حکمت متعالیہ

ویکی شیعہ سے

حکمت متعالیہ، [al-hikmat al-muta’li] [Transcendent theosophy] صدر الدین محمد شیرازی معروف ملا صدرا اور صدر المتالہین (ولادت 980 وفات 1045 ہجری قمری) کے فلسفی نظام کا عنوان ہے۔ ملا صدرا نے اس نظام میں عقلی اور نقلی (وحیانی علوم) اور علوم کشف و شہود سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے فلسفی اصولوں کی بنیاد رکھی ہے اور فلسفی مسائل کو ان اصولوں کی روشنی میں بیان اور توجیہ، کیا ہے۔

تسمیہ

ملا صدرا نے اپنی کسی بھی تالیف و تصنیف میں اپنے فلسفی نظام کے لئے یہ عنوان یا کوئی بھی دوسرا عنوان استعمال نہیں کیا ہے بلکہ اس کو اپنی اہم ترین فلسفی تصنیف 'الحکمۃ المتعالیۃ فى الاسفار العقلیۃ الاربعۃ'، کا نام رکھتے ہوئے اس عنوان سے استفادہ کیا ہے۔ تاہم یہ تصنیف الاسفار الاربعہ کے عنوان سے مشہور ہے اور کم ہی کوئی اس کو "الحکمۃ المتعالیہ" کے نام سے یاد کرتا ہے۔ یہ عبارت صرف ان کے فلسفی نظام کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ـ ان کے بعد ـ معمول و مشہور ہوچکی ہے۔

اصطلاح کا پس منظر

سب سے پہلے ابن سینا نے اپنی کتاب الاشارات والتنبیہات کی دسویں نمط میں اصطلاح "حکمت متعالیہ"[1] سے کسی موضوع کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے اور اس (حکمت متعالیہ) کو ان اسرار میں گردانا ہے جو حکمت متعالیہ میں رسوخ (اور کامل پختگی اور مقام راسخ) رکھنے والوں کے سوا کسی کے لئے ظاہر نہیں ہوا کرتے۔ ان کے بعد بھی بعض حکماء نے اس اصطلاح کو اپنے متون میں استعمال کیا ہے۔[2]۔[3]۔[4]۔[5]

ملا صدرا نے بھی بعض مقامات پر[6]۔[7] بعض صاحبان سِرّ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابن سینا ہی کی عبارت (الراسخون فى الحکمة المتعالیة) کو بروئے کار لایا ہے۔ فلاسفہ کے علاوہ عرفانِ ابن عربی کے مشہور شارح داؤد قیصرى، نے بھی اصطلاح "الحکمة الالهیة المتعالیة" سے استفادہ کیا ہے۔[8]

ماہیت[9]

خواجہ نصير الدین طوسى[10] ابن سینا کی عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "حکمت متعالیہ" سے مراد وہ حکمت ہے جو بحث و نظر کے ساتھ ساتھ کشف و ذوق کے ساتھ مکمل ہوتی ہے؛ لہذا اس طرح کی حکمت ـ بحث و استدلال پر مبنی ارسطوئی اور مشائی فلسفے کی نسبت ـ متعالی سمجھی جاتی ہے۔[11] اس منظر سے، حکمت متعالیہ ایسی آگہی اور دانش ہے جو حکمت الہیہ کے خزانوں سے ماخوذ حکمت و حقائق پر مشتمل ہے جن کا ادراک عقل سے ماوراء ہے۔

ہویت و اصلیت [12]

حکمت متعالیہ کی ہویت و اصالت کے بارے میں مختلف قسم کی آراء دی گئی ہیں۔ میرزا ابوالحسن جلوہ اور ضیاء الدین دُرّی اصفہانی ان مخالفین میں شمار ہوتے ہیں جو ملا صدرا کی حکمت متعالیہ میں منابع و ماخذ کی روش استعمال پر تنقید کرتے ہیں، یہاں تک کہ انہیں سابقین کے مآخذ سے ناروا اقتباسات اخذ کرنے اور ان سے سرقت کرنے کی نسبت دی ہے۔[13]۔[14]۔[15]۔[16] ان کے مقابلے میں [[سید حسن نصر[17] اور مہدی حائری یزدی،[18] جو حکمت متعالیہ کو مستقل ہویت و اصلیت سے بہرہ ور سمجھتے ہیں، اس موضوع پر مختلف زاویوں سے بحث کرتے ہیں اور اس تصور کو ردّ کرتے ہیں کہ حکمت متعالیہ اصطفائی (Eclectic) ہے۔[19]

