مُصحَف عثمانی، قرآن کریم کا وہ نسخہ ہے جسے حضرت عثمان کے حکم پر مرتب کیا گیا تھا۔ مصحف عثمانی کے بعض نسخوں کو مصحف امام بھی کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان موجود قرآن کریم کے مختلف نسخوں میں پائے جانے والے اختلافات، مصحف عثمانی کی تدوین کا سبب بنا۔ مصحف عثمانی کی تدوین کے بعد حضرت عثمان کے حکم پر باقی نسخوں کو نابود کیا گیا۔ مشہور قول کے مطابق اس مصحف کی تدوین کیلئے چار افراد کا انتخاب کیا گیا تھا جن میں زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمان بن حارث شامل تھے۔
صحابہ اور شیعہ ائمہ نے مصحف عثمانی کی مخالفت نہیں کی؛ لیکن اس کے طرز تدوین اور بعض الفاظ کے حوالے سے مختلف اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ علوم قرآن کے ماہرین اور محققین کا کہنا ہے کہ مصحف عثمانی میں بعض غلطیاں رہ گئی تھیں لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ یہ چیز قرآن کریم کی تحریف کا موجب نہیں بن سکتی کیونکہ ان غلطیوں کے باوجود بھی قرآن کے الفاظ محفوظ ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مصحف عثمانی کے چار سے نو نسخے مرتب کئے گئے تھے جن میں سے ہر ایک کو مختلف اسلامی ریاستوں میں بھیجا گیا تاکہ قرآن کی قرأت اور تلاوت میں یہی نسخے مبنا و منبع قرار پائیں۔ موجودہ دور میں ان نسخوں کا کوئی نام و نشان نہیں البتہ ان نسخوں سے بہت سارے نسخے لکھے گئے تھے اور اس وقت مسلمانوں کے یہاں موجود قرآن کریم انہی نسخوں سے شایع ہوتے ہیں۔
تدوین مصحف
مُصحَف، قرآن کے ناموں میں سے ہے۔ تاریخی منابع کے مطابق یہ نام ابوبکر کے زمانے سے قرآن کے لئے استعمال ہوئے۔[1] قرآنیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قرآن کریم کو ایک نسخے میں مرتب کرنے کا کام پیغمبر اسلامؐ کے زمانے سے ہی شروع ہو گیا تھا اور قرآن کی آیتوں اور سورتوں کا نام خود پیغمبر اکرمؐ نے مشخص فرمایا تھا؛ لیکن قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کر کے سورتوں کو ترتیب دینے کا کام آپ کے بعد صحابہ نے انجام دیئے۔[2] حضورؐ کی وفات کے بعد تمام اصحاب قرآن کی سورتوں کو جمع کرنے میں مشغول ہو گئے۔[3] یوں بہت سارے صحف وجود میں آگئے۔[4] مصحف علی، مصحف عبداللہ بن مسعود، مصحف اُبَیِّ بن کعب، مصحف ابوموسی اشعری اور مصحف مقداد بن اَسود ان میں زیادہ مشہور ہیں۔[5]
تدوین کا مقصد
صحابہ کے ذریعے جمع شده صحف سورتوں کی ترتیب اور قرائت کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں قرآن کے حوالے سے بہت زیادہ اختلافات پیدا ہونا شروع ہوا۔ صحابہ میں سے ہر ایک اپنے پاس موجود مصحف کو صحیح اور دوسرے کی قرأت کو غلط اور جعلی سمجھتا تھا۔[6] علوم قرآن کے ماہر سید محمد باقر حجتی، طبری سے نقل کرتے ہیں کہ اس حوالے سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ بعض اوقات ایک دوسرے پر کافر ہونے کا الزام بھی لگاتے تھے۔[7]
اس مشکل کو دور کرنے کیلئے عثمان بن عَفّان نے چار نفر پر مشتمل ایک گروہ کی ذمہ داری لگائی کہ وہ قرآن کے موجودہ صحیفوں میں تحقیق و تفحص کے بعد ایک نسخہ تدویں کریں۔[8] اس مصحف کی تدوین کے بعد مختلف اسلامی مناطق میں موجود قرآن کریم کے دیگر نسخوں کو جمع کرنے اور انہیں نابود کرنے کا حکم دیا۔[9]
زمان تدوین
مُصحَف عثمانی کی تاریخ تدوین کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابن حَجَر عسقلانی کے مطابق یہ کام سنہ 25 ہجری کو انجام پایا؛[10] لیکن ابناثیر کا عقیدہ ہے کہ یہ کام سنہ 30 ہجری میں انجام پایا تھا۔[11] علوم قرآن کے بعض ماہرین تاریخی قرائن و شواہد کے ساتھ استناد کرتے ہوئے سنہ 30 ہجری کی تاریخ کو نادرست قرار دیتے ہیں۔[12] ان قرائن میں سے ایک یہ ہے کہ مصحف عثمانی کی تدوین کے اصلی ارکان میں سے ایک رکن سعید بن عاص سنہ 30 سے 34 ہجری کے درمیانی عرصے میں مدینہ میں ہی نہیں تھے۔[13]
