حدیث کی درجہ بندی
روایات و احادیث تک رسائی میں سہولت کے لئے ان کی درجہ بندی اور تبویب (ابواب بندی) ہمیشہ علمائے دین کے مد نظر تھی۔ ابتداء میں اصحاب ائمہ جو کچھ سنتے تھے اسے کسی نظم و ترتیب کے بغیر مکتوب کرتے تھے چنانچہ بعد کی صدیوں میں ان منتشر متون تک رسائی مشکل ہوئی اور علماء کی ایک جماعت نے یہ مسئلہ حل کرنے کا عزم کیا اور ہر ایک نے موجودہ ضروریات کی بنیاد پر احادیث کی تالیف و تجمیع میں خاص زمرہ بندی کو اپنے کام کی بنیاد قرار دیا۔
بعض علماء نے احادیث کو معصومین کی بنیاد پر جمع کیا؛ بعض نے راویوں کو بنیاد بنایا، بعض نے انہیں موضوعات کی بنیاد پر تقسیم کیا اور بعض نے احادیث کے پہلے حروف کی بنیاد پر ان کی طبقہ بندی کی۔
ابتدائی صدیاں
دوسری صدی ہجری کے دوران اصحاب کے مختلف حلقوں میں بیک وقت تدوین انجام پائی۔ اس زمانے میں ابتدائی مکتوبات کو "السنن، الجامع" اور بعض مواقع پر "الموطأ اور المصنف" جیسے عناوین سے معنون کیا گیا۔[1]
شیعہ مؤلفین میں تبویب کے حوالے سے اعلی ترین کام محمد بن علی حلبی نے انجام دیا جنہوں نے موضوعات کو الگ الگ درج کرکے اپنی فقہی کتاب دوسری صدی ہجری میں مرتب کی[2] اور ان کی یہ کتاب عرصۂ دراز تک اہل تشیع کے ہاں مرجع سمجھی جاتی تھی۔
فقہی مباحث کی طبقہ بندی یا درجہ بندی میں کردار کرنے والے دیگر افراد میں ابوبکر بن ابی شیبہ (متوفٰی سنہ 235ہجری قمری/850عیسوی) ہیں جنہوں نے کتاب المصنَف تالیف کی۔[3] بعد کی نسل میں جب بخاری نے الجامع الصحیح کی تالیف کا اہتمام کیا، اس کا طبقہ بندی کا نظام درہم برہم تھا اور اس کے ابواب ہمآہنگ اور مربوط نہ تھے۔ آج بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ صحیح بخاری میں ایسے ابواب موجود ہیں جن میں حتی ایک حدیث بھی درج نہیں ہوئی ہے یہ ایک ہی حدیث مختلف اسانید کے ساتھ مختلف ابواب میں دہرائی گئی ہے اور یہ سب اسی مسئلے کا بہترین گواہ ہے۔
دربارۀ نظام طبقه بندی نیز در میان امامیه، ابتدا کتب صفوان بن یحیی[4]، حسین بن سعید اہوازی[5] اور محمد بن خالد برقی [6] نے ابتدائی تبویب (ابواب بندی) کا کام سرانجام دیا اور محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی کی کتاب الکافی، حدیث کے اس سفر میں سنگ میل ثابت ہوئی جس نے ـ محتویات و مندرجات کے اعتبار و وثاقت کے لحاظ سے بھی اور موضوعاتی جامعیت کے لحاظ سے بھی ـ حدیثِ امامیہ بعد کے درجہ بندی کے نظام پر فیصلہ کن اثرات مرتب کئے۔ اس کتاب میں مباحث کا آغاز عقل و علم سے ہوا ہے اور بعدازاں اعتقادی مسائل کی باری آتی ہے جیسے: توحید اور حجت (یعنی نبوت اور امامت)؛ اور اس کے بعد معصومین(ع) کی تاریخ، نیز ایمان اور اخلاق کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے اور اس کی آخری جلد مواعظ اور مختلف النوع دینی تعلیمات کا مجموعہ ہے۔