اسلامی فلسفہ کے مسائل و آراء میں حکمت متعالیہ کی جدت آفرینیاں

اسلامی فلسفہ میں حکمت متعالیہ کی جدت آفرینیوں کا دو پہلؤوں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے:

  1. مسلم مفکرین کے درمیان متنازعہ مسائل کے حل کے لئے نئی راہوں کی نشاندہی؛
  2. نئے مسائل پیش کرنا اور ان کے بارے میں نظریہ پردازی کرنا۔

چونکہ حکمت متعالیہ کی بنیاد علم الوجود سے تشکیل پائی ہے چنانچہ اس کی جدت آفرینیوں کو ـ جو درحقیقت اس مکتب کے اصول اور مبادی سمجھی جاتی ہیں ـ وجود اور اس سے متعلقہ مباحث کی حدود میں تلاش کرنا چاہئے۔

اگرچہ دوسرے فلسفی نظامات کا نقطۂ آغاز بھی وجود اور معرفت وجود ہے لیکن سب سے پہلے صدرائی نظام میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ "وجود اتنی وسعت اور بےمثل شمول و اشتمال کے باوجود کیونکر محض ایک مفہوم ہوسکتا ہے جو ذہن کے باہر نہ عینیت رکھتا ہے اور نہ ہی اصلیت؟"۔

نظریۂ وجودیت اس سوال کے لئے ملا صدرا کا متجدُدانہ (Innovative) جواب ہے جو ابن سینا اور ان کے پیروکاروں سمیت حکمائے سلف کے کلام میں بھی پایا جاسکتا ہے لیکن اس کی اہمیت پر تاکید و تصریح ملا صدرا کی حکمت متعالیہ میں ہوئی اور جس انداز سے اس مکتب نے بہت سے فلسفی اور کلامی پیچیدگیوں کو حل کیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔[20]۔[21]

حکمت متعالیہ میں بعض اہم جدت آفرینیاں حسب ذیل ہیں:

پیروکار اور مروجین

ملا صدرا کے زمانۂ حیات میں اور ان کے ایک صدی بعد تک زمانے کے نامساعد حالات کی وجہ سے حوزات علمیہ میں حکمت متعالیہ کی پذیرائی نہیں ہوئی؛ یہی نہیں بلکہ ملا رجب‌ على تبریزى، آقا حسین خوانسارى، عبدالرزاق لاہیجى اور محمد باقر سبزوارى سمیت بعض معاصرین نے اس پر تنقید بھی کی۔

ملا صدرا کے اہم ترین شاگردوں میں ملا محسن فیض کاشانی اپنے استاد کے فکری مکتب سے زیادہ مؤثر ہوئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ ملا صدرا کے بالواسطہ شاگردوں میں ان کا فلسفی ورثہ آقا محمد بید آبادی نے اپنے شاگرد آخوند ملا علی نوری کو منتقل کیا اور بالآخر وہی تھے جنہوں نے حکمت متعالیہ کے احیاء کا اہتمام کیا۔[30]۔[31]۔[32] جلال الدین آشتیانی کے بقول،[33] جس عالم دین نے سب سے پہلے طلبہ کو حکمت متعالیہ کی اہمیت سے آگاہ کیا اور وہ محمد تقی مجلسی (المعروف بہ مجلسی اول کے پڑپوتے میرزا محمد تقی الماسی تھے۔

حکمت متعالیہ کے دیگر مروجین میں ملا ہادی سبزواری، آقا علی مدرس طہرانی، شیخ محمد حسین اصفہانی، میرزا مہدی آشتیانی، ابوالحسن شعرانی اور معاصر اساتذہ میں علامہ طباطبائی، مہدی حائری یزدی اور سید جلال الدین آشتیانی، قابل ذکر ہیں۔ [ان اکابرین کے شاگرد بھی اس وقت حکمت متعالیہ کی ترویج و تدریس میں مصروف عمل ہیں]۔

