"نزول قرآن" کے نسخوں کے درمیان فرق
سطر 70: | سطر 70: | ||
{{قرآن}} | {{قرآن}} | ||
[[زمرہ:علوم قرآن]] | [[زمرہ:علوم قرآن]] | ||
[[زمرہ:اصطلاحات | [[زمرہ:قرآنی اصطلاحات]] | ||
[[fa:نزول قرآن]] | [[fa:نزول قرآن]] |
نسخہ بمطابق 14:21، 10 جون 2023ء
نزول قرآن: اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے سے آیات قرآنی کا حضرت محمد ؐ پر اترنے کو نزول قرآن کہتے ہیں۔ قرآن کے نزول کا مطلب مادی اور جسمانی نزول نہیں ہے؛ اسی وجہ سے مسلمان دانشوروں نے قرآن کے بارے میں روحانی و معنوی نزول، حقیقی نزول اور مرتبہ و مقام کے نزول کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ قرآن مجید میں «انزلنا»(ہم نے نازل کیا)، «نزّلنا»(ہم نے تھوڑا تھوڑا نازل کیا)، «اوحینا»(ہم نے وحی کی)، «سنلقی»(ہم (ایک بھاری حکم کا بوجھ) ڈالنے والے ہیں)، «سنقرؤک»(ہم آپؐ(رسول خدا) کو پڑھائیں گے)، «نتلوها»(ہم آپ پر تلاوت کرتے ہیں) اور «رتلناه»(ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنایا ہے) جیسے الفاظ نزول وحی کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ عصر حاضر کے مفسر جوادی آملی قرآن کے نزول کی بحث کو ظاہر قرآن سے متعلق سمجھتے ہیں نہ کہ باطن قرآن سے۔ ماہرین قرآنیات کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ بعثت پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ ہی قرآن کے نزول کا آغاز ہوا تھا جبکہ کچھ دوسرے علما کے مطابق، بعثت پیغمبر خداؐ اور نزول قرآن کے مابین تین سال کا فاصلہ ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق نزول قرآن کا آغاز ماہ رمضان میں ہوا، اس گروہ کے عقیدے کی بنیاد پر نزول قرآن کا دورانیہ 20 سال بنتا ہے۔ بہت سے علما اور قرآنی ماہرین جن میں سید محمد حسین طباطبائی اور عبد اللہ جوادی آملی بھی ہیں، نزول قرآن کی کیفیت کے سلسلے میں کہتے ہیں ہے کہ پہلے مرحلے میں قرآن ایک ہی دفعہ میں قلب رسول خداؐ پر نازل ہوا تھا، اور دوسرے مرحلے میں بتدریج نازل ہوا۔ کچھ دوسرے ماہرین قرآنیات جیسے محمد ہادی معرفت وغیرہ، قرآن کے صرف تدریجی نزول کو مانتے ہیں۔
بحث نزول قرآن کی اہمیت
نزول قرآن کے سلسلے میں مندرجہ ذیل چیزیں زیر بحث آتی ہیں: پہلی بحث نزول کے معنی و مفہوم کے بارے میں ہے اور اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی کے ذریعے رسول خداؐ پر قرآنی آیات کا اترنا،[1] نزول قرآن کا آغاز کب ہوا؟ نزول کی کیفیت کیا تھی؟ نزول قرآن کا کل دورانیہ کتنا تھا؟ دفعی نزول اور تدریجی نزول کی کیفیت اور اس جیسے دیگر موضوعات پر علوم قرآن کی کتابوں میں سیر حاصل بحث کی جاتی ہ اور ے۔[2] شیعہ مفسر قرآن عبد الله جوادی آملی نزول قرآن کی بحث کو قرآن کے ظاہر سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق باطن قرآن ایسی چیز ہے جس پر نزول یا تنزل کا اطلاق ناممکن ہے کیونکہ باطن قرآن قابل نزول یا تنزل نہیں ہوتا بلکہ پیغمبر خداؐ روحانی طور پر ایسے مقام و مرتبے پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے آپؐ باطن قرآن کو درک کرلیتے ہیں۔[3] علوم قرآن کے ماہر اور شیعہ فقیہ محمد ہادی معرفت نے اپنی علوم قرآنی کی کتابوں میں نزول قرآن سے متعلق یہ عناوین زیر بحث لائے ہیں: آغاز نزول وحی، نزول کا دورانیہ، سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت، سب سے پہلے نازل ہونے والا سورہ، مکی اور مدنی سورتوں کے مابین فرق، نزول کی ترتیب، اسباب نزول اور دیگر موضوعات۔[4]
مفهوم شناسی
چونکہ قرآن مجید جسمانیت سے پاک ہے لہذا اونچی جگہ سے نیچے کی طرف آنا نزول کا مفہوم نہیں ہوسکتا، پس یہاں نزول کے لغوی اور مادی معنی مد نظر نہیں؛ کیونکہ قرآن کے نزول کا سر آغاز اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور وہ لامکان اور جسم و جسمانیت سے پاک و منزہ ہے اور محل نزول قرآن سورہ شعراء کی آیت 193 اور 194 کے مطابق[5] رسول خداؐ کا قلب مطہر ہے۔[6] اس نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ نزول قرآن کا مطلب قلب پیغمبر اکرمؐ پر وحی کی تجلی اور اس کا ظہور ہے اور چونکہ رسول خدا قرآن کو وحی الہی کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتے تھے لہذا عرف عام میں اسے نزول سے تعبیر کرتے ہیں۔[7] اسی وجہ سے بعض نے غیر محسوس چیز کو محسوسات کے پیرائے اور مثال میں بیان کرتے ہوئے دریافت وحی کو نزول کے مجازی معنی کے طور پر استعمال کرنے کو درست سمجھا ہے۔[8] نزول روحانی، نزول مقامی اور نزول حقیقی ایسی تعبیریں ہیں جنہیں مسلمان دانشور حضرات نزول قرآن کے لیے استعمال کرتے ہیں؛ حسن مصطفوی نے اپنی کتاب "التحقیق فی کلمات القرآن الکریم" میں نزول روحانی کی تعبیر استعمال کی ہے[9] اور سید محمد حسین طباطبائی نے اللہ تعالیٰ کے علو المرتبہ ہونے اور بندگان خدا کا مرتبہ نیچے ہونے کو لحاظ رکھتے ہوئے نزول قرآن کو نزول مقامی سے تعبیر کی ہے۔[10] محمد تقی مصباح یزدی نے بھی نزول قرآن کو نزول مادی اور نزول اعتباری کی تعبیر استعمال کرنے کے بجائے نزول حقیقی سے تعبیر کی ہے۔[11] اس رائے کے مطابق غیر حسی حقیقی چیزوں جیسے قرآن کے لیے نزول حقیقی کی تعبیر کا استعمال بجا ہے کیونکہ قرآن در حقیقت مرحلہ علم الہی سے الفاظ کی شکل میں بشری سطح فکری تک آیا ہے۔[12] قرآنی آیات میں لفظ نزول کے دیگر مشتقات جیسے «انزلنا» و «نزلنا» اور بعض آیات میں دوسرے الفاظ جیسے «اوحینا»، «سنلقی»، «سنقرؤک»، «نتلوها»، «رتلناه» وغیرہ استعمال ہوئے ہیں۔[13]
نزول قرآن کی کیفیت
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئےکہ نزول قرآن در حقیقت عالم ملکوت اور عالم ملک کے مابین ایک قسم کا رابطہ ہے یا یوں کہا جائے کہ نزول قرآن یعنی عالم قدسی اور عالم مجردات سے عالم مادہ کا رابطہ ہے؛ اسلامی مفکرین نے نزول قرآن کی کیفیت اور پیغمبر خداؐ کا عالم غیب سے رابطہ کی دو حالتیں بیان کی ہیں؛ 1) پیغمبر خدا کی روح عالم ظاہر سے عالم باطن کی طرف صعود کرتی ہے؛ 2)فرشتے کا باطنی دنیا سے ظاہری دنیا میں انسانی شکل میں نزول[14] 11ویں صدی ہجری کے شیعہ فلسفی ملا صدرا نے اپنی کتاب "مفاتیح الغیب" میں قرآن کے نزول کی کیفیت سے متعلق اپنی رائے کا یوں اظہار کیا ہے کہ جب رسول اللہؐ کی روح عالم وحی الہی کی طرف صعود کرتی ہے تو کلام الہی کو یا مقام "قاب قوسین او ادنی" سے دریافت کرتے ہیں یا قلم کی آواز اور فرشتوں کے الفاظ کو سنتے ہیں۔ پیغمبر اسلام کے عالم وحی کے ساتھ رابطے کی دوسری قسم کے بارے میں ملا صدرا کا عقیدہ ہے کہ وحی کے دوران، وحی لے آنے والا فرشتہ اپنی اصلی صورت میں نہیں بلکہ ایک معمول کے انسان کی شکل میں پیغمبر پر نازل ہوتا ہے تاکہ پیغمبر کے لیے اسے مشاہدہ کرتے وقت ناقابل تحمل صورت حال پیش نہ آئے۔[15]
نزول قرآن کی ابتدا اور دورانیہ
کیا نزول قرآن کی ابتدا بعثت پیغمبرؐ کے ساتھ ہوئی یا اس کے بعثت کے کچھ عرصہ بعد نزول قرآن شروع ہوا؟ اس سلسلے میں چند مختلف رائے پائی جاتی ہیں: علوم قرآن کے محقق محمد ہادی معرفت اصول کافی میں امام صادق ؑ سے منقول روایت اور چند دیگر روایتوں سے استناد کرتے ہوئے اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ بعثت کے تین سال کے بعد نزول قرآن کا سلسلہ شروع ہوا اور پیغمبر ؐ کی حیات کے آخری لمحات تک یہ سلسلہ جاری رہا۔[16] ان کی رائے کے مطابق بعثت کے تین سال پیغمبر اسلامؐ نے مخفیانہ دعوت اسلام کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس وقت تک قرآن کے نزول کا آغاز نہیں ہوا تھا؛ جب سورہ حجر کی آیت 94 «فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ؛ پس آپ اس بات کا واضح اعلان کردیں جس کا حکم دیا گیا ہے» نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے علی الاعلان دعوت اسلام شروع کیا اور ساتھ ہی قرآن بھی نازل ہونا شروع ہوا۔[17]
اس سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ بعثت اور ماہ رمضان میں نزول قرآن ایک ساتھ شروع ہوئے۔ اس رائے کے ماننے والے چند روایتوں اور مورخین کی بات سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ماہ رمضان کی سترہویں تاریخ یا شب قدر کو جبرئیل پیغمبر خداؐ پر نازل ہوئے اس وقت آپؐ کی عمر چالیس سال تھی۔[18] بعض دیگر علما کی رائے کے مطابق آغاز بعثت نزول وحی کے ساتھ نہیں ہوا اور ماہ رجب میں چند آیتوں کا نازل ہونا نزول قرآن نہیں کہلاتا۔ اس نظریے کے مطابق پیغمبر خداؐ کی دو مرتبہ بعثت ہوئی؛ پہلی بعثت وحی الہی کے بغیر ماہ رجب میں ہوئی اور دوسری بعثت علی الاعلان دعوت اسلام کے ذریعے ہوئی اور ساتھ ہی ماہ رمضان کی شب قدر میں نزول قرآن کی ابتدا بھی ہوئی۔[19]
دفعی نزول یا تدریجی نزول
نزول دفعی یا تدریجی کی بحث علوم قرآنی میں ایک اہم اور مورد اختلاف موضوع ہے۔[20] کیا قرآن دفعتا نازل ہوا یا بہ تدریج؟ اس سلسلے میں چند نظریات پائے جاتے ہیں: علوم قرآن کے محقق محمد ہادی معرفت اپنی کتاب "التمهید فی علوم القرآن" میں رقمطراز ہیں کہ قرآن کا نزول ماہ رمضان کی شب قدر میں شروع ہوا اور پیغمبر اسلامؐ کی نبوت کے پورے دوران میں مختلف مناسبتوں اور مسلمانوں کے مختلف سوالات کے جوابات اور دیگر مسائل کے حل کے لیے اسی طرح پیغمبر اکرمؐ کی تسلی اور دلی سکون کے لیے متواتر نازل ہوتا رہا۔[21] ان کے مطابق اس نظریے کو محققین کی اکثریت نے قبول کیا ہے۔[22] ان کے نظریات اور ان پر بیان شدہ استدلال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نزول دفعی کے قائل نہیں ہیں۔ [23] دیگر مسلمان دانشور اور مفسرین جیسے علامہ طباطبائی،[24] ابن عربی[25] اور عبداللہ جوادی آملی[26] کا نظریہ ہے کہ قرآن دو مرحلوں میں نازل ہوا ہے، پہلے مرحلے میں دفعتا اور دوسرے مرحلے میں بہ تدریج نازل ہوا ہے۔ اس نظریے کے مطابق قرآن مجید حضرت محمد ؐ کی نبوت کے دورانیے میں جبرئیل امین کے ذریعے الفاظ کی شکل میں نازل ہوتا رہا؛ لیکن اس سے پہلے حقیقت قرآن، باطن قرآن اور تاویل قرآن یعنی ام الکتاب بغیر کسی واسطے کے قلب رسول اکرمؐ پر نازل ہوا۔[27] جوادی آملی کے نظریے کے مطابق حضرت محمد مصطفیٰ کی جانب سے باطن اور تاویل قرآن کی دریافت، عالم غیب کی جانب روحانی اور معنوی سفر کے بغیر ممکن نہیں لہذا قرآن کا دفعی نزول اس کے تدریجی نزول کے پہلو پر فوقیت رکھتا ہے۔[28]
شیعہ قدیم فقہاء میں سے شیخ صدوق کا نظریہ ہے کہ پہلے پورا قرآن شب قدر کو بیت المعمور پر نازل ہوا اور وہاں سے پیغمبر اکرم (ص) کی نبوت کے دوران آہستہ آہستہ بتقاضائے زمان و مکان نازل ہوتا رہا۔[29] جلال الدین سیوطی کی نقل کے مطابق یہی نظریہ اہل سنت کے ہاں بھی درست نظریے کے طور پر پایا جاتا ہے۔ ان کے نظریے کے مطابق قرآن شب قدر کو چوتھے آسمان کے بیت المعمور پر نازل یا پہلے آسمان کے بیت العزہ پر نازل ہو اور وہاں سے پیغمبر اکرم ؐ کی دوران نبوت بتدریج نازل ہوتا رہا۔[30] علوم قرآن کے بعض محققین اس نظریے کے دلائل کو اس سلسلے کی روایتوں سمیت غیر مستند قرار دیتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ شب قدر کو بیت المعمور پر قرآن کا دفعی نزول بعض صحابہ کی طرف سے خودساختہ نظریہ ہے جس پر کوئی پختہ دلیل نہیں لہذا قرآن کا ایسا نزول نہیں ہوا ہے[31]
سورتوں کی ترتیب نزول
محمد ہادی معرفت کے مطابق قرآنی سورتوں کی ترتیب کے سلسلے میں بعض روایات موجود ہیں جنہیں علوم قرآن کے ماہرین درست مان لیتے ہیں۔[32] ان روایات کا ایک بڑا حصہ عبد الله بن عباس سے منقول ہے۔[33] انہوں نے چند مآخذ کی فہرست جمع کی ہے جس میں ابن عباس کی احادیث مذکور ہیں، منجملہ فہرست ابن ندیم اور مجمع البیان ہیں۔[34] انہوں نے اس بات کو بھی نقل کیا ہے کہ کسی سورے کی ترتیب نزول کو پہچاننے کا معیار اس سورے کا ابتدائی حصہ ہے کیونکہ بعض سورے ایسے ہیں جو چند مرتبہ نازل ہوئے ہیں اور اس سورے کے نزول کے دوران کچھ دیگر آیات یا سورے بھی نازل ہوئے ہیں۔[35] جیسے سوره علق، سورہ مدثر اور سورہ مزمل۔ [36] اگرچہ علما کی اکثریت سورتوں کی ترتیب نزول پر متفق القول ہیں لیکن محمد ہادی معرفت نے 30 ایسے سوروں کی فہرست بیان کی ہے جن کے زمان نزول میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[37]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ حکیم، علوم القرآن، ۱۴۱۷ھ، ص۲۵.
- ↑ معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۸شمسی، ص۹؛ میرمحمدی، تاریخ و علوم قرآن، ۱۳۷۵شمسی، ص۵.
- ↑ جوادی آملی، قرآن در قرآن، ۱۳۸۶شمسی، ص۴۴.
- ↑ معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۸شمسی، ص۴.
- ↑ «نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِینُ *عَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِینَ». اسے جبریل امین لے کر نازل ہوئے ہیں یہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں!
- ↑ احمدی، قرآن در قرآن، ۱۳۷۴ش، ص۱۱۵.
- ↑ حکیم، علوم القرآن، ۱۴۱۷ھ، ص۲۵.
- ↑ عابدینی، «معناشناسی نزول در قرآن …»، ص۹۸–۹۹.
- ↑ مصطفوی، التحقیق، ۱۳۶۸شمسی، ج۱۲، ص۸۸.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۳، ص۸.
- ↑ مصباح یزدی، قرآنشناسی، ۱۳۸۵شمسی، ج۱، ص۳۲.
- ↑ مصباح یزدی، قرآنشناسی، ۱۳۸۵شمسی، ج۱، ص۳۲.
- ↑ عابدینی، «معناشناسی نزول در قرآن …»، ص۱۱۲.
- ↑ سیوطی، الاتقان، ۱۴۲۱ھ، ج۱، ص۱۶۵؛ حلبی، السیرة الحلبیة، ۱۴۲۷ھ، ج۱، ص۳۶۵.
- ↑ ملا صدرا، مفاتیح الغیب، ۱۳۶۳شمسی، ج۱، ص۳۳–۳۶.
- ↑ معرفت، التمهید، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۱۱۱.
- ↑ معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۸شمسی، ص۶۳–۶۴.
- ↑ علوی مهر، «آغاز نبوت و چگونگی نزول قرآن»، ص۱۰۱–۱۰۳.
- ↑ علوی مهر، «آغاز نبوت و چگونگی نزول قرآن»، ص۱۰۳–۱۰۴.
- ↑ ناصحیان، «کاوشی نو در چگونگی نزول قرآن»، ص۵۹–۶۰.
- ↑ معرفت، التمهید، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۱۱۴.
- ↑ معرفت، علوم قرآن، ۱۳۸۸ش، ص۶۵.
- ↑ معرفت، التمهید، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۱۱۳–۱۲۴.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۲، ص۱۵–۱۸.
- ↑ ابنعربی، الفتوحات، دار صادر، ج۴، ص۴۰۲.
- ↑ جوادی آملی، قرآن در قرآن، ۱۳۸۶شمسی، ص۷۱.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۲، ص۱۵–۱۸.
- ↑ جوادی آملی، قرآن در قرآن، ۱۳۸۶شمسی، ص۴۸.
- ↑ صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ھ، ص۸۲.
- ↑ سیوطی، الاتقان، ۱۴۲۱ھ، ج۱، ص۱۵۶.
