عملی تفسیر

ویکی شیعہ سے
علم تفسیر
اہم تفاسیر
شیعہ تفاسیرتفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ
سنی تفاسیرتفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ
تفسیری رجحان
تقابلی تفسیرعلمی تفسیرعصری تفسیرتاریخی تفسیرفلسفی تفسیرکلامی تفسیرعرفانی تفسیرادبی تفسیرفقہی تفسیر
تفسیری روشیں
تفسیر قرآن بہ قرآنتفسیر رواییتفسیر عقلیتفسیر اجتہادی
اقسام تفسیر
ترتیبی تفسیرموضوعی تفسیر
اصطلاحات علم تفسیر
اسباب نزولناسخ و منسوخمحکم و متشابہتحدیاعجاز قرآنجری


تَفسیرِ عملی یا عملی تفسیر، تفسیر قرآن کا ایک طریقہ ہے جس میں قرآن کی تعلیمات کو عملی طور پر بیان کیا جاتا ہے۔[1] بعض محققین کے مطابق قرآن میں عمومی قواعد کا ایک مجموعہ موجود ہے جسے قرآن میں مذکور دیگر جزئی امور پر تطبیق دیا جاتا ہے۔[2] ان عمومی اصولوں اور اس کی تفصیلات اور جزئیات کے درمیان مکمل ہم آہنگی پایا جانا قرآن کی جامعیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔[3] عملی تفسیر کا مقصد قرآن سے حاصل ہونے والے پیغامات کو انسانی زندگی پر تطبیق دینا ہے تاکہ انسان اپنی ضروریات سے مناسب راستہ، طریقہ اور عقیدہ کو پہچان سکے اور ان سوالات کا جواب دے سکے۔[4] عملی تفسیر، تفسیر کو سمت دے کر اسے انسانی زندگی کا حصہ بناتی ہے؛ اسی لئے یہ تفسیری طریقہ تفسیر عصری سے مختلف ہے؛ کیونکہ تفسیر عصری میں جدید علوم اور اس عصر کے قالب میں قرآن کی تفسیر ہوتی ہے، لیکن تفسیر عملی میں تفسیر کو سمت دینے کے لئے آیات میں موجود پیغامات اور ہدایت کو بیان کیا جاتا ہے۔[5]

بعض روایات کے مطابق قرآن کا ہر عصر میں عملی ہونا قرآن کا باقی رہنے کی دلیل ہے۔[6] تفسیر مِنْ وحیِ القرآن کے مؤلف سید محمد حسین فضل اللہ کا کہنا ہے کہ شیعہ ائمہؑ سے نقل کی گئی زیادہ تر تفسیریں عملی تفسیریں ہیں جن میں آیات کے ظاہری معنی کسی معروضی حقیقت پر اطلاق ہوتے ہیں۔[7] مفسرین کے ہاں عملی تفسیر کی مختلف قسمیں رائج ہیں۔[8] یہ تفسیری طریقہ عیسائیوں کے ہاں بھی موجود ہے جس کے ذریعے انجیل کو معاصر حقایق پر تطبیق دیتے ہیں۔[9] محسن قرائتی کی تفسیر نور، اکبر ہاشمی رفسنجانی کی تفسیر راہنما[10] اور یحیی یثربی کی تفسیر روز اس طرز پر تدوین ہوئی ہیں۔[11] غالب حَسَن نے بھی اپنی کتاب "مَداخِلُ جدیدۃٌ لِلتفسیر" کے پہلے باب کو عملی تفسیر سے مختص کیا ہے اور قرآن کی سات عمومی قواعد کو جزئی قواعد پر تطبیق دیا ہے۔[12] عربی متون میں عملی تفسیر کو تفسیر تطبیقی بھی کہا ہے؛[13] جیسا کہ بعض مفسرین نے جَرْی و انطباق سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔[14]

عملی تفسیر کے جواز میں متعدد روایات کا حوالہ دیا گیا ہے۔[15] ان روایات کے مطابق قرآن اور اس کی آیات بعض لوگوں کے لیے مختص نہیں ہیں اور اس کی بحثیں ہر دور میں موجود ہیں۔[16] سید محمد حسین فضل اللہ نے اس استدلال کے ساتھ کہ قرآن میں جو کچھ بیان ہوئے ہیں وہ ایسے حقائق ہیں؛ وقت گزرنے کے باوجود بھی ان میں تغیر و تبدل نہیں آتا ہے؛ مثال کے طور پر ان کا خیال ہے کہ سورۃ البقرہ میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوئے ہیں: مومن، کافر اور منافق، اور یہ کسی خاص تاریخی دور کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ یہ تقسیم ہر دور میں جاری رہتی ہے۔[17] بعض محققین نے عملی تفسیر کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کا جاوید ہونے سے استدلال کیا ہے؛ کیونکہ قرآن کے لافانی ہونے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ قرآن ہمیشہ رہے گا، بلکہ قرآن کے لافانی ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ ہر دور میں قرآن کے لیے ایسی ٹھوس مثالیں موجود ہیں جو قرآن کی ذاتی حیثیت کو آشکار کرتی ہیں۔[18] اسی وجہ سے نزول قرآن کے بعد طولانی عرصہ گزرنے کے بعد بھی علمی اور سائنسی انکشافات کو قرآنی آیات کے مطابق شمار کرتے ہیں۔[19]

