ارادہ الہی

ویکی شیعہ سے
(مشیت الہی سے رجوع مکرر)
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


ارادہ الہی خدا کے صفات میں سے ہیں اور اسی بنا پر خدا کو مُرید یعنی ارادہ کرنے والا کہا جاتا ہے۔ مسلمان علماء خدا کے ارادے کی ماہیت کے بارے میں اختلاف‌ نظر رکھتے ہیں۔ شیخ مفید اور علامہ طباطبایی خود خدا سے متعلق ارادہ الہی سے خدا کے افعال جبکہ دوسروں سے متعلق اس سے خدا کا "امر" مراد لیتے ہیں؛ لیکن معتزلہ اور بعض شیعہ متکلمین ارادہ خدا کو علم خداوندی کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔

ارادہ کو ارادہ تکوینی اور ارادہ تشریعی میں تقسیم کرتے ہیں۔ بعض مفسرین کے مطابق قرآن میں بھی ارادہ تکوینی اور ارادہ تشریعی دونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

مفہوم‌شناسی

ارادہ اور مشیت خدا کے صفات میں سے ہے اور اسی وجہ سے خدا کو مُرید (ارادہ کرنے والا) کہا جاتا ہے۔[1] قرآن کی بہت ساری آیات میں مشیت اور ارادے کو خدا کی طرف نسبت دی گئی ہے؛[2] من جملہ "یعَذِّبُ مَنْ یشاءُ وَ یرْحَمُ مَنْ یشاءُ"؛ (ترجمہ: وہ جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے؛)[؟؟][3] اور "{{قرآن کا متن|إِنَّ رَبَّک فَعَّالٌ لِما یریدُ"؛|ترجمہ= آپ کا پروردگار (قادرِ مختار ہے) جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔۔[4]

مشیت اور ارادہ میں فرق

بعض متکلمین اس بات کے معتقد ہیں کہ مشیت اور ارادہ دونوں ایک ہی صفت کو کہا جاتا ہے؛ لیکن بعض کا خیال ہے کہ چونکہ قرآن میں مشیت صرف تکوینی امور میں استفادہ ہوا ہے اس لئے مشیت اور ارادہ کو دو مختلف صفت قرار دیتے ہیں۔[5] چنانچہ بعض احادیث میں بھی مشیت اور ارادہ کے درمیان تفصیل اور تقدم و تأخر کا مشاہدہ ہوتا ہے جو اس بات کے اوپر دلالت کرتا ہے کہ مشیت اور ارادہ ایک نہیں ہے۔[6]

ارادہ خدا کی حقیقت

مسلمان متکلمین اس بات کے اوپر متفق ہیں کہ خدا صاحب ارادہ ہے لیکن اس ارادے کی حقیقت اور خصوصیات میں اختلاف پایا جاتا ہے؛[7] من جملہ ان مباحث میں ارادہ خدا کی حقیت، ارادہ خدا کا ذاتی یا فعلی ہونا اور اسی طرح اراده خدا کا قدیم یا حادث ہونا شامل ہیں۔[8]

شیخ مفید (متوفی ۴۱۳ھ) اور علامہ طباطبایی (متوفی ۱۳۶۰ش) کے مطابق خدا کا اپنے اعمال کی بنسبت ارادہ سے مراد خدا کے افعال ہیں اور دوسرے موجودات کی بنسبت اس سے مراد خدا کا "امر" ہے۔[9] اس بنا پر مثلا جب کہا جاتا ہے کہ "خدا نے انسان کو خلق کرنے کا ارادہ کیا" تو حقیقت میں اس جملے کا معنا یہ ہے کہ "خدا نے انسان کو خلق کیا"۔[10] ان دو بزرگوں کے مطابق ارادہ خدا کے فعلی صفات میں سے ہے۔[11] بعض معاصر محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ شیخ مفید اور علامہ طباطبایی کا نظریہ، ائمہ معصومین کے نظریے کے مطابق ہے[12] اور اس حوالے سے بعض احادیث سے بھی استناد کرتے ہیں؛[13] من جملہ امام صادق(ع) سے سے مروی ایک حدیث میں مشیت خدا کو حادث اور غیرازلی قرار دیا گیا ہے،[14] اسی طرح امام کاظم(ع) سے مروی ایک حدیث میں ارادہ خدا کو افعال خدا قرار دیا گیا ہے[15] اور امام رضا(ع) کی ایک تعبیر میں مشیت اور ارادہ کو خدا کے صفات فعلی میں سے قرار دیا ہے۔[16]

مسلمان فلاسفہ کے مشہور نظریے کے مطابق ارادہ تکوینی بعینہ نظام احسن پر خدا کا علم ہے۔[17] معتزلہ اور بہت سارے شیعہ متکلمین اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا کا تکوین ارادہ خدا کا وه علم ہے جو وه انسان اور دوسرے موجودات کے مصلحت کے مطابق رکھتا ہے۔[18] اس گروہ کے مطابق ارادہ خدا کے ذاتی صفات میں سے ہیں۔[19]

اشاعرہ کہتے ہیں کہ ارادہ خدا کے علم و قدرت اور دوسرے ذاتی صفات کا غیر ہے؛[20] لیکن اسے ایک ذاتی یا زائد بر ذات ایک صفت قرار دیتے ہیں جو قدیم اور ازلی ہے۔[21]

ارادہ تکوینی اور ارادہ تشریعی

موجودات کو وجود میں لانے کے حوالے سے خدا کے ارادے کو ارادہ تکوینی جبکہ اس کے مقابلے میں واجب، مستحب، حرام یا مکروہ جیسے اعمال کے بارے میں خدا کے ارادے کو ارادہ تشریعی کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر جب خدا کسی انسان پر کسی چیز کو واجب قرار دیتا ہے تو گویا خدا نے ارادہ تشریعی کیا ہے کہ وہ کام انجام پائے اور جب کسی چیز کو حرام قرار دیتا ہے تو گویا خدا نے تشریعی طور پر یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ کام انجام نہ پائے۔ خدا کے تشریعی ارادے سے وجوب، استحباب، حرمت اور کراہت وجود میں آتے ہیں۔[22]

مخلوقات اور خدا کے درمیان رابطے سے ارادہ تکوینی انتزاع ہوتا ہے یہاں پر خدا جس چیز کا بھی ارادہ کرے وہ چیز حتمی طور پر وجود میں آتی ہے۔ جبکہ ارادہ تشریعی خدا انسان کے بعض اختیاری امور پر تعلق پکڑتا ہے اس بنا پر ممکن ہے جس چیز کا خدا نے ارادہ کیا ہے وہ متحقق نہ ہو۔[23]

قرآن کی بعض آیات میں خدا کے تکوینی ارادے اور بعض میں خدا کے تشریعی ارادے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[24] ارادہ تکوینی سے مربوط آیات کے مطابق جب بھی خدا کا تکوینی ارادہ کسی فعل کے ساتھ تعلق پکڑتا ہے تو وه فعل فورا وجود میں آ جاتا ہے۔[25] من جملہ ان آیات میں سے ایک سورہ نحل کی آیت نمبر 4 ہے:[26] "إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیءٍ إِذَا أَرَ‌دْنَاہُ أَن نَّقُولَ لَہُ کن فَیکونُ؛ (ترجمہ: ہم جب کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارا کہنا بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ اس سے کہتے ہیں کہ ہو جا بس وہ ہو جاتی ہے۔)[؟؟]"[27] سورہ بقرہ کی آیہ ۱۸۵ ان آیات میں سے ہے جن میں خدا کے تشریعی ارادے کی طرف اشارہ ہوا ہے:[28] "یرِیدُ اللَّہُ بِکمُ الْیسْرَ وَلَا یرِیدُ بِکمُ الْعُسْرَ؛  (ترجمہ: اللہ تمہاری آسانی و آسائش چاہتا ہے تمہاری تنگی و سختی نہیں چاہتا۔)[؟؟]"[29] اس آیت میں روزہ کے احکام کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ خدا کا تشریعی ارادہ یہ ہے کہ وہ ایسے احکام وضع کریں جس سے انسان سختی میں مبتلا نہ ہو۔[30]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی،۱۳۹۲ش، ص۱۳۱۔
  2. ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۱۔
  3. سورہ عنکبوت، آیہ ۲۱، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  4. سورہ ہود، آیہ ۱۰۷، ترجمہ فولادوند۔
  5. ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۱۔
  6. کلینی، الکافی، ۱۳۶۲، ج۱، ص۱۴۸۔
  7. سعیدی‌مہر، آموزش کلام اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۲۴۷۔
  8. سعیدی‌مہر، آموزش کلام اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۲۴۷۔
  9. ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۲۔
  10. سبحانی، عقاید اسلامی در پرتو قرآن، حدیث و عقل، ۱۳۷۹ش، ص۲۱۷۔
  11. حسن‌بیگی، «ارادہ الہی»، ص۱۰۷۔
  12. ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۲۔
  13. ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۵، ۱۳۶۔
  14. شیخ صدوق، التوحید، ۱۳۹۸ق، ص۱۴۷۔
  15. شیخ صدوق، التوحید، ۱۳۹۸ق، ص۱۴۷۔
  16. شیخ صدوق، التوحید، ۱۳۹۸ق، ص۳۳۸۔
  17. سعیدی‌مہر، آموزش کلام اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۲۵۰، ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۲۔
  18. ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۲۔
  19. حسن‌بیگی، «ارادہ الہی»، ص۱۰۷۔
  20. ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۲۔
  21. سعیدی‌مہر، آموزش کلام اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۲۵۱۔، ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۲۔
  22. سعیدی‌مہر، آموزش کلام اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۲۵۳۔
  23. سعیدی‌مہر، آموزش کلام اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۲۵۳۔
  24. سعیدی‌مہر، آموزش کلام اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۲۵۳، ۲۵۴۔
  25. سعیدی‌مہر، آموزش کلام اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۲۵۳۔
  26. سعیدی‌مہر، آموزش کلام اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۲۵۳۔
  27. سورہ نحل، آیہ ۴۰، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  28. سعیدی‌مہر، آموزش کلام اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۲۵۴۔
  29. سورہ بقرہ، آیہ ۱۸۵، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  30. سعیدی‌مہر، آموزش کلام اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۲۵۴۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  • حسن‌بیگی، علی، «ارادہ الہی»، کلام اسلامی، شمارہ ۵۰، ۱۳۸۳ش۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، عقاید استدلالی، قم، مرکز نشر ہاجر، چاپ چہارم، ۱۳۹۲ش۔
  • سبحانی، جعفر، عقاید اسلامی در پرتو قرآن، حدیث و عقل، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، چاپ دوم، ۱۳۸۶ش۔
  • سعیدی‌مہر، محمد، آموزش کلام اسلامی (راہنماشناسی-معادشناسی)، قم، کتاب طہ، چاپ ششم، ۱۳۸۸ش۔
  • صدوق، التوحید، محمد بن علی، تحقیق ہاشم حسینی، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، ۱۳۹۸ق۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، انتشارات اسلامیہ، ۱۳۶۲۔