مسودہ:تشریع احکام
تشریع احکام کے معنی شرعی احکام کو وضع کرنا یا انہیں وجود میں لانا ہیں۔[1] یہ اصطلاح فقہ اور اصول فقہ میں رائج ہے۔[2] فقہاء کے مطابق احکام کا وضع کرنے والا صرف ایک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔[3] اس بات کے اثبات کے لیے انہوں نے سورہ شوریٰ کی آیت 13 اور 21، سورہ مائدہ کی آیت 48، سورہ انعام کی آیت 58 اور سورہ کہف کی آیت 26 کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔[4]
شیعہ محدثین اور فقہاء کے مابین اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا رسول خداؐ کو احکام وضع کرنے (تشریع) کا اختیار حاصل تھا یا نہیں۔ اس سلسلے میں دو قسم کی رائے پائی جاتی ہے۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ دین اسلام ایک کامل و اتم دین ہے،[5] اس لیے رسول اکرمؐ کو احکام وضع کرنے کا اختیار نہیں تھا اور آپؐ کی بنیادی ذمہ داری احکام الہی کو لوگوں تک پہنچانا اور انہیں بیان کرنا تھا۔[6] اس رائے کے اثبات کے لیے کئی قسم کی دلیلیں بیان کی گئی ہیں؛ جیسے: پیغمبر خداؐ کا وحی اور حکم الہی کے نزول کا انتظار کرنا،[7] کسی کو دوسرے پر ولایت یا اختیار حاصل نہ ہونے والا قانون،[8] قرآنی آیات[9] اور روایات۔[10]
دوسری طرف، بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو تشریع احکام کا اختیار دیا ہے۔[11] اس رائے کے اثبات کے لیے روایات[12] سمیت بعض قرآنی آیات بھی پیش کی گئی ہیں جن میں رسول اکرمؐ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کے برابر قرار دیا گیا ہے۔[13] مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادقؑ کی ایک روایت میں آیا ہے کہ اللہ نے شراب (خمر) کو حرام کیا اور رسول خداؐ نے ہر نشہ آور چیز کو بھی حرام قرار دے دیا۔[14]
اس رائے کے بعض حامیوں کا کہنا ہے کہ جس طرح رسول اکرمؐ کو احکام وضع کرنے کا اختیار حاصل تھا، اسی طرح ائمہ معصومینؑ کو بھی یہ حق حاصل تھا۔[15] لیکن اس کے مقابلے میں ایک دوسرا گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ائمہؑ کا کام نئے شرعی احکام بنانا نہیں، بلکہ موجودہ احکام کی تشریح، وضاحت اور تفصیل بیان کرنا ہے۔[16] ان کے نزدیک ائمہؑ نے جن چیزوں کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی حکم موجود نہیں، ان کے بارے میں نہ صرف کوئی نیا حکم وضع نہیں کیا بلکہ ان کے بارے میں توقف اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔[17]
تشریع کا معاملہ بعض اوقات اس کے لغوی معنی یعنی ”قانون سازی“ کے حوالے سے بھی زیرِ بحث آتا ہے اور یہ بحث ہوتی ہے کہ کیا خدا، رسولؐ اور ائمہ کے علاوہ کوئی اور بھی احکام وضع کرنے کا حق رکھتا ہے؟[18] بعض فقہاء کا نظریہ ہے کہ فقیہ، یا کم از کم حاکم شرع، ان معاملات میں جہاں صریح نص موجود نہ ہو، احکام وضع کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔[19]
یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیعہ مرجع تقلید اور رہبرِ انقلاب اسلامی، سید علی حسینی خامنہ ای کا یہ حکم کہ بغیر سرکاری رجسٹریشن کے معاملات باطل ہیں، حکم وضعی تشریع کی جانے کی ایک مثال ہے؛ کیونکہ انہوں نے صحت معاملہ کے سلسلے میں ایک نئی شرط کا اضافہ کیا ہے اور اضافہ کردہ شرط (غیر رجسٹرڈ) جن معاملات میں موجود نہیں ان کو باطل قرار دیا ہے۔[20] فقہاء کے مطابق اسلامی حکومت میں قوہ مقننہ کا کردار، الٰہی احکام کے پیش نظر، منصوبہ بندی،[21] تقاضائے زمانہ کی تشخیص اور ضابطوں کی منظوری ہے،[22] جو کہ تشریع احکام سے مختلف نوعیت کا کام ہے۔[23]
حوالہ جات
- ↑ فضلی، دروس فی اصول فقہ الامامیۃ، 1420ھ، ص197۔
- ↑ فضلی، دروس فی اصول فقہ الامامیۃ، 1420ھ، ص197۔
- ↑ علامہ حلی، کشف المراد، 1382شمسی، ص98؛ مجتہد تبریزی، المقالات الغریۃ فی تحقیق المباحث الأصولیۃ، 1317ھ، ص289۔
- ↑ اصفہانی، ہدایۃ المسترشدین، 1420ھ، ج1، ص409؛ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1363شمسی، ج4، ص137۔
- ↑ اصفہانی، ہدایۃ المسترشدین، 1420ھ، ج1، ص411۔
- ↑ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج3، ص144-145؛ فضلی، دروس فی اصول فقہ الامامیۃ، 1420ھ، ص197؛ مجتہد تبریزی، المقالات الغریۃ فی تحقیق المباحث الاصولیۃ، 1317ھ، ص289۔
- ↑ اصفہانی، ہدایۃ المسترشدین، 1420ھ، ج1، ص410۔
- ↑ ضیائیفر، جایگاہ مبانی كلامی در اجتہاد، 1382شمسی، ص100۔
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 40؛ سورہ یونس، آیہ 15۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1416ھ، ج27، ص113۔
