصلاح ذات البین کو اخلاقی فضائل اور خوبیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں بہتان تراشی، طعنہ زنی اور سخن‌چینی، لوگوں کے درمیان اختلاف ڈالنا اور دشمنیاں پیدا کرنا اخلاقی بری صفات میں سے ہیں۔

قرآن کی آیات اور احادیث میں لوگوں کے درمیان صلح و آشتی پیدا کرنے اور ان کے مایبن موجود تنازعات اور اختلافات کو ختم کرنے کے لیے راہ حل پیش کیا گیا ہے؛ ان میں سے بعض راہ حل یہ ہیں: گھریلو اختلافات کی صورت میں دونوں طرف سے فرد ثالث کو صلح کرنے کا اختیار دینا، اختلافات پیدا ہونے والے عوامل و اسباب کے روک تھام کے لیے اقدامات کرنا، اپنے مال و جائداد کے بارے میں شرعی اور درست طریقے سے وصیت کرنا اور دینی و مذہبی احساسات کو ابھارنا وغیرہ۔ دینی تعلیمات میں بخل، شیطان کی پیروی اور دنیا طلبی جیسی صفات کو اصلاح ذات البین کی راہ میں رکاوٹ کے طور تعارف کیا گیا ہے۔

تعریف

چند لوگوں یا چند گروہوں کے درمیان تنازعات اور دشمنیوں کی وجہ سے پیدا شدہ خراب تعلقات کو صلح و آشتی میں تبدیل کرنا اور اس کی اصلاح کرنا اصلاح ذات‌البین کہلاتا ہے۔[1][یادداشت 1][2] اصلاح ذات البین کا لفظ سورہ انفال کی پہلی آیت سے اخذ کیا گیا ہے۔[3] اصلاح ذات‌البین کے سلسلے میں ممکن ہے صلح و آشتی دو افراد کے درمیان ہو اور ممکن ہے دو گروہوں کے درمیان ہو۔ دبیز متن

اصلاح ذات‌البین اخلاقی خوبیوں میں سے ہے جبکہ اس کے مد مقابل الزام تراشی، دشنام طرازی، بدکلامی، چغل خوری اور عیب جوئی جیسی بری صفات ہیں۔[4]

اہمیت اور رتبہ

قرآن مجید میں چند مقامات پر اصلاح ذات البین کا ذکر آیا ہے ساتھ ساتھ اسے انجام دینے کی تاکید بھی کی ہے۔[5] اسی طرح امام علیؑ نے اپنے دونوں فرزند حضرات حسنینؑ کو اصلاح ذات البین کی وصیت فرمائی ہے۔ [یادداشت 2][6] قرآنی آیات کے مطابق جو شخص لوگوں کے درمیان صلح و آشتی پیدا کرنے کے لیے کوششیں کرتا ہے اللہ کی رحمت و مغفرت اس کی شامل حال ہوتی ہے۔[7] بعض روایات میں تو اصلاح ذات البین کو نماز اور روزہ سے بھی برتر عمل قرار دیا گیا ہے۔[8] اور بعض روایات میں صدقہ و خیرات سے برتر عمل قرار دیا گیا ہے۔[9] ایک اور روایت کے مطابق جو شخص دو افراد کے درمیان صلح کرنے کے لیے قدم اٹھاتا ہے فرشتے اس پر سلام و درود بھیجتے ہیں اور اسے شب قدر درک کرنے کا ثواب عنایت کرتا ہے۔[10] امام جعفر صادقؑ سے منقول روایت کے مطابق اصلاح ذات البین کے سلسلے میں اگر جھوٹ کا سہارا بھی لیا جائے تو یہ ایک جائز عمل ہے[11][یادداشت 3] قرآن مجید کے ایک اور مقام پر اصلاح ذات البین کے لیے نجوا اور سرگوشی کرنے کو جائز اور روا عمل قرار دیا گیا ہے۔[12] حالانکہ نجوا اور سرگوشی کو ایک مقام پر شیطانی عمل[13] سے تعبیر کیا گیا ہے۔[14] یہاں تک کہ قرآن نے اصلاح ذات البین ترک کرنے کی قسم کو ناروا قرار دیا ہے،[15] ایک روایت کے مطابق امام جعفر صادق ؑ کی جانب سے مُفَضّل بن عُمر کے پاس کچھ رقم رکھے گئے تھے اسے شیعوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی اصلاح میں خرچ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

مثال کے طور پر اس رقم سے ابو حنیفہ اور اس کے داماد کے مابین پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے اس رقم سے خرچ کرنے کی اجازت دی گئی۔[16] [یادداشت 4]

اصلاح کے راہ حل اور رکاوٹیں

لوگوں کےدرمیان اصلاح قائم کرنے کے لیے چند راہ حل بیان کیے گئے ہیں۔ ذیل میں بعض کو بیان کیا جاتا ہے:

  • اختلاف کا روک تھام: قرآن کے مفسرین نے سورہ بقرہ آیت نمبر 182 کے مضمون و مفہوم کے مطابق کسی شخص کے وارثین کے مابین اختلاف کے روک تھام کے لیے ضروری اقدام یہ قرار دیا ہے[17] کہ مورث شرعی اصولوں اور قواعد کے مطابق وصیت کرے تاکہ وارثین اس کے مطابق عدالت کی رعایت کرتے ہوئے اس پر عمل کریں اور اختلاف کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔[18]
  • گھریلو جھگڑوں میں میاں بیوی کی طرف سے ثالث کا انتخاب: گھریلو جھگڑوں کی صورت میں جب میاں بیوی کے مابین علیحدگی کا ڈر ہو تو شریعت نے یہ تجویز دی ہے کہ ہر ایک مرد اور عورت اپنے مابین مصالحت کے لیے ایک ثالث کا انتخاب کریں۔[19]

تنازعات اور اختلافات کی جڑوں کی پہچان، عاطفی مسائل سے استفادہ، صبر کرنا اور غیرجانبداری وغیرہ وہ عوامل ہیں جن کے ذریعے بہتر طریقے سے اصلاحی عمل کو انجام دیا جاسکتا ہے۔[20]

اقدامات اور طریقے

لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والی تنازعات اور اختلافات کو ختم کرنا مؤمنین اور ریاست کی ذمہ داری ہے. چنانچہ تفسیر نمونہ میں آیا ہے: اگر اصلاح ذات البین مکالمات کے ذریعے کی جائے تو اس کے لیے شرعی حکم کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر اصلاح کے لیے سخت اقدام کی ضرورت ہو تو حاکم شرع سے اجازت لینی چاہیے۔[21] نیز سورۃ الحجراتکی نویں آیت کے مطابق جب مؤمنین کے دو گروہوں کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو سب سے پہلے نصیحت اور قرآن و خدا کے فرمان کی طرف دعوت کے ذریعے ان میں صلح کرانی چاہیے، لیکن اگر کوئی گروہ مصالحت کی پیشکش قبول نہیں کرتا تو ان سے لڑنا چاہیے۔[22]

رکاوٹیں

قرآن مجید کی تفسیر کی کتابوں میں شیطان کی پیروی،[23] دنیاداری[24] اور کنجوسی[25] کو اصلاح ذات‌البین کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

شرعی حکم

فقها اور مجتہدین نے اصلاح ذات‌البین کے سلسلے میں چند فرعی حکم بیان کیا ہے:

  • ایک دوسرے سے بغض اور عداوت رکھنے والے دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان صلح کرنا ایک مستحب عمل ہے اور ایسی صورتوں میں جہاں کسی مومن کی جان خطرے میں ہو، یہ عمل واجب ہوجاتا ہے۔[26]

آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق دو مسلمان گروہ جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں، ان میں صلح کرانا واجب کفائی ہے۔[27]

  • زکات کی رقوم کو اصلاح ذات‌البین کے لیے خرچ کرنا جائز ہے[28]
  • مستحب ہے کہ قاضی فیصلہ جاری کرنے سے پہلے دونوں فریقوں کو صلح کے لیے بلائے، اور اگر فریقین مصالحت سے انکار کریں تو فیصلہ جاری کریں۔[29]
  • صاحب جواہر کے مطابق میاں بیوی کے درمیان صلح کے لیے مرد اور عورت دونوں پر ثالث کا انتخاب کرنا واجب ہے، البتہ علامہ حلی کی کی کتاب تحریر میں اسے مستحب عمل قرار دیا گیا ہے۔[30]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. دو لوگوں کے درمیان صلح و آشتی پیدا کرنا، دو لوگوں کے درمیان موجود اختلاف کو ختم کرکے ان کو ایک کردینا، اصلاح کا نقطہ مقابل افساد ہے جس کے معنی لوگوں میں اختلاف اور اور افتراق پیدا کرنا ہے۔ لغت نامہ دہخدا ذیل اصلاح ذات البین
  2. وَ صَلاَحِ ذَاتِ بَيْنِكُمْ فَإِنِّي سَمِعْتُ جَدَّكُمَا - صلى الله عليه و اله - يَقُولُ صَلاَحُ ذَاتِ الْبَيْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلاَةِ وَ الصِّيَامِ ... اور تم دونوں کو اصلاح ذات البین کی سفارش کرتا ہوں کیونکہ میں نے تمارے جد امجد حضرت رسول خدا ؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: «لوگوں کے درمیان صلح کرنا تمام نمازوں اور روزوں سے بہتر کام ہے». اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ عموما موت کے وقت انسان کی جانب سے کی گئی ہدایات اور سفارشیں سب سے اہم نصیحت ہوتی ہے، خاص طور پر اگر وہ کوئی اہم اور بااثر شخصیت و مقام کا حامل انسان ہو۔ اس لیے امام علیؑ کے اصلاح ذات البین کے بارے میں ارشادات اپنے مبارک سر پر ذخم آنے کے بعد اور اپنی زندگی کے آخری لمحات یعنی شہادت کے درجے پر فائز ہونے سے چند لمحہ پہلے بیان فرمائے ہیں۔خاص طور پر یہ کہ انہوں نے اپنے اس ارشاد کو پیغمبرؐ سے نقل کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے۔ ایسی صورت حال اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ امام علیؑ کی نظر میں سماجی روابط میں اصلاح ذات البین کی کتنی اہمیت ہے!
  3. قَالَ إِنَّ اللهَ... وَ أَحَبَّ الْكَذِبَ فِي الْإِصْلَاحِ... امام صادقؑ نے اصلاح ذات البین کو جھوٹ بولنا جائز ہونے کے موراد میں سے قرار دیا ہے۔ البتہ اصلاح کے معنی و مفہوم وسیع ہیں اور اصلاح سے مراد ہر قسم کے فساد اور خرابی سے مقابلہ مد نظر ہے۔ جیسے کہ حضرت ابراہیمؑ نے لوگوں کو بت برستی کی لعنت سے محفوظ رکھنے لیے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور کلہاڑی کو بڑے بت کی گردن میں لٹکا دیا اور لوگوں سے کہا کہ اس بڑے بت نے تمام چھوٹے بتوں کو توڑ ڈالا ہے۔ اصول كافی، ج۲،ص۳۴۲
  4. یہاں ابو حنیفہ سے مراد سعید بن بیان ہے جو مشہور ابوحنیفہ(حنفیوں کے پیشوا) کے علاوہ کوئی اور شخص ہے جس کا کام حاجیوں کے قافلوں کی رہنمائی کرنا تھا جس وجہ سےانہیں سائق الحاج کے نام سے پکارا جاتا تھا یا لوگوں کو کوفہ سے عرفات کی طرف جلدی پہنچانے کے سلسلے میں کام کرتا تھا، اس لیے وہ سابق الحاج کے نام سے بھی مشہور ہوا۔ اصول كافی،۱۴۰۷ق. چاپ چہارم دار الکتب الاسلاميہ، تصحیح علی اکبرغفاری، ج ۲، ص۲۹۷ پاورقی شماره ۲

