شیخ حر عاملی

ویکی شیعہ سے
(محمد بن حسن حر عاملی سے رجوع مکرر)
شیخ حر عاملی
حرم امام رضاؑ میں شیخ حر عاملی کا مقبرہ
حرم امام رضاؑ میں شیخ حر عاملی کا مقبرہ
کوائف
مکمل ناممحمد بن حسن بن علی بن محمد بن حسین
لقب/کنیتحر عاملی
نسبخاندان حر بن یزید ریاحی
تاریخ ولادت8 رجب سنہ 1033 ھ
آبائی شہرمشغرہ، جبل عامل (لبنان)
تاریخ وفات21 رمضان 1104 ھ
مدفنحرم امام رضا (ع) مشہد
نامور اقرباءوالد: حسن بن علی، چچا: شیخ محمد بن علی حُر، والد کے ماموں: شیخ علی بن محمود عاملی
علمی معلومات
اساتذہوالد: حسن بن علی، چچا: شیخ محمد بن علی حُر، والد کے ماموں: شیخ علی بن محمود عاملی ...
شاگردشیخ محمد رضا بن شیخ مصطفی، سید محمد بن علی موسوی عاملی ...
اجازہ روایت ازعلامہ مجلسی
اجازہ روایتعلامہ مجلسی
تالیفاتوسائل الشیعہ، فوائد الطوسیہ ...
خدمات
سماجیقاضی القضاۃ و شیخ الاسلامی


محمد بن حسن بن علی بن محمد بن حسین (1033-1104 ھ) شیخ حر عاملی کے نام سے معروف گیارھویں صدی کے شیعہ امامیہ، محدث، فقیہ اور وسائل الشیعہ کے مؤلف ہیں۔ وہ اخباری مسلک تھے اور کتب اربعہ کی تمام احادیث کی صحت کے قائل تھے۔ اس نکتۂ نظر کی تائید میں انہوں نے وسائل الشیعہ کے آخر میں 20 کے قریب دلائل ذکر کئے ہیں۔ آپ کے مطابق احکام شرعی میں جب تک یقین حاصل کرنا ممکن ہو ظن پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ صاحب وسائل کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

زندگی نامہ

محمد بن حسن بن علی بن محمد بن حسین جو شیخ حر عاملی اور صاحب وسائل کے نام سے معروف تھے، جمعہ کی رات 8 رجب سنہ 1033 ہجری کو لبنان کے جبل عامل علاقے کے مشغرہ نامی دیہات میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب 36 واسطوں سے حر بن یزید ریاحی تک پہنچتا ہے۔[1] اسی مناسبت سے ان کا خاندان آل حر‌ کے نام سے مشہور تھا۔[2]

وفات

شیخ حر عاملی نے 21 رمضان 1104ھ کو 71 سال کی عمر میں مشہد میں وفات پائی اور وہیں سپرد خاک کئے گئے۔ ان کا مقبرہ اس وقت حرم امام رضا کے صحن انقلاب کے ایک ایوان میں واقع ہے۔[3]

خاندان

ان کی اپنی اور دیگر افراد کی تصریح کے مطابق آل حر‌ اہل علم و معرفت اور پیامبر اکرم (ص) سے محبت رکھنے والا خاندان تھا نیز اس خاندان نے کئی فقہاء اور دانشمندوں کو پروان چڑھایا۔

شیخ حر عامل کے والد حسن بن علی ایک فاضل، دانشمند، ادیب، فقیہ اور فنون عربی سے آگاہ اور لوگوں کیلئے ایک مرجع علمی کی حیثیت رکھتے تھے۔[4] ان کی والدہ علامہ شیخ عبد السلام کی بیٹی تھی جو بافضیلت اور ادیب خاتون تھیں۔[5]

ان کے چچا شیخ محمد بن علی بن محمد حر عاملی کتاب الرحلۃ کے مصنف تھے نیز کئی کتابوں کے محشی اور تعلیقات کے حامل، رسالوں کے مؤلف اور صاحب دیوان شعر تھے۔[6]

چچا کے بیٹے حسن بن محمد بن علی فاضل اور ادیب دانشمند تھے۔ ان کے جد شیخ علی بن محمد حر عاملی جلیل القدر اور خوش اخلاق عالم دین اور اہل فضل، شعر و ادب کے مالک تھے۔ ان کے والد کے جد شیخ محمد بن حسین حُر عاملی بھی اہل علم و دانش اور اپنے زمانے میں علوم شرعی میں اسی طرح افضل جانے جاتے تھے جس طرح اس کے بیٹے شیخ محمد بن محمد علوم عقلیہ میں افضل سمجھے جاتے تھے۔[7]

