صحیفہ سجادیہ کی ترپنویں دعا

ویکی شیعہ سے
صحیفہ سجادیہ کی ترپنویں دعا
کوائف
موضوع:خدا کی بارگاہ میں ذلت و خاکساری کا اظہار، قیامت میں گناہوں کے آثار، قیامت کے دن طلب رحمت، مغفرت اور آرام و سکون
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام سجاد علیہ السلام
راوی:متوکل بن ہارون
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


صحیفہ سجادیہ کی ترپنویں دعا ان دعاؤں میں سے ہے جسے امام سجاد علیہ السلام خدا کے نزدیک تذلّل و انکساری کے وقت پڑھتے تھے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اس دعا میں دنیا اور آخرت میں گناہوں کے انجام اور اس کے نتائج کی طرف اشارہ کیا ہے اور مرنے سے پہلے خواب غفلت سے بیداری پر تاکید کی ہے۔ اس دعا میں خدا سے اپنے گناہوں کی بخشش اور قیامت میں آرام و سکون کی درخواست ہے۔

صحیفہ سجادیہ کی ترپنویں دعا کی مختلف شرحیں ہیں: صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں سے فارسی میں جیسے شہود و شناخت تالیف حسن ممدوحی کرمانشاہی اور عربی زبان میں کتاب ریاض السالکین تالیف سید علی‌ خان مدنی۔

دعا و مناجات


تعلیمات

صحیفہ سجادیہ کی ترپنویں دعا ان دعاؤں میں سے ہے جسے امام زین‌ العابدین علیہ السلام بارگاہ خداوندی میں انکساری و تذلل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ اس دعا کی شرح کے سلسلے میں سید محمد حسین فضل‌ اللہ نے کہا ہے کہ یہ دعا خدا کی بارگاہ میں زبان یا بدن کے دوسرے اعضاء کے ذریعہ تذلل و انکساری کے اظہار، انسانی روح کے عروج اور تقرب الی اللہ کا بہترین ذریعہ ہے۔[1] اسی طرح حسن ممدوحی کرمانشاہی نے کہا ہے کہ بندہ کی شأن اس خدا کے مقابلے میں اظہار تذلل و خاکساری ہے جو صاحب عزت، صاحب عظمت اور بے ‌نیاز مطلق ہے۔ لہذا معرفت کے سب سے بلند و بالا درجے پر فائز امام معصوم علیہ السلام دوسرے بندوں کے مقابلے میں خدا کی بارگاہ میں زیادہ تذلل و انکساری کا اظہار کرتے تھے۔[2]

اس دعا کے پیغامات مندرجہ ذیل ہیں:

  • قیامت میں گناہوں کے آثار: گفتگو سے عاجزی اور ناتوانی، حیرت و افسوس، شرمندگی اور ناکامی۔
  • انسان اپنے اعمال پر منحصر اور اپنے نفس کا اسیر ہوتا ہے۔
  • ذلت و رسوائی گناہوں کے آثار میں سے ہے۔
  • گناہ کرنے کے نتیجے میں عذاب خدا کے وعدوں کو ہلکا شمار کرنا۔
  • ارتکاب گناہ کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں جرأت و جسارت کا اظہار۔
  • خدا کی بارگاہ میں اپنی غلطیوں کا اعتراف۔
  • موت سے پہلے خواب غفلت سے بیداری ضروری ہے۔
  • انسان جسم مادی سے ما وراء ایک حقیقت ہے۔
  • کائنات کی حقیقت کی طرف تمام مخلوقات کی ایک ساتھ حرکت۔
  • موت کے بعد رحمت خدا پانے کے لئے دعا کرنا۔
  • خدا سے اس وقت کے لئے رحم کی بھیک مانگنا جب انسان کے بدن بوسیدہ ہو جائیں گے۔
  • رحمت الہی کے جوار میں امن و امان کی درخواست کرنا۔
  • قیامت کے دن اولیائے خدا کے ساتھ محشور ہونے کی دعا کرنا۔
  • صبر و حوصلہ کے ساتھ خدا سے گناہوں کی معافی مانگنا۔[3]

شرحیں

صحیفہ سجادیہ کی ترپنویں دعا کی مختلف شرحیں موجود ہیں۔ اس کی شرحوں میں سے کتاب دیار عاشقان تالیف حسین انصاریان،[4] شہود و شناخت، تالیف محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی[5] اور شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ اثر سید احمد فہری[6] یہ تمام شرحیں فارسی زبان میں ہیں۔

صحیفہ سجادیہ کی ترپنویں دعا کی بعض شرحیں عربی زبان میں بھی ہیں جیسے کتاب ریاض السالکین تالیف سید علی‌ خان مدنی،[7] فی ظلال الصحیفۃ السجادیہ تالیف محمد جواد مغنیہ،[8] ریاض العارفین تألیف محمد بن محمد دارابی[9] اور آفاق الروح تالیف سید محمد حسین فضل‌ اللہ۔[10] اس دعا کے الفاظ کی لغوی شرحیں بھی موجود ہیں مثلا تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ تالیف فیض کاشانی[11] اور شرح الصحیفہ السجادیہ، تالیف عزالدین جزائری۔[12]

دعا کا متن اور ترجمہ

متن ترجمہ: (مفتی جعفر حسین)
وَ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ فی العجز :

(۱) رب افحمتني ذنوبي، و انقطعت مقالتي، فلا حجة لي، فأنا الاسير ببليتي، المرتهن بعملي، المتردد في خطيئتي، المتحير عن قصدي، المنقطع بي.

(۲) قد اوقفت نفسي موقف الاذلاء المذنبين، موقف الاشقياء المتجرين عليك، المستخفين بوعدك.