کتاب اربعہ میں بعد کی تین کتابیں ـ جو فقہی موضوعات تک محدود ہیں؛ در حقیقت ایک فقیہانہ اصلاحی کوشش؛ کے زمرے میں آتی ہیں؛ لیکن جو کچھ قاضی نعمان مغربی یا قاضی نعمان مصری[7] کی کتاب دعائم الاسلام میں ہے وہ کتب اربعہ سے مکمل طور پر مختلف ہے اور اس میں بالکل مختلف انداز سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ دعائم الاسلام کی درجہ بندی (یا طبقہ بندی) بعد میں ابو صلاح حلبی کی کتاب الکافی فی الفقہ جیسی فقہی کتب میں بروئے کار لائی گئی ہے جبکہ حدیث کی کتب میں اس سے استفادہ نہیں ہوا ہے۔
متاخرہ صدیاں
متاخرہ صدیوں میں علامہ محمد باقر مجلسی کی منفرد کاوش بحار الانوار ـ حدیث کے تمام موضوعات پر محیط اور متاخرہ اعصار کے عقلیتی تقاضوں کے عین مطابق تالیف کے عنوان سے ـ قابل اعتنا و توجہ ہے؛ جیسا کہ علامہ مجلسی نے خود کتاب کے دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ "اس کتاب میں موضوعات کی ترتیب بےمثل اور خاص و منفرد ہے"۔ گوکہ علامہ مجلسی نے ثقۃ الاسلامی کلینی کی کتاب الکافی سمیت متقدمین کی بعض کتب کو مشعل راہ بنا کر کتاب کو مرتب کیا ہے لیکن بحار الانوار میں ـ "کتاب السماء والعالم" سمیت ـ بعض ابواب کو اپنی تالیف میں جگہ دی ہے جو متقدم محدثین کے ہاں مورد اعتنا نہ تھے۔ نیز اگر کلینی نے معصومین(ع) کے حالات زندگی کو نبوت اور امامت جیسے اعتقادی موضوعات سے الگ درج کیا ہے تو علامہ مجلسی نے انہیں جدا نہیں کیا ہے اور نبوت کے موضوع پر بحث کرتے وقت اس کے دو "تاریخی اور نظری و اعتقادی" پہلؤوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے؛ اگرچہ انھوں نے اعتقادی مباحث ـ جیسے: معاد اور عدل ـ کے لئے مستقل حصے بھی مختص کردیئے ہیں۔
موضوعاتی ترتیب کے علاوہ احادیث میں متذکرہ اعداد کے لحاظ سے بھی ایک طبقہ بندی ہوتی ہے لیکن یہ صرف "احادیث عددیہ" کے سلسلے میں ممکن ہے۔ اس قسم کی طبقہ بندی کے نمونے برقی کی تالیف المحاسن میں (صفحہ تین کے بعد) مندرجہ کتاب الاشکال والقرائن، نیز الخصال تالیفِ ابن بابویہ قمی اور آیت اللہ شیخ علی مشکینی کی کتاب المواعظ العددیہ میں پائے جاتے ہیں۔
سند کی بنیاد پر درجہ بندی
تیسری صدی ہجری میں اگر ایک طرف سے تبویب حدیث ترقی کررہی تھی تو اس روش کے مخالفین بھی تھے؛ اہل سنت میں ایک اصحاب حدیث کی ایک جماعت ـ جن میں احمد بن حنبل سر فہرست تھے ـ ہر قسم کی موضوعاتی تدوین کے خلاف تھی؛ چنانچہ انھوں نے ایک مدوّن جامع کے بجائے "مسند" کی تالیف کا اہتمام کیا۔ امامیہ کے ہاں بھی معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی ہجری کے نصف دوئم میں ـ خاص طور پر قم میں اس سلسلے میں دو متقابل روشیں پائی جاتی تھیں۔ ایک روش کے حامی تبویب کی طرف مائل تھے؛ جن میں داؤد بن کورہ (متوفٰی 300ہجری قمری/913عیسوی) ـ جنہوں نے بعض سابقہ غیر مبوب کتب منجملہ "حسن بن محبوب کی کتاب المشیخہ اور احمد بن محمد بن عیسی کی کتاب النوادر" کی تبویب کا کام سرانجام دیا ـ[8]۔[9] اور ان کے مد مقابل بعض دیگر علماء تھے جن میں احمد بن محمد بن عیسی اور عبداللہ بن جعفر حمیری سر فہرست تھے۔ احمد بن محمد بن عیسی نے خود النوادر کو موضوعاتی ترتیب کے بغیر لکھا۔[10] .
