زید بن علی

ویکی شیعہ سے
(زید بن علی بن حسین (ع) سے رجوع مکرر)
زید بن علی
نامزید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب
وجہ شہرتامام زادے، بنی امیہ کے خلاف قیام
کنیتابو الحسین
لقبزید شہید، حلیف القرآن، زید الازیاد
تاریخ پیدائش75 یا 78 یا 80 ہجری.
جائے پیدائشمدینہ
شہادت120، 121 یا 122 ہجری.
سکونتمدینہ
والدامام سجاد
والدہجیدا
اولادیحیی، حسین، محمد، عیسی
عمر42 سال
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب، لقب زید شہید امام علی بن الحسین (ع) کی اولاد میں سے اور امام محمد باقر (ع) و امام جعفر صادق (ع) کے معاصر ہیں، زیدیہ فرقہ آپ سے منسوب ہے۔ آپ کی ولادت مدینہ اور شہادت کوفہ میں ہوئی۔

زید قرآن مجید کی مخصوص قرائت کے حامل تھے اور آپ تقیہ کے مخالف تھے اور ایسے افراد سے جو شیخین پر تبرا کرتے تھے، بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔[1] آپ لوگوں کو کتاب و سنت کی پیروی اور جابر حکمرانوں سے جہاد اور محروم افراد کی حمایت اور ضرورت مندوں کی دستگیری کی دعوت دیتے تھے۔[2] زید نے کوفہ میں یوسف بن عمر کی گورنری کے زمانہ میں اس کے خلاف قیام کیا لیکن اہل کوفہ نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔

نسب

زید شیعوں کے چوتھے امام امام سجادؑ کے فرزند ہیں۔ ان کی والدہ کے مختلف ناموں کا تذکرہ ملتا ہے: جیدا، جید، حیدان اور حوراء ان اسماء میں شامل ہیں۔ آپ کی والدہ ام ولد (کنیز) تھیں جنہیں مختار ثقفی نے تیس ہزار درہم میں خریدا اور چونکہ ان کی قدر و منزلت کے قائل تھے اس لئے امام سجادؑ کو ہدیہ کر دیا۔[3] زید کے علاوہ ان سے دوسری اولاد بھی ہوئیں جن کے اسما: علی، عمر اور خدیجہ ہیں۔[4]

القاب و کنیت

زید کی کنیت ابو الحسین تھی۔[5] آپ کے القاب درج ذیل ہیں:

  • زید شہید [6] کیونکہ آپ کی شہادت ظلم کے خلاف قیام میں واقع ہوئی ہے؛
  • حلیف القرآن [7] کیونکہ آپ ہمیشہ قرآن کریم میں تلاوت میں مشغول رہا کرتے تھے؛
  • زید الازیاد [8] آپ کے بلند مقام کی طرف کنایہ ہے۔ آپ کی عظیم اور بے نظیر شخصیت کی وجہ سے ایسا لقب آپ کو دیا گیا تا کہ وہ اپنے ہم نام افراد سے جدا پہچان میں آ سکیں: جیسے زید بن حارثہ، زید بن ارقم اور زید بن حسن بن علی۔[9]

ولادت و شہادت

مشہور یہ ہے کہ آپ نے 42 سال عمر پائی۔[10] آپ کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں اقوال مخلتف ہے اور سنہ 75 ھ، سنہ 78 ھ،[11] سنہ 80 ھ[12] اور سنہ 79 ھ[13] کو آپ کے سال ولادت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ آپ کی ولادت مدینہ میں ہوئی۔[14]

آپ کی شہادت کے سلسلہ میں بھی اقوال مخلتف ہیں اور سنہ 122 ھ [15] سنہ 121 ھ، سنہ 120 ھ[16] کو آپ کی شہادت کے سال کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے۔

اساتذہ

زید نے اپنے والد امام سجاد (ع)، اپنے بھائی امام محمد باقر (ع) اور اپنے بھتیجے امام جعفر صادق (ع) سے روایات نقل کی ہیں۔[17] اور جن بزرگان سے زید نے روایات اخذ کی ہیں ان میں ابان بن عثمان بن عفان اور عبد اللہ ابی رافع قابل ذکر ہیں۔اسی طرح سے زید نے عروہ بن زبیر بن عوام اور واصل بن عطا سے تلمذ اختیار کیا ہے۔[18] اگرچہ بعض علماء کے اعتبار سے ان کا واصل بن عطا کا شاگرد ہونا، اس دلیل کی بناء پر کہ ان کا تعلق خاندان اہل بیت (ع) سے ہے دوسرے زید اور واصل ہم عمر ہیں، محل تردید ہے۔[19]