(۳) سبحانك ! اي جرأة اجترأت عليك، و اي تغرير غررت بنفسي؟! مولاي ارحم كبوتي لحر وجهي و زلة قدمي، و عد بحلمك علي جهلي، و باحسانك علي اساءتي، فأنا المقر بذنبي، المعترف بخطيئتي، و هذه يدي و ناصيتي، استكين بالقود من نفسي، ارحم شيبتي و نفاد ايامي، واقتراب اجلي و ضعفي و مسكنتي و قلة حيلتي.

(۴) مولاي و ارحمني إذا انقطع من الدنيا اثري، و امحي من المخلوقين ذكري، و كنت من المنسيين كمن قد نسي.

(۵) مولاي و ارحمني عند تغير صورتي و حالي إذا بلي جسمي، و تفرقت اعضائي، و تقطعت اوصالي، يا غفلتي عما يراد بي.

(۶) مولاي و ارحمني في حشري و نشري، و اجعل في ذلك اليوم مع أوليائك موقفي، و في احبائك مصدري، و في جوارك مسكني، يا رب العالمين.

عجز و فروتنی کے سلسلہ میں دعا

(۱) اے میرے پروردگار! میرے گناہوں نے مجھے (عذر خواہی سے) چپ کر دیا ہے، میری گفتگو بھی دم توڑ چکی ہے۔ تو اب میں کوئی عذر و حجت نہیں رکھتا۔

(۲) اس طرح میں اپنے رنج و مصیبت میں گرفتار اپنے اعمال کے ہاتھوں میں گروی، اپنے گناہوں میں حیران و پریشان، مقصد سے سرگرداں اور منزل سے دور افتادہ ہوں۔

(۳) میں نے اپنے کو ذلیل گنہگاروں کے موقف پر لا کھڑا کیا ہے ان بد بختوں کے موقف پر جو تیرے مقابلہ میں جرات دکھانے والے اور تیرے وعدہ کو سرسری سمجھنے والے ہیں۔ پاک ہے تیری ذات۔ میں نے کس جرات و دلیری کے ساتھ تیرے مقابلہ میں جرات کی ہے اور کس تباہی و بربادی کے ساتھ اپنی ہلاکت کا سامان کیا ہے۔

(۴) اے میرے مالک! میرے منہ کے بل گرنے اور قدموں کے ٹھوکر کھانے پر رحم فرما اور اپنے حلم سے میری جہالت و نادانی کو اور اپنے احسان سے میری خطاء و بداعمالی کو بخش دے اس لۓ کہ میں اپنے گناہوں کا مقر اور اپنی خطاؤں کا معترف ہوں یہ میرا ہاتھ اور یہ میری پیشانی کے بال (تیرے قبضۂ قدرت میں) ہیں۔ میں نے عجز و سرافگندگی کے ساتھ اپنے کو قصاص کے لۓ پیش کر دیا ہے۔ بار الہا ! میرے بڑھاپے، زندگی کے دنوں کے بیت جانے، موت کے سر پر منڈلانے اور میری ناتوانی، عاجزی اور بے چارگی پر رحم فرما۔

(۵) اے میرے مالک ۔ جب دنیا سے میرا نام و نشان مٹ جاۓ اور لوگوں (کے دلوں) سے میری یاد محو ہو جاۓ اور ان لوگوں کی طرح جنہیں بھلا دیا جاتا ہے میں بھی بھلا دیۓ جانے والوں میں سے ہو جاؤں تو مجھ پر رحم فرمانا۔

(۶) اے میرے مالک! میری صورت و حالت کے بدل جانے کے وقت جب میرا جسم کہنہ، اعضاء درہم و برہم اور جوڑ و بند الگ الگ ہو جائیں تو مجھ پر ترس کھانا۔ ہاۓ میری غفلت و بیخبری اس سے جو اب میرے لۓ چاہا جا رہا ہے۔ اے میرے مولا ! حشر و نشر کے ہنگام مجھ پر رحم کرنا اور اس دن میرا قیام اپنے دوستوں کے ساتھ اور (موقف حساب سے محل جزا کی طرف) میری واپسی اپنے دوستداروں کے ہمراہ اور میری منزل اپنی ہمسائیگی میں قرار دینا۔ اے تمام جہانوں کے پروردگار!


حوالہ جات

  1. فضل‌ اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ، ج۲، ص۶۲۶-۶۲۷۔
  2. ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ ہجری شمسی، ج۴، ص۳۶۵۔
  3. ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۴، ص۳۶۵-۳۷۶؛ شرح فرازہای دعای پنجاہ و سوم صحیفہ از سایت عرفان۔
  4. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۷، ص۶۲۳-۶۲۹۔
  5. ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ ہجری شمسی، ج۴، ص۳۶۳-۳۷۶۔
  6. فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ ہجری شمسی، ج۳، ص۵۷۱-۵۷۲۔
  7. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ھ ، ج۷، ص۳۹۵-۴۱۲۔
  8. مغنیہ، فی ظلال الصحیفۃ، ۱۴۲۸ھ ، ص۶۵۷-۶۶۰۔
  9. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ ہجری شمسی، ص۷۲۵-۷۳۰۔
  10. فضل‌ اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ ، ج۲، ص۶۳۰-۶۳۵۔
  11. فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ھ ، ص۱۰۳۔
  12. جزایری، شرح الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۲، ص۲۹۶-۲۹۸۔

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ ہجری شمسی۔
  • جزایری، عزالدین، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ھ ۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفۃ السجادیۃ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ ہجری شمسی۔
  • فضل‌ اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ ۔
  • فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ، تہران، مؤسسۃ البحوث و التحقیقات الثقافیۃ، ۱۴۰۷ھ ۔
  • مدنی شیرازی، سید علی‌ خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفۃ السجادیۃ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت‌ اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔

بیرونی روابط