مسانید ـ جن کی تالیف سنہ 3 ہجری سے شروع ہوا تھا ـ وہ مکتوبات ہیں جن کو موضوعاتی ترتیب کے مطابق نہیں بلکہ ان صحابیوں کی ترتیب سے مرتب ہوئی جنہوں نے احادیث کو براہ راست رسول اکرم(ص) سے نقل کیا تھا۔ طیالسی، احمد بن حنبل، رویانی و ابویعلی موصلی کی مسانید سمیت بعض متقدم مسانید میں ہر صحابی کو ان کتب کا ایک حصہ مختص کیا گیا ہے لیکن ہر حصے کے اندر کوئی خاص ترتیب دیکھنے میں نہیں آتی۔ لیکن مسانید کے ایک زمرے میں ـ جو تالیف کے لحاظ سے متاخر تر ہیں ـ ہر صحابی کے متعلقہ حصے میں دوسرے راوی ـ جس نے صحابی سے حدیث نقل کی ہے ـ اور حتی تیسرے راوی کو مد نظر رکھ کر ایک خاص قسم کی ترتیب دکھائی دیتی ہے۔ اس قسم کی ترتیب کو اسحاق بن راہویہ، ابوبکر بزار اور ہیثم بن کلیب چاچی کی مسانید جیسی تالیفات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن مسانید کا تعلق ایک فرد سے ہوتا تھا ان میں دوسرے راوی کی ترتیب زیادہ متوقع ہوتی تھی اور عملی طور پر اس قسم کی ترتیب از یعقوب بن شیبہ کی مسند عمر، یحیی بن صاعد کی مسند ابن ابی اوفی اور دورقی کی مسند سعد بن ابی وقاص دکھائی دیتی ہے۔
چودہ معصومین کی ترتیب سے احادیث کی ترتیب کی روش بھی مذکورہ بالا روش سے قریب تر ہے اور اس قسم کی ترتیب کے بعض نمونے ابن شعبۂ حرانی [11] کی کتاب تحف العقول، ابو منصور طبرسی [12] کی کتاب الاحتجاج اور حسین بن محمد حلوانی کی کتاب نزہۃ الناظر وتنبیہ الخاطر سمیت بعض شیعہ کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ "معجم الشیوخ" نامی کتب، بعض مقامی تواریخ اور کتب رجال دوسری اور ایسی احادیث سے پر مشتمل ہیں جن میں احادیث کو سند میں موجود راویوں میں سے ایک کی ترتیب کی بنیاد پر تلاش کیا جاسکتا ہے۔ امامیہ متقدمین میں احمد بن حسین بن عبدالملک (متوفٰی 260ہجری قمری/874عیسوی) نے حسن بن محبوب کی کتاب المشیخہ کو شیوخ کے ناموں کی بنیاد پر مرتب کیا تھا۔[13]۔[14]
مطلع کی ترتیب حروف تہجی کی بنیاد پر
کئی صدیوں کے دوران، ایک روش اور بھی، بعض کتب تلاش کرنے کا وسیلہ بنی ہوئی ہے؛ اس روش میں حدیث کے متن کا مطلع، درجہ بندی کی بنیاد تھا جس میں حروف تہجی سے احادیث پیش کرنے کا ہدف حدیثوں کا مطلع ہوتا تھا؛ اس روش کا قدیم ترین نمونہ شیعہ متونِ حدیث ہیں جن کی تالیف کی بنیاد ہی اسی روش پر استوار تھی؛ اس سلسلے میں جعفر بن احمد رازی کی کتاب جامع الاحادیث (چوتھی صدی ہجری/دسویں صدی عیسوی)[15] ـ جو کہ رسول اللہ(ص) کے کلمات قصار پر مشتمل ہے ـ اور ابو الفتح آمدی (متوفٰی 550ہجری قمری/ 1155عیسوی) کی کتاب غرر الحکم (مطبوعہ بیروت، 1413ہجری قمری) ـ جو امیرالمؤمنین(ع) کے کلمات قصار کا مجموعہ ہے ـ کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ دسویں صدی ہجری کے بعد اس روش کو اہل سنت کے مجامیع حدیث میں مندرجہ احادیث کی بازیابی کے لئے بروئے کار لایا گیا ہے؛ جس کا ایک نمونہ جلال الدین سیوطی کی کتاب الجامع الصغیر ہے۔