بعض حضرات نے زیدیہ فرقہ کے مذہب اعتدال کی طرف میلان اور رجحان کو واصل بن عطاء کے پاس زید کی شاگردی کی وجہ سے بتایا ہے۔ زید اور امام باقر (ع) کے درمیان اختلاف کا سبب زید کی واصل بن عطا کی شاگردی اور امام کے لئے قیام کی شرط کا لازمی ہونا ہے۔[20] اسی طرح سے زید بن علی نے اہل بصرہ اور فقہائے کوفہ جیسے عبد الرحمن بن ابی لیلی، ابو حنیفہ و سفیان ثوری کے ساتھ مذاکرات بھی کئے تھے۔[21]

شاگردان

کتاب الروض النضیر کے مولف نے ان افراد کے اسما درج کئے ہیں جنہوں نے زید سے کسب فیض کیا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • عیسی، محمد و یحیی؛ زید کے بیٹے
  • سلیمان بن مہران
  • سعید بن خیثم
  • ابو خالد کابلی
  • سلمہ بن کھیل
  • ابن ابی زناد
  • مطالب بن زیاد
  • فضیل بن مرزوق
  • مںصور بن معتم
  • زبید یامی [22]

راویان زید

بعض راویان جنہوں نے زید سے روایت اخذ کی ہے ان کے اسما یہ ہیں:

اہل سنت منابع میں ترمزی، نسائی، ابو داوود، ابن ماجہ اور ابن حنبل جیسے افراد نے ان سے حدیث نقل کی ہیں۔[25]

ان سے منسوب آثار

کتاب (المجموع فی الفقہ)، ابو خالد واسطی کی زید سے روایت کے مطابق، زید بن علی سے منسوب ہے۔ [26] یہ کتاب زید سے منسوب کتابوں میں سب سے زیادہ مشہور ہے اور اس کے اوپر شرحیں بھی لکھی گئی ہیں۔

زید کی طرف منسوب دوسری کتب اس طرح ہیں: تفسیر غریب القرآن المجید، اخبار زید بن علی۔[27] تثبیت الامامہ، مناسک یا منسک الحج، قرائت زید بن علی، رسالۃ فی الجدل مع المرجئۃ، کتاب الصفوۃ، رسالۃ فی حقوق اللہ۔ [28]، و کتاب فی الرد علی القدریہ من القرآن۔[29]

قیام زید

اصلی تحریر: قیام زید بن علی

بعض اسباب جیسے عوام پر بنی امیہ کے مظالم، اہل کوفہ کی طرف سے دعوت، زید و عبد اللہ کے درمیان مدینہ میں علی (ع) کے اوقاف کو لیکر اختلاف جس کا خاتمہ خالد بن عبد الملک کی حکمیت اور اس کے بعد کے ماجرا پر ہوا۔[30] زید کا سفر شام اور ہشام بن عبد الملک کا بھرے دربار میں ان کے ساتھ برا سلوک کرنا اور ان کی طرف نا روا مالی تہمت لگانا، جو زید کے اوپر لگائی جاتی تھی اور دوسرے مقاصد نے مل کر زید جیسی شخصیت پیدا کی جو سرے سے تقیہ کے قائل نہیں تھے، انہوں نے بیعت پر تکیہ کرتے ہوئے پندرہ ہزار کوفیوں کے ساتھ قیام کیا۔

آپ نے دس ماہ تک کوفہ و بصرہ میں مخفیانہ طور پر عوام کو اپنی بیعت کی دعوت دی۔ [31] نقل ہوا ہے کہ اس مدت میں پچاس ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ [32] نقل کیا گیا ہے کہ زید نے ابو حنیفہ کو ایک خط لکھا اور ان سے مدد طلب کی اور بنی امیہ کی حکومت کے خلاف جہاد کی دعوت دی۔ ابو حنیفہ نے بھی زید کے لئے مالی مدد روانہ کی اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کی۔ [33]

زید نے چہارشنبہ کے روز، اول ماہ صفر سنہ 122 ھجری میں قیام کیا۔ طے یہ تھا کہ آپ کا قیام اس تاریخ کے بعد عمل میں آئے گا لیکن آپ کے دو با وفا ساتھیوں کے قتل کے سبب اور اس احتمال کی وجہ سے کہ آپ پر شب میں حملہ نہ ہو جائے، آپ کا قیام اس تاریخ میں واقع ہوا۔ کوفہ کو گورنر جو آپ کے قیام سے با خبر ہو گیا تھا اس نے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور دروازہ بند کرکے انہیں عملی طور پر قیدی بنا لیا تا کہ وہ لوگ زید کے لشکر میں شامل نہ جائیں۔ لہذا وہ پچاس ہزار افراد جنہوں نے زید کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، ان میں سے محض دو سو اسی یا ایک قول کے مطابق تین سو افراد آپ کے آس پاس جمے رہے۔[34]

زید کے سپاہیوں کا شعار: یا منصور امت تھا۔[35]

شہادت

کوفہ میں ان سے منسوب حرم

دو روز تک زید کی مختصر فوج اور اموی سپاہ کے درمیان جنگ کے بعد آخرکار زید کی پیشانی پر ایک تیر آ کر لگا اور آپ اس کی وجہ سے شہید ہوگئے۔ [36] آپ کے ساتھیوں نے آپ کے جنازہ کو دشمن سے بچانے کی غرض سے راتوں رات مخفیانہ طور پر دفن کر دیا۔ لیکن دشمن کو اس کی خبر ہو گئی۔ امویوں نے زید کے جنازہ کو باہر نکالا۔ سر کو ان کے تن سے جدا کرکے اسے شام میں ہشام بن عبد الملک کے پاس بھیج دیا، اس نے آپ کے بدن کو سولی پر لٹکا دیا۔

نقل ہوا ہے کہ زید کے سر کو شام کے بعد مصر بھیجا گیا۔ مصر میں ایک بقعہ ہے جو زید بن علی کی منسوب ہے۔[37] البتہ آپ کا جسم ہشام کی موت تک سولی پر باقی رہا اور اس کے بعد اسے ولید بن یزید کے حکم سے نیچے اتارا گیا اور جلا دیا گیا اور ان کی خاک کو ہوا کے حوالہ کر دیا گیا۔[38]

امام صادق (ع) اور قیام زید

بہت سے شیعہ علما جن میں سے شہید اول اپنی کتاب القواعد میں، مامقانی اپنی کتاب صحیح المقال میں، آیت اللہ خوئی معجم رجال الحدیث میں اور اسی طرح سے سید علی خان شیرازی نے اپنی کتاب ریاض السالکین میں اس بات کے معتقد ہیں کہ زید کا قیام امام صادق (ع) کے حکم سے تھا۔[39]

امام علی رضا (ع) فرماتے ہیں: میرے والد موسی بن جعفر (ع) نے اپنے والد امام صادق (ع) کو فرماتے ہوئے سنا تھا: زید نے اپنے قیام کے سلسلہ میں مجھ سے مشورہ کیا، میں نے ان سے کہا: عمو جان، اگر آپ وہی شخص بننا چاہتے ہیں جس کے جنازہ کو سولی دے کر کوفہ میں بلند مقام پر لٹکایا جائے، تو یہی راستہ ہے۔

جس وقت زید حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت سے باہر نکلے، امام نے فرمایا: لعنت ہو اس انسان پر جو زید کی آواز کو سنے اور اس پر لبیک نہ کہے۔[40]

زید کا مسلک

زید کے قول کو نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ہر زمانہ میں ہم اہل بیت میں سے ایک شخص حجت خدا ہے اور ہمارے زمانہ کی حجت، میرے بھتیجے جعفر بن محمد ہیں۔ جو بھی ان پیروی کرے گا گمراہ نہیں ہوگا اور جو بھی ان مخالفت کرے گا، اسے ہدایت نصیب نہیں ہوگی۔[41]

بعض افراد نے مندرجہ بالا روایت کی طرف استناد کرتے ہوئے زید کے امام صادق علیہ السلام کی امامت پر عقیدہ اور التزام کو ثابت کیا ہے۔[حوالہ درکار]