ان محققین کے مطابق مصحف عثمانی کی تدوین کا آغاز سنہ 25 [14] یا 24 ہجری کے اواخر یا 25 ہجری کے اوائل[15] اور اس کا اختتام سنہ 30 ہجری میں ہوا ہے۔[16]
تدوین کنندگان
مصحف عثمانی کی تدوین کی اصلی ذمہ داری کس کے ذمہ تھی اس حوالے سے مختلف اقوال موجود ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ صرف زید بن ثابت کو اس کام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جبکہ بعض کے مطابق زید کے علاوہ سعید بن عاص بھی ان کے ساتھ اس کام میں شریک تھا اور بعض نے اس میں اُبَیّ کو بھی شامل کیا ہے،[17] جبکہ بعض اس کام کی ذمہ پانچ ارکان پر مشتمل ایک گرہ کے ذمہ لگاتی ہے اور بعض کے مطابق قریش اور انصار میں سے 12 افراد اس کام پر مأمور تھے۔[18]
بعض مورخین اَنَس بن مالک اور عمر بن خَطّاب کے آزاد کردہ غلام اَسلَم کی نقل کو سب سے زیادہ معتبر قرار دیتے ہیں۔[19] اس نقل کے مطابق اس کام کی ذمہ داری ایک چار نفری گروہ کے ذمہ تھی جن میں زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمان بن حارث شامل تھے۔[20] کتاب التمہید فی علوم القرآن کے مصنف آیت اللہ معرفت اس حوالے سے 12 افراد کی موجودگی سے متعلق نقل ہونے والی روایت کی علت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جب مذکورہ چار افراد سے یہ کام انجام نہیں پایا تو یہ لوگ عبداللہ بن عباس اور انس بن مالک وغیرہ کی مدد حاصل کرتے تھے۔[21]
اس چار نفری گروہ کی سرپرستی زید بن ثابت کر رہے تھے۔[22] زید انصار اور عثمان کے معتمدین میں سے تھے اور بیت المال کا خزانہ دار بھی۔[23] اس گروہ کے باقی تین افراد بھی سب کے سب قریش اور عثمان کے داماد تھے۔[24] پیغمبر اکرمؐ کے جلیل القدر صحابی عبداللہ بن مسعود اس انتخاب کے سخت مخالف تھے اور اس پر برملا اعتراض کرتے تھے۔ اس چار نفری گروہ کی سرپرستی زید کے سپرد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہتے تھے: قرآن کی تدوین کا کام ایک ایسے شخص کے ذمہ لگائی ہے جو میرے مسلمان ہوتے وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔[25]
شیوہ تدوین
تاریخ کی گواہی کے مطابق مُصحَف عثمانی اس مصحف کی بنیاد پر مرتب کیا گیا تھا جسے ابوبکر کے دور خلافت مبں تدوین کیا گیا تھا۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں موجود قرآنی سورتوں کے نسخوں نیز مصحف اُبَیّ سے بھی استفادہ کیا جاتا تھا۔[26] عثمان نے اس چار نفری گروہ کو سفارش کی تھی کہ کسی جگہ کسی لفظ یا کلمے کے بارے میں اختلاف نظر پایا گیا تو اس سلسلے میں قریش کے لہجے کو ترجیح دی جائے کیونکہ قرآن قریش کے لہجے میں نازل ہوا ہے۔[27]
کتاب تاریخ قرآن کے مصنف محمود رامیار کے مطابق مصحف عثمانی کو نہایت دقیق طور پر تدوین کیا گیا تھا۔[28] وہ مالک بن ابی عامر سے نقل کرتے ہیں کہ تدوین کنندگان جب بھی کسی لفظ سے متعلق اختلاف کا شکار ہوتے تو اس لفظ کی جگہ اس وقت تک خالی چھوڑ دیتے تھے جب تک کوئی ایسا شخص نہ ملے جس نے پیغمبر اکرمؐ سے بذات خود قرآن سن لیا ہو اور اس کلمے کے صحیح تلفظ پر اطمینان حاصل نہ ہو جائے۔[29] فرانسیسی مستشرق اور مترجم قرآن رژی بلاشر نے فرانسیسی زبان میں لکھا ہے: اس میں کوئی شک نہیں کہ مصحف عثمانی کو مرتب کرنے والوں نے اپنی پوری ذمہ داری کے ساتھ اس کام کو انجام دیئے ہیں اور اس کام میں نہایت احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔[30]
اعتراضات
آیت اللہ معرفت مصحف عثمانی کے شیوہ تدوین پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس کام میں بہت زیادہ دقت سے کام نہیں لیا گیا اس وجہ سے مصحف عقمانی میں بہت زیادہ املائی غلطیاں رہ گئی ہیں۔[31] اسی طرح ان صحیفوں کو ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ نہیں کیا گیا جس کی بنا پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔[32] آپ ابناَبی داوود سے نقل کرتے ہیں کہ شام والے اپنے اور بصرہ والوں کے مصحف کو کوفہ والوں کے مصحف سے زیادہ صحیح جانتے تھے؛ کیونکہ مصحف کوفہ تصحیح اور موزانہ کیئے بغیر بھیجا گیا تھا۔[33] اس طرح آپ ابناَبی داوود سے ایک اور روایت نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "خود عثمان نے مصحف عثمانی میں غلطیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہا کہ اگر املاء کرنے والا بنی ہُذَیل اور لکھنے والا بنی ثَقیف سے ہوتا تو یہ غلطیاں نہ ہوتی"۔[34]
