غیرت

جانبدار
ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

غیرَت ایک اخلاقی فضیلت ہے جو انسان کو اپنے ناموس، گھر، دین، مال اور وطن کے دفاع کرنے پر ابھارتی ہے۔ روایات کے مطابق غیرت اللہ تعالی کے صفات میں شمار ہوتی ہے۔ جیسا کہ ملا احمد نراقی اپنی کتاب معراج السعادۃ میں تحریر کرتے ہیں کہ مومنین کو اپنے گھر والوں سے غافل نہیں ہونا چاہئے اور جو کام ان کی عاقبت خراب ہونے کا باعث ہوتا ہے اس سے چشم پوشی نہ کریں۔ وہ دین میں بدعت ایجاد کرنے والوں کا مقابلہ اور امر بہ معروف و نہی از منکر کو غیرت کے مصادیق میں سے شمار کرتے ہیں۔ شیعہ احادیث میں عفت و پاکدامنی، برائیوں سے نجات اور گھریلو روابط، غیرت کے بعض آثار و فوائد کے طور پر ذکر ہوئی ہیں۔ اور روایات میں بے غیرتی کے بعض علل و اسباب بھی ذکر ہوئے ہیں جن میں محرم اور نامحرم کا اختلاط، حرام موسیقی، نامحرم کی طرف نگاہ، شراب خواری قابل ذکر ہیں۔ امام علیؑ کی ایک روایت کے مطابق غیرت میں افراط کا نتیجہ معکوس بھی ہو سکتا ہے اور فساد کا سبب بن سکتا ہے۔

مفہوم‌ شناسی

اسلامی ادبیات میں غیرت ایک اخلاقی فضیلت کے عنوان سے بیان ہوئی ہے،[1] جو انسان کو اپنی عزت، ناموس، دین اور آئین، مال اور سرزمین کا دفاع کرنے پر مجبور کرتی ہے۔[2] قرآن کریم میں غیرت کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے لیکن شیعہ مرجع تقلید اور مفسر قرآن ناصر مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ سورہ احزاب کی 60 سے 62 تک کی آیات[یادداشت 1] غیرت کے مفہوم کو بیان کرتی ہیں؛ کیونکہ افواہ پھیلانے والے منافقین، مسلمان خواتین کے لیے مزاحم بننے والے اور مومن عورتوں کے خلاف افواہیں پھیلانے والوں کو سخت سزا، شہر بدر کرنے اور قتل کی دھمکی دی گئی ہے۔[3]

حدیث نبویؐ

اَلا وَ اِنَّ اللهَ حَرَّمَ الْحَرامَ وَ حَدَّ الحُدودَ وَ‌ ما اَحَدٌ اَغْیرَ مِنَ اللهِ وَ مِنْ غَیرَتِهِ حَرَّمَ الْفواحِشَ.ترجمہ: آگاہ ہوجاؤ، اللہ تعالی نے حرام کو حرام قرار دیا ہے اور حدود معین کیا ہے۔ اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرتی نہیں ہے اور اللہ نے غیرت کی بناپر برائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔

مجلسی، بحارالانوار، ج۷۳، ص۳۳۲.

شیعہ احادیث کے مطابق غیرت اللہ تعالی کی صفات میں سے ایک ہے اور اللہ تعالی بے غیرت کو پسند نہیں کرتا ہے۔[4] مذکورہ روایات میں غیرت، کرامت اور عزت کے ساتھی ذکر ہوئی ہے۔[5] بعض احادیث کے مطابق بے غیرت مرد ملعون ہیں۔[6]

اقسام اور مصادیق

تیرہویں صدی ہجری کے فقیہ ملا احمد نراقی اپنی کتاب معراج السعادة میں ناموس کے بارے میں غیرت کے علاوہ، دین، عزت اور مال کے بارے میں بھی غیرت کو بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مومنوں کو اپنے گھر والوں کے بارے میں غافل نہیں رہنا چاہیے اور جس کام سے ان کی عاقبت خراب ہوتی ہے اس سے چشم پوشی نہ کریں۔[7] اسی طرح ملا نراقی کا کہنا ہے کہ امر بالمعروف و نہی از منکر کو بغیر کسی کمی زیادتی کے انجام دینا بھی غیرت میں شمار ہوتی ہے۔[8]

