منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الامامۃ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الامامۃ
مشخصات
مصنفحسن بن یوسف مطہر حلی
موضوعکلام
زبانعربی
تعداد جلد1
طباعت اور اشاعت
ناشرمؤسسہ تاسوعا
سنہ اشاعت۱۳۷۹ہجری شمسی


مِنْہاجُ الکَرامَۃ فی مَعْرِفَۃ الإمامَۃ ایک کلامی کتاب ہے جو مذہب شیعہ کی حقانیت ثابت کرتے ہوئے حضرت علی (ع) اور ان کے بیٹوں کی امامت کے اثبات میں لکھی گئی ہے۔ یہ علامہ حلی (متوفا 726 ھ) کی معروف ترین تالیفات میں سے شمار ہوتی ہے۔

مؤلف

حسن بن یوسف بن مطہّر حلّی مشہور بنام علامہ حلّی آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ علما میں سے ہیں۔ ان کے مناظرے اور تصنیفات اس زمانے کے ایرانی حاکم سلطان محمد خدا بندہ کے مذہب شیعہ کی جانب رجحان پیدا کرنے کا سبب بنیں نیز ایران میں مذہب شیعہ کت رواج کا باعث بنیں۔ علامہ حلی مختلف اسلامی فنون جیسے فقہ، اصول، عقاید، فلسفہ، منطق، دعا و... میں معروف تصنیفات کے صاحب تھے۔ محقق حلی کی 676 ہجری میں وفات کے بعد تشیع کی مرجعیت ان کے حوالے ہوئی۔ محقق حلی کے شاگردوں اور دانشمندوں نے عراق کے شہر حلہ میں کافی جستجو کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ اس عہدے کیلئے لازم شائستگی اور زعامت کے فرائض کیلئے علامہ حلی سے زیادہ کوئی شخصیت مناسب نہیں ہے۔ علامہ حلی کی مرجعیت کے اعلان کے وقت ان کا سن 28 سال تھا۔

نام کتاب

آقا بزرگ تہرانی الذریعۃ میں اس کتاب کا نام: منہاج الکرامۃ إلی إثبات الإمامۃ‌ ذکر کرتے ہیں۔[1]

مضامین کتاب

یہ کتاب چھ حصوں پر مشتمل ہے:

پہلے حصے میں علامہ حلی امامت کے متعلق مختلف مذاہب کے اقوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: امامیہ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں: عدل خداوند کا عدل حقیقت میں امامت نبوت کا استمرار ہے اور امام کا معصوم ہونا ضروری ہے لیکن اہل سنت اس کے بر خلاف عقیدہ رکھتے ہیں۔

دوسرے حصے میں مذہب امامیہ کی حقانیت کے تفصیلی دلائل بیان کرتے ہیں:

  • مذہب شیعہ اصول و فروع میں درست‌ ترین اور بہترین مذہب ہے۔
  • شیخ طوسی کی حدیث پیامبر اسلام (ص) کے متعلق گفتگو جس میں امامیہ کے ناجی فرقے ہونے کا بیان ہے۔
  • ائمہ اطہار اور انکے پیروکاروں کی نجات کا قطعی ہونا۔
  • امامیہ نے اپنے مذہب کی تعلیمات اپنے ائمہ معصومین (ع) سے حاصل کی ہیں۔
  • امامیہ کسی قسم کا مذہبی تعصب نہیں رکھتے ۔
  • حضرت علی کے بے شمار فضائل و کمالات اور حضرت علی کے مخالفین میں زشتیوں کا ہونا۔

مؤلف نے تیسرے حصے میں امامت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (ع) کی ادلہ بیان کی ہیں:

  • (عصمت کے عقلی دلائل، نصب، حفظ شریعت، خدا کا امام اور معصوم کے نصب پر قادر ہونا اوور اس کا افضل ہونا۔
  • نقلی و سمعی دلائل: قرآن کی چالیس آیات، حدیث پیامبر(ص) میں سے بارہ احادیث اور حضرت علی باری ایسی صوصیات جو ان کی امامت اور فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔

مؤلف چوتھے حصے میں بقیا آئمہ طاہرین کی امامت کے اثبات کیلئے تین راہ ذکر کرتے ہیں:

  • نص
  • ہر زمانے میں امام معصوم کا ضروری ہونا۔
  • ایسے فضائل پر مشتمل ہونا کہ جو امامت کا سبب ہوں۔

پانچویں حصے میں ان 14 دلیلوں کا بیان ہے جو کسی شخص کے حضرت علی پر افضل ہونے کو باطل قرار دیتی ہیں۔

آخری حصے میں خلافت ابوبکر کو درج ذیل دلائل سے رد کیا ہے :

اہمیت کتاب

یہ کتاب اولجایتو(سلطان محمد خدابندہ) کیلئے لکھی گئی نیز اس کتاب نے اس کے شیعہ ہونے اور دیگر بہت سے علما کے مذہب شیعہ اختیار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔کہتے ہیں کہ جب اہل سنت علما نے اس کتاب اس قدر اثرات کو دیکھا تو وہ ابن تیمیہ کے پاس گئے اور اس سے اس سسلسلے میں مدد کے طلبگار ہوئے لہذا ابن تیمیہ نے منہاج السنۃ کے نام سے اس کتاب کا ر تحریر کیا جو سراسر افترا مذہب شیعہ کی توہین سے بھرا ہوا ہے۔

اس کے بعد ابن تیمیہ کی اس کتاب جوابات لکھے گئے ان میں سے ایک سید سراج الدین حسن بن عیسی یمانی نے اکمال المنۃ‌ کے نام سے لکھا اسی طرح سید مہدی کاظمی نے منہاج الشریعۃ‌ کے نام سے جواب لکھا۔[3]


شرح کتاب

سید علی حسینی میلانی نے اس کتاب پر شرح لکھی جس کا پہلا حصہ 582 صفحہ پر مشتمل پہلی مرتبہ 1376 شمسی میں مؤسسہ انتشارات ہجرت (قم، ایران) سے طبع ہوا۔ یہ حصہ اس کتاب کی پہلی اور دوسری فصل پر مشتمل ہے۔[4]

نسخہ شناسی

چاپ

یہ کتاب ہہلی مرتبہ عبدالرحیم مبارک کی تصحیح کے ساتھ 1379 شمسی میں انتشارات تاسوعا (مشہد) چاپ ہوئی۔

حوالہ جات

  1. تہرانی، الذریعۃ، ج۲۳، ص۱۷۲.
  2. حلی، منہاج الکرامۃ، ۱۳۷۹ش، برگرفتہ از فہرست کتاب.
  3. تہرانی، الذریعۃ، ج۲۳، ص۱۷۲.
  4. میلانی، شرح منہاج الکرامۃ، ۱۴۱۸ق، مقدمہ کتاب.
  5. حلی، منہاج الکرامۃ، ۱۳۷۹ش، ص۲۳ و ۲۴.

مآخذ

  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، بیروت، دار الاضواء.
  • علامہ حلی، منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الإمامۃ، مشہد، مؤسسۃ عاشورا، ۱۳۷۹ش.
  • میلانی، سید علی، شرح منہاج الکرامۃ، قم، مؤسسۃ دار الہجرۃ، ۱۴۱۸ق.
  • کتاب شناخت سیرہ معصومان، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور.