مندرجات کا رخ کریں

مسودہ:انس بن مالک

ویکی شیعہ سے
انس بن مالک
بصرہ میں انس بن مالک کا مزار
بصرہ میں انس بن مالک کا مزار
کوائف
مکمل نامانس بن مالك بن نضر بن ضمضم‏
کنیتابو حمزہ
لقبخادم الرسول(ص)
تاریخ پیدائشہجرت سے 10 سال پہلے
جائے پیدائشمدینہ
محل زندگیمدینہ
مہاجر/انصارانصار
نسب/قبیلہخزرج
وفاتبصرہ، سنہ 90 ہجری قمری سے سنہ 107ہجری قمری کے درمیان
سبب وفاتبیماری
مدفنبصرہ
دینی معلومات
اسلام لانا8 سال کی عمر میں
جنگوں میں شرکت8 غزوات میں، جیسے غزوہ خیبر، فتح مکہ اور حُنین وغیرہ
وجہ شہرتپیغمبر اکرمؐ کی خدمت گزاری
نمایاں کارنامےراوی حدیث


اَنَس بن مالک انصاری خَزرَجی پیغمبر اکرمؐ کے خدمت گزار اور راوی حدیث تھے۔ انہوں نے رسول خداؐ سے بہت سی روایتیں نقل کیں، نیز امام علیؑ کی امامت و ولایت اور اہل بیتؑ کے فضائل سے متعلق بعض احادیث بھی ان سے منقول ہیں۔ کہتے ہیں کہ غدیر کی حدیث کو چھپانے کی وجہ سے وہ حضرت علیؑ کی بد دعا کا شکار ہوکربرص کی بیماری میں مبتلا ہوگئے۔

اہل سنت کے مصادر حدیثی میں اَنس بن مالک سے مختلف موضوعات پر 2286 احادیث نقل ہوئی ہیں۔ اَنس نے بعض ائمہ معصومینؑ کے دور حیات کو پالیا اس کے باوجود ایک حدیث بھی ائمہ سے نقل نہیں کی ہے۔ شیعہ رجالی مآخذ میں اَنس کا اچھے الفاظ میں ذکر نہیں ملتا ہے۔ شیخ صدوق نے امام جعفر صادقؑ اور امام محمد باقرؑ کی احادیث کی بنیاد پر اَنس بن مالک کے بارے میں کہا ہے کہ وہ رسول اکرمؐ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرتے تھے۔

ابوبکر کے دور میں اَنس بن مالک بحرین میں مالیات جمع کرنے پر مامور تھے اور ابوبکر کی وفات کے بعد انہوں نے عمر کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ عثمان کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہوں نے عثمان کا دفاع کیا۔ خلافت امیرالمؤمنین علیؑ کے زمانے میں ان کا کیا موقف تھا؛ اس کے بارے میں تاریخی میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں، البتہ ابنِ ابی الحدید کے مطابق جنگ جمل کے موقع پر اَنس بن مالک ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے جنگ میں حصہ لینے سے انکار کردیا اور ان کا خیال تھا کہ امام علیؑ کا طلحہ اور زبیر کے ساتھ جنگ کرنا درست نہ تھا۔

اسی طرح معاویہ کے دور میں انہوں نے بصرہ کے خون آشام حاکم زیاد بن ابیہ کے ساتھ تعاون کیا اور مال غنیمت کی تقسیم پر مامور ہوئے۔ یزید کی خلافت میں وہ عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں امام حسینؑ کے سرِ مبارک کی بے حرمتی پر اعتراض کیا۔ کہا جاتا ہے کہ نبی کریمؐ کی دعا کی برکت سے اَنس بن مالک نے طویل عمر پائی۔ وہ 90 سے 107 ہجری قمری کے درمیان بصرہ میں وفات پاگئے۔