فلسفی حلقوں پر اثر

حکمت متعالیہ نے [بر صغیر] پاک و ہند ہندوستان کے درس فلسفہ کے حلقوں اور مدارس پر بھی اثرات مرتب کئے ہیں۔[34] اس علاقے کے علماء میں سے کئی ایک نے حکمت متعالیہ کو توجہ دی، ان پر شرح نگاری اور حاشیہ نگاری کا اہتمام کیا اور ان پر تنقید نگاریاں کیں جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

مؤخر الذکر نے حدوث عالم کے بارے میں ایک منظومہ مرتب کیا ہے جو حکمت متعالیہ کی آراء و نظریات پر مبنی ہے۔[35]۔[36]۔[37]۔[38]

نیز ہنری کوربن (Henry Corbin)، توشی ہیکو ایزوتسو (Toshihiko Izutsu) اور سید حسین نصر جیسے دانشوروں نے ملا صدرا اور ان کے مکتب کو دیگر غیر اسلامی سرزمینوں میں متعارف کرایا۔ عالم اسلام کے مختلف حصوں ـ منجملہ عرب ممالک، ترکی، ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک ـ میں اس وقت کئی وسیع گروہ ہیں جو ملا صدرا کی حکمت متعالیہ سے لگن رکھتے ہیں۔[39]

حکمت متعالیہ کے مآخذ

حکمت متعالیہ کے مآخذ و منابع درج ذیل ہیں:

  1. قرآن اور حدیث شریف:
    شاید کوئی بھی مسلمان حکیم و فیلسوف نہ پایا جاسکے جو ملا صدرا کی طرح قرآن کریم اور اس پر لکھی گئی تفاسیر سے آگہی رکھتا ہو اور اپنی آراء و نظریات کی تبیین و تشریح میں ان سے استفادہ کرچکا ہو۔ آیات قرآن ان کی تالیفات و نصنیفات میں بہ وفور پائی جاتی ہیں اور شاید قرآن سے بلاواسطہ اثر لئے بغیر اس قسم کی کاوشوں کی تخلیق ممکن نہ تھی۔[40]۔[41] ملا صدرا شیعہ اور سنی منابع حدیث کی دانش وافرہ سے بہروہ مند تھے اور انھوں نے اپنی تالیفات میں حضرت علی(ع) کی نہج البلاغہ، اسرار و رموز سے مالامال شیعہ احادیث اور سنی مآخذ حدیث سے وسیع سطح پر استفادہ کیا ہے۔[42]۔[43]
  2. کلام:
    شیعہ اور سنی کلامی متون حکمت متعالیہ کا دوسرا ماخذ سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ ملا صدرا شیعہ مفکر اور عالم تھے لیکن اہل سنت کلام سے بھی بخوبی واقف تھے چنانچہ انھوں نے بارہا مشہور اشعری اور معتزلی متکلمین ـ منجملہ اشعری، غزالی، فخر رازی، ایجى، سعد الدین تفتازانى، ابوعثمان عمرو بن بحر المعروف بہ جاحظ، ابواسحاق ابراہیم بن سیار بن ہانی المعروف بہ نَظّام، ابوعلى جبائی اور ابو ہاشم جبائى کے کلام سے اقتباسات اخذ کئے ہیں۔ وہ ان کے درمیان ـ بالخصوص غزالی اور فخر رازی کے درمیان ـ اختلاف رائے اور اسلامی تاریخ فلسفہ کی تاریخ میں ان کے کردار سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔[44]۔[45] نیز ان کے فلسفی منظومے میں حضرت عیسی(ع) کے کلام کے بعض اقتباسات بھی منقول ہیں جن کا فلسفیانہ جائزہ لیا گیا ہے۔[46]۔[47]
  3. عرفان:
    ملا صدرا کی تالیفات شدت کے ساتھ عرفانی سنت سے متاثر ہیں اور حکمت متعالیہ سے بحث کرتے ہوئے متقدمین کی ان عرفانی تالیفات سے اپنے اخلاقی استدلالات کی تائید کے لئے استناد کرتے رہے ہیں جو عملی اخلاقی نوعیت رکھتی تھیں جیسے: ابو طالب مکی کی کتاب، قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب ووصف طريق المرید إلى مقام التوحید، خواجہ عبداللہ انصاری کی اخلاقی-تفسیری کتاب، منازل السائرین، اﺑﻮ ﺣﻔﺺ ﻋﻤﺮ شہاب الدین سہروردی کی کتاب عوارف‌ المعارف اور محمد غزالی کی کتاب احیاء علوم الدین۔ انھوں نے مولانا روم کے متعدد اقتباسات سے استفادہ کیا ہے اور نظری عرفان پر مشتمل بہت سے کتابوں ـ جن میں عین القضاۃ ہمدانی کی کتاب زبدۃ الحقائق شامل ہے ـ سے فائدہ اٹھایا ہے۔ محی الدین بن عربی کے عرفانی مکتب نے صدرائی فلسفی نظام پر سب سے زیادہ گہرے نقوش چھوڑے ہیں اور انھوں نے عرفان میں سب سے زیادہ استفادہ ابن عربی کی کتابوں فصوص الحِکَم اور فتوحات مکیہ سے کیا ہے نیز ابن عربی کے پیروکاروں اور ان کی تالیفات و تصنیفات کے نامور شارحین ـ منجملہ داؤد قیصری، صدر الدین قونوی اور حمزہ فناری ـ سے اقتباس کیا ہے؛ اور حکمت متعالیہ کے بعض بہت اہم اور مرکزی و نمایاں افکار کی تشکیل میں ان کے حوالے دیئے ہیں اور ان سے استناد کیا ہے۔ [48]۔[49]۔[50]
  4. سابقہ فلسفے:
    بےشک ملا صدرا نے مختلف اسلامی علوم سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے لیکن فلسفی مآخذ، بالخصوص اسلامی فلسفہ و حکمت کے منابع پر ان کی قدرت دوسرے علوم سے کہیں زیادہ تھی۔ چنانچہ دیگر اسلامی حکماء و فلاسفہ کی طرح قبل از اسلام کے فلسفی آثار سے ان کا تعلق بالواسطہ اور ان کے عربی تراجم کے توسط سے استوار تھا۔ انھوں نے سقراط سے قبل کے حکماء ـ منجملہ فیثاغورث، افلاطون اور ارسطو ـ نیز نو افلاطوی حکماء سے ان کے اقتباسات اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یونانی اور اسکندرانی حکماء کی تالیفات کے بعض پہلؤوں سے تعلق خاطر رکھتے تھے[51]۔[52] انھوں نے حکمت خسروانی اور بالفاظ دیگر فارس حکماء (حکمائے فُرس یا فہلویون (پہلویوں) کے آثار سے بھی استفادہ کیا ہے۔[53] لیکن اسلامی حکمت کے متقدم آثار سے ان کی شناسائی ـ یونانی اور اسکندرانی فلسفی آثار کی نسبت ـ زيادہ گہری اور کامل تھی اور فطری طور پر ان سے زيادہ تعلق خاطر اور گہرا پیوند رکھتے تھے۔ قرآن و حدیث کے بعد، ابن سینا، اور ان کے برابر میں سہروردی اور ابن عربی کی تالیفات کو ان کی حکمت متعالیہ کے اہم ترین مآخذ قراد دیا جانا چاہئے۔ حکمت میں مکتب اصفہان کے بانی اور ملا صدرا کے استاد میر داماد ـ اگر چہ مختلف پہلؤوں میں ملا صدرا کے ساتھ اختلاف رائے رکھتے تھے، لیکن انہیں صدرائی حکمت کے ظہور میں ایک اہم اور مؤثر عامل گرداننا چاہئے۔[54]۔[55]۔[56]

روش

اسلامی فلسفے اور حکمت میں بروئے کار لانے والی روشیں حسب ذیل ہیں:

  1. عقل کی اصلیت اور استدلال، یا سہروردى[57] کے مطابق "بحث و نظر کی روش"، ـ جو مسلم مشائیوں (اور ارسطوئیوں) کے ہاں معتبر طریق و روش ہے۔
  2. کشف و شہود کی اصلیت، جو مسلم حکمائے اشراق کی وجۂ شہرت ہے۔
  3. تین راستوں ـ یعنی قرآنی معرفت، برہانی معرفت اور عرفانی معرفت کی آمیزش سے حاصل ہونے والی روش، جو حکمت متعالیہ سے ماخوذ ہے اور اس حکمت میں معتبر ہے۔