- ↑ سبحانی تبریزی، ولایت تشریعی و تکوینی در قرآن مجید، 1385ش، ص21-22؛ مکارم شیرازی، بحوث فقہیۃ ہامۃ، 1380شمسی، ص536
- ↑ صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص403؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص265؛ شیخ طوسی، العدۃ في أصول الفقہ، 1417ھ، ج2، ص733۔
- ↑ سورہ حشر، آیہ 7؛ سورہ توبہ، آیہ 29؛ سورہ نساء، آیہ 64، 80۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص267۔
- ↑ اصفہانی، ہدایۃ المسترشدین، 1420ھ، ج1، ص410؛ مجلسی اصفہانی، ولایۃ الاولیاء، 1395ھ، ص58۔
- ↑ عاملی، منتقی الجمان، 1362شمسی، ج2، ص439؛ علامہ طباطبایی، حاشیۃ الکفایۃ، 1402ھ، ج2، ص295؛ صدر، بحوث فی علم الاصول، 1417ھ، ج7، ص30؛ مکارم شیرازی، بحوث فقہیۃ ہامۃ، 1380شمسی، ص536۔
- ↑ مکارم شیرازی، بحوث فقہیۃ ہامۃ، 1380شمسی، ص538۔
- ↑ «جلسہ دوم از سال پنجم درس خارج فقہ سیاسی علیدوست»، پایگاہ بیان آرا و نظرات استاد علیدوست۔
- ↑ نراقی، عوائد الأیام، 1375شمسی، ص581؛ صدر، اقتصادنا، 1375شمسی، ص799؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392شمسی، ج2، ص596۔
- ↑ «جلسہ دوم از سال پنجم درس خارج فقہ سیاسی علیدوست»، پایگاہ بیان آرا و نظرات استاد علیدوست۔
- ↑ امام خمینی، ولایت فقیہ، 1423ھ، ص44۔
- ↑ سبحانی تبریزی، مبانی حکومت اسلامی، مؤسسہ امام صادق(ع)، ص260۔
- ↑ امام خمینی، ولایت فقیہ، 1423ھ، ص44۔
مآخذ
- اصفہانی، محمدتقی، ہدایۃ المسترشدین، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ اول، 1420ھ۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، تحریر الوسیلۃ، تہران، موسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى(رہ)، 1392ہجری شمسی۔
- «جلسہ دوم از سال پنجم درس خارج فقہ سیاسی علیدوست»، پایگاہ بیان آرا و نظرات استاد علیدوست، تاریخ درج مطلب: 15 مہر 1402ش، تاریخ بازدید: 3 مہر 1404ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ إلی تحصیل مسائل الشریعۃ، قم، مؤسسۃ آلالبیت علیہمالسلام لإحیاء التراث، 1416ھ۔
- سبحانی تبریزی، جعفر، مبانی حکومت اسلامی، ترجمہ داوود الہامی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، بیتا۔
- سبحانی تبریزی، جعفر، ولایت تشریعی و تکوینی در قرآن، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، جاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، العُدۃ فی أصول الفقہ، تحقیق محمدرضا انصاری قمی، قم، مطبعۃ ستارہ، 1417ھ۔
- صدر، سید محمدباقر، اقتصادنا، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، 1417ق/ 1375ہجری شمسی۔
- صدر، سید محمدباقر، بحوث فی علم الاصول، قم، مرکز الغدیر للدراسات الإسلامیۃ، چاپ دوم، 1417ھ۔
- صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات الکبری، تصحیح: محسن بن عباسعلی کوچہباغی، تہران، مؤسسۃ الأعلمی، چاپ احمدی، 1404ھ۔
- ضیائیفر، سعید، جایگاہ مبانی كلامی در اجتہاد، قم، بوستان کتاب، 1382ہجری شمسی۔
- عاملی، حسن بن زین الدین، منتقی الجمان فی الاحادیث الصحاح والحسان، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ اول، 1362ہجری شمسی۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الإعتقاد، حاشیہنویس: جعفر سلحانی تبریزی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1382ہجری شمسی۔
- علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، بنیاد علمی و فکری علامہ طباطبایی، 1363ہجری شمسی۔
- علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، حاشیۃ الکفایۃ، قم، بنیاد علمی و فکری علامہ طباطبایی، چاپ اول، 1402ھ۔
- فضلی، عبدالہادی، دروس فی اصول فقہ الامامیۃ، بیروت، مؤسسۃ أم القری، 1420ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مجتہد تبریزی، صادق، المقالات الغریۃ فی تحقیق المباحث الأصولیۃ، تبریز، مطبعہ مشہدی اسد آقا، 1317ھ۔
- مجلسی اصفہانی، محمدتقی، ولایۃ الاولیاء، قم، انتشارات چاپخانہ فیض، 1395ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آلالرسول(ص)، تہران، دار الکتب العلمیۃ، 1404ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، بحوث فقہیۃ ہامۃ، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ اول، 1380ہجری شمسی۔
- نراقی، احمد بن محمدمہدی، عوائد الایام فی بیان قواعد الاحکام و مہمات مسائل الحلال و الحرام، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1375ہجری شمسی۔