معاصر شیعہ عالم دین، حسین مظاہری نے احادیث کی رو سے شخصی غیرت کے علاوہ بعض دیگر موارد بھی غیرت کے لیے ذکر کیا ہے؛ جن میں عمومی اور اجتماعی غیرت، یعنی معاشرے کے تمام مردوں کا تمام عورتوں کی نسبت غیرتی بن جانا،[9] وطن کی غیرتَ؛ یعنی اپنے وطن سے محبت کرنا اور اس کی ترقی کے لئے کوشاں رہنا،[10] اور غیرت دینی؛ یعنی اسلام کے حریم سے دفاع کرنا[11] شامل ہیں۔

احادیث میں بے غیرتی کی بعض علتیں ذکر ہوئی ہیں جن میں محرم اور نامحرم کا اختلاط،[12] [یادداشت 2] حرام موسیقی،[13][یادداشت 3] نامحرم کی طرف نگاہ،[14] شرابخواری[15][یادداشت 4] اور سور کا گوشت کھانا،[16][یادداشت 5] قابل ذکر ہیں۔

غیرت کے آثار

معصومینؑ کی روایات کے مطابق غیرت کے بہت سارے آثار اور فائدوں میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • عفت اور پاکدامنی: کہا گیا ہے کہ جو شخص اپنی ناموس کیلئے احترام کا قائل ہے اور اس کے بارے میں غیرت مند ہے، وہ شخص اپنے کو اجازت نہیں دیتا ہے کہ دوسروں کی ناموس کی طرف غلط نظر کرے۔[17]اس بارے میں امام علیؑ کی ایک روایت سے استناد ہوا ہے: ما زنیٰ غیورٌ قطُّ؛ غیرت مند شخصی کبھی زنا نہیں کرتا ہے۔[18]
  • برائیوں سے دوری: جس حد تک بے غیرتی اور بے توجہی برائی کے لئے زمینہ فراہم کرتی ہے اسی طرح برائیوں کو روکنے میں غیرت اور حساسیت کا بھی بڑا کردار ہے۔[19]
  • گھریلو سکون: غیرت گھر میں سکون اور میاں بیوی کے روابط کو مضبوط کرنے کا باعث بنتی ہے؛ کیونکہ کسی معاشرے میں غیور مرد بے غیرت اور ہوا و ہوس کے اسیر لوگوں کے لیے رکاوٹ اور مزاحم بنتے ہیں اور پاک دامن خواتین ایسے مردوں کے سائے میں سکون اور آرام کا احساس کرتی ہیں۔[20]

غیرت میں زیادہ روی

معصومینؑ سے منقول احادیث میں مرد کے لئے عورت کے بارے میں بے جا غیرت، بدگمانی اور بہانہ تراشیوں سے نہی ہوئی ہے؛ کیونکہ اس کا نتیجہ برعکس ہوگا اور برائی کا سبب بنتا ہے۔[21] اس بارے میں امام علیؑ کے اپنے فرزند امام حسنؑ کے نام لکھے گئے خط سے استناد ہوا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: غیر ضروری موارد میں غیرت مند بننے سے اجتناب کریں، کیونکہ پاک دامن عورتوں کو ناپاکی کی طرف اور بے گناہ کو گناہ کی طرف لے جانے کا باعث بنتا ہے۔[22] [یادداشت 6]

اسی طرح امام صادقؐ کی ایک حدیث میں بھی حلال کام پر غیرت دکھانے سے منع ہوا ہے: لا غیرة فی الحلال.[23]

مونوگرافی

غیرت کے بارے میں بعض کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں سے فارسی زبان میں لکھی گئی بعض کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