ملا صدرا نے ایک طرف سے مختلف روشوں کے معرفتی ثمرات و نتائج سے فائدہ اٹھایا جیسا کہ مآخذ کے باب میں اجمالی طور پر بتایا گیا؛ تو دوسری طرف سے اپنے فکری مکتب کی تاسیس کے مرحلے میں اپنے سے قبل کے زمانوں میں رائج روشوں سے بھی فائدہ اٹھایا۔ [58]۔[59]۔[60]

بعض محققین کی رائے کے مطابق ـ عرفان نظری، حکمت مشاء اور علم کلام سمیت دوسرے الہیاتی علوم کی نسبت ـ حکمت متعالیہ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسرے علوم کے برعکس کشف و شہود کے پیاسوں کو بھی سیراب کرتی ہے اور بحث و استدلال کے شائقین کو بھی علم یقینی تک پہنچا دیتی ہے۔[61]۔[62]

حوالہ جات

  1. الاشارات و التنبیهات، ج 3، ص 399۔
  2. رجوع کریں:الاشارات و التنبیهات (شرح قطب‌الدین رازى)، ج2، ص349۔
  3. اثیرالدین ابهری، شرح الهدایة الاثیریة، 1313، ص195، بحواله از قطب‌الدین شیرازى؛ ثلاث رسائل، ص244، 328۔
  4. میرداماد، نبراس الضیاء وتسواء السواء فى شرح باب‌البداء و اثبات جدوى الدعاء، ص107۔
  5. علوى عاملى، شرح القبسات، ص 88، 173، جنہوں نے الحکمة العالیة والفلسفة المتعالیة جیسی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔
  6. ملا صدرا، الحکمة المتعالیة فى الاسفار العقلیة الاربعة، سفر1، ج2، ص245، سفر3، ج1، ص247، سفر4، ج1، ص332۔
  7. ملا صدرا، المبدأ والمعاد، ص239۔
  8. دیکھیں: شرح فصوص‌الحکم، ص 48۔
  9. ماہیت یعنی کسی امر یا شیۓ کی حقیقت، اصلیت، اصل کیفیت۔
  10. طوسی، شرح الاشارات والتنبیهات، ج3، ص401۔
  11. رجوع کریں: جوادی آملی، عبدالله، مجموعه فهم و شهود، ص27۔
  12. ہویت و اصلیت Identity and authenticity۔
  13. رجوع کریں: ملا صدرا، رسائل فلسفى، رسائل فلسفى، مقدمه، ص 4ـ5، 7ـ8۔
  14. حائری‌یزدى، مهدى، درآمدى برکتاب اسفار: الحکمة المتعالیة فى الاسفار الاربعة، ص 707۔
  15. Nasr, Hossein, Sadr al-din Shirazi and his transcendent theosophy، 1997، p70۔
  16. صدوقی‌ سها، منوچهر، تاریخ حکماء وعرفاى متأخر، ص 75ـ79۔
  17. Sadr al-din Shirazi and his transcendent theosophy، pp 69ـ70، 79
  18. درآمدى برکتاب اسفار: الحکمة المتعالیة فى الاسفار الاربعة، ص707ـ709
  19. نیز رجوع کریں: علیزاده، بیوک، ماهیت مکتب فلسفى ملاصدرا و تمایز آن از مکتبهاى فلسفى دیگر، صص95ـ96
  20. رجوع کریںNasr, Hossein, Mulla Sadra: his teachings p 646.
  21. نیز رجوع کریں: آچیک گنج، آلب ارسلان، نمونه سیستم فلسفى در فلسفه اسلامى، ص6۔
  22. حکمت متعالیہ تشکیک وجود پر یقین رکھتی ہے اور تشکیک کے معنی یہ ہیں کہ وجود واحد بھی ہے اور کثیر بھی، یعنی وحدت کے باوجود کثرت بھی رکھتا ہے۔