حوالہ جات

  1. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰شمسی، ج۹، ص۶.
  2. رجوع کریں طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲شمسی، ج۴، ص۷۹۸.
  3. دہخدا، لغت‌نامہ، ذیل واژه اصلاح ذات بین.
  4. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، ۱۳۷۷شمسی، ج۳، ص۳۱۴.
  5. سورہ حجرات، آیہ نمبر۱۰ میں اس کا ذکر آیا ہے.
  6. نہج‌البلاغہ، صبحی صالح، نامہ۴۷.
  7. سوره نساء، آیہ ۱۲۹.
  8. صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۴۸.
  9. حرعاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۸، ص۴۴۱.
  10. دیلمی، اعلام الدین، ۱۴۰۸ق، ص۴۱۹.
  11. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۴۱.
  12. سوره نساء، آیہ ۱۱۴.
  13. سوره مجادلہ، آیہ ۱۰.
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۲۷.
  15. سورہ بقرہ، آیہ ۲۲۴.
  16. کلینی، الکافی، ۱۴۷ق، ج۲، ص۲۰۹، ح۴.
  17. طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۴۸۵.
  18. فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۲۳۶-۲۳۹.
  19. طوسی، التبیان، ج۳، ص۱۹۲؛ طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۷۰.
  20. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، ۱۳۷۷ش، ج۳، ص۳۱۷-۳۱۸.
  21. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۲، ص۱۷۰.
  22. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲۶، ص۸۰-۸۱؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۵۰.
  23. مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۳۱۱.
  24. ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، ۱۳۸۶ش، ج۶، ص۳۰۲.
  25. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۵۱.
  26. کاشف الغطاء، وجیزۃ الاحکام، ۱۳۶۶ق، ج۲، ص۱۶.
  27. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۲۲، ص۱۷۰.
  28. نجفی،‌ جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۵، ص۳۶۱-۳۶۲.
  29. نجفی،‌ جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۰، ص۱۴۵.
  30. نجفی،‌ جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۱۳.

مآخذ

  • حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم‌السلام، ۱۴۰۹ھ۔
  • دہخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامہ، تہران، دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم‌السلام، ۱۴۰۸ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم،‌ دار الشریف الرضی للنشر، ۱۴۰۶ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع‌البیان، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۴۱۲ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مصحح احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیا التراث العربی، بی‌تا.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۴۲۰ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ‌مرتضی، تفسیر الصافی، تہران، مکتبہ الصدر، ۱۴۱۵ھ۔
  • کاشف‌الغطاء، محمدحسین، وجیزۃ الاحکام، نجف، مؤسسہ کاشف الغطاء‌، ۱۳۶۶ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۲۴ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق در قرآن، قم، مدرسۃ الإمام علی بن ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب العلمیۃ، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔
  • نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، ۱۴۱۳ھ۔
  • ہاشمی رفسنجانی، اکبر، تفسیر راہنما، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