زید کے بیٹے

  • حسین؛ حسین ذوالدمعہ کے نام سے معروف ہیں، انہیں یہ لقب اس وجہ سے دیا گیا کہ وہ اپنے والد کے فراق میں بیحد گریہ فرماتے تھے۔ زید کی شہادت کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے ان کی تربیت کی ذمہ داری لی تھی۔[42]
  • محمد؛ امام جعفر صادق (ع) کے اصحاب میں سے تھے۔[43]
  • عیسی؛ نے ایک عمر تک مخفی طور پر زندگی گزارنے کے بعد ساٹھ سال کی عمر میں کوفہ میں وفات پائی۔[44] بعض گزارشات کی بنیاد پر آپ بھی امام صادق (ع) کے اصحاب میں سے تھے۔[45]

زید کی نسل ان کے تین بیٹوں عیسی، محمد اور حسین سے آگے بڑھی۔[46]

فرقۂ زیدیہ

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد بعض علویوں نے مسلحانہ قیام کی فکر کو امامت کے شرائط اور ظالموں سے مقابلہ کی روش کے عنوان سے پیش کیا۔ اس سیاسی تفکر کی تشکیل کے ساتھ، امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانہ میں زیدیہ مسلک کی بنیاد رکھی گئی۔[47] [48]

علویوں کے درمیان اختلاف کی باز گشت ان دو نظریوں اموی حکومت سے ثقافتی جنگ یا مسلحانہ قیام کی طرف ہوتی ہے۔ اس اختلاف کا نتیجہ امام زین العابدین (ع) کی شہادت کے بعد ظاہر ہوا۔ بعض نے امام محمد باقر علیہ السلام کو قبول کر لیا اور دوسرے گروہ نے جو تلوار کے ذریعہ سے قیام مسلحانہ کا قائل تھا، وہ امام محمد باقر کے بھائی زید بن علی کی امامت کے قائل ہو گئے اور زیدیہ مشہور ہو گئے۔[49] اس بنیاد پر وہ شیعہ جو قیام مسلحانہ کا عقیدہ رکھتے تھے انہوں نے زید بن علی کو امام علی (ع)، امامین حسنین (ع) اور حسن مثنی[50] کے بعد اہل بیت علیہم السلام میں پانچویں امام کی حیثیت سے مانتے ہیں۔ [51]