ماں کی طرف سے شیخ حر کے جد عبد السلام بن شمس الدین محمد حر عاملی فقہی احکام میں متبحر تھے۔[8]

سفر

شیخ حر عاملی چالیس سال کی عمر میں سنہ 1073ھ زیارت عتبات عالیات کیلئے جبل عامل سے عراق گئے۔ وہاں سے زیارت امام رضا (ع) کیلئے عازم مشہد ہوئے۔ اس جگہ کو اپنی زندگی کیلئے مناسب سمجھ کر وہیں قیام کیا۔

سنہ 1087ھ اور 1088ھ میں دوبارہ سفر حج‌ کے لیے گئے۔ سنہ 1088 ہجری کے آخری سفر حج کے موقع پر عثمانی حکومت کے تحت ترکوں نے بعض ایرانیوں اور شیعوں کا قتل عام کیا اور اس کے لئے یہ بہانہ تراشا گیا کہ انہوں نے خانۂ خدا کی اہانت اور بے حرمتی کی ہے۔ ان فسادات میں شیخ حُر عاملی اشراف مکہ اور سادات حسنی میں سے ایک سید موسی بن سلیمان کے ذریعے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور یمن کے راستے عراق چلے گئے۔[9]

اس دوران آپ دو مرتبہ زیارت عتبات کیلئے عراق گئے۔ ایک سفر کے دوران اصفہان بھی گئے اور وہاں کے بزرگ علما جیسے علامہ مجلسی سے ملاقات کی اور انہیں اجازہ روایت دیا۔ علامہ مجلسی نے بھی انہیں اجازه روایت دیا۔ اس سفر میں علمائے اصفہان نے شاه سليمان صفوى سے ان کی ملاقات ترتیب دی۔[10] شاه سلیمان صفوی نے انہیں قاضی ‌القضات اور خراسان کے شیخ‌ الاسلامی کا عہدہ ان کے سپرد کیا۔[11]

مقام علمی

شیخ حر عاملی نے ابتدائی تعلیم جبل عامل میں ہی حاصل کی۔ اس کے بعد وہ جباع گئے اور وہاں انہوں نے بہت سے علماء سے کسب علم کیا۔ ان کے اسماء ذیل میں ذکر کئے جا رہے ہیں:

  1. والد: حسن بن علی (متوفی 1062 ہجری)
  2. چچا: شیخ محمد بن علی حُر (متوفی 1081 ہجری)
  3. مادری جد: شیخ عبد السلام بن محمد حُر
  4. والد کے ماموں: شیخ علی بن محمود عاملی
  5. شیخ زین الدین، صاحب معالم و فرزند شہید ثانی
  6. شیخ حسین ظہیری
  7. سید حسن حسینی عاملی
  8. شیخ عبد الله حرفوشی
  9. مولی محمد طاہر بن محمد حسین شیرازی نجفی قمی
  10. سید میرزا جزائری نجفی
  11. شیخ علی نواسۂ شہید ثانی
  12. آقا حسین خوانساری
  13. سید ہاشم توبلی بحرانی
  14. مولی محمد کاشی[12]

شاگردان

شیخ حُر عاملی کا مشہد میں نہایت پر رونق درس تھا نیز انہوں نے بہت سے شاگرد تربیت کیے، چند کے اسما درج ذیل ہیں:

  1. شیخ مصطفی بن عبد الواحد بن سیار حوبز
  2. شیخ محمد رضا بن شیخ مصطفی
  3. شیخ حسن بن شیخ مصطفی
  4. سید محمد بن محمد باقر حسینی مختاری اعرجی نائینی
  5. سید محمد بن محمد بدیع رضوی مشہدی
  6. مولی محمد فاضل بن محمد مہدی مشہدی
  7. سید محمد بن علی بن محیی الدین موسوی عاملی
  8. مولی محمد صالح بن محمد باقر قزوینی مشہور بنام روغنی
  9. مولی محمدتقی بن عبد الوہاب استر آبادی مشہدی
  10. مولی محمد تقی دہخوارقانی قزوینی
  11. سید محمد بن احمد حسینی گیلانی[13]

رجحان اخباریت

کتاب وسائل الشیعہ

شیخ حر عاملی اخباری عالم دین تھے جو معتقد تھے کہ تمام احادیث کتب اربعہ صحیح ہیں اور اس دعوی کے اثبات کیلئے انہوں نے کتاب وسائل الشیعہ کے آخری حصے میں بیس دلیلیں ذکر کی ہیں۔[14] نیز وہ معتقد تھے کہ ظن پر عمل نہیں کیا جا سکتا چونکہ احکام شرعی میں علم کا حاصل کرنا ممکن ہے۔[15]