  • گوہر غیرت، فاطمہ اعظمی، مرکز حفظ آثار و نشر ارزشہای دفاع مقدس، اصفہان، 1390 شمسی
  • مقام غیرت در اخلاق و عرفان اسلامی، علی‌ اکبر افتخاری‌ فر، ناشر، عصر مدرن، 1394 شمسی
  • غیرت در مکتب عترت، فرید نجف‌ نیا، ناشر، اسوہ، 1394 شمسی
  • غیرت حسینی و عفت زینبی، محمد حسن وکیلی، ناشر، موسسہ مطالعات راہبردی علوم و معارف اسلام، 1395 شمسی
  • رابطہ غیرت دینی با امر بالمعروف و نہی از منکر، رضا علی کرمی، نشر قلمگاہ، 1393 شمسی

نوٹ

  1. لَئن لَم ینَتهِ المُنافِقُونَ و الّذین فی قلوبهم مَرَضٌ و الُمُرْجِفُونَ فی المدینة لَنغرینَّکَ بِهِم ثُمَّ لایجارونَکَ فیها اِلاّ قلیلاً مَلعُونینَ اَینَما ثَقفوا اُخِذُوا و قُتّلِوُا تقتیلاً سُنَّةَ اللهِ فی الّذین خَلَوا مِن قَبلُ و لَن تَجِدَ لِسُنَّةِ الله تبدیلاً. ترجمہ: اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں افواہیں پھیلانے والے (اپنی حرکتوں سے) باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف حرکت میں لے آئیں گے پھر وہ (مدینہ) میں آپ کے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر بہت کم۔ اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں افواہیں پھیلانے والے (اپنی حرکتوں سے) باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف حرکت میں لے آئیں گے پھر وہ (مدینہ) میں آپ کے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر بہت کم۔ جو (ایسے لوگ) ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان میں بھی اللہ کا یہی دستور رہا ہے اور آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔
  2. امام علیؑ: نبّئت انّ نسائکم یدافعن الرّجال فی الطّریق، اما تستحیون؟ لعن اللّه من لایغار؛ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تمہاری عورتیں راستہ چلتے ہوئے مردوں کو ٹکر مارتی ہیں، کیا تمہیں شرم نہیں آتی ہے، اللہ لعنت کرے اس شخص پر جس میں غیرت نہیں۔(حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۷۴).
  3. إنّ شَیطاناً یقال له القَفَندَرُ إذا ضَربَ فی مَنزل الرَّجلِ أَربعینَ صباحاً بالبَربَطِ و دَخلَ الرّجالُ وَضع ذلک... فلا یغار بعدَها؛ جس کے گھر پر چالیس دنوں سے بین بجایا جائے اور مرد وہاں جمع ہوجائیں۔۔۔ تو اس مرد کی غیرت سلب ہوگی۔(حر عاملی، وسائل الشیعہ، کتاب تجارت، باب۱۰۰، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۲۳۲، ح۱؛ کلینی، اصول کافی، ۱۴۰۱ق، ج۶، ص۶۵۵، ح۱۴).
  4. مفضل نے امام صادقؑ سے پوچھا: اللہ تعالی نے کیوں شراب حرام کیا؟ امامؑ نے فرمایا: کیونکہ شراب کے عادی شخص کو ارتعاش اور لرزہ میں مبتلا کرتا ہے۔ اس سے روشنی اور بینائی چھین لیتا ہے، شرف، غیرت اور جوانمردی‌ زائل کرتا ہے اور اسے گناہ کرنے، بے گناہ کو قتل کرنے اور زنا کا مرتکب ہونے کی جرات دیتا ہے۔(حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۴ق، ج۱۷، ص۲۵۳).
  5. کسی نے امام صادقؑ سے پوچھا کہ اللہ تعالی نے سور کا گوشت کیوں حرام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالی نے لوگوں کی مصلحت کے بغیر نہ کسی چیز کو حرام کیا ہے اور نہ کسی چیز کو حرام کیا ہے۔ سور کے گوشت کو اس لئے حرام کیا ہے کہ یہ بے غیرتی کا باعث بنتا ہے اور اخلاقی برائیوں کا باعث بنتا ہے۔(بروجردی، تفسیر جامع، ۱۳۶۶ش، ج۲، ص۱۵۶).
  6. إِيَّاكَ وَ التَّغَايُرَ فِي غَيْرِ مَوْضِعِهِ فَإِنَّ ذَلِكَ يَدْعُو الصَّحِيحَةَ إِلَى السُّقْمِ وَ الْبَرِيئَةَ إِلَى الرَّيْبِ (آمدی، غرر الحکم، ۱۴۱۰ق، ح۲۷۰۴، ص۱۶۹.