تعارف

اَنس بن مالک بن نضر بن ضَمْضَمَ، انصاری خزرجی، جن کی کنیت ابو حمزہ[1] اور لقب خادم الرسولؐ[2] تھا، ہجرت سے دس سال پہلے مدینہ میں پیدا ہوئے اور بچپن ہی میں مسلمان ہوگئے۔[3] تیسری صدی ہجری کے مورخ اور سیرت نگار ابن سعد کے مطابق جب رسول اکرمؐ مدینہ تشریف لائے تو اَنس کی والدہ اُمّ سُلیم اور ایک روایت میں ان کے سوتیلے والد طلحہ نے اَنس کو ان کی ذہانت اور پڑھنے لکھنے کی لیاقت کے حامل ہونے کی وجہ سے رسول خداؐ کی خدمت کے لیے پیش کیا۔[4] اس طرح اَنس دس سال یا آٹھ سال کی عمر میں نبی مکرمؐ کے خدمت گزار بنے[5] اور ابن سعد ہی کے مطابق نو سال اور بعض روایات کے مطابق دس سال، رسول اللہؐ کی خدمت میں رہے۔[6] کہا جاتا ہے کہ اَنس کی نبی اکرمؐ کے ساتھ قریبی وابستگی کی وجہ سے آنحضرتؐ ان سے مزاح بھی فرماتے تھے،[7] اور انہیں ’’یا بُنَیَّ‘‘ (اے میرے پیارے بیٹے) کہہ کر پکارتے تھے۔[8] اسی طرح آپؐ نے ان کے لیے ابوحمزہ کی کنیت کا انتخاب کیا۔[9]

بعض تاریخی روایات کے مطابق اَنس آٹھ غزوات میں شریک ہوئے،[10] جن میں غزوہ حنین[11] اور فتح مکہ[12] بھی شامل ہیں۔ انس بن مالک مسلمانوں کے دوسرے خلیفے کے دور میں ابوموسیٰ اشعری کی درخواست پر بصرہ چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کی۔[13] ابن سعد کے مطابق، اَنس بن مالک مال و دولت جمع کرنے میں صحابہ میں سب سے زیادہ حریص تھے۔[14]

کہتے ہیں کہ اَنس کی والدہ نے ان کے لیے رسول خداؐ سے دعا کی درخواست کی تو آنحضرتؐ نے ان کے لیے مال، اولاد اور طویل عمر پانے کی دعا فرمائی۔ اَنس کہتے تھے کہ یہ دعا ان کے حق میں قبول ہوئی؛ ان کی عمر لمبی اور کثیر اولاد ہوئی، ان کے باغات میں درخت سال میں دو بار پھل دیتے۔ انس بڑھاپے میں طویل زندگی سے تھکاوٹ کا احساس کرنے لگے تھے۔[15]

تاریخ وفات

ابن سعد اپنی کتاب "الطبقات الکبریٰ" میں لکھتے ہیں: اَنس بن مالک رسول خداؐ کے آخری صحابی تھے جو وفات پائے۔ وہ 107 سال کی عمر میں بصرہ میں ولید بن عبد الملک کے دورِ خلافت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔[16] نویں صدی ہجری کے سنی مورخ ابنِ حجر عسقلانی نے ان کی وفات کی تاریخ میں اختلاف نقل کیا ہے، جس کے مطابق ان کی وفات کی تاریخ90 سے 107 ہجری کے درمیان بتائی گئی ہے۔[17]

امام علیؑ کی انس کو بد دعا

ابن ابی‌ الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے ایک مخصوص باب میں ان اصحاب کا ذکر کیا ہے جو امام علیؑ سے منحرف ہوئے۔ ان میں اَنس بن مالک بھی تھے جنہوں نے دنیا کی محبت میں مبتلا ہوکر امام علیؑ کے فضائل کو نظرانداز کیا اور آپؑ کے دشمنوں کی مدد کی۔[18] امام علیؑ نے اَنس بن مالک کو کیوں بد دعا دی؟ اس کے بارے میں مختلف روایات منقول ہیں:

  • شیعہ اور سنی دونوں روایات کے مطابق، جب امام علیؑ نے کوفہ میں ایک مجلس میں موجود صحابہ سے اس بات کی گواہی مانگی کہ انہوں نے پیغمبر اسلامؐ سے حدیثِ غدیر یعنی «مَنْ كُنْتُ مَوْلاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلاہُ» سنی ہے تو اَنس بن مالک نے بڑھاپے اور بھول جانے کا بہانہ بنا کر گواہی دینے سے انکار کر دیا؛ اس پر امام علیؑ نے اسے بد دعا دی کہ اگر اس نے جھوٹ کہا ہے تو اسے ایسا سفید داغ یا نشانی لاحق ہو جو اس کی پگڑی بھی نہ چھپا سکے۔[19]

اس واقعے کے بعد اَنس نے قسم کھائی کہ وہ آئندہ امام علیؑ کے بارے میں کوئی حدیث نہیں چھپائے گا۔[20] آٹھویں صدی ہجری کے سنی مورخ ذہبی لکھتے ہیں کہ اَنس برص کے مرض میں مبتلا ہوا اور اس کے جسم پر شدید قسم کے دھبے ظاہر ہوگئے تھے۔[21]

  • بعض تاریخی منابع کے مطابق امام علیؑ نے جنگ جمل کے موقع پر اَنس کو یہ پیغام دے کر طلحہ اور زبیر کے پاس بھیجا کہ وہ مخالفین کو پیغمبر اکرمؐ کے وہ الفاظ یاد دلائیں جو انہوں نے سنے تھے: «تم لوگ علیؑ سے جنگ کرو گے جبکہ تم ظالم ہونگے۔»

اَنس امام علیؑ کے پاس واپس آیا اور کہا: «میں وہ بات بھول گیا ہوں۔» اس پر امام علیؑ نے اسے نفرین کی۔[22]

  • شیخ صدوق نے اپنی کتاب امالی میں لکھا ہے کہ رسول خداؐ کی حدیث دعوت کو چھپانے کی وجہ سے اَنس بن مالک برص کے مرض میں مبتلا ہوئے۔[23]

نقل حدیث میں انس کا مقام

شیعہ مصادر حدیثی کے مطابق اَنس بن مالک نے امام علیؑ، حضرت فاطمہ الزہراء(س) اور بعض صحابہ جیسے سلمان، ابوذر اور عبد اللہ بن عباس سے احادیث نقل کی ہیں۔[24]

خود اَنس کے بقول، ہر وہ روایت جو اُنہوں نے رسول خداؐ کی طرف منسوب کی ہے، براہِ راست پیغمبر اکرمؐ سے نہیں سنی، بلکہ بعض روایات انہوں نے صرف راوی کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے راوی کا نام ذکر کیے بغیر نبی اکرمؐ کی طرف منسوب کی ہیں۔[25] مختلف منابع میں اَنس سے امام علیؑ کے فضائل سے متعلق متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔[26] شیعہ فقیہ اور مفسر قرآن عبد اللہ جوادی آملی کے مطابق، اَنس بن مالک نے بعض ائمہ معصومینؑ کے زمانے میں زندگی بسر کی، لیکن اُن میں سے کسی ایک سے بھی کوئی حدیث نقل نہیں کی۔[27]

اہل سنت کے مصادر حدیثی میں اَنس سے احادیث کی تعداد، شیعہ مصادر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، جن کی تعداد 2286 تک پہنچتی ہے۔[28] "شناخت نامہ حدیث" نامی کتاب کے مولف محمد محمدی رے شہری کے مطابق، صرف احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں اَنس سے 2172 احادیث؛ فقہ، اخلاق، تفسیر اور عقائد کے مختلف موضوعات پر نقل کی ہیں۔[29] اَنس نے ابوبکر، عمر، عثمان بن مسعود اور عبادہ بن صامت جیسے افراد سے بھی حدیث روایت کی ہے۔[30] اہل سنت مورخ ذہبی کے مطابق تقریباً 200 افراد؛ جن میں قتادہ، ابن سیرین اور شعبی شامل ہیں؛ نے اَنس سے حدیث روایت کی ہے۔[31]