حوالہ جات

  1. الحیاة السیاسیة و الفکریة للزیدیة فی المشرق الاسلامی، ص۴۲-۳۴
  2. رجوع کریں: مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص۲۱۴
  3. رجوع کریں: اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص۱۲۴
  4. رجوع کریں: اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص۱۲۴
  5. رجوع کریں: اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص۱۲۴؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج۲، ص۶۴؛ عمرجی، الحیاة السیاسی و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاسلامی، ص۲۵
  6. رجوع کریں: زرکلی، الاعلام، ص۵۹
  7. عمرجی، الحیاة السیاسیہ و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاسلامی، ص۴۳؛ اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص۱۲۷.
  8. رجوع کریں: شبلنجی، نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار، ص۴۰۳؛ نوری، زید بن علی و مشروعیہ الثوره عند اہل البیت، ص۲۰
  9. رضوی اردکانی، ص۱۴
  10. شیخ مفید و طوسی کے مطابق آپ کی عمر 42 سال تھی۔ رجوع کریں: نوری، زید بن علی و مشروعیہ الثورہ عند اہل البیت، ص ۱۸؛ اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص۱۲۷
  11. اعتقاد ابن عساکر در تاریخ دمشق
  12. ربانی گلپایگانی، علی، فرق و مذاهب اسلامی، ص۹۹
  13. نک. نوری، زید بن علی و مشروعیہ الثوره عند اهل البیت، ص۱۸
  14. نک. عمرجی، الحیاة السیاسیة و الفکریة للزیدیة فی المشرق الاسلامی، ص۳۰؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج۲، ص۶۴
  15. ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج۵ ص ۲۴۲
  16. خویی، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواه، ج۸، ص۳۵۸
  17. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۵ ص ۲۴۲
  18. خویی، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواه، ج۸، ص۳۵۸
  19. الامام زید، حیاتہ و عصره، آراؤه و فقهہ، ص۳۹
  20. رجوع کریں: خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواة، ص۳۵۷؛ نوری، زید بن علی و مشروعیہ الثورة عند اهل البیت، ص۱۸-۱۷
  21. ن ک. عمرجی، الحیاة السیاسیہ و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاسلامی، ص۴۴
  22. رجوع کریں: عمرجی، الحیاة السیاسیہ و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاسلامی، ص ۴۱-۳۹
  23. رجوع کریں: عمرجی، الحیاة السیاسیہ و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاسلامی، ص۳۰-۴۱.
  24. رجوع کریں: عمرجی، الحیاة السیاسیہ و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاسلامی، ص۴۴
  25. رجوع کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج۲، ص۶۵ و عمرجی، الحیاة السیاسیہ و الفکریہ للزیدی فی المشرق الاسلامی، ص۴۵
  26. عبدالرحمن بن الحارث بن عیاش بن أبی ربیعہ
  27. رجوع کریں: عمرجی، الحیاة السیاسیہ و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاسلامی، ص۴۴
  28. رجوع کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی
  29. رجوع کریں: زرکلی، الاعلام، ص۵۹ و صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج۲، ص۶۶؛ عمرجی، الحیاه السیاسیه و الفکریه للزیدیہ فی المشرق الاسلامی، ص۴۶
  30. عمرجی، الحیاة السیاسیة و الفکریة للزیدیة فی المشرق الاسلامی، ص۴۷؛ بروکلمان، تاریخ الادب العربی، ج۳، ص۳۲۳
  31. رجوع کریں: الحیاة السیاسیة و الفکریة للزیدیة فی المشرق الاسلامی، ص۴۷؛ بروکلمان، تاریخ الادب العربی، ج۳، ص۳۲۳.
  32. رجوع کریں: البغدادی، اصول الدین، ص۳۰۷
  33. اس سلسہ میں مزید مطالع کے لئے رجوع کریں: عمرجی، الحیاة السیاسیة و الفکریة للزیدیة فی المشرق الاسلامی، ص۵۰-۴۷
  34. تجارب الامم، مسکویه، ابوعلی، ج۳، ص۱۳۷
  35. الفتوح، ابن اعثم، ج۸، ص۲۹۰؛ مقاتل الطالبیین، ابو الفرج اصفہانی، ص132
  36. مقاتل الطالبیین، ابو الفرج اصفہانی، ص141
  37. انساب الاشراف، بلاذری، ج۳، ص244.
  38. نوری، زید بن‌ علی و مشروعیہ الثورہ عند اہل البیت، ص۱۲۱
  39. انساب و الاشراف، ج۳، ص251؛ مقاتل الطالبیین، ص137
  40. عیون أخبار الرضا علیہ السلام ج‌۱، ص‌۲
  41. معجم البلدان،ج۵،ص:۱۴۳
  42. رجوع کریں: ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک ج۷، ص۲۱۲ و صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج۲، ص۶۷-۶۶، و ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۵، ص۱۶۳، و عمرجی، الحیاه السیاسیہ و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاسلامی، ص۳۶، و شبلنجی، نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار(ص)، ص۴۰۳
  43. زید بن علی کے قیام اور اس کے اہداف کے بارے میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: عمرجی، الحیاة السیاسیہ و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاسلامی صص۶۵-۴۷ و شامی؛ تاریخ زیدیہ در قرن دوم و سوم ہجری ص۸۱-۷۵ و ابن عماد، شذرات الذہب، ج۱، صص۱۵۹-۱۵۸ و طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۴، صص ۲۰۰-۱۹۳
  44. عیون أخبار الرضا علیہ ‌السلام ج‌۱، ص‌۲
  45. صدوق، أمالی، ص‌۵۴۴.
  46. رجال العلامہ الحلی، ص۵۱.
  47. مصطفی سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ص۲۰.
  48. احمد محمود صبحی، فی علم الکلام دراسة فلسفية لآراء الفرق الإسلامية فی اصول الدین، ج۳، ص۴۸ ـ ۵۲.
  49. مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، الخاتمہ، ج۸، ص۲۸۲.
  50. حسن مثنی کی امامت کے سلسلہ میں اختلاف ہے بعض مورخین اور محققین نے حسن مثنی کو زیدیہ کے امام کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور بعض اس بات کا انکار کرتے ہیں۔
  51. مجلسی، بحار الأنوار، ج۴۶، ص ۱۵۷.