احادیث کی معجم نویسی ـ یا حروف تہجی کی بنیاد پر کلیدی الفاظ کی فہرست ـ کا کام آرنیٹ یان وینسنک (Arent Jan Wensinck) کی کتاب المعجم المفهرس لألفاظ الحديث النبوي (Concordance et Indices de la tradition Musulmane) سے شروع ہوا۔ یہ کتاب 1936 اور پھر 1969 عیسوی میں لیڈن کے "بریل" کتب خانے میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے لیکن اس کے بعد شیعہ اور اہل سنت نے متون حدیث کے لئے مختلف معاجم فراہم کرنے کا اہتمام کیا ہے۔
ایک موضوعاتی فہرست کے طور پر بھی وینسنک کی ایک کاوش کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جس کا ترجمہ عبد الباقی نے مفتاح کنوز السنہ کے عنوان سے شائع کیا ہے[16] اور بعدازاں مشابہ کاوشیں فریقین کے متون حدیث کے سلسلے میں بارہا معرض وجود میں آئی ہیں۔
مجامیع حدیث سند ذکر کئے بغیر
تیسری سے پانچویں صدی ہجری کے دوران، عظیم ترین مجامیع حدیث کی تدوین انجام پا چکی اور بعد کی صدیوں کے اہم ترین محدثین نے اپنی توجہ ـ غیر مکتوب احادیث کی تجمیع و کتابت پر نہیں بلکہ ـ مکتوبہ احادیث کی شرح نگاری اور احادیث سے سے استفادہ کرنے میں سہولت کی غرض سے جامع اور راہنما کتب کی تالیف پر مرکوز کی۔
کہا جاسکتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری کے آخر میں یہ احساس پایا جاتا تھا کہ حدیث کو ضبط و ثبت کرنے کے لئے اہم ترین قدم اٹھا لئے گئے ہیں اور شیعہ کے ہاں کتب اربعہ اور اہل سنت کے ہاں صحاح ستہ اور بعض دیگر کتب حدیث کے ہوتے ہوئے حدیث سے ناجائز فائدہ اٹھانے یا انہیں نیست و نابود کرنے کے خطرات ٹل چگے ہیں؛ چنانچہ بعد کی صدیوں میں احادیث کی درجہ بندی یا وعظ کی بنیاد پر کتب لکھی گئیں جن میں سند نقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ یہ وہ نیا رجحان تھا جس کو اصطلاح میں "تجرید" کہا جاتا تھا۔
ان کتب کی تالیف ـ جن کی نوعیت اخلاقی تھی اور کلمات قصار (اور مختصر جملوں) پر مشتمل تھیں اور موضوع کے لحاظ سے مرتب کی گئی تھیں ـ اس رجحان کا سبب ہوئی کہ اخلاق کی طرف گامزن ہونے والے فقہاء کی توجہ مجرد احادیث کی طرف مرکوز ہو؛ مثال کے طور پر اس قسم کی کتب میں ابوالحسن ماوردی کی کتاب ادب الدنیا والدین ( متوفٰی 450 ہجری قمری/ 1058عیسوی) کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جو بہت سی مجرد احادیث پر مشتمل تھی اور یہ احادیث سند کے بغیر نقل ہوئی تھیں۔[17] اور یہ وہ روش ہے جو کچھ عرصہ بعد ابو حامد غزالی کی کتاب احیاء علوم الدین" میں وسیع سطح پر بروئے کار لائی گئی۔[18]