شیعہ رجالی مصادر میں اَنس کی عدم وثاقت

سید ابو القاسم خوئی معجم رجال الحدیث میں اَنس کی حدیثِ غدیر کی گواہی چھپانے سے متعلق روایات ذکر کرتے ہوئے انہیں مثبت نظر سے یاد نہیں کرتے۔[32] شیعہ علمائے رجال؛ جیسے شیخ طوسی اور ابن داوود نے بھی صرف اَنس کا نام صحابہ میں شمار کیا ہے، مگر اسے معتبر قرار نہیں دیا ہے۔[33]

شیخ صدوق نے امام جعفر صادقؑ کی روایت کی بنیاد پر اَنس بن مالک کو اُن افراد میں شمار کیا ہے جو رسول خداؐ کی نسبت جھوٹ باندھتے تھے۔[34] اسی طرح شیخ صدوق، امام محمد باقرؑ کی ایک روایت کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ ملزموں اور مجرموں کو حکام کی طرف سے دی جانے والی سخت سزاؤں کی بنیاد ایک جھوٹی بات تھی جس کو اَنس بن مالک نے نبیؐ کی طرف منسوب کیا تھا؛ یعنی یہ کہ رسول اللہؐ نے کسی شخص کے ہاتھ کو دیوار میں کیل سے ٹھونک دیا تھا۔[35]

تاریخی واقعات میں اَنس کے بدلتے موقف

عصر خلافت ابوبکر میں اَنس بن مالک بحرین میں مالیات جمع کرنے پر مامور تھے۔ جب وہ مدینہ واپس آئے اور اسی دوران ابوبکر کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے عمر کے ہاتھوں پر بیعت کرلی۔ انہوں نے مالیات کے چار ہزار درہم عمر کے حوالے کیے اور عمر نے جمع کردہ رقم اَنس بن مالک کو بطور عطیہ واپس کر دیا۔[36] امام علیؑ کی خلافت کے دوران اَنس کے واضح کردار کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔[37]

شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید کے مطابق جنگ جمل میں اَنس اُن افراد میں شامل تھے جنہوں نے جنگ میں شرکت کرنے سے گریز کیا اور نہ ہی امام علیؑ کے لشکر میں شامل ہوئے اور نہ ہی طلحہ و زبیر کے ساتھ دیا۔[38] اَنس کا خیال تھا کہ امام علیؑ کو طلحہ اور زبیر کے خلاف جنگ نہیں کرنی چاہیے تھی۔[39]

خلافت عثمان کے دور میں جب لوگوں نے ان کے خلاف علم بغاوت اٹھایا اور ان پر حملہ کیا تو اَنس اُن لوگوں میں شامل تھے جو بصرہ میں عثمان کی حمایت کر رہے تھے۔[40] معاویہ کے زمانے میں اَنس بن مالک اُن صحابہ میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے حکومتی امور میں حاکم بصرہ زیاد بن ابیہ کے ساتھ تعاون کیا[41] اور مال غنیمت کے امور کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔[42]

واقعہ کربلا کے موقع پر جب امام حسینؑ نے اہل عراق پر اپنی حجت تمام کردی اور رسول خداؐ سے اپنی وابستگی کا ذکر کیا تو ان سے کہا کہ چاہیں تو اَنس بن مالک جیسے زندہ صحابی سے دریافت کریں۔[43] یزید کے دور میں جب عبید اللہ بن زیاد نے امام حسینؑ کے سر مقدس کی بے ادبی کی تو اَنس بن مالک نے اس پر اعتراض کیا اور لوگوں کو یاد دلایا کہ امام حسینؑ رسولِ خداؐ سے کتنی مشابہت رکھتے تھے[44] اور پیغمبر خداؐ ان سے کتنی محبت کیا کرتے تھے۔[45] قیام مختار کے موقع پر اَنس بن مالک اہل عراق کے ساتھ شامل ہوئے،[46] اور مختار کی شکست کے بعد کچھ عرصے تک زبیری حکومت کے ساتھ بھی تعاون کرتے رہے۔[47]