  23. یعنی وجود منحصر ہے خداوند متعال کی ذات متعالیہ میں، اور ما سوا اللہ سب اس کے وجود کا ظہور و تجلی ہیں۔
  24. امكان فقرى وہ ہے کہ ممکن اور امکان دونوں ایک ہوں، وضاحت یہ کہ غیر اللہ کا وجود عین فقر ہے اور غیر اللہ ممکن الوجود ہیں اور ان کا امکان ہی فقری ہے۔ "انتم الفقراء الی الله والله هو الغنی الحمید؛ سورہ فاطر، آیت 15"۔
  25. یعنی ادراک کرنے والا شخص اور ذہنی طور پر ادراک شدہ شیئے اور حاصل ہونے والی دانش و معرفت متحد ہیں اور ایک ہیں۔ ملا صدرا کے مطابق عقل، عاقل اور معقول یا علم و عالم اور "معلوم بالذات" متحد ہیں۔ یہ مسئلہ "تحاد عقل و عاقل و معقول" کے نام سے مشہور ہے۔
  26. حرکت جوہریہ (Substantial motion) اسلامی فلسفے کا نظریہ ہے جس کے بانی ملا صدرا ہیں۔ حرکت جوہریہ وہ حرکت ہے جو اشیاء کی ذات (جوہر) میں جاری ہے۔ ملا صدرا کہتے ہیں اس عالم کا نظام پیوستہ متحرک ہے؛ خداوند متعال کا فیض مسلسل جاری ہے اور عالم ہر لمحہ تجدد (اور نو بہ نو ہونے) کی حالت سے گذر رہا ہے۔ یہ نظریہ حرکت جوہریہ کا نظریہ کہلاتا ہے۔
  27. یعنی اس کا جسم حادث ہے لیکن اس روح باقی اور ابدی ہے۔
  28. قاعده بسیط الحقیقه کل الاشیاء و لیس بشئ منها؛ یہ برہان کہ "حق تعالی تمام کمالات کا مالک ہے"، ایک صغری اور ایک کبری سے تشکیل پاتا ہے: صغری: واجب تعالی بسیط ہے اور اس میں کسی قسم کا ترکب حتی وجود و عدم کی ترکیب، ممکن نہیں ہے؛ اور کبری: ہر وہ امر جو بسیطِ حقیقی ہے کسی بھی کمال سے عاری نہیں ہوسکتا؛ کیونکہ کسی بھی کمال سے عاری ہونے کی صورت میں وجود اور عدم سے مرکب ہوگا۔ نتیجہ یہ کہ: واجب تعالی بسیط الحقیقہ ہے اور کوئی بھی وجودی امر اس کی ذات سے سلب نہیں کی جاسکتی اور وہ کل الاشیاء ہے (تعلیقه اسفار، علاّمه طباطبایی، ج 6/ 115؛ مشاعر، ملاّصدرا)؛ اور اگر کسی وجودی امر کو اس سے سلب کیا جاسکے تو اس کی ہویت ایک ایجاب (یعنی اس کا ثبوت اس کی ذات کے لئے)، اور ایک سلب (یعنی اس کے غیر کی نفی اس کی ذات سے) کی حامل ہوگی اور یہ بساطت سے متصادم ہے۔ چنانچہ کوئی بھی وجودی کمال اس کی ذات سے سلب کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اور جو بھی عالم وجود میں موجود ہے جیسے علم و قدرت، اعلی و اشرف سطح پر اس کے وجود میں موجود ہے اور اس کی کبریائی شان کے مطابق اس پر وجود واجب پر حمل ہوگا؛(علامہ طباطبائی، نهایةالحکمة ص249؛ مرحله 12 فصل 7)۔
  29. ملا صدرا کہتے ہیں: النفس فی وحدته کل القوی *** وفعلها فی فعله قد انطوی؛ ترجمہ: یعنی، انسان کا نفس (اور اس کی جان) مختلف قوتوں سے بہرہ ور ہونے کے باوجود ایک حقیقت ہے اور مختلف النوع افعال انسان کے نفس واحد میں لپیٹ دیئے گئے ہیں۔ (اور نفس مختلف قوتوں کے حامل ہونے کے باوجود ایک ہے۔