حوالہ جات

  1. نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۱ش، ج۱، ص۲۶۶؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۴، ص۲۸۰.
  2. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، ۱۳۸۰ش، ج۳، ص۴۳۱.
  3. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، ۱۳۸۶ش، ص۴۳۳و۴۳۴.
  4. کلینی، اصول کافی، ۱۴۰۱، ج۸، ص۳۷۲.
  5. نهج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، حکمت ۳۰۵، ص۵۲۹.
  6. شیخ حر عاملی، وسایل الشیعہ، ۱۴۱۴ق، ج۲۰، ص۲۳۵.
  7. نراقی، معراج السعادة، انتشارات جاویدان، ص۱۵۲-۱۵۳.
  8. نراقی، معراج السعادة، انتشارات جاویدان، ص۱۵۲-۱۵۳.
  9. مظاهری، معرفت نفس، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۱۳۵.
  10. مظاهری، معرفت نفس، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۱۳۷.
  11. مظاهری، معرفت نفس، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۱۳۸.
  12. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۷۴
  13. حر عاملی، وسائل الشیعہ، کتاب تجارت، باب۱۰۰، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۲۳۲، ح۱؛ کلینی، اصول کافی، ۱۴۰۱ق، ج۶، ص۶۵۵، ح۱۴.
  14. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۱۴، ص۲۶۸.
  15. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۴ق، ج۱۷، ص۲۵۳.
  16. بروجردی، تفسیر جامع، ۱۳۶۶ش، ج۲، ص۱۵۶.
  17. اکبری، غیرت مندی و آسیب‌ ہا، ۱۳۹۰ش، ص۳۸.
  18. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، حکمت ۳۰۵، ص۵۲۹.
  19. اکبری، غیرت مندی و آسیب‌ها، ۱۳۹۰ش، ص۳۸.
  20. اکبری، غیرتمندی و آسیب‌ها، ۱۳۹۰ش، ص۴۰-۴۱.
  21. آمدی، غرر الحکم و درر الکلم، ۱۴۱۰ق، ح۲۷۰۴، ص۱۶۹؛ جزایری، دروس اخلاق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ص۱۶۳.
  22. آمدی، غرر الحکم، ۱۴۱۰ق، ح۲۷۰۴، ص۱۶۹.
  23. عبدوس، بیست و پنج اصل از اصول اخلاقی امامان، ۱۳۷۷ش، ص۳۱۳.

مآخذ

  • اکبری، محمود، غیرتمندی و آسیب ‌ہا، قم، فتیان، ۱۳۹۰ شمسی
  • بروجردی، سید محمد ابراہیم، تفسیر جامع، تہران، انتشارات صدر، ۱۳۶۶ شمسی
  • جزایری (آل غفور)، محمد علی، دروس اخلاق اسلامی، قم، مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم، ۱۳۸۸ شمسی
  • حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، آل البیت، ۱۴۱۴ھ۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمہ محمد باقر موسوی، قم، دفتر نشر اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ شمسی
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، چاپ علی‌اکبر غفاری، بیروت ۱۴۰۱ھ۔
  • نراقی، احمد، معراج السعادۃ، قم، ہجرت، ۱۳۷۷ شمسی
  • نراقی، مہدی بن ابی ذر، علم اخلاق اسلامی: ترجمۃ کتاب جامع السعادات، ترجمۃ جلال الدین مجتبوی، تہران ۱۳۸۱ شمسی
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، بیروت، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، ۱۴۰۸ھ۔
  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، ۱۹۸۰ء.
  • نہج الفصاحہ، سخنان پیامبر، گروآورندہ ابوالقاسم پایندہ، تصیح و تنظیم عبدالرسول پیمانی و محمد امین شریعتی، اصفہان، خاتم الانبیاء، ۱۳۸۳ شمسی