شیخ حر عاملی نے اخباری علما کے دروس میں شرکت اور صفویہ زمانے کی اخباری فضا کے تحت تاثیر ہو کر اخباری مسلک کو قبول کیا۔ اخباریت مروج ہونے کے باوجود ایک معتدل اخباری سمجھے جاتے ہیں۔ حر عاملی اصولیوں اور مجتہدوں سے بحث و جدل سے پرہیز کے ساتھ ساتھ شدت کے ساتھ اخباریت کی تقویت کرتے تھے۔ وہ ان پہلے افراد میں سے ہیں جنہوں نے اصولیوں اور اخباریوں کے درمیان تفاوتوں کو شمار کیا اور کہا کہ ان دو گروہوں کے درمیان صرف لفظی بحث نہیں ہے۔ انہوں نے استنباط میں استعمال ہونے والے تمام عقلی استدلال کے وسائل پر تنقید کی۔[16] ان کے عقائد اور نظریات بیان کرنے والی اہم ترین کتاب کتاب فوائد الطوسیہ ہے۔ شیخ نے کتاب کی ابتدا میں بعض احادیث کے ظاہری ابہامات، بعض احادیث سے شبہات کے رفع اور بعض مغالطوں کو تالیف کا سبب بیان کیا۔ اس کتاب میں شیخ نے اخباریت کے دفاع کی کوشش کی ہے۔[17]

آثار

شیخ حر عاملی نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی اہم ترین اور ارزشمند ترین تالیف کتاب وسائل الشیعہ ہے۔ جو تالیف سے لے کر آج تک فقہاء اور مجتہدین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ یہ کتاب فقہ کی اصلی اور بنیادی کتب سمیت کتب اربعہ کی احادیث کا مجموعہ ہے جن کی فقہ میں ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ صاحب وسائل نے اس کتاب میں 36 ہزار روایات کو سند کے ساتھ متعدد فقہی موضوعات کے تحت ذکر کیا ہے۔ یہ تالیف اپنی اہمیت اور مخصوص حیثیت کی بنا پر شروح، معاجم، تلخیص اور ترجموں کیلئے مورد عنایت قرار پائی ہے۔

اشعار

شیخ حُر عاملی بہت زیادہ شعری ذوق رکھتے تھے۔ ان کے بہت زیادہ اشعار اہل بیت کی مدح و ستائش میں ہیں۔ ان کا ایک شعری دیوان ہے جو 2000 بیت پر مشتمل ہے۔

شعری کلام کا طولانی ہونا ان کی خصوصیت ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) کی مدح میں 100 بیت سے زیادہ اشعار اور ایک اور 400 اشعار کا قصیدہ ہے جو معجزات، فضائل پیامبر اور اہل بیت پر مشتمل ہے۔

وہ شعر گوئی میں بھی خاص مہارت رکھتے ہیں۔ مثلا انہوں نے 29 قصائد اہل بیت (ع) کی مدح میں نظم کئے ہیں جن میں سے ہر قصیدہ کے تمام مصرعوں کو حروف تہجی میں سے ایک کا قافیہ بنایا ہے۔ اسی طرح سے ایک اور قصیدہ میں انہوں نے ہر مصرعے کو چاروں ایک لفظ استعمال کیا ہے۔ اسی طرح سے ایک اور قصیدہ میں انہوں نے تمام ابیات کو بغیر الف کے نظم کیا ہے۔

ان کے اشعار:

أنا حرٌ عبد لهم فإذاما شرفونی بالعتق عدت رقیقا
اگر چہ میرا نام حر یعنی آزاد، ہے لیکن میں اہل بیت کا غلام ہوں اور اگر وہ مجھے شرافت مند بنائیں اور آزاد کر دیں پھر بھی میں ان ہی کی بندگی کروں گا۔
لئن طاب لی ذکر الحبائب إننی أری مدح أهل البیت أحلی و أطیبا
اگر دوستوں کی یاد لذت بخش ہے تو میرے لئے مدح اہل بیت شیرین تر اور لذت بخش تر ہے۔[18]

اقوال علما

شیخ حر عاملی گیارہویں صدی کے برجستہ ترین علمائے شیعہ میں سے مانے جاتے ہیں۔ ان کی تالیفات نے مذہب شیعہ کو روایات اہل بیت سے غنی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علماء شیعہ کے نزدیک نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

سید علی خان مدنی:

شیخ محمد بن حسن بن علی بن محمد حر شامی عاملی ایک برجستہ شخصیت، اس قدر علمی مقام و منزلت کے حامل ہیں کہ ان کی تعریف کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کی ارزشمند تالیفات نے سارے جہان کو تحت تاثیر قرار دیا۔ اسی طرح اس کے حیات بخش قطرات نے تمام سر زمینوں کو سیراب کیا ہے۔ ان کی تالیفات زمانے کی جبین پر موتیوں کی مانند چمک رہی ہیں، انکے کلمات سطروں کے درمیان قیمتی گوہروں کی مانند ایک دوسرے کے ساتھ پروئے ہوئے ہیں۔[19]