- ↑ معرفت، التمهید، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۱۱۷–۱۲۱؛ صالحی نجف آبادی، «نظریهای درباره کیفیت نزول قرآن» ص۸۲.
- ↑ معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۸شمسی، ص۷۷.
- ↑ معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۸شمسی، ص۷۷.
- ↑ معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۸شمسی، ص۷۷.
- ↑ معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۸شمسی، ص۷۸.
- ↑ معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۸شمسی، ص۷۸.
- ↑ معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۸شمسی، ص۸۰-۸۴.
مآخذ
- ابنعربی، محمد بن علی، الفتوحات المکیة، بیروت، دار صادر، بی تا.
- احمدی، مهدی، قرآن در قرآن، قم، انتشارات شرق، ۱۳۷۴ش.
- الحلبی، علی بن ابراهیم، السیرة الحلبیة، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۲۷ق.
- جوادی آملی، عبدالله، قرآن در قرآن از مجموعه تفسیر موضوعی قرآن کریم، قم، انتشارات اسراء، ۱۳۸۶ش.
- حکیم، محمدباقر، علوم القرآن، قم، مجمع الفکر الاسلامی، ۱۴۱۷ق.
- دهخدا، علی اکبر، لغت نامه دهخدا، تهران، دانشگاه تهران، ۱۳۷۷ش.
- رجبی، محمود، «اهداف قرآن و موانع بهرهبرداری از آن» در مجله معرفت، شماره ۲۴، ۱۳۷۷ش.
- رضایی اصفهانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مهر، قم، نشر پژوهشهای تفسیر و علوم قرآن، ۱۳۸۷ش.
- رهبری، حسن، «آغاز نبوت و چگونگی نزول قرآن»، در مجله پژوهشهای قرآنی، شماره ۴۶–۴۷، ۱۳۸۵ش.
- سیوطی، عبدالرحمن، الاتقان فی علوم القرآن، بیروت، دارالکتب العربی، ۱۴۲۱ق.
- صالحی نجفآبادی، نعمت الله، «نظریهای درباره کیفیت نزول قرآن»، در مجله کیهان اندیشه، شماره ۳۲، ۱۳۶۹ش.
- صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات فی دین الامامیة، بیروت، دار المفید، ۱۴۱۴ق.
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسه الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق.
- عابدینی، ناصر، «معناشناسی نزول در قرآن با تأکید بر واژگان بیانگر نزول قرآن»، در مجله حسنا (فصلنامه تخصصی تفسیر، علوم قرآن و حدیث)، شماره ۲۱، ۱۳۹۳ش.
- علوی مهر، حسین، «نزول قرآن کریم»، در مجله معرفت، شماره ۸۳، ۱۳۸۳ش.
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
- مصباح یزدی، محمدتقی، قرآنشناسی، تحقیق غلامعلی عزیزی کیا، جلد دوم، قم، انتشارات مؤسسه امام خمینی، ۱۳۹۲ش.
- مصباح یزدی، محمدتقی، قرآنشناسی، تحقیق محمود رجبی، جلد اول، قم، انتشارات مؤسسه امام خمینی، ۱۳۸۵ش.
- مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن، تهران، نشر وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۶۸ش.
- معرفت، محمدهادی، التمهید فی علوم القرآن، قم، مؤسسه فرهنگی التمهید، ۱۴۲۸ق.
- معرفت، محمدهادی، علوم قرآنی، قم، مؤسسه فرهنگی تمهید، ۱۳۸۸ش.
- ملاصدرا، محمد بن ابراهیم، مفاتیح الغیب، تهران، وزارت فرهنگ و انجمن اسلام حکمت و مؤسسه مطالعات و تحقیقات فرهنگی، ۱۳۶۳ش.
- میرمحمدی، سید ابوالفضل، تاریخ و علوم قرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۷۵ش.
- ناصحیان، علی اصغر، «کاوشی نو در چگونگی نزول قرآن»، در نشریه علوم و معارف قرآنی، شماره ۶و۷، ۱۳۷۷ش.