خصوصیات
آیت اللہ معرفت کے مطابق مُصحَف عثمانی میں بھی دوسرے صحیفوں کی طرح جو مختلف صحابہ کے پاس موجود تھے، سورتوں کی ترتیب بڑی سورتوں سے چھوٹی سورتوں کی طرف تھی اور دوسرے صحیفوں سے بعض چیزوں میں مختلف بھی تھا مثلا دوسرے صحیفوں میں سورہ یونس طولانی سورتوں میں شامل تھی اس بنا پر یہ قرآن کی ساتویں یا آٹھویں سورت شمار ہوتی تھی لیکن مصحف عثمانی اس سورت کی جگہ سورہ انفال اور سورہ توبہ موجود ہیں؛ کیونکہ عثمان ان دو سورتوں کو ایک سورت شمار کرتا تھا اس بنا پر یہ سورہ یونس سے طولانی سورت شمار ہوتی ہے۔[35] کہا جاتا ہے کہ ابن عباس نے اس کام کی وجہ سے عثمان پر اعتراض کیا۔[36]
مصحف عثمانی کی دوسرری خصوصیات میں سے ایک حروف پر نقطوں کا نہ ہونا ہے؛[37] اس بنا پر "باء"، "تاء"، "یاء" اور "ثاء" سب بغیر نقطہ کے ایک جیسے لکھے جاتے تھے۔ اس طرح "جیم"، "حاء" اور "خاء" بھی بغیر نقطہ کے ایک جیسے لکھے جاتے تھے۔[38] اسی طرح کلمات پر اعراب (زبر، زیر اور پیش) بھی موجود نہیں تھا۔[39] اس بنا پر "یُعَلِّمُہ" (اسے تعلیم دیتا ہے) اور "نَعْلَمُہ" (اسے جانتا ہوں) دونوں ایک طرح سے لکھے جاتے تھے۔[40] اس بنا پر اس زمانے میں قرآن کی تعلیم کیلئے قراء سبعہ سے قرآن سننا پڑھتا تھا۔[41] کتاب التمہید کے مطابق قرائت سبعہ کے وجود میں آنے کی عمدہ دلیل اس وقت کے صحیفوں میں نقطوں اور اعراب کا نہ ہونا ہے۔[42]
بہت زیادہ املائی غلطیوں کا پایا جانا بھی مصحف عثمانی کی ایک اور خصوصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔[43] آیت اللہ معرفت کے مطابق مصحف عثمانی میں 7000 سے بھی زیادہ املائی غلطیاں موجود تھیں۔[44] البتہ انہوں نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ان غلطیوں کے باوجود بھی قرآن کی عظمت اپنی جگہ باقی ہے کیونکہ قرآن کی حقیقت اس کا تلفظ یعنی وہ چیز جسے پڑھا جاتا ہے، نہ مکتوب اور لکھائی اور قرآن کی تلفظ صحیح صورت میں اب بھی باقی ہے اور اسی طرح پڑھا اور تلاوت کی جاتی ہے۔[45]
تعداد
مُصحَف عثمانی کی تدوین کے سلسلے میں منتخب گروہ کے ذریعے تدوین یافتہ نسخوں کی تعداد سے متعلق جلال الدین سیوطی نے مختلف نظریات کو نقل کیا ہے۔[46] اکثر علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اس گروہ نے مصحف عثمانی کے چار نسخے مرتب کئے اور انہیں مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام بھیجے گئے تھے۔[47] جبکہ سیوطی کے مطابق اس حوالے سے مشہور قول کے مطابق ان نسخوں کی تعداد پانچ تھی۔[48] اس کے علاوہ 6 نسخے، 7 نسخے، آٹھ نسخے اور 9 نسخے کے بارے میں بھی اقوال موجود ہیں۔[49]
آیت اللہ معرفت ابن اَبی داوود اور یعقوبی کے اقوال سے یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ مصحف عثمانی کے نسخوں کی تعداد 9 تھی کیونکہ ابن اَبی داوود کے مطابق سات نسخے تھے جنہیں مکہ، کوفہ، بصرہ، شام، بحرین، یمن اور مدینہ بھیجے گئے جبکہ یعقوبی کے بقول دو اور نسخے بھی تھے جو مصر اور الجزیرہ بھیجے گئے تھے۔[50]
مصحف امام
علوم قرآن کے منابع میں مصحف عثمانی کا وہ نسخہ جو مدینہ میں موجود تھا، کو مُصحَف الاِمام کہا جاتا ہے؛[51] لیکن ابنجَزَری کے مطابق مُصحَف امام مدینہ میں موجود عام نسخے کے علاوہ کوئی اور نسخہ تھا جو خود عثمان کے پاس موجود تھا۔[52] ابنکثیر کتاب فضائل القرآن میں لکھتے ہیں کہ مصحف عثمانی کے تمام نسخوں کو نسخہ امام کہا جاتا ہے۔[53] کتاب التمہید کے مطابق دوسرے شہروں میں موجود نسخوں میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں جس نسخے کی طرف رجوع کیا جاتا تھا اسے مصحف امام کہا جاتا تھا۔[54]
صحابہ اور تابعین کا رد عمل
