مصحف فاطمہ

فاقد خانہ معلومات
فاقد تصویر
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(مصحف حضرت فاطمہ سے رجوع مکرر)

مصحف فاطمہ اس الہامی مجموعے کو کہا جاتا ہے جو فرشتوں کے ذریعے حضرت فاطمہ زہرا(س) تک پہنچے ہیں اور حضرت علیؑ نے انہیں تحریری صورت میں محفوظ کیا ہے۔ قیامت کے دن بہشت میں پیغمبر اکرمؐ کا مقام اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات جیسے موضوعات اس کتاب کا حصہ ہیں۔ یہ کتاب یکے بعد دیگرے شیعہ ائمہ کی طرف منتقل ہوتی رہی اور اس وقت یہ کتاب امام زمانہ(عج) کے دست مبارک میں موجود ہے۔ ان معصوم ہستیوں کے علاوہ اس کتاب تک کسی اور کو رسائی حاصل نہیں رہی۔ بعض علمائے اہل سنت مدعی ہیں کہ شیعہ "مصحف فاطمہ" کے نام سے ایک اور قرآن رکھتے ہیں لیکن ائمہ معصومینؑ نیز شیعہ علماء نے ہمیشہ اس بات کی نفی کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ "مصحف فاطمہ" قرآن کے علاوہ ایک اور کتاب ہے اور شیعوں کا قرآن بھی وہی ہے جو دوسرے مسلمانوں کا ہے۔

املا

احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد فرشتے حضرت فاطمہؑ پر نازل ہوتے تھے۔ [1] بعض احادیث میں اسے اللہ کا بھیجا ہوا[2] جبکہ بعض دوسری احادیث میں اسے "جبرئیل" قرار دیا گیا ہے۔ [3] علامہ مجلسی ان دو قسم کی روایات کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دونوں نام ایک ہی فرد پر اطلاق ہوتے ہیں کیوں کہ خدا کا بھیجا ہوا سے مراد وہی "جبرئیل" ہے [4] نہ پیغمبر خداؐ۔ جس کی دلیل بھی یہ ہے کہ قرآن [5] و سنت[6] میں ملائکہ اور جبرئیل پر "رسول اللہ" کا اطلاق رائج اور مرسوم ہے۔[7]

مصحف فاطمہ کو ذکر کرنے والی تمام احادیث اور شیعہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اس کتاب کو حضرت علیؑ نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا ہے۔[8]

امکان نزول فرشتہ اور نزول وحی

انبیاء کے علاوہ بعض انسانوں پر الہی فرشتوں کا نزول اور خدا کے ساتھ ان کے رابطے کا برقرار ہونا امکان پذیر ہے چنانچہ حضرت مریم کا فرشتے سے ہمکلام ہونے کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ [9] نیز احادیث نے بھی حضرت فاطمہ(س) پر فرشتے کے نازل ہونے کو حضرت مریم پر فرشتے کے نازل ہونے کے مشابہ قرار دیا ہے۔[10]

امام صادقؑ سے منقول ایک روایت میں آیا ہے کہ فرشتوں نے حضرت فاطمہ(س) کو خدا کی جانب سے منتخب ہونے، آپ کی طہارت اور پاکیزگی اور عالمین کی عورتوں پر آپ کی برتری کو بیان کرنے کے بعد خدا کی بارگاہ میں عبادت کرنے اور سجدہ کرنے کا کہا۔اس کے علاوہ حضرت فاطمہ(س) اور فرشتوں کے درمیان کچھ گفتگو ہوئی۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت فاطمہ(س) نے حضرت مریم کی برتری کے حوالے سے سوال کیا تو فرشتوں نے جواب دیا کہ حضرت مریم اپنے زمانے کی عورتوں سے افضل ہیں جبکہ خدا نے آپ کو ابتدائے خلقت سے لے کر قیامت تک کی تمام عورتوں پر فضیلت اور برتری دی ہے۔ [11]

مضامین

احادیث کے مطابق مصحف فاطمہ نہ قرآن ہے اور نہ احکام یعنی حلال و حرام پر مشتمل کتاب ہے بلکہ مستقبل میں رونما ہونے والے حوادث اور واقعات کے بارے میں خبر اور آگاہی ہے۔[12] بعض روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہ(س) بہت اداس رہتیں، اس موقع پر جبرئیل آپ کے پاس آتا اور آپ کو تسلی دیتا تھا اور بہشت میں آپ کے والد گرامی، پیغمبر اکرمؐ کے مقام و مرتبہ سے آپ کو آگاہ کرتا تھا اور آپؐ کے بعد آپؐ کی آل پر جو حوادث پیش آئیں گے ان سے آپ کو آگاہ کرتا تھا۔ [13]

حضرت فاطمہ(س) کی جبرئیل کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں جو گزارشات موصول ہوئی ہیں ان کے مجموعے سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اس کتاب کے مضامین درج ذیل ہیں:

  1. حضرت فاطمہ(س) کو آپ کے والد گرامی کی رحلت پر تسلیت و تعزیت۔
  2. بہشت میں پیغمبر اکرمؐ کے مقام و مرتبے سے آگاہی۔
  3. مستقل میں پیش آنے والے حوادث اور واقعات سے آگاہی۔
  4. امت محمدی پر حاکم ہونے والے فرمانرواوں کے متعلق معلومات، نام اور انکے والد کا نام۔
  5. انبیاء ماسلف اور گذشتہ اور آئندہ کے مؤمنین اور کافروں کی داستانوں سے آگاہی۔

امامت کی نشانی

بہت سے احادیث کے مطابق مصحف فاطمہ شیعہ ائمہ کے یہاں ایک میراث کی طرح یکے بعد دیگری پہلے امام سے بعد والے امام تک منتقل ہوتا رہا۔ بعض احادیث میں اس مصحف کے حامل ہونے کو امامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے کیونکہ مصحف فاطمہ ایسے حقائق کا مجموعہ ہے جسے خدا کے فرشتوں نے حضرت فاطمہ(س) پر نازل کیا اور حضرت علیؑ نے اسے تحریر فرمایا ہے۔ یہ مصحف امام علیؐ کے بعد آپ کی نسل سے دوسرے ائمہ کے یہاں یکے بعد دیگری میراث کے طور پر منتقل ہوتا رہا اور اس وقت یہ مصحف بارہویں امام حضرت مہدی(عج) کے ہاں موجود ہے۔ [14]

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ محدثین کی ایک محفل میں امام صادقؑ تشریف فرما تھے۔ محدثین میں سے ایک نے عبداللہ بن‏ حسن کی جانب سے بنی حسن کی امامت کا ادعا کرنے کی طرف اشارہ کیا۔ امام صادقؑ نے کچھ مطالب کے بعد فرمایا: ... خدا کی قسم (اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر) اسرار نبوت ، پیغمبر اکرم کی تلوار اور زرہ ہمارے پاس ہے اور خدا کی قسم مصحف فاطمہؑ ہمارے پاس ہے۔[15]

اعتراضات اہل سنت

اہل سنت کے بعض اکابرین شیعوں پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک اور قرآن "مصحف فاطمہ" کے نام سے موجود ہے۔ علامہ عسکری لکھتے ہیں: "اہل سنت کے مصنفین مکتب اہل بیتؑ کے پیروکاروں پر الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے پاس "مصحف فاطمہ" نامی ایک اور قرآن ہے کیونکہ اس کتاب کا نام مصحف فاطمہ ہے جبکہ صدر اسلام میں قرآن کو مصحف کہا جاتا تھا" ۔ [16]

دوسرا اعتراض جو اہل سنت بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسی کتاب پر عقیدہ رکھنا ختم نبوت کے عقیدے سے ہماہنگ نہیں بلکہ یہ ختم نبوت کو زیر سوال قرار دیتی ہے کیونکہ ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی رحلت کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہو گیا اور آپ کے بعد کسی اور نبی نے نہیں آنا ہے۔[17] مثال کے طور پر دور حاضر کا وہابی عالم ڈاکٹر ناصر قفاری مدعی ہے: "شیعہ اہل بیت پر وحی نازل ہونے کا عقیدہ حقیقت میں اپنے ائمہ کی نبوت پر عقیدہ رکھنا ہے... مثلا مصحف فاطمہ ..."۔ [18]

بعض احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ پہلا اعتراض گذشتہ زمانے سے چلا آرہا ہے اور اہل سنت یہ خیال کرتے تھے کہ شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کی بعض تحریف شدہ اور حذف ہونے والی آیات مصحف فاطمہؑ میں موجود ہیں۔ اس بنا پر ائمہ معصومینؑ اس مصحف میں قرآن کی کسی آیت کے موجود ہونے کا سختی سے انکار فرماتے تھے۔[19] ایک حدیث میں امام صادقؑ سے مروی ہے:

" خدا کی قسم مصحف فاطمہ ہمارے پاس ہے اور اس میں قرآن کی ایک آیت بھی نہیں ہے۔"[20]

ایک اور روایت میں فرمایا:

«یہ [مصحف فاطمہ] اس قرآن سے تین برابر بڑا ہے جو تمہارے پاس ہے۔خدا کی قسم اس میں حتی قرآن کی ایک آیت بھی نہیں ہے۔"[21]

اس کے علاوہ شیعہ ائمہؑ اور تمام شیعہ علماء نے یہ متفقہ طور پر اعلان کیا ہے کہ:

"تمام شیعوں کا عقیدہ ہے کہ یہ کتاب "قرآن مجید" سے متفاوت ہے اور یہ اس قرآن کے مقابلے میں کوئی دوسرا قرآن شمار نہیں ہوتا ہے۔" [22]

دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ائمہ معصومین پر نازل ہونے والی وحی قرآن کی صورت میں پیغبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی وحی سے مختلف تھی۔ پس یہ عقیدہ رکھنا کہ ائمہ پر وحی نازل ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ شیعہ ائمہ کی نبوت پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس مطلب کی تبیین کی خاطر شیعہ ائمہ کیلئے محدث اور حضرت فاطمہ(س) کیلئے محدثہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. الصفار، بصائر الدرجات، ص152۔
  2. الصفار، بصائر الدرجات، ص153۔
  3. الصفار، بصائر الدرجات، ص154۔
  4. بحارالانوار، 26/42؛ بہ نقل مہدوی راد، مصحف فاطمہ، ص 72۔
  5. انعام، 61؛ یونس، 21؛ ہود، 81؛ مریم، 19؛ حج، 75؛ عنکبوت، 31؛ فاطر، 1۔
  6. کلینی، 2/365؛ صدوق، عیون اخبار الرضا ؑ، 2/244؛ ابن طاووس، فتح الابواب، ص194؛ بہ نقل مہدوی راد، مصحف فاطمہ، ص73۔
  7. مہدوی راد، مصحف فاطمہ، صص 72-73۔
  8. مہدوی راد، مصحف فاطمہ، ص 73؛ نیز بنگرید: الصفار، بصائر الدرجات، ص153-155۔
  9. آل عمران‏(3)، آيات 42 و 43 و 45۔
  10. صدوق، علل الشرائع، ج1، ص182۔
  11. صدوق، علل الشرائع، 1/182؛ طبری امامی، 80-81؛ بہ نقل رحمان ستایش، محدثہ بودن فاطمہ ؑ، ص63۔
  12. الصفار، بصائر الدرجات، ص156، 157
  13. الصفار، بصائر الدرجات، صص154، 157؛ الکلینی، اصول الکافی، ج1، صص186-187۔
  14. آقابزرگ تہرانی، الذریعZ، ج21، ص126؛ مہدوی راد، مصحف فاطمہ، ص83-84۔
  15. بصائر الدرجات، ص‏153; بحارالانوار، ج‏26، ص 40۔
  16. عسکری، سید مرتضی، معالم المدرستین، ج 2، ص 32۔
  17. سبب قلۃ أحاديث فاطمي رضي اللہ عنہا
  18. کیانی، مہندس، کدامین راہ؟، ص5، قم، معصومین، نوبت اول، 1385۔
  19. مغنیہ، محمد جواد، الشیعۃ فی المیزان، ص 61۔
  20. کلینی، کافی، ج1، ص 238۔
  21. موسوی، سید محمد باقر، الکوثر فی احوال فاطمہ،ج الرابع، ص320، قم، الطبعۃ الاولی، 1420ه۔ق۔
  22. فضل اللہ، سید محمد حسین، فاطمہ زهراء، ترجمہ مأ موری، ص163، تہران، دارالملک، نوبت اول، 1381۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، بیروت: دارالاضواء، بی‌تا (نسخہ موجود در لوح فشردہ مکتبۃ اہل البیت، نسخہ دوم)۔
  • الصفار القمی، محمد بن الحسن بن فروخ، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد ؐ، صححہ وعلقہ: میرزامحسن کوچہ باغی تبریزی، قم: مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق۔
  • رحمان‌ستایش، محمدکاظم، محدثہ بودن فاطمہ ؑ، در دانشنامہ فاطمی ؑ، ج۲، تہران: پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۹۳۔
  • الصدوق، علل الشرائع، تقدیم: السیدمحمدصادق بحرالعلوم، النجف الاشرف: المکتبۃ الحیدریۃ، ۱۳۸۵ق-۱۹۶۶م۔
  • عسکری، سید مرتضی، معالم المدرستین۔
  • فضل اللہ، سید محمد حسین، فاطمہ زہراء، ترجمہ مأ موری، تہران، دارالملک، نوبت اول، ۱۳۸۱ش۔
  • الکلینی، محمد بن یعقوب، اصول الکافی، نسخۃ مشکولۃ مع رسالۃ اضبط المقال فی اسماء الرجال، التقدیم والتعلیق: علی اکبر الغفاری، التصحیح والمقابلۃ: نجم الدین الآملی، طہران: المکتبۃ الاسلامیۃ، ۱۳۸۸ق۔
  • کیانی، مہندس، کدامین راہ؟، قم، معصومین، نوبت اول، ۱۳۸۵ش۔
  • مغنیہ، محمد جواد، الشیعۃ فی المیزان۔
  • الموسوی، السید محمد باقر، الکوثر فی احوال فاطمہ، قم، الطبعۃ الاولی، ۱۴۲۰ہ۔ ق۔
  • مہدوی راد، محمدعلی، مصحف فاطمہ، در دانشنامہ فاطمی ؑ، ج۳، تہران: سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۹۳۔