محمد بن علی اردبیلی:

ان کے فضائل اور ان کے مناقب شمار کے قابل نہیں ہیں۔[20]

محدث قمی:

محمد بن حسن بن علی مشغری محدثین کے شیخ، فضیلت‌ ترین اور متبحر ترین عالم، با ہوش فقیہ، محدث پارسا، ثقہ جلیل القدر، بزرگی اور فضیلتوں کا سرچشمہ اور منفعت بخش تالیفات کی حامل شخصیت ہیں۔[21]

علامہ امینی:

وہ زمان کے تاج پر مروارید اور فضیلت کی پیشانی پر درخشاں نقطہ ہیں۔ جب بھی ان کا تعارف کرنا چاہو تو انہیں ہر فن سے آگاہ پاؤ گے۔ ان کی تعریف کرنے میں مدح و ستائش کے جملے ناتوان ہیں۔ گویا وہ علم، دانش اور ادب کا تندیس اور فضل و کمال کا مجسمہ ہیں۔ ان کے آثار میں امامت کے اثبات میں اہل بیت کی احادیث ہیں، نشر فضائل، احکام کی جمع آوری و اہل بیت کی حکمتین اور ان کی مدح و ستائش میں ہیں اور ان کی ارزشمند تالیفات ان کی یاد کو ہمیشہ جاوداں رکھیں گی۔[22]

حوالہ جات

  1. اعیان الشیعہ، ج۲، ص۴۹۴.
  2. امل الآمل، ج۱، ص۹.
  3. اثبات الہداۃ، ج۱، ص۲۱.
  4. اعیان الشیعہ، ج۵، ص۲۱۲.
  5. اثبات الہداۃ، ج۱، ص۵.
  6. ریاض العلماء، ج۵، ص۱۳۶.
  7. امل الآمل، ص۱۲۹.
  8. حر عاملی، امل الامل، ص۱۰۷.
  9. وسائل الشیعہ، ج۱، مقدمہ تحقیق، ص۷۹.
  10. کتاب شناخت سیره معصومان، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور
  11. بحار الانوار، ج۱۰۷، ص۱۰۷ - ۱۱۱. اثبات الہداۃ، ج۱، ص۲۱. امل الآمل، ج۱، ص۴۷ - ۵۱.
  12. بحار الانوار، ج۱۰۷، ص۱۰۴ - ۱۰۹.
  13. اثبات الہداۃ، ج۱، ص، ۱۰ - ۱۲.
  14. وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص ۹۶-۱۰۴.
  15. وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص ۱۰۵-۱۱۲.
  16. فراہاني، منفرد، مہاجرت علمای شيعہ از جبل عامل بہ ايران، ص ۱۶۴.
  17. مدير شانه‌چي، علم الحديث، ص ۸۸ و ۸۷.
  18. وسائل الشیعہ، مقدمہ تحقیق، ص۸۴.
  19. سلافۃ العصر، ص۳۵۹.
  20. جامع الرواة، ص۹۰.
  21. الکنی و الالقاب، ج۲، ص۱۷۶.
  22. الغدیر، ج۱۱، ص۳۳۶.

منابع

  • اردبیلی، محمد علی، جامع الرواة، مکتبة المحمدی
  • افندی، عبد الله بن عیسی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، قم، مطبعة الخیام، بی ‌تا
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعة، بیروت، ‌دار التعارف، بی ‌تا
  • امینی، عبد الحسین، الغدیر، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۳۹۷ ھ
  • حر عاملی، محمد بن حسن، اثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، بیروت، موسسة الاعلمی، ۱۴۲۵ ھ
  • حر عاملی، محمد بن حسن، امل الآمل، بغداد، مکتبة الاندلس، بی‌ تا
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، قم، آل البیت، ۱۴۱۴ ھ
  • فراهانی منفرد، مهدی، مهاجرت علمای شیعہ از جبل عامل بہ ایران، تهران، امیر کبیر، ۱۳۸۸ش.
  • قمی، شیخ عباس، الفواید الرضویہ فی احوال علماء المذهب الجعفریہ، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۳ش.
  • قمی، شیخ عباس، الکنی و الالقاب، تهران، مکتبة الصدر
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، ۱۴۰۳ ھ
  • مختاری، رضا و صادقی، محسن، غناء و موسیقی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیہ قم، ١٣٧٧ش
  • مدنی، سید علی خان، سلافة العصر، تهران، مرتضوی، ۱۳۸۳ش
  • مرکز تحقیقات علوم اسلامی، نرم افزار سیره معصومان