حوالہ جات

  1. سپہر، ناسخ التواریخ: زندگانی پیامبر(ص)، 1380شمسی، ج4، ص1904۔
  2. عطاردی، مسند الإمام الشہید أبی عبد اللہ الحسین بن علی(ع)‏، 1376شمسی، ج3، ص335۔
  3. مستوفی، «مترجم»، ص970۔
  4. ابن‌سعد، الطبقات الکبری‏، 1418ھ، ج7، ص12-14۔
  5. ابن‌سعد، الطبقات الکبری‏، 1418ھ، ج7، ص12-15۔
  6. ابن‌سعد، الطبقات الکبری‏، 1418ھ‏، ج7، ص12-14۔
  7. ابن‌حجر عسقلانی، الإصابۃ فی تمييز الصحابۃ، 1415ھ، ج1، ص276۔
  8. ابن‌سعد، الطبقات الکبری‏، 1418ھ‏، ج7، ص14۔
  9. ابن‌حجر عسقلانی، الإصابۃ فی تمييز الصحابۃ، 1415ھ، ج1، ص276۔
  10. ذہبی‏، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام‏، 1409ھ، ج6، ص292۔
  11. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص897۔
  12. بلاذری، أنساب الأشراف‏‏، 1417ھ، ج1، ص523۔
  13. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج2، ص541۔
  14. ابن‌سعد، الطبقات الکبری‏، 1418ھ‏، ج7، ص13۔
  15. ابن‌سعد، الطبقات الکبری‏، 1418ھ‏، ج7، ص14۔
  16. ابن‌سعد، الطبقات الکبری‏، 1418ھ‏، ج7، ص18۔
  17. ابن‌حجر عسقلانی، الإصابۃ فی تمييز الصحابۃ، 1415ھ، ج1، ص276-277۔
  18. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص74۔
  19. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص74؛ شیخ مفید، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، 1413ھ، ج1، ص351۔
  20. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص74۔
  21. ذہبی‏، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام‏، 1409ھ، ج6، ص295.
  22. شریف‌ الرضی، نہج البلاغۃ، حکمت 311، ص530؛ ہاشمی خویی، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، 1400ھ، ج‏21، ص399-400۔
  23. شیخ صدوق، الأمالی، 1376شمسی، ص656.
  24. حر عاملی، اثبات الہداۃ بالنصوص والمعجزات، 1425ھ، ج3، ص40، 64؛ بحرانی، حلیۃ الأبرار فی احوال محمد وآلہ الاطہار(ع)، 1411ھ، ج1، ص257؛ محمدی ری‌شہری، شناخت‌نامہ حدیث، 1397شمسی، ج3، ص155۔
  25. الہی‌زادہ، «انس بن مالک: از اصحاب و خادمان خاص پیامبر(ص)»، ص352۔
  26. شیخ طوسی، امالی، 1414ھ، ص183؛ شیخ مفید، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، 1413ھ، ج1، ص30؛ حسکانی، شواہد التنزيل لقواعد التفضيل‏، 1411ھ، ج2، ص423۔
  27. جوادی آملی، رجال تفسیری، 1398شمسی، ج4، ص341 - 364۔
  28. محمدی ری‌شہری، شناخت‌نامہ حدیث، 1397شمسی، ج3، ص156۔
  29. محمدی ری‌شہری، شناخت‌نامہ حدیث، 1397شمسی، ج3، ص156۔
  30. ذہبی‏، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام‏، 1409ھ، ج6، ص289۔
  31. ذہبی‏، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام‏، 1409ھ، ج6، ص290۔
  32. خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسۃ الخوئی الإسلامیۃ، ج3، ص240۔
  33. شیخ طوسی، رجال الطوسی، 1373شمسی، ص21؛ ابن‌داود، الرجال، 1342شمسی، ج3، ص240۔
  34. شیخ صدوق، الخصال، 1362شمسی، ج1، ص190۔
  35. شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385شمسی، ج2، ص541۔
  36. ذہبی‏، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام‏، 1409ھ، ج6، ص293۔
  37. الہی‌زادہ، «انس بن مالک: از اصحاب و خادمان خاص پیامبر(ص)»، ص349۔
  38. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج20، ص20۔
  39. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج20، ص20.
  40. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج3، ص160۔
  41. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج8، ص29۔
  42. فقیہ بحرالعلوم، زیارتگاہ‌ہای عراق، تہران، ج2، ص184۔
  43. طبری، تاریخ طبری، 1387شمسی، ج5، ص425۔
  44. بلاذری، أنساب الأشراف‏، 1417ھ، ج3، ص222۔
  45. ابن‌کثیر، البدايۃ والنہايہ، بیروت، ج6، ص232۔
  46. الہی‌زادہ، «انس بن مالک: از اصحاب و خادمان خاص پیامبر(ص)»، ص350۔
  47. الہی‌زادہ، «انس بن مالک: از اصحاب و خادمان خاص پیامبر(ص)»، ص350۔