امامیہ کے ہاں ابو الفتح کراجکی (متوفٰی 449ہجری قمری/ 1057عیسوی) کی کتاب معدن الجواہر [19]، فتال نیشابوری (متوفٰی 508ہجری قمری/ 1114عیسوی) کی کتاب روضۃ الواعظین [20]، حسین بن محمد حلوانی کی کتاب نزہۃ الناظر [21]، آمدی کی کتاب غرر الحکم [22]، احمد بن علی طبرسی کی کتاب الاحتجاج [23] اور حسن بن محمد طبرسی کی کتاب مکارم الاخلاق [24] کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔
ابن شعبہ حرانی کی کتاب تحف العقول [25] کا بھی یہی حال ہے، اس کی تاریخ کا تعین دشوار ہے۔ چھٹی صدی ہجری میں وعظ نگاری کی طرف مائل بعض مؤلفین ـ منجملہ "ابن جوزی" (متوفٰی 597ہجری قمری/1201عیسوی) ـ بھی تھے جو تالیف میں دوہرے رجحانات رکھتے تھے؛ اور ان کی بعض تالیفات متقدمین کے اسلوب پر، مسند نویسی کی روش پر لکھی گئی ہیں۔ ان کی ایک تالیف بستان الواعظین ہے جو سند سے مجرد ہے جو محدثین کے لئے نہیں بلکہ شہر کے واعظین کے لئے لکھی گئی تھی۔[26]
درمیانی صدیوں میں رونما ہونے والے ایک مسئلے کا تعلق فقہاء کے نزدیک رائج مختصر جملے تھے جو حدیث سمجھے گئے ہیں؛ مختلف مذاہب کی فقہی کتب کے ضمن میں کبھی فقہاء کے انتباہات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے کسی حدیث کے بےبنیاد ہونے اور کسی جملے کے حدیث سمجھے جانے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔[27]۔[28]۔[29] امامیہ کے نزدیک بھی محمد فاضل مشہدی (متوفٰی 1081 ہجری قمری) نے ان جملوں کی ایک فہرست تیار کی تھی جو امامیہ فقہاء کے ہاں رائج تھے اور لوگ انہیں حدیث سمجھتے تھے۔ انھوں نے واضح کیا کہ ان جملوں کو شیعہ مآخذ میں نہیں پاسکے ہیں اگرچہ ان میں سے بعض جملے اہل سنت کے مآخذ میں دستیاب ہیں۔[30]
ساتویں صدی ہجری کے آغاز میں منگولوں نے عالم اسلام کے مشرقی علاقوں پر حملہ کیا اور حلقہ ہائے حدیث کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اسناد پہلے سے کہیں زیادہ ترک ہوئیں اور مجرد حدیثوں کی طرف رجحان میں زبردست اضافہ ہوا۔ ساتویں صدی نیز آٹھویں صدی ہجری میں اہل سنت کے ہاں عبدالعظیم منذری (متوفٰی 656ہجری قمری/1258عیسوی) کی کتاب الترغیب والترہیب [31] محیی الدین نووی (متوفٰی 676ہجری قمری/ 1277عیسوی) کی کتاب الاربعین جیسی کتابیں لکھی گئیں اور اہل تَشَیُع کے ہاں رضی الدین ابن طاؤس (متوفٰی 664ہجری قمری/1266عیسوی) جیسے علماء نے یہی راستہ طے کیا۔ رضی الدین نے متعدد کتابیں تالیف کیں۔
مجرد احادیث کے علاوہ ـ جو اپنی سماجی افادیت کی بنا پر واعظین کی کاوشوں میں نقل ہوتی تھیں ـ بعض صوفی کتب نیز شیعہ غالیوں کے مآخذ میں بھی بلا سند حدیثیں پائی جاتی تھیں۔ مجرد حدیثیں مسلمانوں کے حلقوں کا معمول بن چکی تھیں چنانچہ ان صدیوں میں منقولہ مجرد حدیثوں کے لئے، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، معتبر مؤلفین کی کتب تک رسائی کا امکان فراہم نہ ہوسکا۔ اسی بنا درمیانی صدیوں کے دوران لکھی جانی والی متعدد شیعہ اور سنی کتب میں منقولہ بہت سی مجرد حدیثیں ایسی ہیں جنہیں قدیمی مآخذ میں تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔
زین الدین عراقی (متوفٰی 806 ہجری) نے ابو حامد غزالی کی کتاب احیاء علوم الدین میں مندرجہ احادیث کی سند یابی کی کوشش کی[32] اور ابن حجر عسقلانی نے زمخشری کی کتاب (تفسیر) کشاف میں منقولہ حدیثوں کو مستند بنانے کی کوشش کی تاہم ان دونوں کی کاوشوں میں بہت سے ابواب میں یہ جملہ دیکھا جاسکتا ہے کہ "یہ حدیث کہیں پائی نہیں جاسکی"۔[33]۔[34]
"بے بنیاد مگر مشہور حدیثوں" ، کے اس سلسلے نے، خواہ وضع اور جعل کا نتیجہ ہو خواہ غیر حدیث کو حدیث سمجھنے کی غلطی کا نتیجہ ہو، حدیث کے محققین کے لئے فکرمندی اور تشویش کے اسباب فراہم کئے۔ جس کے نتیجے میں حدیث سمجھے جانے والے جملوں کو حدیث سے الگ کرنے کے مقصد سے الاحادیث الدخیلہ اور اس پر لکھنے والے مستدرکات جیسی کتب معرض وجود میں آئیں۔[35]۔[36]
متعلقہ مآخذ
حوالہ جات
- ↑ ابن ندیم، الفہرست صص281-284۔
- ↑ نجاشی، رجال، ص325۔
- ↑ یغموری، نور القبس المختصر من المقتبس، ص315۔
- ↑ صفوان تیس کتابوں کے مؤلف ہیں اور 1100 حدیثوں کی سند میں ان کا نام آیا ہے۔ وہ ابن أبی عمیر، ابن بكیر، حمّاد بن عثمان، عبداللہ بن سنان اور کئی دیگر افراد سے حدیث سن چکے ہیں اور احمد بن محمد بن أبی نصر البزنطی، محمد بن خالد البرقی، الفضل بن شاذان نیشابوری و غیرہ جیسے کئی افراد نے ان سے روایت کی ہے۔
- ↑ حسین بن سعید اہوازی، تیسری صدی ہجری کے نصف اول کے شیعہ فقیہ اور محقق ہیں جنہوں نے اپنے بھائی حسن کے ساتھ مل کر فقہ اور حدیث کے سلسلے میں گراں قدر کتب تالیف کی ہیں۔ کتاب الاحتجاج، کتاب الانبیاء اور کتاب المثالِب ان کی تالیفات میں سے ہیں۔ رجوع کریں:نجاشی، رجال، ج1، ص77-78 اور طوسی، فهرست، ج1، ص55-56۔
- ↑ ابو عبد اللہ محمد بن خالد بن عبدالرحمن البرقی دوسری صدی نیز تیسری صدی ہجری کے نصف اول کے شیعہ راوی اور محدث ہیں۔ ابن ندیم (ابن ندیم، الفهرست، ص277) نے لکھا ہے کہ وہ کئی کتب کے مؤلف ہیں۔ جن کا تعلق حدیث اور رجال سے ہے۔ ان کی ایک کتاب کا نام "البلدان" ہے (طهرانی، آقابزرگ، محمد محسن، الذریعة ج3، ص145) ان کے بیٹے اجو جعفر، أحمد بن محمد بن خالد البرقي مشہور کتاب المحاسن کے مؤلف ہیں۔
- ↑ ابوحنیفہ، نُعمان بن محمد بن منصور بن احمد بن حَیون تمیمی مغربی، اسماعیلہ فرقے کے بڑے عالم ہیں جو سنہ 259 ہجری کو مراکش کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے؛ سنی اور مالکی مذہب کے پیروکار تھے اور بعد میں شیعہ ہوئے اور اسماعیلی روش اختیار کرگئے۔ گوکہ بعض شیعہ علماء منجملہ علامہ مجلسی (بحارالانوار، ج1، ص38) اور محدث نوری (خاتمۃ المستدرک، ج1، ص128) کا خیال ہے کہ وہ شیعہ تھے اور مصر کے اسماعیلی خلفاء کے سامنے تقیہ کرتے تھے۔