  30. "Mulla Sadra: his teachings; p 658.
  31. آشتیانى، منتخباتى از آثار حکماى الهى ایران، ج2، ص15، پاورقی 11، ص118۔
  32. تاریخ حکماء و عرفاى متأخر، ص 95۔
  33. منتخباتى از آثار حکماى الهى ایران، ج2، مقدمه۔
  34. Mulla Sadra: his teachings; p 658.
  35. رجوع کریں: ثبوت، اکبر، فیلسوف شیرازى در هند، ص90ـ102، 149ـ177، 326ـ330۔
  36. ثبوت، اکبر، فیلسوف نونهره از واپسین حلقه‌هاى اتصال حکمت ایرانى و هندى، صص62ـ64، 73ـ74۔
  37. كشمیرى، محمدانورشاه، ضرب‌الخاتم فى حدوث‌العالم، ص3۔
  38. راهى، سفیر اختر، تذکره علماى پنجاب، ج 1، ص 50۔
  39. Mulla Sadra: his teachings; pp 658-659.
  40. Sadr al-din Shirazi and his transcendent theosophy p 71.
  41. ملاصدرا، رسائل فلسفى، مقدمه، ص13۔
  42. Sadr al-din Shirazi and his transcendent theosophy; pp 71-72.
  43. ملا صدرا، رسائل فلسفى، مقدمه، ص13۔
  44. Sadr al-din Shirazi and his transcendent theosophy; pp 72-73.
  45. نیز رجوع کریں: ملا صدرا، رسائل فلسفى، مقدمہ، ص14ـ15۔
  46. نمونے کے طور پر رجوع کریں: ملاصدرا، الشواهد الربوبیة فى المنهاج السلوکیة، ص 306۔
  47. ملا صدرا، الحکمة المتعالیة فى الاسفار العقلیة الاربعة، سفر4، ج2، ص218۔
  48. Sadr al-din Shirazi and his transcendent theosophy; pp 74-75.
  49. ملا صدرا، رسائل فلسفى، مقدمه، ص16ـ17۔
  50. ابن عربی کے اقوال و اقتباسات کی فہرست کے لئے رجوع کریں: ندرى ابیانه، فرشته، تأثیرات ابن‌عربى برحکمت متعالیه، ص9 تا 39۔
  51. دیکھیں: Sadr al-din Shirazi and his transcendent theosophy; pp 75-76.
  52. ملا صدرا، مسائل فلسفى، مقدمه، ص18۔
  53. نمونے کے طور پر رجوع کریں: ملا صدرا، الحکمة المتعالیة فى الاسفار العقلیة الاربعة، سفر1، ج 1، ص 108، ج2، ص75، سفر4، ج2، ص13، 143۔
  54. Nasr, Hossein, "Mulla Sadra: his teachings, pp 75-79.
  55. ملا صدرا، رسائل فلسفى، مقدمه، ص 15ـ16۔
  56. آشتیانی، الشواهد الربوبیه فى المنهاج السلوکیه، ص7۔
  57. مجموعه مصنّفات شیخ اشراق، ج 2، ص 13
  58. رجوع کریں: “Mulla Sadra: his teachings” pp 644-645.
  59. “Sadr al-din Shirazi and his transcendent theosophy” pp 87-88.
  60. آشتیانى، جلال الدین، ملاصدرا، حکیمى متأله، فرید در برهانیات و ناظر هوشمندى در عرفانیات، ص 14ـ15
  61. رجوع کریں: “Sadr al-din Shirazi and his transcendent theosophy” pp 88-94.
  62. آچیک گنج، آلب ارسلان، نمونه سیستم فلسفى در فلسفه اسلامى، ص 4ـ5۔