مختلف صحف کو یکساں کرنے کے اصل عمل میں تو تمام صحابہ عثمان کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے۔[55] اور اس کام کے طریقہ کار سے متعلق بھی صرف عبداللہ بن مسعود کی طرف سے اعتراض سامنے آیا ہے اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اور عثمان کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔ عبداللہ بن مسعود نے جن افراد کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کو ناتجریہ کار سمجھتے ہوئے اپنے پاس موجود مصحف کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا۔[56]
اسی طرح مصحف عثمانی میں موجود بعض کلمات کے بارے میں صحابہ کے اختلاف رائ رکھنے کے حوالے سے بھی بعض تاریخی شواہد موجود ہیں۔[57] مثال کے طور پر "إنْ ہٰذَانِ لَسَاحِرَان" میں لفظ "ہَذَانِ"(یہ دو)،[58] عربی ادب کے قواعد و ضوابط کے مطابق "ہَذَیْنِ" ہونا چاہئے۔[59] اس بنا پر بعض صحابہ من جملہ عایشہ اور سعید بن جُبَیر اسے غلط سمجھتے ہوئے "ہٰذَیْنِ" تلفظ کرتے تھے۔[60] مجمع البیان میں طَبرِسی کے مطابق قراء سبعہ میں سے بعض قاری بھی "ہٰذَیْنِ" پڑھتے تھے۔[61] کہا جاتا ہے کہ خود عثمان بھی اسے غلط سمجھتے تھے؛ لیکن چونکہ اس کی وجہ سے کوئی حلال حرام یا کوئی حرام حلال نہیں ہوتا اس وجہ سے اسے تبدیل نہیں کرنے دیا۔[62]
جامع البیان میں بھی امام علیؑ سے نقل ہوئی ہے کہ آپؑ "طَلْحٍ مَنْضُود"[63] (تہہ بہ تہہ کیلے)[64] کی اصل تلفظ "طَلْعٍ مَنْضُود" (کھجور کے متراکم خوشے) سمجھتے تھے؛ لیکن اس کے باوجود اسے تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی۔[65]
شیعہ ائمہ کی رائے
آیت اللہ معرفت کے مطابق ائمہ معصومینؑ مُصحَف عثمانی کے مخالف نہیں تھے اسی بنا پر شیعہ موجودہ قرآن کو جو اس وقت مسلمانوں کے یہاں موجود ہے، صحیح اور کامل سمجھتے ہیں۔[66] سیوطی امام علیؑ سے نقل کرتے ہیں کہ عثمان نے مصحف عثمانی کی تدوین کے سلسلے میں آپؑ سے مشورہ کیا تھا اور آپ اس کام کے ساتھ موافق تھے۔[67] اسی طرح وسائل الشیعہ میں نقل شدہ ایک حدیث کے مطابق امام صادقؑ نے ایک شخص کو جو قرآن کی رائج قرأت کے خلاف تلاوت کر رہے تھے، اس کام سے منع فرمایا۔[68]
انجام
تاریخی منابع کے مطابق تمام مسلمان مصحف عثمانی کو ایک خاص تقدس اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کی نگہداری میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے؛ لیکن ان تمام تر اقدامات اور ان سے مختلف نسخہ جات تنسیخ ہونے کے باوجود،[69] خود ان صحف کے انجام سے متعلق کوئی دفیق معلومات میسر نہیں۔[70] ان صحف کی وجہ سے جو تقدس اور احترام ان کے حامل مساجد اور شہروں کو ملتی تھی، اسے پانے اور محفوظ رکھنے کیلئے سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں رہتے تھے۔[71] اس بنا پر پرانے زمانے سے اب تک مختلف نسخہ جات سے متعلق مصحف عثمانی ہونے کا دعوا کیا جاتا رہا ہے؛[72] لیکن محققین ان تمام دعوؤں کو نادرست قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اس وقت ان صحف کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے۔[73]
مثلا تاشقند سمرقند میں موجود قرآن کا ایک نسخہ مصحف عثمانی کے نام سے معروف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن خود عثمان کے یہاں موجود تھا اور جب انہیں قتل کیا جا رہا تھا تو وہ اس کی تلاوت کر رہے تھے اسی لئے اس پر عثمان کے خون کے آثار باقی ہیں؛[74] لیکن محمود رامیار کے مطابق یہ ادعا درست نہیں کیونکہ مصحف عثمانی کے حوالے سے مشہور یہی ہے کہ یہ نقطوں اور اعراب سے خالی تھے جبکہ مذکورہ نسخے میں اعراب اور نقطے پائے جاتے ہیں اس بنا پر یہ یقین سے کہا جاتا سکتا ہے کہ اس نسخے کی قدمت عثمان کے زمانے تک نہیں پہنچتی ہے۔[75] اسی طرح استانبول کے ایک موزیم میں موجود قرآنی نسخے سے متعلق بھی مصحف عثمانی ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے؛ لیکن اس میں بھی وہی اشکال موجود ہے جو پہلے والے نسخے میں بیان کیا پس اس بنا پر یہ ادعا بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔[76]