حوالہ جات

  1. ایازی، "تفسیر تطبیقی"، ص641۔
  2. حسن، مداخل جدیدۃ للتفسیر، 1424ھ، ص11۔
  3. حسن، مداخل جدیدۃ للتفسیر، 1424ھ، ص11۔
  4. ایازی، مبانی و روش ہای تفسیر قرآن کریم، 1388شمسی، ص249۔
  5. ایازی، "تفسیر تطبیقی"، ص641۔
  6. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص204۔
  7. فضل اللہ، الندوہ، 1418ھ، ج7، ص448۔
  8. ایازی، تفسیر قرآن مجید برگرفتہ از آثار امام خمینی(رہ)، 1386شمسی، ج1، ص392۔
  9. شرکۃ ماستر میدیا، التفسیر التطبیقی للکتاب المقدس، 1997ء، مقدمہ کتاب۔
  10. ایازی، "تفسیر تطبیقی"، ص641۔
  11. مطہری، "تفسیر روز"، ص36۔
  12. حسن، مداخل جدیدۃ للتفسیر، 1424ھ، ص11-30۔
  13. عسگری، و شاکر، "تفسیر تطبیقی، معنایابی و گونہ شناسی"، ص19۔
  14. فضل اللہ، فی رحاب اہل البیت(ع)، 1419ھ، ج1، ص66-67۔
  15. فضل اللہ، الاجتہاد بین أسر الماضی و آفاق المستقبل، 2009م، ص299۔
  16. ملاحظہ کریں: برقی، المحاسن، 1371ھ، ج1، ص289؛ صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ج1، ص31؛ کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص138-139؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص11؛ و ج2، ص203-204؛ شیخ صدوق، معانی الأخبار، 1403ھ، ص259۔
  17. فضل اللہ، الاجتہاد بین أسر الماضی و آفاق المستقبل، 2009ء، ص299۔
  18. حسن، مداخل جدیدۃ للتفسیر، 1424ھ، ص9۔
  19. حسن، مداخل جدیدۃ للتفسیر، 1424ھ، ص9-10۔


مآخذ

  • ایازی، سید محمدعلی، "تفسیر تطبیقی"، در جلد اول از دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، دوستان و ناہید، 1377ہجری شمسی۔
  • ایازی، سید محمدعلی، تفسیر قرآن مجید برگرفتہ از آثار امام خمینی(رہ)، تہران، عروج، 1386ہجری شمسی۔
  • ایازی، سید محمدعلی، مبانی و روش ہای تفسیر قرآن کریم، تہران، دانشگاہ آزاد اسلامی، 1388ہجری شمسی۔
  • برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، قم، دار الکتب الاسلامیہ، 1371ہجری شمسی۔
  • حسن، غالب، مداخل جدیدۃ للتفسیر، بیروت، دار الہادی، 1424ھ۔
  • شرکۃ ماستر میدیا، التفسیر التطبیقی للکتاب المقدس، قاہرہ، شرکۃ ماستر میدیا، 1997ء۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، مَعانی الأخبار، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1403ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ع)، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی(رہ)، 1404ھ۔
  • عسگری، و شاکر، "تفسیر تطبیقی، معنایابی و گونہ شناسی"، در مجلہ پژوہش ہای تفسیر تطبیقی، شمارہ 2، آبان 1394ہجری شمسی۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تہران، المطبعۃ العلمیہ، 1380ھ۔
  • فضل اللہ، سید محمدحسین، الاجتہاد بین أسر الماضی و آفاق المستقبل، بیروت، المرکز الثقافی العربی، 2009م.
  • فضل اللہ، سید محمدحسین، الندوہ، بیروت، دار الملاک، 1418ھ۔
  • فضل اللہ، سید محمدحسین، فی رحاب اہل البیت(ع)، بیروت، دار الملاک، 1419ھ۔
  • کوفی، فرات، تفسیر فرات الکوفی، تہران، چاپخانہ وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1410ھ۔
  • مطہری، فرشتہ، "تفسیر روز"، در مجلہ کتاب ماہ دین، شمارہ 146، آذر 1388ہجری شمسی۔