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ،‌ دار صار، بیروت.
  • ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، دراسۃ و تحقیق محمد عبد القادر عطا، مراجعہ و تصحیح نعیم زرزور،‌ دار الکتب العلمیہ، بیروت.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، محقق محمد عبد القادر عطا، دارالکتب العلمیہ، بیروت.
  • ابن عماد، عبد الحی بن احمد، شذرات الذہب فی اخبار من ذہب، ‌دار الکتب العلمیہ، بیروت.
  • ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبین، محقق احمد صقر، دار المعرفہ، بیروت.
  • بروکلمان، کارل، تاریخ الادب العربی، تعریب عبد الحلیم نجار، دار الکتب الاسلامی، قم.
  • تمیمی بغدادی، عبد القاہر ابن طاہر، اصول الدین، ‌دار الکتب العلمیہ، بیروت.
  • حلی، حسن بن یوسف (۷۲۶ ق)،رجال علامہ حلی، ‌دار الذخائر، نجف اشرف، ۱۴۱۱ ق، طبع دوم.
  • خویی، ابو القاسم، ۱۳۷۲، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواه، مرکز نشر الثقافہ الاسلامیہ، قم.
  • رضوی اردکانی، سید ابو فاضل، شخصیت و قیام زید بن علی، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع دوم،
  • زرکلی، خیر الدین، الاعلام: قاموس تراجم لاشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین،‌ دار العلم للملایین، بیروت.
  • شامی، فضیلت، ۱۳۶۷، تاریخ زیدیہ در قرن دوم و سوم ہجری، ترجمہ سید محمد ثقفی و علی اکبر مہدی‌ پور، انتشارات دانشگاه شیراز، شیراز.
  • شبلنجی، مٶمن بن حسن، نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار (ص)، الشریف الرضی، قم.
  • صابری، حسین، ۱۳۸۴، تاریخ فرق اسلامی، سمت، تہران.
  • صدوق، امالی، انتشارات کتابخانہ اسلامیہ، ۱۳۶۲ ش، ص‌۳۳۶.
  • صدوق، عیون أخبار الرضا علیہ السلام، انتشارات جہان، ۱۳۷۸ق.
  • طبری، محمد بن جریر، ۱۴۰۷ق، تاریخ الامم و الملوک،‌دار الکتب العلمیہ، بیروت.
  • عمرجی، احمد شوقی ابراهیم، الحیاه السیاسیہ و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاسلامی، مکتبہ مدبولی، قاہره.
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی (۱۱۱۰ق)، بحار الأنوار(ط- بیروت)،‌دار إحیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۳ ق، طبع دوم.
  • مشکور، محمد جواد، ۱۳۷۲، فرہنگ فرق اسلامی، با مقدمہ کاظم مدیر شانہ چی، آستان قدس رضوی، مشہد.
  • نوری، حاتم، ۱۳۸۴، زید بن علی و مشروعیہ الثوره عند اہل البیت، موسسہ دایره المعارف فقہ اسلامی، قم.
  • نوری، حسین بن محمد تقی (۱۳۲۰ ق)، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، مؤسسة آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۸ ق، طبع اول.
  • یاقوت حموی شہاب الدین ابو عبد الله (م ۶۲۶)، معجم البلدان، بیروت، ‌دار صادر، ط الثانیہ، ۱۹۹۵. طبع اول.
  • اصفہانی، ابو الفرج، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت، دار المعرفہ، بی‌­
  • مسکویہ، ابو علی، تجارب الامم، تحقیق ابو القاسم امامی، تہران، سروش، طبع دوم، 1379ش.
  • بلاذری، احمد بن یحیی؛ انساب الاشراف، تحقیق محمد باقرمحمودی، بیروت، دارالتعارف، چاپ اول، 1977.
  • فرمانیان، مہدی/ موسوی‌ نژاد، سید علی، تاریخ و عقاید زیدیہ، قم، ادیان، ۱۳۸۹ش.