قرآنی نسخوں کی تنسیخ
جن صحیفوں کو عثمان نے مختلف اسلامی مناطق میں بھیجا تھا اسے مسلمانوں کے یہاں نہایت پذیرائی ملی۔ یوں اس کی تدویں کے مختصر مدت میں ہی ان سے دوسرے نسخے تنسیخ ہونے لگے۔[77] محمود رامیار کے مطابق دوسری صدی ہجری میں بعض افراد خود کو قرآن کی کتابت کیلئے وقف کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر ابو عمرو شیبانی نے تقریبا 80 سے زیادہ قرآن مجید کے نسخے تحریر کر کے انہیں مسجد کوفہ میں رکھ دیا تھا۔[78] اس طرح قرآن کے نسخوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا تھا کہ صرف سنہ 403ھ میں مصر کے فاطمیِ خلیفہ الحاکم بامراللہ نے 1298 نسخے مسجد جامع عتیق کیلئے اور 814 نسخے مسجد جامع طولونی کیلئے دئے۔[79]
آج کل مسلمانوں کے یہاں موجود قرآن بھی انہی نسخوں سے شایع کی جاتی ہیں جن کو مصحف عثمانی سے تنسیخ کئے گئے تھے۔ موجودہ قرآن پہلی دفعہ سنہ 950ھ کو اٹلی میں شایع ہوا؛ لیکن کلیسا کے حکم پر اسے نابود کیا گیا۔ اس کے بعد سنہ 1104ھ پھر سنہ 1108ھ میں یورپ میں شایع کیا گیا۔ پہلی بار مسلمانوں کے توسط سے سنہ 1200ھ میں مولا عثمان نے سن پیترزبرگ روس میں قرآن کی اشاعت کا کام انجام دیا۔[80]
اسلامی ممالک میں ایران پہلا اسلامی ملک ہے جس نے قرآن کی اشاعت کا کام انجام دیا۔ ایران میں سنہ 1243 اور 1248ھ کو قرآن کے دو لیتھوگراف تہیہ کئے گئے۔ اس کے بعد دوسرے اسلامی ممالک جیسے ترکی، مصر اور عراق نے بھی قرآن کی مختلف طباعتیں شایع کی ہیں۔[81]
حوالہ جات
- ↑ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۲۶۔
- ↑ سیوطی، الإتقان، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۰۲؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۷۲تا۲۸۲۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۴۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۴۔
- ↑ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۴۸۔
- ↑ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۳۸۔
- ↑ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۳۸۔
- ↑ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۳۹و۴۴۰؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۸و۳۳۹۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۶؛ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۴۰۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۳۳؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۳۳؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ۳۴۴و۳۴۵۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ۳۴۴و۳۴۵؛ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۳۳۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ۳۴۵
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۳۳و۴۳۵۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۳۵۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۷۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۹۔
- ↑ نگاہ کنید بہ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۷۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹؛ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۳۹و۴۴۰؛ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۷۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹و۳۴۰۔
