مندرجات کا رخ کریں

"میر انیس" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 85: سطر 85:
{{شعر اختتام}}
{{شعر اختتام}}


==سبک شعر==
==انداز شعر==
میر انیس کے دور میں شعر کے دو سبک اور انداز عام تھے۔ ایک تغزل میں داخلی افکار کی پیشکش جسے عرف عام میں فصاحت کہا جاتا ہے۔ اس انداز کو دہلوی شعرا کا سبک کہا جاتا تھا۔ دوسرا سبک الفاظ کی شعبدہ بازی اور صناعت کو زیادہ دخل حاصل تھا اور یہ سبک لکھنؤ میں ناسخ اور ان کے شاگردوں میں پائی جاتی تھی۔ انیس کی شاعری لکھنؤ کے اس دور میں رائج انداز شاعری کے برعکس تھا۔ اور انیس صرف دعوا نہیں بلکہ عمل کے بھی معتقد تھے۔ اس حوالے سے ان کا ایک شعر کچھ اس طرح سے ہے:
میر انیس کے دور میں شعر کے دو سبک اور انداز عام تھے۔ ایک تغزل میں داخلی افکار کی پیشکش جسے عرف عام میں فصاحت کہا جاتا ہے۔ اس انداز کو دہلوی شعرا کا سبک کہا جاتا تھا۔ دوسرا سبک الفاظ کی شعبدہ بازی اور صناعت کو زیادہ دخل حاصل تھا اور یہ انداز لکھنؤ میں ناسخ اور ان کے شاگردوں میں پایا جاتا تھا۔ انیس کی شاعری لکھنؤ کے اس دور میں رائج انداز شاعری کے برعکس تھی۔
انیس صرف دعوی کے نہیں بلکہ عمل کے بھی معتقد تھے۔ اس حوالے سے ان کا ایک شعر کچھ اس طرح سے ہے:
{{شعر آغاز}}
{{شعر آغاز}}
{{شعر| ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لیے| تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لیے}}
{{شعر| ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لیے| تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لیے}}
سطر 92: سطر 93:
{{شعر|داند آں را کہ فصاحت بہ کلامے دارد| ہر سخن موقع و ہر نقطہ مقامے دارد}}
{{شعر|داند آں را کہ فصاحت بہ کلامے دارد| ہر سخن موقع و ہر نقطہ مقامے دارد}}
{{شعر اختتام}}
{{شعر اختتام}}
میر انیس نے اپنے اشعار میں قرآنی آیات اور احادیث شریفہ کا اشارہ کرتے ہیں۔<ref>سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص16،17۔</ref>
میر انیس نے جا بجا اپنے اشعار میں قرآنی آیات اور احادیث شریفہ کا اشارہ کیا ہے۔<ref>سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص16،17۔</ref>


==انیس کے کلام کے محاسن==
==انیس کے کلام کے محاسن==
confirmed، movedable
5,154

ترامیم