مآخذ

  • ابن‌ابی‌الحدید، عزالدین ابوحامد، شرح نہج‌ البلاغہ، تصحیح محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌ دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمييز الصحابۃ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • ابن‌داود، حسن بن علی بن داود، الرجال، تہران، دانشگاہ تہران، چاپ اول، 1342ہجری شمسی۔
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری‏، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ دوم، 1418ھ۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر‏، البدایۃ والنہایۃ، بیروت، دارالفکر، بی‌تا۔
  • الہی‌زادہ، محمدحسن، «انس بن مالک: از اصحاب و خادمان خاص پیامبر(ص)»، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ج3، قم، پژوہشکدہ حج و زیارت، 1392ہجری شمسی۔
  • بحرانی، سید ہاشم بن سلیمان، حلیۃ الابرار في أحوال محمد وآلہ الأطہار(ع)، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ، چاپ اول، 1411ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف‏، بیروت، دار الفکر، چاپ اول‏، 1417ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، رجال تفسیری، قم، اسراء، چاپ دوم، 1398ہجری شمسی۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزيل لقواعد التفضيل‏، تصحیح محمدباقر محمودی، تہران، مجمع إحياء الثقافۃ الإسلامي، چاپ اول، 1411ھ۔
  • خویی، سید أبوالقاسم، معجم رجال الحدیث، نجف، مؤسسۃ الخوئی الإسلامیۃ، بی‌تا۔
  • ذہبی‏، شمس‌الدین، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام‏، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم‏، 1409ھ۔
  • شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغۃ (للصبحی صالح)، قم، نشر ہجرت،‌ چاپ اول، 1414ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، اثبات الہداۃ بالنصوص والمعجزات، بیروت، اعلمی، چاپ اول، 1425ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن على‏، الخصال، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1362ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن على‏، علل الشرائع‏، قم، كتابفروشی داورى، چاپ اول‏، 1385ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن الحسن، امالی، تصحیح مؤسسۃ البعثۃ، قم،‌ دارالثقافۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن الحسن، رجال الطوسی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامي التابعۃ لجامعۃ المدرسين، چاپ سوم، 1373ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تصحیح مؤسسۃ آل البیت(ع)، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم والملوک، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، 1387ھ۔
  • عطاردی، عزیزاللہ، مسند الإمام الشہید أبی عبد اللہ الحسین بن علی(ع)‏، تہران، عطارد، چاپ اول، 1376ہجری شمسی۔
  • فقیہ بحرالعلوم، محمدمہدی، و احمد خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، تہران، سازمان حج و زیارت، بی‌تا۔
  • سپہر، محمدتقی، ناسخ التواریخ: زندگانی پیامبر(ص)، تہران، اساطیر، چاپ اول، 1380ہجری شمسی۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، شناخت‌نامہ حدیث، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دارالحديث، 1397ہجری شمسی۔
  • مستوفی، محمد بن احمد، «مترجم»، الفتوح، ابن‌اعثم کوفی، تہران، سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامى‏، 1372ہجری شمسی۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بیروت، اعلمی، چاپ سوم، 1409ھ۔
  • ہاشمی خویی، سید حبیب‌اللہ‏، منہاج البراعۃ فی شرح نہج‌ البلاغۃ، ترجمہ حسن حسن‌زادہ آملی و محمدباقر کمرہ‌ای، تحقیق ابراہیم میانجی، تہران‏، مکتبۃ الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1400ھ۔