- ↑ نجاشی، الرجال، صص82، 158۔
- ↑ طوسی، الفهرست، 49، 94۔
- ↑ وہی مآخذ۔
- ↑ ابو محمد حسن حرانی یا حلبی، المعروف بہ "ابن شعبۂ حرانی"۔
- ↑ أبو منصور احمد بن علي بن أبى طالب الطبرسي۔
- ↑ نجاشی، الرجال، ص80۔
- ↑ طوسی، وہی ماخذ، ص47۔
- ↑ طبع تهران، 1369ہجری قمری۔
- ↑ ط قاهره، 1353ہجری قمری۔
- ↑ ماوردی، ادب الدین والدنیا، ص7، 16۔
- ↑ غزالی، احیاء علوم الدین، پوری کتاب۔
- ↑ ط قم، 1394ہجری قمری۔
- ↑ ط نجف، 1386ہجری قمری۔
- ↑ ط قم، 1408ہجری قمری۔
- ↑ ط دهینی، بیروت، 1413 ہجری قمری۔
- ↑ ط نجف، 1386 ہجری قمری۔
- ↑ ط بیروت، 1392 ہجری قمری۔
- ↑ ط تهران، 1376ہجری قمری۔
- ↑ ط جیزه، 1988عیسوی۔
- ↑ مثلاً دیکھیں: ابن همام، فتح القدیر، ج4 ص302۔
- ↑ ابن نجیم، البحر الرائق، 5/176۔
- ↑ نووی، المجموع، ج1 ص412، ج2 ص100، جمـ۔
- ↑ طبع پاورقی حاشیہ بحار الانوار مجلسی، ج107/ صص107-108۔
- ↑ ط بیروت، 1417عیسوی۔
- ↑ عراقی، تخريج أحاديث إحياء علوم الدين، ج1 صص30 و 31۔
- ↑ ابن حجر، الکاف الشاف، ج1 ص18۔
- ↑ السخاوی، المقاصد الحسنة، 45، 46۔
- ↑ شوشتری، محمد تقی، الاحادیث الدخیله، مآخذ۔
- ↑ نیز اہل سنت کے ہاں ابوالفرج الجوزی (805-897ہجری قمری) کی کتاب الموضوعات، جلال الدین سیوطی (849-911ہجرک قمری) کی کتاب اللئالی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوع، حسن بن محمد المعروف بہ صاغانی (577-650ہجری قمری) کی کتاب الدر المتلفظ فی تبیین الغلط بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ گوکہ صاغانی کی کتاب دوسری کتب سے پرانی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موضوعہ اور بلاسند حدیثیں اس سے قبل بھی سنی محققین کو ستا رہی تھیں۔
مآخذ
- نجاشی، احمد، الرجال، به کوشش موسی شبیری زنجانی، قم، 1407ہجری قمری۔
- یغموری، یوسف، نور القبس المختصر من المقتبس، به کوشش رودلف زلهایم، ویسبادن، 1384ہجری قمری/1964عیسوی۔
- جعفر بن احمد ابن رازی، جامع الاحادیث، تهران، 1369ہجری شمسی۔
- طوسی، الفهرست، به کوشش محمد صادق آل بحرالعلوم، نجف، 1380ہجری قمری/1960عیسوی۔
- ابوالفتح آمدی، دررالحکم، بیروت، 1413 ہجری قمری۔
- عبدالباقی، مفتاح کنوز السنة، قاهره، 1953عیسوی۔
- ابنهمام، محمد، فتح القدیر، قاهره، 1319 ہجری قمری۔
- ابن نجیم، زین الدین، البحر الرائق، به کوشش زکریا عمیرات، بیروت، 1418 ہجری قمری۔
- نووی، المجموع، به کوشش محمود مطرحی، بیروت، 1417ہجری قمری/1996عیسوی۔
- ابنحجر عسقلانی، «الکاف الشاف »، در حاشیۀ الکشاف زمخشری، قاهره، 1366ہجری قمری/ 1947عیسوی۔
- سخاوی، المقاصد الحسنة، به کوشش عبدالله محمد صدیق، بیروت، 1399ہجری قمری/ 1979عیسوی۔