- ↑ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۴۰؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۸۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۹۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۱و۴۲۲۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۱و۴۲۲۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۶۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۶۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۷۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۸۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۸۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۸و۳۴۹۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۹۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۴و۳۵۵۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵و۳۵۶۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۶۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۶۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۸۔
- ↑ سیوطی، الاتقان، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۱۱۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۰۔
- ↑ نگاہ کنید بہ سیوطی، الاتقان، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۱۱۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۲۔
- ↑ نگاہ کنید بہ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۹و۳۵۰۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۰۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۲۔
- ↑ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۱۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۰۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹تا۳۷۳۔
- ↑ سورہ طہ، آیہ ۶۳۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹۔
- ↑ ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۲۴و۲۵۔
- ↑ ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔
- ↑ سورہ واقعہ، آیہ ۲۹۔
- ↑ ترجمہ محمد حسین نجفی۔
- ↑ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲۷، ص۱۰۴۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲۔
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۸۲۱۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۱۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۸۔
- ↑ نگاہ کنید بہ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰؛ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۶۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۶و۴۶۷۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۷۔
- ↑ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۱۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۲۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۲۔
- ↑ معرفت، پیشینہ چاپ قرآن کریم، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن۔
- ↑ معرفت، پیشینہ چاپ قرآن کریم، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن۔
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد مہدی فولادوند۔
- ثعلبى نیشابورى، احمد بن ابراہیم، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ اول، ۱۴۲۲ق۔
- حجتی، سید محمد باقر، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۶۸ش۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام، چاپ اول، ۱۴۰۹ق۔
- رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیر کبیر، چاپ سوم، ۱۳۶۹ش۔
- سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن، الإتقان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، الرضی-بیدار-عزیزی، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش۔
- طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البيان فى تفسير القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
- طبرى، محمد بن جرير، جامع البیان فى تفسیر القرآن، بيروت، ارالمعرفہ، چاپ اول، ۱۴۱۲ق۔
- معرفت، «پیشینہ چاپ قرآن کریم»، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن۔
- معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۲ق۔