مآخذ

  • آچیک گنج، آلب ارسلان، "نمونه سیستم فلسفى در فلسفه اسلامى"، در مجموعه مقالات همایش جهانى حکیم ملاصدرا، اول خرداد ماه 1378 ـ تهران، ج 1، تهران: بنیاد حکمت اسلامى صدرا، 1380ہجری شمسی۔
  • آشتیانى، جلال‌الدین، "ملاصدرا، حکیمى متأله، فرید در برهانیات و ناظر هوشمندى در عرفانیات" (مصاحبه)، خردنامه صدرا، ش 2 (شهریور 1374 ہجری شمسی).
  • ابن‌سینا، الاشارات و التنبیهات، مع‌الشرح لنصیرالدین طوسى و شرح‌الشرح لقطب‌الدین رازى، تهران 1403 ہجری قمری.
  • اخترراهى، سفیر، تذکره علماى پنجاب، لاهور1400 ہجری قمری/1981عیسوی.
  • سفیر اخترراهى، "فیلسوف نونهره از واپسین حلقه‌هاى اتصال حکمت ایرانى و هندى"، آینه میراث، دوره جدید، سال2، ضمیمه ش 2 (1383 ہجری شمسی).
  • ثبوت، اکبر، فیلسوف شیرازى در هند، تهران 1380ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبدالله، "مجموعه فهم و شهود"، خردنامه صدرا، شمارہ 3 (فروردین 1375 ہجری شمسی).
  • حائری‌یزدى، مهدى، "درآمدى برکتاب اسفار: الحکمة المتعالیة فى الاسفار الاربعة"، جمله ایران‌شناسى، سال 4، شمارہ 4 (زمستان 1371 ہجری شمسی).
  • دوانى، محمدبن اسعد، ثلاث رسائل، چاپ احمد تویسرکانى، مشهد 1411عیسوی.
  • سهروردى، یحیی‌بن حبش، مجموعه مصنّفات شیخ اشراق، ج 2، چاپ هانرى کوربن، تهران 1380ہجری شمسی۔
  • شهرزورى، محمدبن محمود، شرح حکمه الاشراق، چاپ حسین ضیائی‌تربتى، تهران 1380ہجری شمسی۔
  • صدرالدین شیرازى (ملاصدرا)، محمد بن ابراهیم، الحکمة المتعالیة فى الاسفار العقلیة الاربعة، بیروت 1981عیسوی.
  • صدرالدین شیرازى (ملاصدرا)، رسائل فلسفى، چاپ جلال‌الدین آشتیانى، قم 1362ہجری شمسی۔
  • صدرالدین شیرازى (ملاصدرا)، شرح‌الهدایه الاثیریه، [چاپ سنگى تهران 1313ہجری قمری]، چاپ افست، بی‌جا، بی‌تا.
  • صدرالدین شیرازى (ملاصدرا)، الشواهد الربوبیه فى المنهاج السلوکیه، با حواشى حاج ملاهادى سبزوارى، چاپ جلال‌الدین آشتیانى، قم 1386ہجری شمسی۔
  • صدرالدین شیرازى (ملاصدرا)، المبدأ و المعاد، چاپ جلال‌الدین آشتیانى، تهران 1354ہجری شمسی۔
  • صدرالدین شیرازى (ملاصدرا)، شرح الهدایة الاثیریة، نویسنده متن اثیرالدین ابهری، مصحح: شیخ احمد شیرازی، B‎B‎R‎ ‎8‎0‎8‎ ‎/‎الف‎2‎5‎ ‎ه‎4۔
  • صدوقی‌ سها، منوچهر، تاریخ حکماء و عرفاى متأخر، تهران 1381ہجری شمسی۔
  • علوى عاملى، احمد بن زین‌العابدین، شرح‌القبسات، چاپ حامد ناجى اصفهانى، تهران 1376ہجری شمسی۔
  • علیزاده، بیوک، «ماهیت مکتب فلسفى ملاصدرا و تمایز آن از مکتبهاى فلسفى دیگر»، خردنامه صدرا، ش 10 (زمستان 1376 ہجری شمسی).
  • قیصرى، داوودبن محمد، شرح فصوص‌الحکم، چاپ جلال‌الدین آشتیانى، تهران 1375ہجری شمسی۔
  • کشمیرى، محمدانورشاه، ضرب‌الخاتم فى حدوث‌العالم، گجرات 1415 ہجری قمری /1996 عیسوی.
  • منتخباتى از آثار حکماى الهى ایران: از عصر میرداماد و مینورسکى تا زمان حاضر، چاپ جلال‌الدین آشتیانى، قم: مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامى، 1363ہجری شمسی۔
  • میرداماد، محمدباقربن محمد، نبراس‌الضیاء و تسواء السواء فى شرح باب‌البداء و اثبات جدوى الدعاء، مع تعلیقات على نورى، چاپ حامد ناجى اصفهانى، تهران 1374ہجری شمسی۔
  • ندرى ابیانه، فرشته، تأثیرات ابن‌عربى برحکمت متعالیه، تهران 1386 ہجری شمسی، شرح‌الهدایه الاثیریه، [چاپ سنگى تهران 1313 ہجری قمری].
  • Nasr, Hossein, "Mulla Sadra: his teachings", in History of Islamic philosophy, ed. Hossein Nasr and Oliver Leaman, pt.I, Tehran: Arayeh Cultural Ins., 1375 sh.
  • Nasr , Hossein, Sadr al-din Shirazi and his transcendent theosophy: background, life and works, Tehran 1997.

بیرونی ربط

مضمون کا ماخذ: دانشنامہ جہان اسلام